Jehd E Musalsal - Qist 1 - Article No. 2414

Jehd E Musalsal - Qist 1

"جہد مسلسل" ۔ قسط نمبر1 - تحریر نمبر 2414

جنگ ستمبر 1965 ختم ھوتے ھی حصول تعلیم کے لئے جدوجہد جاری ھو گئی. اب تو میٹرک کے کلاس فیلوز عبدالغفور اور ریاض بھائی نے بھی کامرس میں داخلہ کا عندیہ دیا

Arif Chishti عارف چشتی پیر 17 اگست 2020

جنگ ستمبر 1965 ختم ھوتے ھی حصول تعلیم کے لئے جدوجہد جاری ھو گئی. اب تو میٹرک کے کلاس فیلوز عبدالغفور اور ریاض بھائی نے بھی کامرس میں داخلہ کا عندیہ دیا. ھیلی کالج آف کامرس میں انٹرویوز کی فہرستیں لگ چکی تھیں. ھمارے انٹرمیڈیٹ کے گروپ کے تمام دوستوں کا میرٹ پر داخلہ ھو گیا تھا. اب کالج کا فاصلہ بہت زیادہ تھا. کہاں صدر بازار کہاں جین مندر اولڈ کیمپس.
اب عموماً روٹ دھرمپورہ سے سندرداس روڈ، مال روڈ، جی پی او، نابھہ روڈ اور پرانی انار کلی سے ھوتے ھوئے جین مندر.
فضل الرحمن اور انور نے تعلیم کے حصول میں کوئی جدوجہد نہ کی، بس گلی محلے کی دلچسپیوں اور فلم بینی سے آگے بات نہ بڑھتی تھی. جنگ ستمبر 1965 کے دوران جو لائیبریری کھولی تھی وہ بند کردی تھی. فضل اور میں نے مل کر آنٹی کی بڑی لڑکی کا کوڈ نام جولی رکھ دیا تھا اور فضل جسکے گھن گاتا تھا اسکا نام جونی رکھ دیا تھا.
تاکہ غیبت کرنے والوں سے بچا جا سکے.تمام علاقے کے لوگ جو دوران جنگ دوسرے علاقوں میں منتقل ھو چکے تھے وہ واپس لوٹ آئے تھے اور معاملات زندگی پھر سے روان دواں تھا.
ابھی تک جولی اور جونی کا کچھ کچھ ھوتا والا سلسہ یکطرفہ تھا. لیکن انکا کھڑکیوں میں آکر باھر جھانکنا دل کو ٹھنڈک دیتا تھا. بس اس وقت اتنا ھی کافی تھا.جنگ بندی کے بعد پاکستان میں انڈین فلموں کی نمائش پر مکمل پابندی لگ گئی تھی.
پاکستانی اور انگریزی فملیں زیادہ ریلیز ھونا شروع ھو گئی تھیں اور پھر نت نئے سینیما ھاؤسز تعمیر ھو رھے تھے. میکلوڈ روڈ، ایجرٹن روڈ اور مغلپورہ شالیمار روڈ پر بھی تین چار سینماز تعمیر ھو رھے تھے. چھٹی کے دن عموماً اب مغلپورہ کے سینماز کی طرف رخ ھوتا تھا، کیونکہ وھاں اچھی اور نئی اردو و پنجابی فلموں کی نمائش ھوتی تھی. بعض اوقات رش کی وجہ سے ٹکٹس نہ ملتے تھے.
والد صاحب تو دو سال کے لئے ملتان گئے ھوئے تھے اور چچا صاحب رات آٹھ دس بجے سے پہلے نہ آتے تھے، اسلئے دباؤ نہ ھونے کے برابر تھا. گھر کا کوئی فرد اگر سوال کر بیٹھتا تو کئی بہانوں سے انہیں مطمئن کر دیتا تھا.
اب پڑھائی انتہائی مشکل ھو چکی تھی کیونکہ تمام مضامین انگلش میں تھے اور اپنی جان انگلش سے بھاگتی تھی. رٹا لگانے کے علاوہ کوئی حل نہ تھا.
