Mard Bechara Mard - Article No. 2193

Mard Bechara Mard

مرد، بیچارہ مرد - تحریر نمبر 2193

مجھے آج معلوم ہوا کہ کل مردوں کا عالمی دن تھا۔ بڑی حیرت ہوئی مگر خوشی بھی کہ چلو مردوں کا دن بھی ہے۔عورت عورت عورت کا اتنا شور ہوتا ہے کہ مرد پر دھیان ہی نہیں جاتا

بدھ 20 نومبر 2019

صفورا خالد
انتباہ عام
( مردوں کے حوالے سے بات ہو رہی ہے تو یہاں مردوں سے مراد ہمارے معاشرے کے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے شریف اور حقوق و فرائض کی چکی میں پسنے والے مردوں سے لیا جائے پھر یقیناً آپ میرے ہر ایک لفظ سے اتفاق نہ بھی کریں مگر اسے دل کے کسی کونے سے تسلیم ضرور کریں گے)

مجھے آج معلوم ہوا کہ کل مردوں کا عالمی دن تھا۔
بڑی حیرت ہوئی مگر خوشی بھی کہ چلو مردوں کا دن بھی ہے۔عورت عورت عورت کا اتنا شور ہوتا ہے کہ مرد پر دھیان ہی نہیں جاتا۔۔۔(ویسے مرد خود ہی جب سارا دھیان عورتوں پر دیں گے تو ان پہ ویسے ہی دھیان نہیں جائے گا)۔مرد بھی عورتوں کے حقوق کی بات نظر آتے ہیں ( یہ وہ مجبورا کرتے ہیں یا دل سے یہ وہی بہتر جانتے ہیں مگر جہاں تک مجھے لگتا ہے وہ معاشرے کے معزز اور دانا لوگوں میں شمولیت کے لیے ایسا کرتے ہیں, کیونکہ دل ، احساسات، جذبات تو مرد بھی رکھتے ہی ہیں آج کے دور میں اسی کو انسان سمجھا جاتا ہے جو فیمنسٹ ہے )۔

(جاری ہے)

عورت مظلوم، عورت مضبوط، عورت دیوی، عورت حسین ( ہزار طرح کی کاسمیٹکس استعمال کر کے ، مرد کسی بھی قسم کے صابن سے منہ دھو کر یا تقریباً صرف پانی کے چند چھینٹے ہی منہ پر ڈال کر ہاتھوں سے بالوں کو سیٹ کر کے بھی حسین لگتا ہے تبھی تو حسینائیں دل لٹاتی ہیں مگر مرد کو شادر و نادر ہی خوبصورت کہا جاتا ہے اور کہا بھی جائے تو تعریف کا وہ معیار نہیں جو عورت کے لیے مختص ہے) مرد معصوم اس پر بھی راضی ہے۔
۔۔عورت قربانیاں دینے والی ( تقریبا ذبح مرد ہی ہوتا ہے مگر کون سوچے) کوئی عورت لڑکی منہ میں پانی بھر لانے والی پیسٹری کی طرح سج دھج کر نکلے اور ناچاہتے ہوئے بھی مردوں کی نظریں جم جائیں اس میں بھی قصوروار بیچارہ مرد ہی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر عزت کا لفظ بھی ہمارے معاشرے میں صرف عورت کی ذات تک محدود ہے مرد کا براہ راست اس کے کوئی تعلق نہیں وہ بیچارہ عزت بھی عورت کے نام کی ہی استعمال کر کے زندگی گزار دیتا ہے( بہرحال فائدہ ہی ہے اس میں مرد کا ، نہیں تو عزت کے نام پر ہونے والے قتل مرد ذات کو مٹا دیتے۔
پس ثابت ہوا بقا انسانی کے لیے مرد عورت کی عزت پر ہی گزارا کر لے)۔۔دنیا میں عورت کے حقوق کے نام پر بے تحاشہ تنظیمیں بنتی ہیں جو عورتوں کے لیے رنگ برنگے حقوق نکال نکال کر لاتی ہیں۔کسی بھی معاشرے کی بات کی جائے تو معاشرے کو تین طبقوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔۔ اپر کلاس، مڈل کلاس اور لوئر کلاس۔۔۔۔

