Kutab Beeni Se Kitab Mailoon Tak - Article No. 2028

Kutab Beeni Se Kitab Mailoon Tak

کتب بینی سے کتاب میلوں تک - تحریر نمبر 2028

کتابوں کے عالمی دن23 اپریل 2019 ء کے موقع پرایک خصوصی تحریر

Akhtar Sardar Chaudhry اختر سردارچودھری منگل 23 اپریل 2019


اختر سردار چودھری
ایک بہت ہی مشہور مقولہ ہے ریڈرز ہی لیڈرز ہوتے ہیں۔یہ جملہ کتابوں کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔انٹرنیٹ کی وجہ سے لوگوں کے پاس اب کتا ب پڑھنے کا وقت نہیں رہا،حالانکہ انسانی شعور کے ارتقاء میں کتابوں نے ہی مرکزی کردار اد ا کیا ہے ۔دنیا جب لکھنے کے فن سے آشنا ہوئی تو شروع میں درختوں کے پتوں،چمڑے اور پتھروں پر الفاظ کشید کر کے کتابیں لکھنے کا کا م شروع کیاگیا،جیسے ہی انسانی تہذیب نے ترقی کی ویسے ہی کتاب نے بھی ارتقاء کی منزلیں طے کرنا شروع کر دیں،درختوں کی چھال سے لیکر پرنٹنگ پریس اور پھر ای بکس تک کا سفرجاری ہے۔
کتاب کی ابتدائی تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہو گا دنیا کی پہلی کتاب چین میں لکھی گئی جس کا نام ڈائمنڈ سترا تھا اور بعض کا خیال ہے کہ مصر کی الاموات ہے جو اس وقت مصر کے میوزیم میں موجود ہے ۔

(جاری ہے)


قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ جاننے والے اور نہ جاننے والے کبھی برابر نہیں ہوسکتے بلکہ جاننے والوں کو دیکھنے والے جبکہ نہ جاننے والوں کو اندھوں سے تشبیہ دی ہے ۔

مجموعی طور پر مسلمان اور خاص طور پر ہم پاکستانی کتاب سے کیوں دور ہوتے جا رہے ہیں ،اس کے مختصر اسباب ،غربت ،بے روزگار جس کی وجہ سے عام پاکستانی اسی چکر میں ساری زندگی گزار دیتا ہے ۔ہمارے ہاں ایک عالم کی عزت میں بھی بے پناہ کمی آئی ہے ،دوسری طرف صاحب علم بے روزگار ہیں اور علم کی سرپرستی حکومت نہیں کرتی ،پھر انفرادی طور پر ہم اتنے بدذوق ہوچکے ہیں کہ عموماً کتابوں کا مطالعہ کرنے کو وقت کاضیا ئع سمجھتے ہیں ۔

