Madine Ka Shair - Maqbool Ahmad Shakir - Article No. 2507

Madine Ka Shair - Maqbool Ahmad Shakir

مدینے کاشاعر”مقبول احمدشاکر“ - تحریر نمبر 2507

نعت گوئی کوشاعری کانگینہ کہاجاتاہے یہ وہ نایاب نگینہ ہے کہ جس کو خالقِ ارض وسما نے جابجااپنے قرآن کریم میں جَڑاہے کسی انسان کے بس میں نہیں

Muhammad Sohaib Farooq محمد صہیب فاروق بدھ 24 مارچ 2021

نعت گوئی کوشاعری کانگینہ کہاجاتاہے یہ وہ نایاب نگینہ ہے کہ جس کو خالقِ ارض وسما نے جابجااپنے قرآن کریم میں جَڑاہے کسی انسان کے بس میں نہیں کہ وہ توصیفِ رسول ﷺ کا حق اداکرسکے البتہ یہ ایک سلسلةالذہب ہے کہ ہرعاشق رسول ﷺ مقدوربھراپنی عقیدت ومحبت کے محور آقاومولاشاہ مدینہ ﷺ کی خدمت اقدس میں عقیدت کے پھول پیش کرتاچلاآرہاہے نامورنعت گوشاعرحفیظ صدیقی مرحوم لکھتے ہیں کہ میں اس یقین کے ساتھ نعت لکھتا ہوں کہ حضورسرورکائنات ﷺکے ثناء خواں خوداللہ تعالی کی ذات اقدس کوبھی اچھے لگتے ہیں چنانچہ نعت لکھتے ہوئے میں اس تمناکی آبیاری کررہاہوتاہوں کہ میں خداوندکریم کواچھا لگوں وہ مجھے اس نظرسے دیکھیں جس نظرسے ثناء خوان محمدﷺکودیکھتے ہیں اورانہی کے بقدرمجھ سے دنیاوآخرت میں سلوک کریں، نعت گوئی کس قدرادب واحترام کی متقاضی ہے اس حوالہ سے برصغیرکے عظیم نعت گوشاعرعلامہ احمدرضاخان بریلوی مرحوم کا کہنا ہے کہ ” حقیقتا نعت شریف کہنابڑامشکل کام ہے جس کولوگوں نے آسان سمجھ لیاہے اس میں تلوارکی دھارپرچلناہے ،اگربڑھتا ہے توالوہیت میں پہنچ جاتاہے اورکمی کرتاہے توتنقیص ہوتی ہے ،البتہ حمدآسان ہے کہ اس میں صاف راستہ ہے جتناچاہے بڑھ سکتاہے،غرض حمدمیں اصلََاحدنہیں اورنعت شریف میں دونوں جانب حدبندی ہے“
معلوم ہواکہ نعت گوئی توبڑامشکل اورنازک موضوع ہے اس میں خودکوفناکردینے والے ہی حقیقی ثناء خوان رسول ﷺ کہلوانے کے حق دار ٹھہرتے ہیں ثناخوانی کووظیفہ حیات بنانے والے مقبول عقیدت مندوں میں سے ایک نیازمندنام جناب”مقبول احمدشاکر“کاہے جنہیں عشاق کبھی” مدینے کاشاعر“توکبھی” شاعرِاہل بیت “کے القابات سے نوازتے ہیں اس لئے کہ ان کے دل ودماغ اورقلم وقرطاس پرمحبت رسول وآل رسول ﷺ کے زمزموں کاسیل روا ں ہے جو تھمنے کانام نہیں لیتا،یہ سعادت ازل ہی سے ان کے مقدرمیں رکھ دی گئی تاہم حرمین شریفین کی یکے بعددیگرے حاضری نے مقبول احمد کوعنداللہ اورعندالرسول ﷺ ناصرف مقبول بلکہ شاکربھی بنادیا،اورپھریہ بھلا کیسے ممکن تھاکہ شاکرکودوسروں سے زیادہ نہ ملے لیکن یہ بھی عجب ماجرا ہے کہ شاکرنے سیم وزرکی دعانہیں مانگی بلکہ توفیق ثنائے خداو رسول ﷺ مانگی اوراسی کواوڑھنا بچھونا بناتے ہوئے یوں گویاہوا۔

(جاری ہے)


نہیں کام کوئی سوا نعت مجھ کو
میں دن رات اس میں بِتالکھ رہاہوں
مدینے کاشاعرمجھے سب ہیں کہتے
میں جب سے قصیدہ ہٰذا لکھ رہاہوں
مقبول احمدشاکرکی نعتیہ شاعری کواگرمیں منظوم سیرت نگاری سے تعبیرکروں تو زیادہ موزوں ہوگااس لیے کہ اس میں آمدِرسول ﷺسے وصالِ رسول ﷺتک حیات ِطیبہ کے ہرقابل رشک وتقلیدگوشہ کوعقیدت کے دلکش موتیوں سے پرویا گیاہے یہ قصیدہ ۶۰۰ سے زائد اشعارپرمشتمل ہے جبکہ ان دنوں وہ شان ِاہل بیت پرمشتمل قصیدہ بھی اسی محبت وعقیدت سے لکھ رہے ہیں وہ اپنی اس قصیدہ گوئی کے تعارف میں لکھتے ہیں کہ
بہ بفضل خدا ہے قصیدہ نبی کا
میں نسخہ اسے کیمیا لکھ رہاہوں
نہ تھی کچھ بھی توفیق ہرگزمجھے تو
سبھی کچھ خدا کادیالکھ رہاہوں
ہیں الفاظ سارے کھڑے ہاتھ باندھے
میں آقاکی جب سے ثناء لکھ رہاہوں
نبی محتشم ﷺ کی ولادت باسعادت کی سنہری گھڑی چاردانگ عالم کے لئے رحمت وبرکت کی ساعت تھی اس گھڑی کونرالے سویرے سے تعبیرکرتے ہوئے لکھتے ہیں
ولادت نبی کی نرالا سویرا
پھبالکھ رہاہوں سجا لکھ رہاہوں
نبی کریم ﷺ کے عظیم خانوادہ بنوہاشم کی بزرگی کے ناصرف عرب بلکہ عجم بھی معترف تھے آپﷺ جیسے اولوالعزم نبی ورسول کی بنوہاشم سے نسبت نے اسے مزیدعظمت بخشی ،
ہیں ہاشم کے پوتے قریشی نسب ہے
میں بچپن سے ان کوبڑالکھ رہاہوں
غزوہ احدمیں کفارکے اچانک حملہ سے جب لشکراسلام کچھ وقت کے لیے منتشرہوگیا توآ پﷺ اس وقت جواں مردی سے یہ کہتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جارہے تھے کہ میں اللہ کانبی ہوں جھوٹا نہیں ہوں اورمیں عبدالمطلب کا خون ہوں جو دشمن سے خوب پنجہ آزمائی کاتجربہ رکھتے ہیں ،شاعر نے آ پ علیہ السلام کے مدمقابل کوپانی کے بلبلے سے تشبیہ دے کرآ پ کی بے باکی کویوں بیان کیاہے
شجاعت نبی کی بیاں ہوتوکیسے
مقابل کومیں بلبلہ لکھ رہاہوں
جودوسخاآ پ علیہ السلام کا طرہ امتیازتھااس وقت تک چین نہ آتاتھاجب تک سب کچھ راہ خدامیں لوٹانہ دیتے شاعرنے آ پ کی سخاوت کوسمندرکی روانی سے تشبیہ دی ہے کہ جس طرح سمندرہرلمحہ حرکت میں رہتا ہے اسی طرح آپ کی جود وسخاکاسمندربھی حرکت میں رہتاہے
میں لکھنے لگاہوں سخاوت نبی کی
سمندرکوساتھی بٹھالکھ رہاہوں
ٍروضہ رسول ﷺ کے اندرآپﷺکے جسم اطہرکو مَس کرنے والی مٹی کے بارے محدثین کااتفاق ہے کہ وہ مٹی ساری کائنات کی مٹی سے افضل ہے اس لیے کہ اس کالمس رحمة للعالمین ﷺ سے ہے تولہذا جس شہرمیں آ پ کا وجودبامسعود موجود ہو وہ تو بدرجہ اولٰی سب سے بابرکت مقام کہلانے کے لائق ہے ،
وہ ہے زندگی جومدینے میں گزرے
بتا لکھ رہاہوں بتالکھ رہاہوں
آ پﷺ کی گفتار وکردارکی اللہ تعالی نے قرآن میں قسیں کھائی ہیں شاعرنے اس کے لیے بہت ہی خوبصورت تعبیر پیش کی ہے کہ۔

