Hijaab - Article No. 2487

Hijaab

حجاب - تحریر نمبر 2487

سحر ستون کے ساتھ سرٹکائے بیٹھی تھی کہ بےبسی سے اس نے آنکھیں موند لیں۔ہر طرف گھوپ اندھیرا تھا،آسمان سیاہ چادر کی مانند لگ رہا تھا جس پہ روشن ستارے نفیس موتیوں کی طرح پھیلے ہوئے تھے

مقدس حبیبہ جمعرات 28 جنوری 2021

سحر ستون کے ساتھ سرٹکائے بیٹھی تھی کہ بےبسی سے اس نے آنکھیں موند لیں۔ہر طرف گھوپ اندھیرا تھا،آسمان سیاہ چادر کی مانند لگ رہا تھا جس پہ روشن ستارے نفیس موتیوں کی طرح پھیلے ہوئے تھے۔پہاڑ ،آبشاریں ،نیے پیلے ہرطرح کے پھولوں کی خوشبو فضا میں پھیلی ہو‏ئی تھی۔وہ ننگےپا‏ؤں گھاس پرچلتی جارہی تھی۔چاند کی روشنی زمین کوقوت دے رہی تھی۔
پھولوں پر شبنم کے قطرے گر ہوۓ تھے۔ہرطرف سکون ہی سکون تھا۔ ناجانے وہ کہاں تھی؟سحر! خنساء اسے مسلسل پکار رہی تھی لیکن وہ اپنی دنیا میں کھب جایا کرتی تھی۔حقیقت اس کے خیالات سے قدرے مختلف تھی۔ سحر! اب کی بار خنساء نے اسے کندھے سے جھنجھوڑا، اسے کرنٹ سا لگا ایک جھمکے سے سارا منظر بدل گیا۔گرمی اس قدر کے گٹھن کے مارے جان نکل رہی تھی۔

(جاری ہے)

دھوپ کی تپشی اتنی تیز تھی کہ اسے اندیشہ تھا کے وہ مکئ کے دانوں کی طرح بن جاۓ گئ۔

پھرکیا خیال ہے تمہارا ؟ خنساء نے لاپروائی سے کہا۔سحر جوس پیتے پیتے روکی، کس بارے میں؟وہ بےزاری سے بولی۔ اہو۔۔۔۔ تم سے کل بات کی تو تھی ماڈلنگ بارے میں، دیکھو سحر حسن کی دیوی ہو،میں کون سا تم سے مفت کام کروا رہی ہوں ۔میرا فشن شو چل پڑے گا اور تم ان پیسوں سے اپنی ‎ضروریات پوری کرلینا۔سحر نے ایک گہری سانس لی تمہیں معلوم تو ہے میں حجاب کرتی ہوں۔
اماں نہیں مانیں گئ‏۔یہ سننا ہی تھا کہ خنساء نے اسے گن گن کر محرومیوں کا احساس دلایا اور سبزباغ دیکھناشروع کردیے۔طمع نے سحر کی آنکھوں میں پیٹی باندھ دی۔ایک دن کی مخلت اس نے اماں کو راضی کرنے کے لیے مانگ لی۔رات دیرتک وہ خنساء کی باتوں پرغورکرتی رہی،ہمت اکٹھی کرتے ہوۓ وہ اماں کے کمرے میں داخل ہوئی بڑی جسارت سے اس نے ماڈل بننے کی خواہش کا ا‎‌ظہار کیا۔
یہ سنتے ہی اماں سر پکڑ کر بیٹھ گئ اور اسے سمجھانے لگیں" شرم وحیا عورت کا زیور ہے "سحر، میں تمہارا ساتھ ہرگز نہیں دوں گئ۔میں نے ساری زندگی اس چاد دیواری میں رہ کرزندگی بسر کردی ۔ہرخواہش پوری کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ اماں کی آنکھو‎ں سے آنسو جاری ہوگۓ۔اسے اس وقت اماں کے آنسوں اذیت دے رہے تھے۔سحر ان کی ایک لوتی اولاد تھی اور واحد سہارا بھی۔
سحر نے ناچاہتے ہوۓ‎ بھی اماں کی بات مان لی۔ناجانے رات کے کس پہر اس کی آنکھ لگ گئی۔صبح ناشتہ کیے اپنے کاموں میں مشغل ہوگئی اماں کے کہنے پراس نے خنساء کو انکارکردیا تھا،اس کے چہرے پرپریشانی دیکھ کراس کی اماں کا دل بھرآیا۔شفقت سے انہوں سحر کے سرپرہاتھ رکھا،سحریہ حجاب تمہیں چار چاند لگا دیتا ہے۔سحر نے ناگواری سے منہ پھیرلیا کہ فون کی گھنٹی بجی خنساء کی روتی ہوئی آواز سن کی سحر گھبرائی ۔
کچھ تو بولو خنساء۔۔۔۔۔۔ سحرآج فشن شو تھا لیکن آگ لگ گئی ۔ ناصرف جانی بلکہ مالی نقصان بھی ہوا ۔یہ سنتے ہی اس نےفورا فون بند کردیا۔کتنی ہی دیروہ فون کی اسکرین کو سوچتی ہوئی نگاہوں سے دیکھتی رہی۔ اماں ٹھیک ہی کہتی ہیں میں چند پیسوں کے عوزخود کی نما‏ئش کرنے چلی تھی۔ اپنے حجاب سے جو میرا لیے عزت کا باعث ہے اسی سے کنارہ کشی کرنے لگی تھی۔اماں کو سامنے آتا دیکھ کروہ خوشی سے جالپیٹی ۔

Browse More Urdu Literature Articles