ہمارے ہاں کتاب کو فضول سمجھا جاتا ہے ۔ہمارے گھروں میں لائبریری تو دور کی بات چند کتابیں بھی دیکھنے کو نہیں ملتی۔ ہمارے ہاں کتابیں خریدنے اور پڑھنے والے کو مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ اسے خبطی ،کتابی کیڑا ،پاگل کہا جاتا ہے۔پاکستان میں ایک تو شرح خواندگی کم ہے اور دوسری طرف مہنگائی کی وجہ سے بھی کتاب بینی میں کمی آئی ہے ۔ پھر جدید طریقوں کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور موبائل فونز کے استعمال کی وجہ سے بھی کتاب کی اہمیت متاثر ہوئی ہے ۔
اگر موضوع اچھا ہو تو کتاب آج بھی خریدی اور پڑھی جاتی ہے پاکستان میں زیادہ ترکتابیں شاعری کی شائع ہوتی ہیں ،اور ان کی شاعری بھی اس قابل نہیں ہوتی اس لیے بھی رحجان کم ہے۔
پاکستان میں سنجیدہ موضوعات پر لکھی گئی کتابیں پڑھنے والوں کی تعداد بھی دیگر ممالک سے کم ہے اور پھر فلسفے ، تاریخ، نفسیات اور سائنس پر لکھی گئی کتابیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اس کا حل دیگر زبانوں کی کتابوں کے تراجم کی صورت میں نکالا جانا چاہیے۔پاکستان میں کتاب سے دوری کے اسباب میں لائبریری کی کمی بنیادی وجہ میں سے ایک ہے ۔
میں عالمی یوم کتاب کے حوالے سے ابھی لکھ رہا تھا کہ برمنگھم برطانیہ میں مقیم دس سے زائد کتابوں کے مصنف جناب جاوید اختر چودھری صاحب جن کی شریک حیات معروف ادیبہ سلطانہ مہر صاحبہ بیس سے زائد کتابوں کی مصنفہ ہے ،کا فون آ گیا ،ان کے ساتھ دوران گفتگو میں نے ورلڈ بک ڈے اور پاکستان میں قاری کی کتابوں سے دوری کے اسباب گنوائے تو انہوں نے کہا کہ پاکستانی معاشرے میں انٹرنیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثرات کے باعث کتابوں کے خریداروں میں کمی دیکھنے میں آئی ہے ۔
پاکستان میں کتابوں کا فروغ کسی بھی حکومت کی ترجیح نہیں رہا ، میں عرصہ دراز سے بیرون ملک مقیم ہوں میں نے دیکھا ہے کہ یورپ میں کتاب کو بہت اہمیت حاصل ہے ،یہاں پر لوگ دوران سفر،انتظار گاہ میں فارغ اوقات میں کتاب پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔
پاکستان میں اول تو کتابیں لکھنا مشکل ہیں پھر اگر لکھی بھی جائیں تو ان کو پبلش کرنا مشکل ترین ہے میں نے دیکھا ہے اگر آپ کتاب لکھ لیں تو اسے فری میں ،یا گفٹ مانگا جاتا ہے ،یہ نہیں کہ تھوڑے پیسے خرچ کر کے جاننے والی کی حوصلہ افزائی اور مدد کی جائے ۔
اسی فی صد لکھاری اپنی جیب سے کتاب چھپوا کر دوستوں میں بانٹ رہے ہیں، پاکستان میں صرف کتابیں لکھ کر گزر اوقات ممکن نہیں ہے۔کسی بھی معاشرے ،قوم ،ملک کی ترقی کا دارومدار علم پر ہوتا ہے اور علم کا کتاب پر ،تاریخ اس کی گواہ ہے ،یونان اور اس کے بعد مسلمانوں کا عروج جب دنیا جہاں سے کتابیں مسلمان خرید رہے تھے اور ان کو ترجمہ کر رہے تھے ، آج آپ دیکھ لیں مغرب میں کتاب دوستی ہے ،یہ ہی وجہ ہے کہ آج مغرب ترقی یافتہ کہلاتا ہے ۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں پاکستان میں گزشتہ 30 برسوں سے کتاب بینی کم ہوتی جارہی ہے ۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں42فی صد کتابیں مذہبی، 32 فی صد عام معلومات یا جنرل نالج ، 36 فی صد فکشن اور 07 فی صد شاعری کی کتابیں پڑھتے ہیں۔ کتابوں سے دوری کی وجہ سے نوجوان نسل اپنے اسلامی ، سیاسی ، مذہبی کلچر اور ادب سے بھی غیر مانوس ہونے لگی ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق قدر ت اللہ شہاب ، احمد ندیم قاسمی ، خواجہ حسن نظامی ، ابوالکلام آزاد ، چراغ حسن حسرت، میر تقی میر، فیض احمد فیض ، ناصر کاظمی ،واصف علی واصف کی کتابوں کے دکانوں پر ڈھیر لگے ہوئے ہیں ۔
مگر ان کو پڑھنے والا کو ئی نہیں ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق نوجوان نسل کی صرف 19 فی صد تعداد ہی کتابیں پڑھنے کا شوق رکھتی ہے ۔ 60 فی صد سے زائد نسل انٹر نیٹ ، فیس بک اور ٹوئٹر کی جانب مائل ہے ۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال23 اپریل کو کتابوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔اس دن کی شروعات 1616 ء میں سپین سے ہوئی ، 1995ء میں اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو کی جنرل کونسل نے 23 اپریل کو" ورلڈ بک ڈے" قرار دے دیا۔
ہم ایسے دن منانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں جن سے قوم کا بھلا ہوتا ہو۔جس سے وہی کلچر پروان چڑھتا ہے۔بدقسمتی دیکھیں ہم بچوں کے لیے(روشن مستقبل کے لیے )اب تک کوئی اصلاحی چینل شروع نہ کر سکے ۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم اپنے مستقبل کو کتنی اہمیت دے رہے ہیں اور ہمیں اپنے کلچر ،ملک،اسلام ،زبان سے کتنی محبت ہے۔
کتب بینی انسان کے وقت کو نہ صرف ضائع ہونے سے بچاتی ہے بلکہ غم خوار ومددگار ثابت ہوتی ہے۔
کتاب تنہائی کی بہترین ساتھی ہوتی ہے، جب انسان گردشِ ایام کے ہجوم میں الجھ کر مایوس ہوکر اندھیروں میں کہیں گم ہوجاتا ہے، زندگی کی خوبصورت نعمتوں سے فیض یاب نہیں ہوپاتا تو اس وقت کتاب ہی اندھیروں میں روشنی لے کر امید کی کرن بن کر سامنے آتی ہے اور انسان تاریکیوں سے نکل کر روشنی میںآ جاتا ہے اور اس روشنی میں خود کو سمجھنے لگتا ہے۔کتب بینی کے لئے ایسے اقدامات کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ہمیں اپنے گھروں میں ایسا ماحول پیدا کرنا چاہیے جس سے گھر کے بچوں سمیت ہرفرد کو مطالعہ کرنے میں دلچسپی ہو کتاب سے دوستی ہو۔ ماں باپ کو خود مطالعہ کرکے مثال قائم کرنی چاہیے۔ اپنے حلقہ احباب میں اچھی کتب کا ذکر مطالعہ ، تبصرہ ، تجزیہ کر کے شوق کو اُبھارنا چاہیے۔
پاکستان میں ہونے والے حالیہ کتاب میلوں کے انعقاد نے لوگوں کو کتب بینی کی جانب راغب کیا ۔
ان کتاب میلوں میں لوگ فیملی ممبران کے ساتھ جوق در جوق شرکت کرتے نظر آئے ہیں ، یہ ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے ۔ہمارے اشاعتی اداروں کو اب ایک بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ وہ معیاری کتب کے ساتھ ساتھ سستی کتابوں کو شائع کریں ، اگر ایسا نہ ہوا تو ہماری نسل مایوس ہو کر دوبارہ گلوبل ویلج کی چکا چوند میں کہیں گم ہو جائے گی اور اسے ڈھونڈنا مشکل ہو گا۔

Browse More Urdu Literature Articles