Khasta Palang - Article No. 2200

Khasta Palang

"خستہ پلنگ" - تحریر نمبر 2200

وہ دھیرے سے چلتا اس چوبارے میں داخل ہوا جہاں پرانا کاٹھ کباڑ ڈال دیا جاتا تھا۔بوسیدہ ٹوٹے پھوٹے سیمنٹ کے ٹکڑوں سے اپنا وجود چھپاتے ہوئے لینٹر کی ننگی چھت تلے،دیوار کے ساتھ لگے لکڑی کے پلنگ کو وہ ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا

تثمیر بخت منگل 26 نومبر 2019

وہ دھیرے سے چلتا اس چوبارے میں داخل ہوا جہاں پرانا کاٹھ کباڑ ڈال دیا جاتا تھا۔بوسیدہ ٹوٹے پھوٹے سیمنٹ کے ٹکڑوں سے اپنا وجود چھپاتے ہوئے لینٹر کی ننگی چھت تلے،دیوار کے ساتھ لگے لکڑی کے پلنگ کو وہ ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا اور پھر دھیرے سے اپنا ہاتھ اس کی پائنتی پہ دھر دیا۔
اس کے نانا کا پلنگ۔۔
اس کےدائیں ہاتھ میں گردش ہوئی اور وہ نہایت مخملیں انداز میں ہاتھ پھیر کر کئی لمحے اس کا لمس خود میں جذب کرتا رہا۔
دھیرے سے چلتا وہ وہاں سے نکل آیا اور چھت کے پردے پہ دونوں بازو دھر کر ٹھوڑی ان پر ٹکا لی۔
نیچے سڑک پر دائیں جانب نگاہ پڑی تو ماضی و حال کے دریچوں سے آتی صدائیں آپس میں گڈمڈانے لگیں،چشم تصور نے یادوں کے سنہری پنے پنکھ پنکھ کھول دیے۔

(جاری ہے)

۔۔
منظر بدل گیا
اس کا بچپن اور لڑکپن اس کے ننہال میں گزرا تھا۔اس کے نانا کاغذ کے ٹکڑوں کو موڑ کر کشتی کی صورت دیتے،وہ اور اس کی بہن پاس کھڑے حیرانی اور خوشی کے ملے جلے جذبات سے لبریز مسکراتے نانا کے ہاتھ سے اچکتے اور گرجتے برستے بادلوں کی کاوش سے سڑک پر کھڑے پانی میں چھوڑ دیتے۔

تیرتی ہوئی ان کاغذ کی کشتیوں کے ساتھ بھاگتے،جہاں کہیں وہ اٹک جاتیں وہ رکاوٹ ہٹا دیتے اور تب تک یہ چلتا رہتا جب تک کشتیاں گیلی ہو کر پانی میں ڈوب نہ جاتیں۔۔۔
اس نے اپنا دس بارہ برس پرانہ سراپا دیکھا سڑک پانی سے بھری ہوئی،اس کے ماموں جان ان کے دوست سب پاجامے ٹانگے بارش میں نہاتے ہوئے،پلاسٹک کا گیند بلا اور شور و غل،خوشی قہقہے اور بے فکری۔

دروازے میں کھڑی نانی آوازے لگاتیں،ماتھے پہ تیوری ڈالے چلاتی ہوئیں پکوڑوں کے ٹھنڈے ہونے کا عندیہ دیتی ہوئیں۔
اندر جذبات کاپہاڑ متزلزل ہوا،اس نےمضبوطی سے دیوار کو تھام کر جیسے اندر بپا ہیجان کو آنکھوں کے کنارے نم کرنے سے باز رکھنے کی جستجو کی۔
کوئی دیکھ نہ لے!ایک جوان کے لئے رونا بہت مشکل ہے،گھر کے مسلسل چلنے والے افراد کی فہرست میں اول درجہ بڑے مرد کا ہے جو سب کا حوصلہ اور زمانے کے منہ زور طوفانوں کو قابو میں رکھنے کے لئے ایک لگام ہے۔

