Masoom Bacha - Article No. 1292

Masoom Bacha

معصوم بچہ - تحریر نمبر 1292

منگل 25 اپریل 2017

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص ایک دن بازارمیں شاپنگ کی غرض سے نکلاتو ابھی کچھ ہی فاصلے پر گیااوراُس نے دیکھا کہ ایک بچہ جو دکاندار سے بحث کر رہا تھا۔ اس نے ہاتھ میں ایک گڑیا پکڑی ہوئی تھی اور کہہ رہا تھا کہ میرے پاس پورے پیسے ہیں مجھے گڑیا دیدو۔ دکاندار اس کو بول رہا تھا کہ تمہارے پاس پیسے کم ہیں۔ بچہ ایک دم میری جانب مڑا اور مجھ سے بولا : انکل آپ میرے پیسے گنیں پلیز اور بتائیں کیا واقعی میرے پاس کم پیسے ہیں۔
میں نے گنے تو کم تھے ، میں نے بولا کہ جی بیٹا یہ پیسے گڑیا لینے کے لیے نا کافی ہیں۔ بچے کی آنکھیں ویران ہو گئیں۔ میں نے پوچھا کہ بیٹا آپ تو لڑکے ہو یہ گڑیا کس کے لیے لینی تھی۔ بولا کہ انکل میری بہن فوت ہو گئی ہے ۔ جسے یہ گڑیا بہت پسند تھی میں نے اس کو دینی تھی۔

(جاری ہے)

میری ماما میری بہن کے پاس جانے والی ہیں میں نے سوچا کہ اپنے ساتھ میری بہن کے لیے یہ تحفہ لے جائیں گی۔

وہ خوش ہو جائے گی۔ میرا دل بھر آیا۔ میں نے بچے سے چھپ کر اس کے پیسوں میں اپنے پیسے ڈال دیے اور اس کو بولا کہ ذرا گنو تو سہی۔اس نے گنے تو کچھ پیسے ذیادہ تھے اور وہ با آسانی ان سے گڑیا کے علاوہ بھی کچھ بھی خرید سکتا تھا۔
اس کا چہرہ جگمگا اٹھا اور وہ خوش ہو گیا۔ بولا میرا بالکل دل نہیں کرتا کہ ماما مجھے چھوڑ کر جائیں لیکن ابو کہتے ہیں کہ میری چھوٹی بہن اوپر آسمان میں اکیلی ہے اور اس کو ماما کی زیادہ ضرورت ہے ۔
اس لیے میں نے کل رات کو اللہ سے دعا مانگی تھی کہ مجھے گڑیا لینے کے لیے پیسے دیدے اور میرا دل کرتا ہے ماما کے لیے بھی ایک سفید گلاب لے لوں۔ان کو بہت اچھے لگتے تھے ۔ پر میں نے صرف گڑیا کے لیے دعا کی تھی کیونکہ ایک دن میں اتنا کچھ کیسے مل سکتا ہے ۔ بچے کی معصوم درد بھی کہانی سن کر میں تو بلکل گم صم ہو گیا۔ بھلا کس سٹیٹ آف ما ینڈ میں شاپنگ کے لیے نکلا تھا اور اب دماغ تھا کہ مسلسل اسی بچے کا خیال ستا رہا تھا۔
ایک دم مجھے یاد آیا کہ کل کے اخبار میں میں نے یہ خبر پڑ ھی تھی کہ ایک شرابی ٹرک ڈرائیور نے ایک گاڑی ٹھونک دی تھی جس میں ایک عورت اور اس کی نو نہال بیٹی موجود تھی ۔ ماں کی حالت تشویشناک تھی اور بیٹی جائے وقوعہ پر ہی دم توڑ گئی تھی۔ ماں زندہ تھی پر کومہ میں تھی۔ مجھے بہت دکھ ہوا میں سمجھ گیا کہ بچہ بلکل سچ بول رہا تھا۔ دو دن وہ بچہ ہر وقت میرے ذہن پر سوار رہا۔
میں نے اخبار اٹھایا تو پڑھا کہ اس عورت کا کومے سے باہر نکلنا نا ممکن تھا تو اس کے شوہر نے فیصلہ کیا کہ اس کو مشین سے ہٹا کر دردناک زندگی کی قید سے آزاد کر دیا جائے ۔ عورت وفات پاگئی تھی میرا دل ڈوب گیا۔ کہیں چین نہیں آرہا تھا، مسلسل وہی بچہ، اس کی معصومیت دماغ میں گھوم رہی تھی میں اٹھا اور گھر سے باہر نکل آیا۔
بازار سے سفید گلابوں کا ایک گلدستہ لیا اور بچے کے گھر روانہ ہو گیا۔
جا کر دیکھا تو عورت کی لاش تابوت میں پڑی تھی اور اس کی ڈیڈ باڈی کے ہاتھ میں وہی گڑیا اور ایک سفید گلاب کا پھول تھے ۔ میرا دل خون کے آنسو رونے لگا۔ عورت کی ہاتھ میں اسی بچے کی ایک تصویر تھی جس میں وہ کھلکھلا کرہنس رہا تھا۔ مجھے بہت افسوس ہوا، ایک غیر ذمہ دار ڈرائیور نے ایک ہنستا بستا گھر اجاڑ دیا اور مجھے رہ رہ کر خیال آرہا تھا کہ وہ معصوم بچہ اپنی ماں اور بہن سے کتنا پیار کرتا ہے۔
ایک آدمی کی بے حسی نے کس طرح اس بچے کی زندگی برباد کر دی ایک حادثے نے اس کو اکیلا کر دیا۔ ہمیشہ اصولوں اور قوانین کی پابندی کرنی چاہیے ہے ۔ کبھی کسی کا بھلا نہیں کر سکتے تو اس کو دکھ اور تکلیف تو نہ دو۔ اپنی کی ہوئی غلطیوں کی سزا بذات خود ہی برداشت کرنی چاہیے نا کہ کسی اور پر اس کا بوجھ ڈال دو۔ ایک شخص کی نادانی سے کیسے پورے گھر کی خوشیاں لٹ گئی۔ کبھی کسی کا ایسا نقصان نہ کرو جس کا ازالہ تمہارے بس میں نہ ہو۔ دینے والا ہاتھ ہمیشہ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles