Jaun Elia - Article No. 1063

Jaun Elia

جون ایلیا۔۔۔ - تحریر نمبر 1063

نادرِ روزگار تھے ہم تو: (حصہ دوم)

ہفتہ 28 مئی 2016

یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا؟
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا؟
بھری پری دنیا میں ایک ہی شخص دنیا کیسے بن جاتا ہے، یہ عشق کرنے والے جانتے ہیں۔ مگر ایسا اظہار اردو شاعری میں کتنی بار ہوسکا ہوگا؟ یہ قدرتِ کلام کا لازوال نمونہ ہے، جس کے لیے بھاری بھرکم الفاظ کی نہیں بلکہ عام الفاظ کو ایسے باکمال انداز سے برتنے کی ضرورت ہوتی ہے جو ایک خاص صلاحیت کے بغیر ممکن نہیں۔

گرم جوشی اور اس قدر، کیا بات
کیا تمہیں مجھ سے کچھ شکایت ہے؟
کیا بات ہے۔ کیسی نازک behavioral complexity کو کیسے شعر میں ڈھالا ہے جون صاحب نے۔ یا یہ شعر دیکھئے۔
مل رہی ہو بڑے تپاک کے ساتھ
مجھ کو یکسر بھلا چکی ہو کیا؟
یہ اردو شاعری میں بالکل مختلف مزاج کے اشعار ہیں۔ یہ ان کیفیات کے اشعار ہیں جن سے انسان گزرتا تو تھا، مگر کوئی ایسا شاعر جون ایلیا سے پہلے نہ تھا جو ان کیفیات کو شاعری کے قالب میں ڈھال سکتا۔

(جاری ہے)


کیا کہا؟ عشق جاودانی ہے
آخری بار مل رہی ہو کیا؟
کیا جواب ہو اس شعر کا؟ کیا داد دی جائے۔ ایک سوال اور اس کے جواب میں ایک اور سوال… اور کیفیت ایسی کہ بس قیامت۔
عشق کو درمیاں نہ لاوٴ، کہ میں
چیختا ہوں بدن کی عسرت میں
اب میرے مخاطب وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ جون بیمار ذہن کا شاعر ہے، رانوں، پستانوں اور ناف پیالوں پر شعر کہتا ہے۔
میں ان سے کہتا ہوں کہ بیمار جون نہیں آپ ہیں۔ آپ کو انسان کی نفسانی خواہشوں اور فطری جذبات سے خوف آتا ہے اس لیے آپ جھوٹ بولتے ہیں۔ جون اس پہلو کو انسانی وجود کی ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرتا ہے اس لیے اس کے بیان اور اس سے متعلق کیفیات کے اظہار میں جھجکتا نہیں۔ یہ کہنے کا حوصلہ کسی معمولی انسان میں ہو ہی نہیں سکتا کہ عشق کو درمیاں نہ لاوٴ… یہاں تو خالصتاً جسمانی تعلق کو عشق تصور کرکے کتابوں کی کتابیں لکھ دی جاتی ہیں۔
اور یہ شخص ہے کہ کہتا ہے ،چیختا ہوں بدن کی عسرت میں؟ یہ اردو شاعری میں ایک بالکل تازہ لہجہ اور طرز احساس و اظہار ہے۔
میں اُسی طرح تو بہلتا ہوں
اور سب جس طرح بہلتے ہیں
بظاہر سادہ نظر آنے والا یہ شعر ایک ایسے انسان کی نفسیاتی کیفیت کی بھرپور ترجمانی ہے جسے اس کے مختلف رویّوں اور زندگی کے حوالے سے مختلف نظریات کی بنا پر Alien سمجھا جائے، جس سے دوری اختیار کرلی جائے۔
جب کہ وہ بیچارہ اندر اندر گھٹتا ہو اور چیختا ہو کہ میں اُسی طرح تو بہلتا ہوں… ہائے ہائے… کیا ظلم ہے۔
وہ خلا ہے کہ سوچتا ہوں میں
اُس سے کیا گفتگو ہو خلوت میں؟
وہ خلا ہے… اور اس کا اثر خلوت پر … خلا… خلوت… کچھ سمجھے صاحبان؟ یہ شاعری کی کتابیں نہیں شاعروں کے لیے Instruction Manualsہیں اگر کوئی سیکھنا چاہے۔
اب فقط عادتوں کی ورزش ہے
روح شامل نہیں شکایت میں
یہ کچھ آسان تو نہیں ہے کہ ہم
روٹھتے اب بھی ہیں مروّت میں
آج ہم اپنے آپ سے سچ بولیں تو ہم میں سے کتنے ہی لوگ ہوں گے جو فقط عادتوں کی ورزش میں زندگی گزار رہے ہیں۔
مصلحتوں کو مجبوریوں کا نام دیئے جا رہے ہیں۔ کسی نامعلوم کے خوف سے معلوم کو جھیل رہے ہیں۔ یہ انوکھی بات نہیں۔ انسانی زندگی کا حصہ ہے۔ اکثریت کا احوال ہے۔ مگر اسی احوال کو زبان نہ ملتی تھی۔ یہ جون ایلیا ہی کا کمال ہے کہ اس سادگی سے سب کچھ کہہ گئے کہ
دکھ اُٹھاتا ہوں میں رفاقت کے
تم نہیں ہو مری طبیعت کے
اب ذرا روح کے شکایت میں شامل نہ ہونے اور مروّت میں روٹھنے کی کربناکی کو محسوس کیجیے، آپ کو جون ایلیا پر بے اختیار پیار آئے گا۔

