Lal Kurti Ki Tareekhi Haqeeqat - Article No. 2121

Lal Kurti Ki Tareekhi Haqeeqat

لال کرتی کی تاریخی حقیقت - تحریر نمبر 2121

لال کرتی یعنی ریڈلائٹ ایریا یہ باقاعدہ پلاننگ سے بنائے گئے علاقے ہیں جن میں دو دو مرلے کے گھر تنگ اور تاریک گلیاں اور مرکزی دروازے رکھے گئے ہیں

Arshad Sulahri ارشد سلہری جمعہ 23 اگست 2019

ڈاکٹر شاہد صدیقی کے کالم راولپنڈی کی لال کرتی میں ڈاکٹر شاہد صدیقی نے اپنے استاد کی زبانی جو لال کرتی کی تعریف بیان کی ہے۔ اس پر حیرانگی ہوئی کہ بڑے بڑے کالم نگار بھی سنی سنائی باتوں کو بغیر تحقیق کیے اپنے کالموں میں رقم کردیتے ہیں۔ جس ہمارے جیسے کم علم وہ تاریخ اور تعریف پلے باندھ کر آگے بیان کرتے رہتے ہیں۔ جیسے لیمارک کی ارتقاء کی تھیوری جو بندروں کے ارتقائی عمل سے انسان شکل میں بتدریج ترقی کے بارے میں ہے جو ڈارون کے متھے جڑی ہوئی ہے اور ہر پڑھا لکھا اور مہان لکھاری بڑے دھڑلے سے ڈارون کے نام سے بیان کردیتا ہے۔
یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ رکا نہیں ہے۔ شاید رکے بھی نہ کیوں کہ ہم کسی کی بات تسلیم کرنے عادی نہیں ہے بلکہ الٹا اسے لعنت ملامت کرتے ہیں اور گندی گالیاں بھی دیتے ہیں۔

(جاری ہے)

جوکچھ سن رکھا ہے۔ اس پرقائم رہنا ہماری مستقل مزاجی کابھرم ہے۔ ڈاکٹر شاہد صدیقی کے استاد کے مطابق لال کرتی کی جگہ پہلے برٹش انفنٹری بازار تھا اور رائل برٹش انڈین آرمی کے یونیفارم کی لال رنگ کی شرٹ کے باعث چھاونی کے محلے کا نام لال کرتی مشہور ہوگیا ہے۔

وکی پیڈیا نے بھی یہی تعریف کی ہے۔ ضرور ایسا ہوگا مگر کسی ایک شہر میں ہوگا۔ ہر اس شہر کا ایک ہی قصہ نہیں ہے یہاں چھاونی کے ساتھ لال کرتی موجود ہے۔ لا ل کرتی ہر چھاونی کا باقاعدہ تعمیر کردہ علاقہ ہے۔ شاید ڈاکٹر شاہد صدیقی کے استاد محترم نے بھی وکی پیڈیا پر ہی انحصار کیا ہے۔ دوسرے شاعر وادیب،کالم نگار رضی الدین رضی صاحب نے بھی یہی کیا ہے۔
ملتان میرا رومان کے نام سے ایک تفصیلی مضمون میں لال کرتی کے بارے میں بیان کیا ہے کہ لال کرتی والیوں کی وجہ سے چھاونی کے محلہ کا نام لال کرتی پڑگیا ہے۔ لال کرتی ریڈلائٹ ایریا کا بگڑا ہوا نام ہے۔ پاکستان سمیت تمام وہ علاقے جو تاج برطانیہ کے زیر تسلط تھے وہاں انگریز سرکارکی بنائی جانے والی فوجی چھاؤنیوں کے ساتھ ریڈلائٹ ایریاز بھی بنائے گئے تھے۔
جو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ بالخصوص وہ چھاؤنیاں جن میں لام پر آئے فوجی ٹھہرائے جاتے تھے۔ لام یعنی لمبے عرصے کیلئے بلائے جانے والے وہ فوجی جو تاج برطانیہ کے ہرکونے سے آتے تھے۔ لال کرتی یعنی ریڈلائٹ ایریا یہ باقاعدہ پلاننگ سے بنائے گئے علاقے ہیں جن میں دو دو مرلے کے گھر تنگ اور تاریک گلیاں اور مرکزی دروازے رکھے گئے ہیں۔
گلیاں دانستہ کھلی رکھنے کی بجائے تنگ اور تاریک رکھی گئی ہیں کہ گاڑیوں کا گلیوں میں گزر نہ ہوسکے اور خاص کر بڑے فوجی افسر گاڑیوں میں ادھر کا رخ نہ کریں۔ اک قسم کی کچھ پردہ داری کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ گھروں کے درمیان ایسے چھوٹے چھوٹے بازار بنائے گئے ہیں۔ یہاں سے گفٹ، سنگار اور غسل کے لوازمات دستیاب ہوتے تھے۔ دیکھنے کو بازار عورتوں کا لگتا ہے۔
لیکن زیادہ خریدار فوجی جوان ہوتے جو بازار کوبازاری کہتے تھے۔ کچھ شہروں میں لال کرتی اپنی پرانی ہیت میں موجود ہے۔ راولپنڈی کی لال کرتی میں جو پرانے گھر ہیں۔ آج بھی موجود ہیں مگر مکین بدل چکے ہیں اور لال کرتی کے چاروں طرف اب کمرشل سرگرمیاں ہیں۔ لوگوں نے گھر وں کو دکانوں بدل لیا ہے۔ مگر کچھ گلیاں اب بھی باقی ہیں۔ جن کے اندر گھر موجود ہیں اور نئے مکین رہائش پذیر ہیں۔
چند گھرانے ایسے موجود ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جدی پشتی لال کرتی کے ہی رہائشی ہیں۔ گھروں کا طرز تعمیر اور گھروں میں کمرے،باتھ اور دروازے خاص نوعیت کے بنائے گئے ہیں۔ دو مرلے کے گھر ایسی عورتوں کو الاٹ کیے جاتے جو لام پر آئے فوجیوں کو سیکس کی سہولت مہیا کرتیں تھیں۔ انگریزسرکار کی جانب سے سیکس ورکر عورتوں کو کچھ معاوضہ تنخواہ کی صورت میں ملتا تھا۔ عورتوں کے پاس آنے والے فوجی بھی کچھ ضرور دیکر جاتے تھے۔ باقی تمام تر بنیادی ضروریات کی سہولتیں چھاونی انتظامیہ کی جانب سے دی گئی تھی۔

Browse More Urdu Literature Articles