Maseeha - Article No. 2013

Maseeha

مسیحا - تحریر نمبر 2013

اس کے دماغ میں خیالات کا تانتا بندھا ہوا تھا، چہرہ بے رونق، بال منتشر اور آنسو آبشار کی مانند بہہ رہے تھے۔ آج تلخ ماضی کی یادیں اسے ناگ کی طرح ڈس رہی تھیں

محمد عبداللہ پیر 15 اپریل 2019

اس کے دماغ میں خیالات کا تانتا بندھا ہوا تھا، چہرہ بے رونق، بال منتشر اور آنسو آبشار کی مانند بہہ رہے تھے۔ آج تلخ ماضی کی یادیں اسے ناگ کی طرح ڈس رہی تھیں۔جب دنیا اس پر طنز کے تیر برسا کر اس کا کلیجہ چھلنی کرتی تھی کہ وہ کچھ نہیں کر سکتا اسے ٹریکٹر چلانا نہیں آتا ، وہ خاندانی روایات کے مطابق کسی کا گریبان پکڑ کراس کی آنکھوں میں آنکھیں نہیں ڈال سکتا، کسی مظلوم کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اس پر لرزا طاری ہوجاتا ہے، وہ کتابی کیڑا ہے، یہ کتابیں اسے کچھ نہیں دے سکتیں، اس کا باپ خاندان کی سانسوں کو قائم رکھنے کے لیے چند روپے بمشکل اکٹھا کرتا ہے ، وہ اس کی پڑھائی کا خرچ کیسے برداشت کرے گا۔
اس کڑے وقت میں ایک مسیحا نے اس کا ہاتھ پکڑا تھا۔اس کے خوابوں کے رستے زخموں پر تعبیر کا مرہم رکھا تھا۔

(جاری ہے)

اپنے مسیحا کی باتیںآ ج بھی اس کے دل پر نقش ہو چکی تھیں۔جب اس کے مسیحا نے کہا تھا ” تم ٹریکٹر کے ڈرائیور بننا چاہتے ہو۔ شوق سے بنو لیکن یاد رکھو ہمارے خاندان میں ڈرائیور بہت ہیں لیکن جہالت کی تاریکی میں علم کی شمع روشن کرنے والا کوئی نہیں۔

یاد رکھو! ایک وقت آئے گا جب یہی لوگ تمھاری کامیابی کی مثالیں دیں گے۔اپنے بچوں کو تمھارے نقش قدم پر چلنے کی تلقین کریں گے“۔وہ مسیحا کے پاس آنے والے سائلوں اور ضرورتمندوں کو غور سے دیکھا کرتا۔ ضرورت کے مارے لوگ مسیحا کے پاس آنے سے پہلے غم و اندوہ کی تصویر دکھائی دیتے لیکن مسیحا سے ملنے کے بعد ان کی ویران آنکھوں میں زندگی کی چمک اور ہونٹوں پر دعائیں ہوتیں۔
مسیحا حاجت مندوں سے کبھی نہ پوچھتا کہ وہ کہاں سے آئے ہیں اور کیا کام ہے بلکہ خاموشی سے سائل کی طرف دیکھتا رہتا۔سائل کی لسی اور روٹی سے تواضح کی جاتی۔ ایک بارتو حد ہو گئی جب مسیحا کا سب سے بڑا مخالف اور جانی دشمن ڈیرے پر اس سے ملنے آ یا تو مسیحا نے فوراً اس کے لیے کھانا لانے کا حکم دیا۔جب انہیں کہا گیا کہ یہ تو دشمن ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ میرا مہمان ہے اور اس وقت فریادی بن کر آیا ہے۔
انہوں نے نہ صرف دشمن کی خاطر تواضح کی بلکہ اس کی حاجت روائی بھی کی۔
آج وہ ایک کامیاب انسان تھا۔ اس کی کامیابی ایک مسیحا کی دلجوئی کا نتیجہ تھی۔دنیا میں خوشیوں کی بہار ایسے ہی لوگوں کی بدولت قائم و دائم ہے۔ ایسے لوگ پھلدار درخت کی مانند ہوتے ہیں۔دنیا ایسے درختوں کا پھل کھاتی ہے۔ اس کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھتی ہے اور پھر اس کو نفرت، بے اعتنائی اور ظلم کے کلہاڑے سے کاٹنا شروع کر دیتی ہے۔
مسیحا نے بھی ایک پھلدار درخت کی مانند یہ غم صبر وبرداشت کا پیکر بن کر سہے۔جن رشتہ داروں کی بنجر زمینیں بکوا کر انہیں زرخیز زمینوں کا مالک بنایا انہوں نے اسے بے ایمان کہا۔انہوں نے خاندان کے تمام زمینی و فوجداری مقدمات اکیلے نمٹائے، بے وقوف اور نا اہل بھائیوں کو ساری زندگی سینے سے لگائے رکھا۔دنیا کو کبھی پتہ نہ چلنے دیا کہ ان کے بھائی سیدھے سادھے اور نکمے ہیں۔
اگر کوئی مخالف بھائیوں کی شکائت لے کر آتا تو اپنے بھائیوں کو پیار سے سمجھاتے۔انہوں نے دو شادیاں کر رکھی تھیں لیکن دونوں بیویوں کی اولادوں میں محبت و الفت کی ایسی گرہ ڈالی کی دنیا ان کے پیار اور اتفاق کی مثالیں دیتے نہیں تھکتی۔وہ دوست احباب کی ضرورتیں ان کے چہرے سے ہی بھانپ لیتے تھے۔انہوں نے زندگی میں کبھی کسی سے بدلہ نہیں لیا۔
انہوں نے مرنے سے پہلے اپنے تمام دشمنوں کو بلا کر ان سے کردہ اور نا کردہ گناہوں کی معافی مانگی، تمام دنیاوی معاملات نمٹائے اور پٹواری کو بلا کر اپنی زمین اور جائیداد بچوں کے نام کروائی۔زندگی کے آخری ایام میں کینسرکی بدولت دل میں سخت درد ہوتا تھا ۔شائد دنیا بھر کے درد سمیٹتے سمیٹتے ان کا دل درد سے بھر گیا تھا لیکن مرنے سے پہلے شدید درد کے باوجود ان کے ہونٹوں پر ایک ملکوتی مسکراہٹ رقصاں رہتی تھی۔ آج خاندان، برادری اور علاقے کے مسائل کا عفریت دیکھ کر اسے مسیحا کی بہت یاد آئی۔وہ مسائل جو مسیحا کی بدولت ایک پنچائت میں حل ہو جاتے تھے۔آج ان مسائل پر بندوقیں نکال لی جاتی ہیں۔سچ کہتے ہیں کہ تپتی دھوپ میں ہی سایہ دار درخت کی قدر کا پتہ چلتا ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles