Maasi - Article No. 2525
''ماسی'' - تحریر نمبر 2525
میں حیران تھی کہ ماسی کون ہے جس پر بیگم صاحبہ اتنا غصہ کر رہی ہیں۔ یہ لڑائی کافی دیر چلتی رہی آخر میں بیگم صاحبہ نے میرا سامان اٹھا کر میرے ہاتھ میں پکڑای
حسنین ملک بدھ 28 اپریل 2021
میں پیدا ہوئی تو میرا نام شہزادی رکھا گیا تھا۔ اماں نے شرمیلی مسکراہٹ کے ساتھ یہ جملہ بولا
شہزادی کے گھر میں نہ کچھ کھانے کو میسر تھا نہ کسی کے پاس پہننے کو تیسرا لباس تھا، دو کپڑے تھے سب باری باری دھو دھو کر وہی استمعال کرتے تھے۔
ایک دفعہ میں کسی گھر میں کام کرتی تھی جہاں سب لوگ کسی باہر کے ملک سے پاکستان واپس آئے تھے۔ ان کے گھر میں سب سے بڑے ان کے دادا جی تھے وہ بہت پڑھے لکھے انسان تھے اور خود بھی کتابیں لکھا کرتے تھے۔ میں جب پہلی بار کام کرنے ان کے گھر گئی تو ایک پیاری سی لڑکی نے دروازہ کھولا، مجھے دیکھ کر واپس مڑی اور بولی مما کام والی آ گئی ہے۔ میں اندر گئی تو دادا جی نے مجھے پیار سے دیکھ کر بلایا اور بولے بیٹا تمھیں فخر ہونا چاہیے کہ سب تمھیں ''کام والی'' کہہ کر بلاتے ہیں۔
تم اس ملک میں ''کام والی'' کہلاتی اور سمجھی جاتی ہو جہاں چپڑاسی سے لے کر ملک کے سب سے بڑے افسر کو بھی کام کرتے وقت موت پڑتی ہے۔ مجھے ان کی زیادہ تر باتوں کی سمجھ نہیں آتی تھی مگر ان کا انداز بہت میٹھا ہوتا تھا۔
میں کچھ دن بخار کی وجہ سے کام کرنے نہیں گئی تو بی بی صاحبہ نے کہا کہ جتنے دن تم نہیں آؤ گی اتنے دن کی تنخواہ کٹا کرے گی۔ میں کچھ نہیں بولی اور کام کرنے لگ گئی۔ دادا جی اخبار پڑھتے ہوئے کسی کی طرف دیکھے بغیر بولے
کاش اس ملک کی سڑکوں پر جتنے دن پانی کھڑا رہتا ہے اتنے دن اس کے ذمہ دار ادارے کی تنخواہ بھی کاٹ لی جائے، جتنے دن بجلی نہیں آتی اس کے ذمہ دار ادارے اور حکمرانو ں کو بھی اتنے دن کے پیسے اور مراعا ت نہ ملیں۔ کاش جو سڑکوں پر کوڑا پھینکتے ہیں ان کے پورے گھر والوں کو بلا کر میڈیا کے سامنے ان سے کوڑا اٹھوایا جائے۔ کاش چوری، ڈکیتی اور رشوت کے بدلے ہم پولیس کے اعلی افسران کے مال اور اثاثوں میں سے عوام کا یہ نقصان پورا کرنا شروع کر دیں اور کاش کہ کاروباری افراد کی بڑھائی گئی قیمتوں کو انھیں کے خزانوں سے نکال کر عوام کا نقصان پورا کیا جائے۔۔۔
دادا جی خود سے باتیں کرتے تھے، گھر میں کوئی بھی ان کی بات نہ غور سے سنتا نہ جواب دیتا۔
دادا جی کی باتیں سنانے کے بعد اماں نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا پتر مزے کی بات بتاؤں میں جب بھی کسی کے گھر کام کرنے جاتی تو سب مجھے کہتے تھے
شہزادی، میرے جوتے صاف کر دو
شہزادی، میرے گندے کپڑے دھو دو
شہزادی، بچے نے پیشاب کر دیا ہے جگہ صاف کر دو
اور سب سے بڑھ کر شہزادی، میرے پاؤں دبا دو
تم سوچو کہاں شہزادی کہاں یہ کام
پتر مجھے تو شہزادی کا مطلب بھی نہیں پتہ تھا 13سال تک۔ تب میں ایک صاحب جی کے گھر کام کرتی تھی اور رہتی بھی وہیں تھی۔ ان کے گھر میں ایک کمرہ تھا جس میں گھر کا فالتو سامان پڑا ہوتا تھا رات کو وہیں میں بستر بچھا کر جاگتی تھی۔۔۔