بی کام پارٹ ون میں انگلش عتیق الرحمن صاحب، اکاونٹنگ غنی صاحب، سٹیٹسکس زیدی صاحب، بنکنگ رشید صاحب پڑھاتے تھے اور ٹائپنگ فیلبوس صاحب سیکھاتے تھے. انکا اپنا ھی انداز ھوتا تھا، ایک تو پانچ منٹ لیٹ ھونے پر کلاس میں نہیں آنے دیتے تھے دوسرے جو سٹوڈینٹ کلاس میں داخل ھونے پر گڈمارننگ نہ کہتا تھا اسکا داخلہ بھی ممنوع ھوتا تھا. ھم دوست دلگی کے لئے کبھی کبھی چھ منٹ لیٹ داخل ھوتے تو روک دیا جاتا تھا.
ھم سوری کہہ دیتے تو اجازت مل جاتی تھی. انکے اصولوں کی داد دئے بغیر تعلیمی ادوار مکمل نہیں ھوتا. میں ٹائپنگ میں بہت کامیاب رھا کیوں کہ ھفتہ میں ایک روز چچا صاحب کے دفتر نابھہ چلا جاتا تھا اور دو تین گھنٹے پریکٹس کر لیتا تھا. اکاونٹنگ اور سٹیٹسکس میں بھی مجھے رتی بھر دقت نہ تھی بس انگلش اور اکانومکس میں رٹا لگانے میں بہت دقت محسوس ھوتی تھی یوں سمجھیں جان جاتی تھی.
عتیق الرحمن صاحب انتہائی سخت طبیعت کے لیکچرار تھے. انکے پیریڈ میں پن ڈراپ خاموشی ھوتی تھی. جو کچھ پڑھاتے تھے، اگلے دن کسی سے نام لیکر سوال و جواب کا سلسہ جاری ھو جاتا تھا. پندرہ منٹ اسی سوال و جواب میں صرف ھو جاتے. ھر کوئی خوفزدہ ھو جاتا تھا کہ انکا نام نہ پکار لیا جائے. جواب نہ دینے کی صورت میں، پندرہ منٹ کے لئے کلاس روم سے آؤٹ کر دیا جاتا تھا یا کلاس میں ھی کھڑا کر دیا جاتا تھا.
میں اور مجاھد مرزا انکے داھنی رخ دو خواتین سٹوڈنٹس کے پیچھے سر جھکا کر بیٹھ جاتے تھے. ان میں سے ایک صاحب حیثیت خاندان سے تعلق رکھتی تھی تعلیم میں کوری تھی لیکن گردن میں سریا تھا. اس کے جسم پر جو بھی کپڑے پہنے ھوتے تھے وہ چھ ماہ بعد ھی دوبارہ پہنے نظر آتے تھے. اسکا ریکارڈ بھی کھلنڈرے سٹوڈینٹس خوب لگاتے تھے. دوسری ھماری طرح عام فیملی سے تعلق رکھتی تھی اور جب بھی کبھی مسئلہ پوچھنا ھوتا پوچھ لیتی تھی، کیونکہ ھم انکے پیچھے بیٹھتے تھے.
میں اور مجاھد مرزا ھر کلاس میں اکٹھے ھی بیٹھتے تھے، اور پیریڈ کے بعد کلاس روم بدلنا پڑتا تھا. ریاض، عبدالغفور، عزیز، اعظم چوھان، شوکت، نصیر، اصغر، عارف شہزاد، محمود، گلزار قریشی، سعید اور رشید بٹر بہترین دوست تھے اور کسی نہ کسی مضمون پر دسترس رکھتے تھے. ھم میں ایک دو بس نہلے تھے، لیکن بڑے دل والے اور لطائف سنانے کے ماسٹرز تھے. بس دوست تھے کھرے اور سچے.
اب سائیکل کٹھارا ھو چکی تھی اس لئے اس کی وجہ سے آمدورفت میں کافی پریشانی ھو رھی تھی.
