Lal Kurti Ki Tareekhi Haqeeqat - Article No. 2121
لال کرتی کی تاریخی حقیقت - تحریر نمبر 2121
لال کرتی یعنی ریڈلائٹ ایریا یہ باقاعدہ پلاننگ سے بنائے گئے علاقے ہیں جن میں دو دو مرلے کے گھر تنگ اور تاریک گلیاں اور مرکزی دروازے رکھے گئے ہیں
ارشد سلہری جمعہ 23 اگست 2019
(جاری ہے)
جوکچھ سن رکھا ہے۔ اس پرقائم رہنا ہماری مستقل مزاجی کابھرم ہے۔ ڈاکٹر شاہد صدیقی کے استاد کے مطابق لال کرتی کی جگہ پہلے برٹش انفنٹری بازار تھا اور رائل برٹش انڈین آرمی کے یونیفارم کی لال رنگ کی شرٹ کے باعث چھاونی کے محلے کا نام لال کرتی مشہور ہوگیا ہے۔
وکی پیڈیا نے بھی یہی تعریف کی ہے۔ ضرور ایسا ہوگا مگر کسی ایک شہر میں ہوگا۔ ہر اس شہر کا ایک ہی قصہ نہیں ہے یہاں چھاونی کے ساتھ لال کرتی موجود ہے۔ لا ل کرتی ہر چھاونی کا باقاعدہ تعمیر کردہ علاقہ ہے۔ شاید ڈاکٹر شاہد صدیقی کے استاد محترم نے بھی وکی پیڈیا پر ہی انحصار کیا ہے۔ دوسرے شاعر وادیب،کالم نگار رضی الدین رضی صاحب نے بھی یہی کیا ہے۔ ملتان میرا رومان کے نام سے ایک تفصیلی مضمون میں لال کرتی کے بارے میں بیان کیا ہے کہ لال کرتی والیوں کی وجہ سے چھاونی کے محلہ کا نام لال کرتی پڑگیا ہے۔ لال کرتی ریڈلائٹ ایریا کا بگڑا ہوا نام ہے۔ پاکستان سمیت تمام وہ علاقے جو تاج برطانیہ کے زیر تسلط تھے وہاں انگریز سرکارکی بنائی جانے والی فوجی چھاؤنیوں کے ساتھ ریڈلائٹ ایریاز بھی بنائے گئے تھے۔ جو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ بالخصوص وہ چھاؤنیاں جن میں لام پر آئے فوجی ٹھہرائے جاتے تھے۔ لام یعنی لمبے عرصے کیلئے بلائے جانے والے وہ فوجی جو تاج برطانیہ کے ہرکونے سے آتے تھے۔ لال کرتی یعنی ریڈلائٹ ایریا یہ باقاعدہ پلاننگ سے بنائے گئے علاقے ہیں جن میں دو دو مرلے کے گھر تنگ اور تاریک گلیاں اور مرکزی دروازے رکھے گئے ہیں۔ گلیاں دانستہ کھلی رکھنے کی بجائے تنگ اور تاریک رکھی گئی ہیں کہ گاڑیوں کا گلیوں میں گزر نہ ہوسکے اور خاص کر بڑے فوجی افسر گاڑیوں میں ادھر کا رخ نہ کریں۔ اک قسم کی کچھ پردہ داری کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ گھروں کے درمیان ایسے چھوٹے چھوٹے بازار بنائے گئے ہیں۔ یہاں سے گفٹ، سنگار اور غسل کے لوازمات دستیاب ہوتے تھے۔ دیکھنے کو بازار عورتوں کا لگتا ہے۔ لیکن زیادہ خریدار فوجی جوان ہوتے جو بازار کوبازاری کہتے تھے۔ کچھ شہروں میں لال کرتی اپنی پرانی ہیت میں موجود ہے۔ راولپنڈی کی لال کرتی میں جو پرانے گھر ہیں۔ آج بھی موجود ہیں مگر مکین بدل چکے ہیں اور لال کرتی کے چاروں طرف اب کمرشل سرگرمیاں ہیں۔ لوگوں نے گھر وں کو دکانوں بدل لیا ہے۔ مگر کچھ گلیاں اب بھی باقی ہیں۔ جن کے اندر گھر موجود ہیں اور نئے مکین رہائش پذیر ہیں۔ چند گھرانے ایسے موجود ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جدی پشتی لال کرتی کے ہی رہائشی ہیں۔ گھروں کا طرز تعمیر اور گھروں میں کمرے،باتھ اور دروازے خاص نوعیت کے بنائے گئے ہیں۔ دو مرلے کے گھر ایسی عورتوں کو الاٹ کیے جاتے جو لام پر آئے فوجیوں کو سیکس کی سہولت مہیا کرتیں تھیں۔ انگریزسرکار کی جانب سے سیکس ورکر عورتوں کو کچھ معاوضہ تنخواہ کی صورت میں ملتا تھا۔ عورتوں کے پاس آنے والے فوجی بھی کچھ ضرور دیکر جاتے تھے۔ باقی تمام تر بنیادی ضروریات کی سہولتیں چھاونی انتظامیہ کی جانب سے دی گئی تھی۔Browse More Urdu Literature Articles
کتنے یگ بیت گئے
Kitne Yug Beet Gaye
پروین شاکر کی حادثاتی موت کی نامکمل تحقیقات
Parveen Shakir Ki Hadsati Maut Ki Namukammal Tehqiqat
جلتی ہوا کا گیت
Jalti Hawa Ka Geet
ماں اور پروین شاکر
Maan Aur Parveen Shakir
پروین شاکر کا رثائی شعور
Parveen Shakir Ka Rasai Shaoor
ریت
Rait
لا حاصل از خود
La Hasil Az Khud
فقیرن
Faqeeran
داستان عزم
Dastaan E Azm
محمد فاروق عزمی کا پرعزم اور پر تاثیر قلمی سفر
Mohammad Farooq Azmi Ka PurAzam Aur PurTaseer Qalmi Safar
حلیمہ خان کا تقسیم 1947 کے شہداء کو سلام
'Walking The Divide: A Tale Of A Journey Home'
جہیز
Jaheez