جاگتی اس لئے تھی کہ ڈر کے مارے نیند ہی نہیں آتی تھی اکیلے، کبھی تھکن کے مارے آنکھ لگ جاتی تو ڈر کے اٹھ جاتی اور آہستہ آواز میں روتی تاکہ صبح بیگم صاحبہ سے ڈانٹ نہ پڑے۔
صاحب جی کا ایک بیٹا تھا نو سال کا، بہت شرارتی، وہ انگریزی سکول میں پڑھتا تھا اور مجھے انگریزی میں چیزوں کے نام بتا کر مجھ سے پوچھتا رہتا اور جب میں غلط بولتی تو وہ بہت ہنستا تھا لیکن صرف اسی کی وجہ سے میرا دل بھی لگا رہتا تھا۔
اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ تمھیں پتہ ہے تمھارے نام کا مطلب کیا ہے؟
میرے نہ کرنے پر اس نے مجھے شہزادی کا مطلب سمجھایا اور میں خود بھی حیران ہو گئی کہ میرے ماں باپ نے بھی کیا کمال نام رکھا ہے اس لڑکی کا جس نے زندگی بھر کبھی نیا لباس بھی نہیں پہنا۔
ایک دفعہ صاحب جی گھر پر اکیلے تھے تو مجھے بلا کر کہا کہ میرے پاؤں دبا دو بہت تھک گیا ہوں۔ میں کچھ دیر ان کے پاؤں دباتی رہی اور وہ ٹی وی دیکھتے رہے۔ پھر بولے پنڈلیاں بھی دبا دو۔ کچھ دیر بعد انہوں نے اپنی رانوں پر ہاتھ پھیر کر کہا کہ شہزادی تم تو بہت اچھا دباتی ہو ذرا یہاں بھی دباؤ۔ میں نے تعریف سن کر خوشی خوشی اپنے چھو ٹے چھو ٹے ہاتھوں سے صاحب جی کی رانوں کو دبانا شروع کر دیا۔
کچھ دیر بعد بیگم صاحبہ گھر میں داخل ہوئی تو ہمیں دیکھ کر غصے سے چلانا شروع کر دیا۔ وہ اونچا اونچا بولے جا رہی تھی مگر مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ ایسا کیوں کر رہی ہیں۔ صاحب جی بھی ان کو آہستہ بولنے اور چپ کر جانے کو کہہ رہے تھے مگر وہ اور زور سے بولتی جاتی تھیں۔ ایک دو دفعہ وہ میری طرف بڑھیں تو صاحب جی نے ان کے ہاتھ پکڑ لئے اور کہا اس سب میں اس کا کوئی قصور نہیں میں نے ہی اسے کہا تھا مجھے دبا دے۔
وہ بولیں یہ ''ماسی'' ہوتی ہی ایسی ہیں کسی گندی عورت کی اولاد
میں حیران تھی کہ ماسی کون ہے جس پر بیگم صاحبہ اتنا غصہ کر رہی ہیں۔ یہ لڑائی کافی دیر چلتی رہی آخر میں بیگم صاحبہ نے میرا سامان اٹھا کر میرے ہاتھ میں پکڑایا اور دروازہ کھول کر غصے سے بولی دفع ہو جاؤ یہاں سے ہمیشہ کے لئے۔
میں پریشانی کے عالم میں اپنا سامان پکڑے ان کے گھر کی سیڑھیاں اتر رہی تھی تو نیچے سے ان کا بیٹا سکول سے پڑھ کر واپس آ رہا تھا۔
مجھے دیکھ کر بولا شہزادی کہاں جا رہی ہو
میں نے کوئی جواب نہ دیا جب وہ میرے پاس سے گزر کر اوپر گیا تو میں نے پیچھے سے آواز دی
سنو! یہ ماسی کا کیا مطلب ہوتا ہے؟
وہ ہنس کر بولا تمھیں یہ بھی نہیں پتا، ماسی ماں کی بہن کو کہتے ہیں
میں بہت حیران تھی کہ کوئی اپنی ماں کی بہن کو گندی عورت کی اولاد کیوں کہے گا؟۔
شہزادی کے گھر میں نہ کچھ کھانے کو میسر تھا نہ کسی کے پاس پہننے کو تیسرا لباس تھا، دو کپڑے تھے سب باری باری دھو دھو کر وہی استمعال کرتے تھے۔