بائیں جانب نظر پھیری تو منظر پھر سے تبدیل ہونے لگا۔،قطار در قطار لگے اونچے سفیدے کے درختوں کے بالکل ساتھ سرکاری سکول کی سات فٹ اونچی لال دیوار کو وہ نیچے کھڑی اپنی مسکراتی نانی کی طرف پر یقین نظروں سے دیکھ کر پھلانگتا ہوا،اپنے نو،دس یاروں کے ساتھ گراؤنڈ میں کرکٹ کھیلتے ہوئے ماموں کو ناشتے کا پیغام پہنچاتا ہوا۔
اس کے ہونٹوں سے ہلکی سسکاری نکلی۔

چہرہ موڑا اور سامنے دیکھا،مسجد کا سفید مینار چودہ،پندرہ برس پہلے کی طرح ہی کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔
یادوں کا رنگ عمیق ہوتا ہے،اتنا گہرا کہ محسوس کرنے والا گھبرا کر پلٹ جائے اور اس کی پشت سے ان یادوں کےطول و عرض میں بسنے والا سیاہ عفریت یکلخت اسے دبوچ لے۔ پھر اس سے گتھم گتھا شخص کا روشنیوں تک کا سفر نہایت کٹھن اور دشوار ہوتا ہے۔

اسے یاد آیا روز صبح فجر کے وقت اپنے نانا کے ساتھ اس مسجد میں نماز ادا کرنے جانا۔وہ مسجد بہت دور لگتی تھی تب اور پیدل جانا بہت مشکل مگر واپسی پر دودھ جلیبیوں کا ناشتہ،نانا کے پر نور چہروں،سفید چمکدار داڑھیوں والے احباب کا اسے پیار کرنا۔اسے یاد آیا اُس کا نانا کی ایک آواز پر خوشی سے جاگ جانا اور چہکتے لہکتے ان کی انگلی پکڑے ساتھ چل پڑنا۔

یادوں کا عفریت دھیرے سے اس کے قریب آچکا تھا،اُس کے نتھنوں سے نکلتی دہشت ناک پھنکار وہ اپنے کانوں میں اور کنپٹی پر اب محسوس کر سکتا تھا۔اس نے جھرجھری سی لی اور اس کا جسم ڈھیلا پڑنے لگا،اپنی جگہ پر ساکت کھڑے وہ اپنے حواس کی کی مضبوطی کھونے لگا۔۔۔
اس نے بہت آہستگی سے پیچھے ہٹتے ہوئے گردن موڑ کر پلنگ کی جانب دیکھا اسے یاد آنے لگا وہ آخری وقت جب وہ بہت بیمار تھے اور ان کے چلے جانے پر وہ بہت بور محسوس کر رہا تھا؛گھر کی کھڑکیوں سے دھوپ چھن کر اندر آنگن کو روشن کر رہی تھی مگر پھر بھی گھر میں اندھیرا سا تھا۔
وہ بازار سے جا کر ایک پتنگ خرید لایا۔
اسے یاد آیا اپنے ماموں سے کہنا کہ آئیں پتنگ اڑاتے ہیں مگر تب وہ خاموش رہے اور آنکھوں میں آنسو لئے اس کو دیکھا۔جیسے نظریں بولی ہوں کہ بچپن کی بھی کیا موج ہے کوئی دکھ نہیں سب اچھے کی رپورٹ!اور پھر وہ نا سمجھی سے سر جھٹکتا،منہ بسورتا اور سیڑھیوں پر پاؤں پٹختا خود ہی پتنگ جھلاتا چھت پر چلا گیا۔

اسے مایوسی ہوئی سب کو روتے اور اداس دیکھ کر تب،نانا کو نہیں مرنا چاہئے تھا اس نے سوچا،سب پریشان ہیں اور کوئی کھیلتا بھی نہیں،
اور دودھ جلیبیاں!اسے مزید مایوسی ہوئی۔
تب وہ نہیں جانتا تھا کہ نقصان کتنا ہوا تھا۔
ہر چیز سے وہاں اس کا بچپن جڑا تھا،وہ لوگ جڑے تھے جو انمول تھے آج بھی اس کے دل و دماغ میں انمٹ تھے۔
اب وہاں پہ کچھ بھی نہیں تھا ماسوائے یادوں کی مہک کے،سب ختم ہو چکا تھا اور جو ختم نہ ہوا بدل چکا تھا مگر یادیں ویسی ہی بھینی اور تروتازہ۔