جوبولیں توبرکت جوچُپ ہوں تورحمت
صداقت کذا و کذا لکھ رہا ہوں
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میرے محبوب ﷺ اگراندھیرے میں مسکرادیتے توایسے اجالاہوجاتاگویا چودھویں رات کا چاند طلوع ہوگیاہو،شاعرنے نبی کریم ﷺ کے حلم وجمال کاتذکرہ کچھ اس طرح سے کیاہے کہ
جوچادربھی سِرکے توچھپ جائے سورج
میں کرنوں سے بنتی رِدا لکھ رہاہوں
قیصرو کسری کے بادشاہوں کے قاصدبھی جب آ ُپﷺ کی خدمت اقدس میں حاضرہوئے تواصحاب النبی ﷺ کی جنونی اتباع رسول پررشک کیے بغیرنہ رہ سکے اورپھران کے آقاؤں نے بھی یہ اعتراف کیا کہ محمدﷺ کے اصحاب جیسے باوفا ڈھونڈے نہیں ملتے شاعراسی کوبیان کرتاہے کہ
تھا آقاکافرماں جہاں جب بھی جیسے
صحابہ سبھی ہم نوا لکھ رہا ہوں
پیغمبرخداﷺ کا وظیفہ حیات ہی اعلائے کلمة اللہ تھا جس میں کئی مقامات پرہدایت سے محروم ازلی بدبختوں سے صف آراء وپنجہ آزما بھی ہوناپڑتا جس میں فاقہ کشی بھی آڑے نہ آتی یہی وجہ ہے کہ آ پ ﷺکے جسم اورگھروں پردفاع دین کے لئے شمشیر یں لٹکی رہتیں،
نہ تھے گھرمیں دودن کے دانے بھی ہرگز
سجاوٹ میں واں اسلحہ لکھ رہاہوں
مقبول احمد شاکرکی نعتیہ شاعری محبّت اہل بیت کے باب میں ٹھاٹھیں مارتی ہے ایک ایک شعراہل بیت کی محبت سے لبریزدکھائی دیتاہے داماد رسول ابوتراب رضی اللہ عنہ جگرگوشہ رسول زہرہ بتول رضی اللہ عنہ ،اما م عالی مقام سیدنا حسنین کریمین رضی اللہ عنہ کا تذکرہ ااس قدروالہانہ اندازمیں کرتے ہیں کہ گویابرسوں ان کی ہم نشینی اختیارکی ہو۔

نہ زہرا کے جیسی کبھی کوئی بیٹی
نہ ایسی کبھی مامتا لکھ رہاہوں
بچھائی ہے چادرجوزہراء کی خاطر
نئے طورکی ابتداء لکھ رہاہوں
نعت گوئی جیسے حسّاس موضوع پرزبان وقلم کوجنبش دیتے ہوئے ہرلمحہ اپنی کم مائیگی ودرماندگی سے شاعرمستغنی نہیں ہوتااوراسے عطائے خداوندی سمجھتے ہوئے سجدہ شکربجالاتاہے
خطاکار شاکرلکھتاہے نعتیں
اسے میں خداکی عطالکھ رہاہوں
ہومرتے دموں پرعطاکلمہ طیب
محمدرسول ۔
الٰہ لکھ رہاہوں
مقبول احمدشاکر کی نعتیہ شاعری بلاشبہ عشق رسول ﷺکے حقیقی جذبات کی آئینہ دارہے ان کانعتیہ کلام بالاجمال جس طرح سیرت النبی ﷺ کے مختلف پہلوؤں کااحاطہ کیے ہوئے ہے یہ ان کی سیرت خیرالانام سے خصوصی شغف کا پتہ دیتاہے ان کی نعتیہ شاعری کے ممتازوپرسوز ہونے کی ایک بڑی وجہ ان کااردوزبان وادب کی سہل اورزودفہم تراکیب کاکمال مہارت سے استعمال ہے مقبول احمدشاکرکاکلام محبت رسول ﷺواہل بیت رضی اللہ عنہ سے والہانہ وابستگی کے لیے مہمیزکادرجہ رکھتاہے۔

Browse More Urdu Literature Articles