تو کیا اب نیند بھی آنے لگی ہے؟
تو بستر کیوں بچھایا جا رہا ہے؟
یہ شعر قدرت ِ اظہار کا ایک نادر نمونہ ہے۔ تو کیا اب نیند بھی آنے لگی ہے؟ اس سوال کے پیچھے ایک پوری داستان ہے جس کے نتیجے میں پوچھنے والے کو حیرت ہو رہی ہے کہ تو کیا اب نیند بھی آنے لگی ہے؟ پھر دو مصرعوں کے درمیان کہیں ”نہیں“لکھا ہوا ہے جو لفظوں میں ظاہر نہیں ہوا، مگر پوچھنے والے کے دوسرے سوال میں موجود ہے۔
۔۔تو بستر کیوں بچھایا جا رہا ہے؟ یہ غیر معمولی شاعری ہے جناب۔
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے؟
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
کس گھر کی بات ہو رہی ہے؟ جی ہاں، اس گھر کی بھی جو باہر آباد ہے اور جس کو سنبھالنا ایک اپنے اندر رہنے والے شخص کے لیے کار ِ دارد ہے۔ اور اس گھر کی بھی جو اندر آباد ہے۔ جسے دل کہتے ہیں۔ جس پر قیامتیں گزری ہیں، اور آج بھی کوئی دن جاتا ہوگا جب اس دل میں کسی یاد کی آندھی ہلچل نہ مچائے اور کچھ ایسا ٹوٹ نہ جائے جو اب تک سلامت تھا۔
اندر کی دنیا جون کی دنیا ہے۔ اور اس دنیا کا جیسا احوال جون نے لکھا وہ جون ہی کا حصہ ہے۔
یادیں ہیں یا بلوہ ہے؟
چلتے ہیں چاقو مجھ میں
یہ شعر کسی بھی حساس انسان کو رلا سکتا ہے، تڑپا سکتا ہے۔ اور ہر ہر بار جب یہ شعر پڑھا جائے تب تب ایسا ہی ہوسکتا ہے کہ ان اشعار کی تاثیر
دہرانے سے گھٹتی نہیں، بڑھتی ہے۔
تم میری اک خود مستی ہو، میں ہوں تمہاری خود بینی
قصے میں اس عشق کے ہم تم، دونوں بے بنیاد ہوئے
یہاں جون صاحب ہی کی ایک تین مصرعوں پر مبنی نظم یاد آگئی
وہ میرا خیال تھی، سو وہ تھی
میں اُس کا خیال تھا، سو میں تھا
اب دونوں خیال مرچکے ہیں
جب دونوں خیال مر گئے تو کیا رہ گیا؟ حقیقت کی سفاک چیرہ دستی۔
میرا جنون تمہیں اپنانا چاہتا تھا۔ تمہاری کوئی کمی مجھ میں اپنا آپ تلاش کر رہی تھی… تم میری اک خود مستی ہو، میں ہوں تمہاری خود بینی… نتیجہ؟ قصے میں اس عشق کے ہم تم، دونوں بے بنیاد ہوئے! اللہ اکبر۔

Browse More Urdu Literature Articles