اس نے آنکھیں کھول لیں، وقت بہت آگے نکل چکا تھا اور زندگی کی دوڑ سے تھک کر آج خود کو دیکھنے وہ وہاں موجود تھا۔
سب بہت خوبصورت تھا،خوبصورت لمحات تھے
خوبصورت لوگوں کے ساتھ؛جانے کتنے ہی چہرے چشمِ تصور میں یکلخت اتر آئے۔
کاش وہ دوبارہ جی سکتا مگر یہ قدرت کا اصول نہیں
وہ آنکھیں بند کئے ان سے مخاطب تھا،یہ بول رہا تھا کہ میں جانتا ہوں یہی اصولِ دنیا ہے،رسمِ فنا ہے جو خدا نے قائم کردی اس جہان میں مگر وقت کے گزرے لمحوں میں مقید لوگو!میرے پیارو!محبت وقت کی قید سے آزاد جذبہ ہے۔
۔۔
میری آواز خدا تم تک پہنچائے تو جان لینا کہ میں آج بھی تمہیں یاد کرتا ہوں،آج بھی کوئی پرانا پیار کا نغمہ کانوں سے ٹکرائے تو ذہن کے دریچوں میں تمہارا نام ابھرتا ہے،لبوں پہ دعا آتی ہے اور تمہارے لئے آسانی اور خوشی کا مطالبہ کرتا ہوں۔
میں دنیا کی دوڑ میں جب بھی تھک جاؤں،اپنی ذات اور پہچان کھونے لگوں تو تم لوگوں کے مسکراتے چہروں کا تصور اُسی زمانے کی طرح میری ہمت بڑھاتے ہیں،مجھے میری حقیقت کا احساس دلاتے ہیں۔

آج چلے جانے کے بعد بھی تم لوگ گئے نہیں،میرے دل و دماغ میں حیات ہو۔
۔اس نے خدا کو پکارا،"یا خدا!"
روشنیوں کا ایک کوندا لپکا اور بجلی کی رفتار سے اس کے آپے میں اتر گیا،اس کے رگ و پے میں جنبش ہونے لگی مگر صد کہ اس نے جست لگا کر وہاں سے بھاگنے کی بجائے مڑ کر عفریت کو اپنے گلے لگا لیا۔۔۔
آسمان کا عمیق رنگ چھٹنے لگا،شفاف بوندوں سے بھرے ابر و باران اکٹھے ہونے لگے۔

لمبی پلکیں اور وہی گہری بھوری آنکھیں مگر سفیدی میں لالی کا جال،چہرہ اور جلد لال اور کھردری،جیسے خون کا تیز فشار ابھی جسم کو چھیدتے ہوئے باہر آنے کو بیتاب ہے۔بڑھے ہوئے بال اور ناخن،کھچڑی سی داڑھی۔انتہائی ابتر حالت کے باوجود وہ اپنے نین نقش پہچان سکتا تھا۔
عفریت کی آنکھیں حیرت سے پھٹی ہوئی تھیں۔اس کی نگاہوں میں ویرانی کا دشت بیکراں دھیرے دھیرے شفاف چشمے کی صورت دھارنے لگا۔

اُس کو مظبوطی سے سینے سے لگائے وہ مسکراتا رہا اور اپنے اندر کے شخص کو،محبت کے جذبے سے عاری عفریت کو پیار سے سہلاتا رہا۔اب وہ چہرہ اتنا خوفناک نہیں تھا،اس کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں اور چہرے پر سکون کا تاثر نمایاں تھا۔اس کی بانہوں میں بھرا وہ بوسیدہ سراپا دھیرے دھیرے ہوا میں تحلیل ہونے لگا۔
آنسو ٹپ ٹپ بند آنکھوں کے کناروں سے لُڑھک رہے تھے،وہ چہرہ آسمان کی جانب اٹھائے خدا سے مخاطب تھا،یادیں گہری تھیں،خدا اسے دیکھ رہا
تھا،بندے سب سن رہے تھے!

میرے پیاروں کے نام جن کی زندگی پہ جانے والوں کی کمی اثر انداز ہوئی۔ان یادوں کے نام جو ہمیشہ انمول رہیں گی۔

Browse More Urdu Literature Articles