بعض اوقات میلوں پیدل چلنا پڑھتا تھا. تعلیم کی ذمہ داری چچا صاحب کے ذمہ تھی، اسلئے ایک دن چچا صاحب کے ساتھ نیلا گنبد جا کر ایگل سائیکل خریدی، کیریئر، ڈائنمو لائٹ اور ھینڈ آپریٹڈ گھنٹی کی فٹنگ کروائی. کل سوا چار سو روپے کا خرچہ آیا تھا. بس اب لاٹ صاحب بن گیا تھا.نصاب کی کتابیں بہت مہنگی تھیں، اس لئے کالج کی لائبریری میں رجسٹریشن کروا کر تین دن کے لئے ضرورت کی کتاب مل جاتی تھی.
لائبریریئن غنی صاحب دونوں ٹانگوں سے معذور تھے، لیکن اصولوں کے اتنے سخت کہ مفاد کی خاطر انکی چاپلوسی کرنا پڑتی تھی ورنہ اپنی تعلیم پر لات مارنے والا حساب تھا. بعض اوقات کئی دنوں تک انتظار کرنا پڑتا تھا. پھر کتاب ملتی تھی. چچا صاحب کے آفس سے رف پیڈ لیکر اس پر دن رات ایک کرکے ضروری اسباق تحریر کر لیتا تھا. مجاھد مرزا کا بڑا بھائی بی کام کرچکا تھا، اسلئے اسکو اور ریاض بھائی کا بڑا بھائی بی کام ٹو میں تھا، اسلئے انکو کتابوں کا مسئلہ کم تھا.
گلزار قریشی گڑھی شاھو رھتا تھا اور انتہائی منکسرالمزاج کلاس فیلو تھا، اسکا کا بڑا بھائی لندن رھتا تھا، اسکے پاس بھی کتابیں ھوتی تھیں اس لئے وہ کافی معاونت کرتا تھا. ھفتہ میں دو تین دن وہ میری ھی سائیکل پر بیٹھ کر واپس گھر جاتا تھا. اگر کالج سے کوئی خاص اسائنمنٹ ملتی تو مجاھد مرزا کے گھر جا کر ایک دوسرے کی مشاورت سے حل کرتے تھے. پرویز ھوسٹل میں رھتا تھا اور کالج کی دیگر سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتا تھا، اس کو تعلیمی معاونت ھوسٹل کے دیگر ساتھیوں سے مل جاتی تھی.
کالج کی یونیفارم تقریباً وہ ھی تھی. صرف سردیوں میں بلیو بلیزر(کوٹ)، کالج بیج اور بلیو ٹائ کا فرق تھا. سردیوں میں لنڈے سے لیا ھوا کیمل وول کا اوورکوٹ اور دو عدد دستانے پہننا پڑتے تھے. کالج میں کوئلے کی انگھیٹیاں تپا کر رکھی ھوتی تھیں. ھاتھ سن ھو جاتے تھے اور خون کی گردش رک جاتی تھی. تو جو طلبہ ھاتھ سیک لیتے تھے وہ آنے والوں کے دستانے اتارنے میں مدد دیتے تھے.
پھر سیکائ کے بعد دوران خون ھوتا تھا. سٹیٹسکس کے لیکچرار یار بادشاہ تھے پڑھاتے کم تھے گپ شپ میں بہت رنگیں مزاج تھے. کورس وہ ھی تھا جو ھم پہلے ھی انٹرمیڈیٹ میں پڑھ کر آئے تھے. اکاؤنٹس کی کتابیں جو روپ رام گپتا اور باٹلے بائ کی تحریر شدہ تھیں صلاح الدین نے کسی دوست سے لیکر دیں تھیں جو کہ ایم کام تک مددگار ثابت ھوئیں تھیں. اسکے علاوہ اس نے کئی پینٹس، کوٹ اور عمدہ جرسیاں بھی دی تھیں.
اب ٹیپ ٹاپ میں بھی کافی توجہ مرکوز کرنا پڑھتی تھی ایک اعلیٰ تعلیم کی خاطر پھر کچھ کچھ ھوتا کے چکر میں جولی کو باور کروانے کے لئے کہ میں بھی کسی سے کم نہیں.
