Mard E Mujahid Jaag Zara - Article No. 2411

Mard E Mujahid Jaag Zara

"مرد مجاھد جاگ ذرا" - تحریر نمبر 2411

بارڈر سے لٹے پھٹے قافلوں کو گھاس منڈی میں ٹینٹس اور قناتیں لگا کر ٹھہرایا گیا تھا. ایک دو کیسز فوری زچگی کے تھے وہ قریبی محلے داروں کے ڈرائینگ رومز میں دائیوں کو بلوا کر بخیریت کروائیں تھیں

Arif Chishti عارف چشتی بدھ 12 اگست 2020

بارڈر سے لٹے پھٹے قافلوں کو گھاس منڈی میں ٹینٹس اور قناتیں لگا کر ٹھہرایا گیا تھا. ایک دو کیسز فوری زچگی کے تھے وہ قریبی محلے داروں کے ڈرائینگ رومز میں دائیوں کو بلوا کر بخیریت کروائیں تھیں. پورے علاقے میں محلہ وار امدادی ٹیمیں تشکیل دی گئیں تھیں اور گھر گھر سے روٹیاں، سالن، نقد چندہ، آٹا، چینی، دالیں، کپڑے اور جو کوئی ضرورت کی چیز دینا چاھتا تھا اکٹھی کرنا شروع کردیں.
کئی خواتین نے اپنے زیورات بیچ کر مدد کی تھی. مضبوط جسمانی کے کارکنوں نے محاذ پر جانے والے فوجی بھائیوں کے لئے بسکٹ، سگریٹ اور فروٹ کے کپڑے کے تھیلے بنا کر انکے رواں دواں فوجی ٹرکوں میں پھینکنا شروع کر دیئے تھے. فوج کے قافلے ھمارے گھر کے سامنے سے ھی گزر کر جاتے تھے. طرح طرح کی افواہیں بہت پھیل رھی تھیں، جس سے لوگوں میں خوف و ہراس بہت پھیل رھا تھا، اسلئے ملٹری فورسز کے ایم پیرز پل پل کی خبر دے رھے تھے.
صدر ایوب خان نے ریڈیو اور ٹی وی پر بہت ھی جذباتی تقریر کی تھی، کہ مکار بزدل دشمن ھندوستان نے پاکستان پر حملہ کر دیا ھے، اسلئے پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن جائے اور ڈٹ جائے. ریڈیو اور ٹی وی پر فلمی گانے اور دیگر تمام پروگرامز بند کرکے ترانے نشر ہونا شروع ھوگئے. مشہور زمانہ نیوز کاسٹر شکیل احمد نے اپنے مخصوص انداز میں محاذ جنگ کی خبروں کو پیش کیا کہ مردہ پاکستانیوں کی روحوں کو جگا دیا تھا.
تمام دوکان دار حضرات نے مختلف جگہوں پر کیمپز لگا کر امدادی سامان کے ڈھیر لگا دیئے تھے. فوجی بھائیوں کے لئے چائے کے سٹالز بھی لگا دیئے گئے تھے. ھمارا علاقہ کینٹ میں آتا تھا، اسلئے شہر سے ٹیمیں امدادی سامان لیکر ھم سے ھی رابطہ کرتی تھیں. تمام مساجد میں نمازیوں کا رش بڑھ گیا تھا، جس نے کبھی نماز نہ پڑھی ھوگی، وہ بھی پکا نمازی بن چکا تھا.
ھر کوئی اللہ تعالٰی سے گڑ گڑا کر دعائیں کر رھا تھا.
پاک آرمی نے کئی اونچے مقامات پر سائرنز نصب کر دیئے تھے، جیسے ھی الرٹ کرنے کے سائرنز بجتے تمام لوگ محفوظ جگہوں میں چلے جاتے یا وھیں لیٹ جاتے تھے. جب خطرہ ٹل جاتا تو مخصوص انداز میں سائرنز بجا دیا جاتا تھا، تو لوگ سکون کا سانس لیتے تھے.جیسے ھی رات ھوتی تمام محلے دار ھمارے گھر سے ملحق چھوٹی سی گلی میں قطار اندر قطار بلاتفریق چار پائیاں بچھا کر لیٹ جاتے تھے.