ایک دفعہ میں کسی گھر میں کام کرتی تھی جہاں سب لوگ کسی باہر کے ملک سے پاکستان واپس آئے تھے۔ ان کے گھر میں سب سے بڑے ان کے دادا جی تھے وہ بہت پڑھے لکھے انسان تھے اور خود بھی کتابیں لکھا کرتے تھے۔ میں جب پہلی بار کام کرنے ان کے گھر گئی تو ایک پیاری سی لڑکی نے دروازہ کھولا، مجھے دیکھ کر واپس مڑی اور بولی مما کام والی آ گئی ہے۔ میں اندر گئی تو دادا جی نے مجھے پیار سے دیکھ کر بلایا اور بولے بیٹا تمھیں فخر ہونا چاہیے کہ سب تمھیں ''کام والی'' کہہ کر بلاتے ہیں۔
(جاری ہے)
میں کچھ دن بخار کی وجہ سے کام کرنے نہیں گئی تو بی بی صاحبہ نے کہا کہ جتنے دن تم نہیں آؤ گی اتنے دن کی تنخواہ کٹا کرے گی۔ میں کچھ نہیں بولی اور کام کرنے لگ گئی۔ دادا جی اخبار پڑھتے ہوئے کسی کی طرف دیکھے بغیر بولے
کاش اس ملک کی سڑکوں پر جتنے دن پانی کھڑا رہتا ہے اتنے دن اس کے ذمہ دار ادارے کی تنخواہ بھی کاٹ لی جائے، جتنے دن بجلی نہیں آتی اس کے ذمہ دار ادارے اور حکمرانو ں کو بھی اتنے دن کے پیسے اور مراعا ت نہ ملیں۔ کاش جو سڑکوں پر کوڑا پھینکتے ہیں ان کے پورے گھر والوں کو بلا کر میڈیا کے سامنے ان سے کوڑا اٹھوایا جائے۔ کاش چوری، ڈکیتی اور رشوت کے بدلے ہم پولیس کے اعلی افسران کے مال اور اثاثوں میں سے عوام کا یہ نقصان پورا کرنا شروع کر دیں اور کاش کہ کاروباری افراد کی بڑھائی گئی قیمتوں کو انھیں کے خزانوں سے نکال کر عوام کا نقصان پورا کیا جائے۔۔۔
دادا جی خود سے باتیں کرتے تھے، گھر میں کوئی بھی ان کی بات نہ غور سے سنتا نہ جواب دیتا۔
دادا جی کی باتیں سنانے کے بعد اماں نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا پتر مزے کی بات بتاؤں میں جب بھی کسی کے گھر کام کرنے جاتی تو سب مجھے کہتے تھے
شہزادی، میرے جوتے صاف کر دو
شہزادی، میرے گندے کپڑے دھو دو
شہزادی، بچے نے پیشاب کر دیا ہے جگہ صاف کر دو
اور سب سے بڑھ کر شہزادی، میرے پاؤں دبا دو
تم سوچو کہاں شہزادی کہاں یہ کام
پتر مجھے تو شہزادی کا مطلب بھی نہیں پتہ تھا 13سال تک۔ تب میں ایک صاحب جی کے گھر کام کرتی تھی اور رہتی بھی وہیں تھی۔ ان کے گھر میں ایک کمرہ تھا جس میں گھر کا فالتو سامان پڑا ہوتا تھا رات کو وہیں میں بستر بچھا کر جاگتی تھی۔۔۔
جاگتی اس لئے تھی کہ ڈر کے مارے نیند ہی نہیں آتی تھی اکیلے، کبھی تھکن کے مارے آنکھ لگ جاتی تو ڈر کے اٹھ جاتی اور آہستہ آواز میں روتی تاکہ صبح بیگم صاحبہ سے ڈانٹ نہ پڑے۔
صاحب جی کا ایک بیٹا تھا نو سال کا، بہت شرارتی، وہ انگریزی سکول میں پڑھتا تھا اور مجھے انگریزی میں چیزوں کے نام بتا کر مجھ سے پوچھتا رہتا اور جب میں غلط بولتی تو وہ بہت ہنستا تھا لیکن صرف اسی کی وجہ سے میرا دل بھی لگا رہتا تھا۔
اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ تمھیں پتہ ہے تمھارے نام کا مطلب کیا ہے؟
میرے نہ کرنے پر اس نے مجھے شہزادی کا مطلب سمجھایا اور میں خود بھی حیران ہو گئی کہ میرے ماں باپ نے بھی کیا کمال نام رکھا ہے اس لڑکی کا جس نے زندگی بھر کبھی نیا لباس بھی نہیں پہنا۔