اب ہوتا کچھ اس طرح ہے کہ موسٹ اپر کلاس کو وقت گزاری کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہے تو وہ لوئر کلاس کی عورت کو ہتھیار بناتے ہیں اور پھر تنظیمیں بنتی ہیں، شاندار پارٹیز، ڈنرز ہوتے ہیں، عورت حقوق کے بلز کے نکات تشکیل کیے جاتے ہیں اور بحث مباحثے اور کانفرنسز اور مارچ کے بعد وہ بلز منظور ہوتے ہیں۔
اور اعلی ترین درجہ کے لوگ ہر طرف سے مبارکیں اور نیک تمنائیں بٹورتے نظر آتے ہیں۔المیہ یہ کہ سارا کھیل جن ادنی درجے کے لوگوں خالصتاً عورتوں کے لیے رچایا جاتا ہے وہ اس سے بے خبر ہوتی ہیں۔آپ بھی رہے ہوں گے یہاں اس بات کا کیا ذکر مگر بڑا گہرا تعلق ہے ذرا ملاحظہ فرمائیں۔۔۔
تو لوئر کلاس کی عورت تو اس سب شغل سے بے خبر رہی۔مگر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی عورت بڑی سمجھدار پڑھی لکھی معاملات پر گہری نظر رکھنے والی( اگر تیز کا لفظ بھی استعمال کر لیں تو کوئی مضائقہ نہیں) ہے۔
وہ ان سب حالات و واقعات سے بخوبی واقف ہوتی ہے اور شامت آتی ہے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے مرد کی۔کیونکہ اسے کمانا بھی ہے گھر بھی چلانا ہے عزت بھی قائم رکھنی ہے بھرم بھی گھر میں سکون کا ضامن بھی وہی ہے اور خاندان میں معاشی طور پر ناک اونچی رکھنے کا ذمہ دار بھی وہی ہے اور اس کی بیوی سوشل میڈیا پر ایکٹیو بھی ہے اور دنیاوی معاملات پر گہری نظر رکھتی ہے اور عورت کے لیے بنائے گئے قانونوں سے بخوبی واقف ہے اور جب ضرورت پڑے یا ناں بھی پڑے وہ پل پل اپنے حقوق کا تزکرہ کرتی ہے کبھی آہستہ سے کبھی چیخ چلا کر اور کبھی دنیا کے سامنے آ کر آپ یوں کہہ لیں ہر ممکن ناممکن طریقے سے اظہار ہوتا رہتا ہے۔
دنیا کا اگر کوئی مظلوم ترین انسان ہے تو وہ ہے مڈل کلاس مرد۔۔۔

اپر کلاس کے ویلے لوگوں کے بنائے گئے اصول و قانون جو کہ لوئر کلاس کو سامنے رکھ کر بنائے جاتے ہیں۔اس بنے گئے جال میں بری طرح پھنسنے والا مڈل کلاس مرد ہوتا ہے جس کا اس سب سے بلواسطہ یا بلاواسطہ کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔اس کی تربیت کی گئی ہے کہ ماں باپ کا احترام کرو، بہن بھائیوں سے پیار اور اتفاق سے رہو کیونکہ اتفاق میں برکت ہے۔
۔بہنوں کا بہت خیال رکھو ان کو انکار تو کرنا ہی نہیں ہے۔۔اور پھر آ جاتی ہے بیوی جو بن کر تو دل کی رانی آتی ہے مگر رانی کے روپ میں ناگن ہوتی ہے۔بیچارہ تھکا ہارا کام کر کے باہر سے کچھ سکون کرنے گھر آتا ہے تو گھر کے دروازے سے داخل ہوتے ہی ماں کا پھولا منہ دیکھنے کو ملتا ہے (جس کے ساتھ بہو کی برائیوں دن بھر کی نافرمانیوں کی لسٹ اضافی ہوتی ہے) غریب ماں کو تسلیاں دے کر اپنا آپ مار کر ماں کے چہرے پر اطمینان لانے کی جدوجہد میں کسی حد تک کامیاب ہو کر جو کمرے کے دروازے تک پہنچتا ہے اور نہ جانے کتنے حسین خیالات جو سارا دن قطرہ قطرہ بنے ہوتے ہیں وہ دروازہ کھلتے ہی زوجہ محترمہ کی بسوری صورت کی نظر ہو جاتے ہیں۔
۔بیگم صاحبہ جہنم سے برآمد کردہ ایسا کھولتا پانی جذبات پر ڈالتی ہیں کہ تمام جھلس جاتے ہیں۔۔۔یہاں مرد خاموشی اور محبت سے معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کرے تو بھی پھنستا ہے اور احتجاج کرے اور جوابی کاروائی کرے پھر تو پھنسنا اس کا مقدر ہے ہی۔پر کلاس کی جانب سے بنائے گئے تمام اصول جو کہ بیوی کو کسی رٹو طوطے کی طرح یاد ہوتے ہیں وہ تمام تراخ کر کے ایک زناٹے دار تھپڑ کی طرح اس کے منہ پر رسید کیے جاتے ہیں۔


ماں باپ کی جانب سے کی گئی پرورش اور اپر کلاس کی جانب سے بنائے گئے عورتوں کے حقوق سے مل کر ایسی کھچڑی پکتی ہے جسے مڈل کلاس مرر نہ نگل سکتا ہے ناں اگل سکتا ہے۔۔لے دے کر مرد عورت کی عزت میں شراکت دار تھا مگر اب عورت اتنی سمجھدار ہو گئی ہے کہ اس نے عزت اپنی اپنی کا نعرہ بھی لگا ہی دیا ہے۔۔
مرد جتنا بے بس بھی کوئی ہے؟ ماں کی سنو، بیوی کی سنو، شادی شدہ بہنوں کی سنو، گھر رہنے والی بہنوں کی سنو، معاشرے کی سنو اور بیک وقت ان سب کا خیال بھی رکھو۔۔۔کبھی کوئی مرد کو بھی سنے کبھی کوئی اس کے دل کو بھی جھانکے، کبھی کوئی اس کو بھی رو کر دل کا بوجھ ہلکا کرنے دے۔۔۔
کبھی کوئی مرد کو بھی کہے
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

Browse More Urdu Literature Articles