جیسے ھی سائرن ھوتا، سب مردو خواتین دیواروں کی اوٹ چلے جاتے تھے.اب تمام مصروفیات ختم ھوچکی تھیں. بس اب کام پہرہ داری اور مہجور لوگوں کی دیکھ بھال اور فوجی بھائیوں کی حوصلہ افزائی تھا. والد صاحب کا ملتان دوسال کے لئے تبادلہ ھو چکا تھا. چچا صاحب اور میرے سوا کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہ تھا. والدہ صاحبہ بیمار تھیں. ان پر بہت زیادہ خوف طاری تھا.
جسکی وجہ سے ھم بہت پریشان تھے. دوسری رات اچانک افواہ پھیل گئی کہ ھندوستان نے پیراشوٹرز کینٹ کے علاقوں میں اتار دیئے ھیں، اس لئے چوکس رھیں. اپنی شناخت کے لئے تمام علاقے کے کارکنوں نے اپنے محلے کے کوڈ نمبر بنا لئے تھے اور بآواز بلند بلیک آؤٹ میں اپنے کوڈ نمبر سے شناخت کرواتے تھے. پیراشوٹرز کے اترنے کی افواہ کے پھیلتے ھی جس جس کے پاس اسلحہ تھا، نے چھتوں پر چڑھ کر فائرنگ شروع کردی تھی.
چاروں طرف تڑ تڑ کی آوازوں سے ھر کوئی اتنا خوف زدہ ھوا کہ سمجھو کہ اب موت آئ. محاذ جنگ پر لڑنے والے فوجی بھی پریشان تھے، کہ شہری علاقوں میں فائرنگ کیوں ھو رھی تھی. ایم پیز نے تھانہ شمالی میں آکر مطلع کیا کہ کوئی پیراشوٹرز نہیں اترے کوئی فائرنگ نہ کرے. پرانے ائرپورٹ کی طرف رات گئے فائرنگ رکی تھی. مختلف مساجد اعلان کروا لوگوں کو مطلع کیا تھا.
اسی رات مشہور زمانہ رانی توپ نے ھندوستان پر آگ اگلنا شروع کر دی تھی. گھروں کی کھڑکیاں اور دروازوں کی چوکٹیں اکھڑ گئیں تھیں. پاکستانی آئیر فورسز کے سیبر جیٹس اور ایف - 110 نے اپنی کاروائیاں شروع کردی تھیں. تابڑ توڑ حملے اور دفاع جاری تھا. مغرب کے بعد رانی توپ کی گن گرج جاری ھو جاتی تھی اور فجر کی نماز تک جاری رھتی تھی.
مجاھد مرزا اور میں نے کنونشن مسلم لیگ کے ڈیوس روڈ پر بنائے گئے فوجی کیمپ میں رجسٹریشن کروا کر تصاویر اتروائیں، تاکہ فوجیوں کے ساتھ مل کر تعاون کیا جائے.اب ھم اور شہر سے آئے ہوئے درجنوں مجاھدوں کے ھمراہ روز صبح فوجیوں کے اسلحہ ڈپو جاتے تھے، جو میرے گھر کے پاس ھی تھا، وھاں سے رانی توپ کے گولے اور پیٹرول کے فوجی کنستر لاد کر ھڈیارہ بارڈر روانہ ھوتے تھے، لیکن حفاظتی نقطہ نظر سے ھمیں بارڈر سے پہلے خالی ٹرکوں میں واپس بھیج دیا جاتا تھا.
رات کو ٹوٹل بلیک آؤٹ کا اعلان ھو چکا تھا.اب ڈیفنس سیکورٹی کا محکمہ بھی تشکیل پا چکا تھا، جسکا ایک دفتر گھاس منڈی میں قائم کر دیا گیا تھا. V اور W طرز کی خندقیں کھودیں جا رھی تھیں تاکہ ھوائ حملہ کی صورت میں لوگ خندقوں میں چلے جائیں. علاقے کے زیادہ تر لوگ لاھور کی حدود سے باہر مقیم اپنے عزیزو اقارب کے ھاں منتقل ھونا بھی شروع ھو گئے تھے، کیونکہ رانی توپ کی گن گرج سے دل گردوں والوں کا پتا بھی پانی ھو جاتا تھا.