ایک دفعہ صاحب جی گھر پر اکیلے تھے تو مجھے بلا کر کہا کہ میرے پاؤں دبا دو بہت تھک گیا ہوں۔ میں کچھ دیر ان کے پاؤں دباتی رہی اور وہ ٹی وی دیکھتے رہے۔ پھر بولے پنڈلیاں بھی دبا دو۔ کچھ دیر بعد انہوں نے اپنی رانوں پر ہاتھ پھیر کر کہا کہ شہزادی تم تو بہت اچھا دباتی ہو ذرا یہاں بھی دباؤ۔ میں نے تعریف سن کر خوشی خوشی اپنے چھو ٹے چھو ٹے ہاتھوں سے صاحب جی کی رانوں کو دبانا شروع کر دیا۔
کچھ دیر بعد بیگم صاحبہ گھر میں داخل ہوئی تو ہمیں دیکھ کر غصے سے چلانا شروع کر دیا۔ وہ اونچا اونچا بولے جا رہی تھی مگر مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ ایسا کیوں کر رہی ہیں۔ صاحب جی بھی ان کو آہستہ بولنے اور چپ کر جانے کو کہہ رہے تھے مگر وہ اور زور سے بولتی جاتی تھیں۔ ایک دو دفعہ وہ میری طرف بڑھیں تو صاحب جی نے ان کے ہاتھ پکڑ لئے اور کہا اس سب میں اس کا کوئی قصور نہیں میں نے ہی اسے کہا تھا مجھے دبا دے۔
وہ بولیں یہ ''ماسی'' ہوتی ہی ایسی ہیں کسی گندی عورت کی اولاد
میں حیران تھی کہ ماسی کون ہے جس پر بیگم صاحبہ اتنا غصہ کر رہی ہیں۔ یہ لڑائی کافی دیر چلتی رہی آخر میں بیگم صاحبہ نے میرا سامان اٹھا کر میرے ہاتھ میں پکڑایا اور دروازہ کھول کر غصے سے بولی دفع ہو جاؤ یہاں سے ہمیشہ کے لئے۔
میں پریشانی کے عالم میں اپنا سامان پکڑے ان کے گھر کی سیڑھیاں اتر رہی تھی تو نیچے سے ان کا بیٹا سکول سے پڑھ کر واپس آ رہا تھا۔
مجھے دیکھ کر بولا شہزادی کہاں جا رہی ہو
میں نے کوئی جواب نہ دیا جب وہ میرے پاس سے گزر کر اوپر گیا تو میں نے پیچھے سے آواز دی
سنو! یہ ماسی کا کیا مطلب ہوتا ہے؟
وہ ہنس کر بولا تمھیں یہ بھی نہیں پتا، ماسی ماں کی بہن کو کہتے ہیں
میں بہت حیران تھی کہ کوئی اپنی ماں کی بہن کو گندی عورت کی اولاد کیوں کہے گا؟۔
Browse More Urdu Literature Articles
کتنے یگ بیت گئے
Kitne Yug Beet Gaye
پروین شاکر کی حادثاتی موت کی نامکمل تحقیقات
Parveen Shakir Ki Hadsati Maut Ki Namukammal Tehqiqat
جلتی ہوا کا گیت
Jalti Hawa Ka Geet
ماں اور پروین شاکر
Maan Aur Parveen Shakir
پروین شاکر کا رثائی شعور
Parveen Shakir Ka Rasai Shaoor
ریت
Rait
لا حاصل از خود
La Hasil Az Khud
فقیرن
Faqeeran
داستان عزم
Dastaan E Azm
محمد فاروق عزمی کا پرعزم اور پر تاثیر قلمی سفر
Mohammad Farooq Azmi Ka PurAzam Aur PurTaseer Qalmi Safar
حلیمہ خان کا تقسیم 1947 کے شہداء کو سلام
'Walking The Divide: A Tale Of A Journey Home'
جہیز
Jaheez
Urdu AdabAdab Nobal PraizPakistan K Soufi ShaairOverseas PakistaniMushairyInternational Adab
Arabic AdabGreek AdabBangal AdabRussian AdabFrench AdabGerman AdabEnglish AdabTurkish AdabJapanes AdabAfrican AdabEgyptian AdabPersian AdabAmerican Adab
National Adab
ApbeetiAfsanaMazmoonInterviewsAdab NewsBooks CommentsNovelLiterary MagazinesComics WritersAik Kitab Aik Mazmoon100 Azeem AadmiHakayaatSafarnamaKahawatainAlif Laila Wa LailaTaqseem E Hind