Hazrat Baba Farid Ganj Shakar RA - Article No. 927

Hazrat Baba Farid Ganj Shakar RA

حضرت بابا فرید گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ - تحریر نمبر 927

تسخیر قلوب کے اس روحانی عمل میں جو صوفی شعرائے عظام سامنے آئے ان میں پہلا نام حضرت بابا فرید گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کا ہے۔ آپ ایک تاریخی حوالے کے مطابق 1175ء میں کھتوال میں پیدا ہوئے اور 1265ء میں دنیا سے پردہ فرمایا۔۔۔

جمعہ 7 اگست 2015

اعتبار ساجد:
برصغیر کی تاریخ اس لحاظ سے بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ گیارھویں صدی عیسوی سے اٹھارویں عیسوی تک دو متضاد قوتیں سرگرم عمل رہیں ۔ ایک جلال سلطنت دوسری جمال طریقت سلاطین نے شہر فتح کئے ۔ صوفیا ء نے دلوں کو تسخیر کیا ۔ تسخیر قلوب کے اس روحانی عمل میں جو صوفی شعرائے عظام سامنے آئے ان میں پہلا نام حضرت بابا فرید گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کا ہے ۔
آپ ایک تاریخی حوالے کے مطابق 1175ء میں کھتوال میں پیدا ہوئے اور 1265ء میں دنیا سے پردہ فرمایا ۔ والدین نے نام مسعود اور لقب فریدالدین منتخب کیا ۔ زہدہ پارسائی کے سانچے میں ڈھلی ہوئی محترم ماں نے آپ کی تربیت کی اور ایسی تربیت کہ آپ زہدہ تقویٰ کی راہ پر چل نکلے ۔ کم عمری ہی میں قرآن مجید حفظ کر لیا ۔

(جاری ہے)

عربی اور فارسی اس عہد کی معتبر اور مقبول زبانیں تھیں چنانچہ ان زبانوں پر دسترس حاصل کی ۔