ھم تمام دوست مر گئے تو شہید ورنہ غازی کے جذبہ کے تحت بے فکر مصروف عمل تھے اور تمام لوگوں کی دعائیں لے رھے تھے. والدہ صاحبہ کی حالت نازک ھو رھی تھی، اسلئے سارے بہن بھائیوں اور چچا صاحب کی فیملیز کو تاندلیاں والا منتقل کرنے مجھے جانا پڑا. ٹرینوں پر رش اتنا تھا کہ اللہ تعالٰی کی پناہ. بڑی مشکل سے سب کو ٹرین میں سوار کروایا تھا. اسی دوران ھمارے ایف 110 کی لاھور اسٹیشن پر سے پرواز نے دل دھلا دیئے تھے.
دراصل ساؤنڈ بیرئر کے پھٹنے سے دل دھل جاتے تھے. عام لوگ تو اسے ھندوستان کے حملہ آور جہاز سمجھتے تھے اس لئے زیادہ ھی خوف زدہ ھو جاتے تھے، کہ اب وہ کسی جگہ بھی محفوظ نہیں رھے. سفر کے دوران بھی جہازوں کی آوازیں آتی رھیں، لیکن ٹوٹل بلیک آؤٹ کی وجہ سے معلوم نہ ھوتا تھا کہا پاکستانی یا ھندوستانی جہاز تھے. کئی مقامات پر ٹرین رک بھی جاتی تھی.
اللہ اللہ کرکے انکو تاندلیاں والا پہنچا کر اگلے روز لاھور واپس پہنچا، کیونکہ فوجی بھائیوں کی مدد بہت ضروری تھی.
آنٹی اور اس کی بیٹیوں کو بھی انکے ددھیال بھجوا دیا تھا. تاکہ اپنوں میں رہ کر حوصلہ افزائی ھوتی رھے.ھمیں بطور فوجی رضاکار معلوم ھو چکا تھا کہ ھندوستان نے ھڈیارہ بی آر بی برکی تک اور واھگہ بارڈر سے باٹا پور تک قبضہ کر لیا تھا اور ان کے ٹینکس بی آر بی کراس کرنے کے لئے دباؤ بڑھا رھے تھے. عزیز بھٹی جس پلاٹون کی قیادت کر رھے تھے، وہ برکی پل کو تباہ کرنے کی کوشش کر رھی تھی، تاکہ ھندوستان کے ٹینکس کراس نہ کر سکیں.
گھر میں، میں، دادی اماں اور چچا صاحب ھی رہ گئے تھے. چچا صاحب آفس چلے جاتے تھے اور میں امدادی سرگرمیوں میں مصروف ھو جاتا تھا. کئی دفعہ رات کو آپا مقصودہ راشد کی آنٹی جسکے دونوں بیٹے امریکہ منتقل ھو چکے تھے، کے ھاں انکی التجا پر رات گزارنا پڑتی تھی. وہ مجھ پر زیادہ اعتماد کرتے تھے اور مجھ سے مشاورت بھی کرتے رھتے تھے. آپا مقصودہ کی چھوٹی بہن جگت آنٹی انتہائی خاموش طبع، کم گو اور منکسر المزاج خاتون تھیں.
عموماً یہ ھی تبصرہ ھوتا تھا کہ وہ نفسیاتی مریضہ تھی. مجھ سے عموماً بڑی خوشدلی سے ملتی تھیں اور کسی نہ کسی بہانے بلا کر کوئی نہ کوئی کام کروا لیتی تھیں. عمر میں مجھ سے کم از کم دس سال تو بڑی ھونگیں. انکے رشتہ دار کم تھے اسلئے وہ کہیں منتقل نہ ھو سکے تھے. کبھی کبھی مجھے انکے گھر بھی رات گزارنا پڑتی تھی. ویسے تو رات پہرداری میں گزرتی تھی.
ایک روز آنٹی نے گالوں پر ھاتھ پھیر کر سوال کر دیا کہ تم مجھے بہت پیارے لگتے ھو، کیا میں بھی تمہیں پیاری لگتی ھوں. انکا انداز محبوبانہ تھا، جو بہت بڑا پیغام دے گیآ. تھوڑا سا جھٹکا تو لگا لیکن میں کوئی جواب نہ دے سکا تھا. پھر دوبارہ انکے گھر جانا ھی چھوڑ دیا کیونکہ میری دلچسپی کا انکو پہلے ھی معلوم تھا۔