جگت آنٹی بھی دور کھڑکی سے ھاتھ ھلا کر ٹا ٹا کا سگنل دے دیا کرتی تھیں. لیکن پردہ پوشی ھی واحد حل تھا، جسکا میرے لنگوٹی دوستوں تک کو علم نہ ھو سکا تھا. فیس معافی کی درخواست دے رکھی اسلئے آدھی فیس بھی معاف ھو گئی تھی اور مالی بوجھ میں کمی آئ تھی.انہی دنوں اسلام آباد سے آئے ھوئے کزن نے ذکر چھیڑ دیا کہ تمھاری شادی تمھارے چچا کی بڑی بیٹی سے ھوگی کیونکہ جب وہ پیدا ھوئ تھی تو گھر کے بڑوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ زندگی رھی تو ان کی آپس میں ھی شادی کردی جائے گی.
میں مذاق میں ٹال گیا کہ سوال ھی پیدا نہیں ہوتا، ھم تو اکٹھے رھتے ھیں کسی بڑے تو کبھی ذکر تک نہیں کیا. البتہ دادی اماں اور چچا صاحب کی مجھ میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی اور محبت ضرور اشارہ دے رھی تھی، کہ در پردہ کوئی بات ضرور ھوئ ھوگی. میں نے اس پر زیادہ توجہ نہ دی کیونکہ میں اسے کزن ھی سمجھتا تھا اور شادی کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا. جولی سے دلچسپی کے قصے اب ڈھکے چھپے نہ تھے.
لیکن جولی کی والدہ آنٹی کی دلچسپی بڑھ رھی تھی. ایک دو دفعہ انہوں نے اشارہ بھی دیا کہ اس نے خود محبت کی شادی کی تھی، اگر جولی رضامند ھوگی تو فکر نہ کرو وہ میرا ساتھ دیں گی.
میں شرارتی تو بہت تھا، دیگر دوست اکسا دیتے تھے اور میں بغیر سوچے سمجھے شرارت کر دیتا تھا. ھم ساری کلاس کا ایکا یعنی تعاون قابل رشک تھا کسی بھی شرارت کا راز نہ کھلتا تھا، خواہ سارا دن کلاس میں کھڑا کر دیا جاتا تھا.
ایک روز ابھی انگلش کا پیرئڈ شروع ھونے میں دس منٹ باقی تھے، دو تین دوستوں نے مل کر شرارت کا پروگرام بنایا کہ باھر کوریڈور میں ٹوٹی ھوئی رکھی کرسیوں میں سے ایک کرسی جسکی ایک ٹانگ ٹوٹی ھو، ٹوٹی ٹانگ کا سہارا دیکر، نک چڑی خاتون سٹوڈنٹ کی کرسی سے تبدیل کر دیا جائے اور جب وہ بیٹھے تو الٹ کر میری طرف گرے اور اس کا خوب تمسخر اڑایا جائے. سب نے مل کر مجھے راضی کر لیا.
میں بہت ڈر رھا کہ یہ مجھے کالج سے نکلوا کر ھی چھوڑیں گے. قصہ کوتاہ ٹوٹی کرسی کو ٹوٹی ٹانگ کا سہارا دے کر رکھ دیا گیا. عموماً خواتین پیرئڈ شروع ھونے کے دس منٹ بعد کلاس میں آتی تھیں. پیرئڈ شروع ھوا اور دونوں خواتین آکر بیٹھ گئیں. کرسی ٹوٹی ٹانگ کے سہارے پر کھڑی رھی. جیسے ھی عتیق الرحمن صاحب بورڈ پر کچھ لکھتے کلاس کے دیگر دوست اشارہ کرکے سوالیہ اشارہ کرتے کہ کچھ ھوا نہیں.