مزید تعلیم کیلئے ملتان کا رخ کیا اور مسجد شہاب الدین سے علوم دین کے حصول کا آغاز کیا ۔ یہیں حضرت خواجہ بختیار کا کی رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات ہوئی اور یہی قرابت حضرت خواجہ بختیار کا کی رحمتہ اللہ علیہ سے آپ کی بیعت کا باعث بنی ۔ تاریخ میں آپ کے لقب گنج شکر کے حوالے سے مختلف روائتیں ملتی ہیں لیکن حقیقت سے قریب ترروایت حضرت علامہ مسعودی کی ہے جو کچھ یوں ہے کہ آپ کو مٹھاس مرغوب تھی ۔
والدہ ماجدہ ان کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے ان کی جائے نماز کے نیچے شکر کی پڑیا رکھ دیا کرتی تھیں ۔ بعدادائے نماز جب آپ جائے نماز لپیٹنے لگتے تو نیچے سے شکر کی پڑیا بر آمد ہوتی ۔ ایک روز اتفاقاََ والدہ ماجدہ آپ کی جائے نماز کے نیچے شکر کی پڑیا موجود تھی ۔ والدہ ماجدہ آپ کی جائے نماز کے نیچے شکر پڑیا نہ رکھ سکیں آپ نے حسب معمول وضو کیا ۔
نماز کے لئے کھڑے ہوئے جب نماز کے بعد جائے نماز لپیٹی تو اس کے نیچے حسب سابق شکرکی پڑیا موجود تھی ۔ والدہ ماجدہ کو جب یہ علم ہوا تو بے ساختہ آسمان کی طرف دیکھا اور آگے بڑھ کر فرزندا جمند کی بلائیں لیں۔آپ کے مرشد حضرت خواجہ بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ اکثر فرمایا کرتے تھے ” خدا تمہارے وجود کودنیا کے لئے شکر بنا دے گا ۔ پھر مرشد ہی نے آپ کا لقب گنج شکر رکھ دیا ۔
فاضل اور سعادت مندمرید نے حصول علم اور تبلیغ دین کے لئے غزنی ‘ بغداد ، سیوستان ‘ بدخشاں اور قندھار کا سفر کیا ۔ بغداد میں ان کی ملاقات شیخ شہاب الدین سہرودی سے ہوئی ۔ بخاراگئے تو شیخ سیف الدین باخزری اور غزنی میں امام خدادی سے ملاقات کی پھر ولی اپنے مرشد کے پاس لوٹ آئے جنہوں نے اپنے قریب ہی ایک حجرہ برائے قیام وعبادات عطا کردیا ۔
انہی دنوں حضرت خواجہ معین الدین چشتی بھی ولی میں آپ سے ملے اور عبادات میںآ پ کو خشوع وخضوع دیکھ کر بہت متاثر ہوئے ۔ کچھ عرصہ بعد آپ نے اپنے مرشد سے ہانسی جانے کی اجازت چاہی ۔ آپ کو یہ انعام ملا کہ اجازت کے ساتھ جانشینی کا شرف بھی حاصل ہوگیا ۔آپ ہانسی ہی میں تھے کہ مرشد نے وفات پائی ۔ خوب میں دیکھا کہ مرشد انہیں واپس بلارہے ہیں ۔ آپ ولی پہنچے اور مرشد کے مزار پر حاضر ہو کر زار وقطار روئے ۔
پھر مرشد کا خرقہ پہن کر جانشینی کا حق ادا کرنا شروع کیا پھراجودھن آگئے ۔ یہ وہی اجودھن ہے جس کا نام شہنشاہ جلال الدین اکبر نے پاکپتن رکھا ۔ بہت لوگ جانتے ہوں گے کہ موجود پاکپتن کا سابقہ نام اجودھن تھا ۔ تاریخ شاہد ہت کہ عہد کے سلطان نے اپنے عصر کے پیر کامل کے سامنے گھٹنے ٹیکے ۔ اس کی ایک مثال خود آپ کی ذات ہے جس سے شہنشاہ غیاث الدین بلبن کو اس قدر عقیدت تھی کہ اس نے اپنی صاحبزادی آپ کے عقد میں دے دی ۔
فطری طور پر آپ درویش منش تھے ۔ سادگی وتیرہ تھی اور شیریں بیانی وثیقہ تھی ۔ خدانے فن شعر گوئی کی نعمت سے بھی نوازرکھا تھا ۔ ہانسی کے قیام کے دوران اردو اشعار بھی کہے لیکن آپ کے زیادہ تر اشعار پنجابی ‘ سرائیکی اور فارسی میں ہیں ۔
آپ نے 5محرم 1265عیسوی میں علالت کے بعد دنیا سے پردہ فرما لیا ۔ اب ہر سال محرم کی پانچویں کو پاک پتن میں آپ کا عرس ہوتا ہے ۔
یہ روایت اور عقیدت کا یہ وفور صدیوں سے چلا آرہا ہے اور انشاء اللہ ہمیشہ جاری رہے گا ۔ آپ کے بے شمار اشعاردلوں پر ثبت ہیں ۔ صرف ایک شعر ترجمعے کے ساتھ پیش خدمت ہے تاکہ اندازہ ہوسکے کہ ذات وحیات وکائنات کے حوالے سے آپ کا نظریہ کیا تھا ۔ فرماتے ہیں ۔
فرید ‘ خاک نہ نیندیے ‘ خاکو جیڈ نہ کوئے
جیوندیاں پیراں تلے مویاں اُپرہوئے
ترجمعہ یہ ہے :
اے فرید مٹی کو حقیرنہ جان کہ اس جیسی کوئی چیز نہیں کیونکہ یہ زندگی بھر پاؤں کے نیچے رہتی ہے موت کے بعد اوپر آجاتی ہے ۔

زندگی کی حقیقت کو سمجھنا ہوتو صوفی شعرائے کرام سے بڑھ کر کسی اور شاعر کا کلام وہ تاثر پیدا نہیں کر سکتا جو راہ تصوف کے ان عظیم مسافروں کو شیوہ ہے چونکہ ان کا پیغام امن عامہ ہے صلح ‘ محبت اور یگانگت ہے اس لئے برصغیر میں مذاہب کی تفریق کے باوجود ہر قوم میں ان کا احترام موجود ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ ان کے پیغام کی آفاتی حیثیت ہے ۔ اگر یہ پیغام اور کلام آفاتی نہ ہوتو اتنی صدیوں کا سفر طے کر کے من وعن ہم تک نہ پہنچتا۔

Browse More Urdu Literature Articles