(جاری ہے)

اب تو سب لوگ اٹھتے بیٹھتے ایک دوسرے سے معافیاں ھی مانگتے تھے، کہ نہ جانے کب موت آجائے.

ھندوستان کے جہاز راوی پل کو تباہ کرنے کے چکر میں تھے. لیکن ڈاگ فائٹ جاری رھتی تھی. ایک دن حسب معمول دوپہر کو میں نہا رھا تھا، کہ آسمان پر جہازوں کی فائرنگ جاری تھی. بھاگا بھاگا چھت پر گیا تو ایک جہاز کو شمال کی طرف دھواں چھوڑتے گرتے دیکھا. سب لوگ یہ نظارہ دیکھ رھے تھے اور نعرہ تکبیر بلند کر رھے تھے کہ ھندوستان کا جہاز مار گرایا تھا.
بعد میں جہاز کا ملبہ شمالی تھانہ لایا گیا تھا، جو کہ پاکستانی تھا اور عوام کو بچاتے بچاتے ھٹ ھو گیا تھا. حکومت کی طرف سے ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے بہت متنبہہ کیا جا رھا تھا کہ ھوائ حملے کی صورت میں خندقوں میں چلے جایا کریں، لیکن سب نظارہ دیکھنے کے لئے چھتوں پر چڑھ جاتے تھے.
رات کو تباہ شدہ ٹینکس، فوجی گاڑیاں اور شہید و زخمی فوجیوں کو سی ایچ ھسپتال منتقل کیا جاتا تھا.اس وقت کمانڈ جنرل سرفراز (ریٹائرڈ) کے پاس تھی اور عام بحث بھی ھوتی رھی کہ پاکستان کو بھارتی حملہ کا پیشگی علم کیوں نہ ھوا اگر تھا تو فوج کو پہلے ھی بارڈرز پر موجود ھونا چاھئے تھا.فوج اور پاکستانیوں کا حوصلہ افزائی کے لئے گلوکار نے بھی بہت رول ادا کیا تھا جس میں نورجہاں، مسعود رانا.
نسیم بیگم، مہدی حسن، عنایت حسین بھٹی کے نام قابل ذکر ھیں. نغمے اور ترانے لکھنے والوں نے بھی اٹھتے بیٹھتے اس جہاد میں شرکت کی تھی. لوگوں کو ھر وقت شکیل احمد کی خبروں کا انتظار رھتا تھا. بعض لوگ بی بی سی اردو لندن کی خبریں بھی سنا کرتے تھے. انکو اپنے پرانے آقا کی باتوں پر زیادہ یقین ھوتا تھا اور وہ ھی لوگ پراپیگنڈا کرنے میں پیش پیش ھوتے تھے.ھڈیارہ اور واھگہ بارڈرز پر ناکامی اور عزائم پورے نہ ھونے کے بعد ھندوستان نے ایک دوسرا محاذ سیالکوٹ کھول دیا.
اس وقت دنیا کی بڑی ترین ٹینکوں کی جنگ چونڈہ بارڈر پر پاکستان پر قبضہ کرنے کے لئے لڑی گئی تھی. ھمارے فوجی جوانوں نے ھندوستان کے ٹینکوں کے آگے جسموں سے بم باندھ کر ان کو اڑا دیا تھا، یعنی انکا بھڑکس نکال دیا تھا، کہ دنیائے جنگ کی ایسی بہادری کی کم ھی مثالیں ملتی ھونگیں. ستمبر 1965 کی جنگ سترہ دنوں تک جاری رھی تھی. اس جنگ میں ایم ایم عالم نے ایک ھی سیبر جیٹ کے حملے میں ھندوستان کے چار جہازوں کو تباہ کر دیا تھا.
لاھور کے محاذ پر برکی پل کو توڑ کر عزیز بھٹی شہید نے ھندوستان کی پیش قدمی روک رکھی تھی. آخر اپنی جان کا نذرانہ دیکر پاکستان کے دل لاھور کو بچا لیا تھا. جنگ بندی کے چند روز میں نے مجاھد مرزا اور اسکے بہنوئی کے ھمراہ اس ٹوٹے درخت پر عزیز بھٹی شہید کے خون کے نشان کا بھی مشاھدہ کیا تھا. جنگ ستمبر 1965 کی تفصیل بہت سی کتب میں موجود ہیں یہاں انکا ھی ذکر کیا گیا ھے جنکا مشاھدہ از خود کیا تھا.
جنگ بندی کا معاہدہ روس کی وساطت سے تاشقند میں طے پایا تھا.
اس وقت ھندوستان کے وزیراعظم لال بہادر شاستری تھے اور پاکستان کے صدر ایوب خان تھے. وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو جو ایوب خان کو ڈیڈی کہتے تھے نے کسی کمزور پہلو سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ھوئے بغاوت کردی اور الگ سے اپنا سیاسی کیریئر کا آغاز شروع کر دیا تھا. جنگ بندی کے بعد میں اپنے خاندان کے تمام افراد کو واپس لاھور لے آیا اور ھیلی کالج آف کامرس میں داخلہ کا منتظر تھا۔

Browse More Urdu Literature Articles