میں اور مجاھد مرزا خوفزدہ تھے کہ بانڈا پھوٹ گیا تو کالج سے سمجھو چھٹی ھو جائے گی. یکدم عتیق الرحمن صاحب نے ھم چاروں کی طرف انگلی سے اشارا کیا کہ انہوں نے جو بورڈ پر لکھا ھے بآواز بلند پڑھ کر سنائیں. میں کھڑا ھوا تو بولے 'یو سٹ ڈاونَ' ، اور نک چڑی خاتون سٹوڈینٹ سے کہا 'یو سٹیند اپ اینڈ ریڈ' وہ کھڑی ھوئی اور پڑھ کر کرسی پر بیٹھی ھی تھی، کہ دھڑام سے میری ٹانگوں پر آ گری اور بے ساختہ دھمکیاں دینے لگ گئی تھی.
بہت ھی بلند قہقہے بلند ھوئے کہ عتیق الرحمن صاحب غضبناک ھو گئے. باون طلبہ کی پوری کلاس کو کھڑا کر دیا گیا. سب کے منہہ زمین کی طرف تھے. عتیق الرحمن صاحب فرداً فرداً سب سے پوچھتے کہ بتاؤ کس نے یہ حرکت کی تھی. کسی نے ایک لب تک نہ ھلایا اور سارا پیریڈ کھڑے ھو کر گزار دیا. اب نک چڑی کی گردن کا سریا کچھ نرم پڑھنا شروع ھو گیا تھا.
اسی سال چچا صاحب کے ھاں نرینہ اولاد کی آمد ھوئی جسکا انہوں نے بہت تزک و اھتمام سے جشن منایا.
پہلے عقیقہ ھوا تھا، پھر بہت بڑی دعوت کا اھتمام کیا گیا تھا، جس میں بارہ سو عزیزو اقارب اور دوست احباب کو مدعو کیا گیا تھا. رات کو پولیس اسٹیشن سے اجازت لیکر مشہور زمانہ قوال نصرت فتح علی خان کی قوالی کا گھاس منڈی میں انعقاد کیا گیا تھا اور ھزاروں کی تعداد میں سننے والے محظوظ ھوئے تھے. عزیز و اقارب اور غرباء میں کپڑے بھی تقسیم کئے گئے تھے.
میرے خیال میں یہ ھمارے خاندان کی پہلی اور آخری بڑی تقریب ھوگی.اسی دوران جو لڑکی والدہ صاحبہ سے قرآن شریف پڑھنے آتی تھیں ایک گل کھلا کر پریشان کر دیا تھا. فضل الرحمان کے گھر بھی اسکا آنا جانا تھا اور اسکی بہنوں سے بھی دوستی تھی. پرویز سٹوڈیو سے میری اور فضل الرحمان کی اکٹھی تصویر چرا لی اور بے وقوف نے سکول میں جا کر مجھ سے کچھ کچھ ھونے کے دعوے کرنا شروع کر دیئے.
جولی کو چڑانے کے لئے وہ تصویر دکھا دی. سنا تھا کہ دونوں میں سکول میں جھگڑا بھی ھوا تھا. سکول کی ھیڈ مسٹرس تک بات پہنچی تو اگلے روز اسمبلی میں اسکی پٹائی ھوئی اور اسے سکول نے نکال دیا گیا. والدہ صاحبہ نے بھی اسے قرآن مجید پڑھانے سے انکار کر دیا تھا. سب مجھ سے اور فضل الرحمان سے پوچھتے تھے کہ تم لوگوں نے اسکو تصویر کیوں دی تھی. ھمارے فرشتوں کو بھی علم نہ تھا کہ کونسی اور کیسی تصویر اور کس طرح وہ تصویر اسکے پاس پہنچی تھی.
میں نے اسکے والد کو سمجھایا کہ تصویر والا معاملہ حل کروائیں، کیونکہ ھماری بدنامی ھو رھی تھی. آخر اس نے خود ھی راز اگل دیا تھا اور تمام ھمارے خلاف پروپیگنڈہ ختم ھو گیا تھا. مجھے کہتی رھی کہ میں بہت چاھتی ھوں اور تم دغا دے رھے ھو. مجھ میں رتی بھر اس کی چاھت نہ تھی اسکی چاھت کا میرے پاس کوئی علاج نہ تھا، کیونکہ وہ یکطرفہ تھی اور رھی. **بقیہ اگلی قسط زیر تحریر ھے�

(جاری ہے)

Browse More Urdu Literature Articles