Matlab K Rishtay - Article No. 1146

Matlab K Rishtay

مطلب کے رشتے - تحریر نمبر 1146

جس بھائی کیلئے جوانی برباد کی وہ میرے قتل پر آمادہ ہوگیا

جمعرات 12 جنوری 2017

تسنیم حامد صدیقی :
موجودہ دور خود پر ستی کا زمانہ ہے ، زیادہ ترلوگ خدا کی مخلوق سے زیادہ دولت اور جائیداد سے محبت کرنے میں مصروف ہیں۔ یہی ہماری موجودہ بربادی اور پریشانیوں کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔ آئے دن اخبارات میں ایسی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ بھائی نے بہن کو جائیداد کی خاطر موت کی وادی میں اُتار دیا حالانکہ بہنیں اپنے بھائیوں کی خاطر جان تک دینے کو تیار رہتی ہیں۔
یہ بھی ایسی ہی ایک بہن کی کہانی جو آج کل کراچی میں پرسکون زندگی گزاررہی ہے۔ میں یہ کہانی انکی زبانی تحریر کررہا ہوں ۔
میرا نام ثنا ہے ، میرے والدین ایک حادثے میں اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے تھے کیونکہ والد صاحب کو شاید آنے والے وقت کا پتہ چل گیا تھا۔ کہتے ہیں جب انسان کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو بڑے سے بڑا فیصلہ زندگی میں ہی کرلیتا ہے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ مکان جو مزنگ میں تھا میرے نام کردیاتھا۔ بھائی چھوٹا تھا، میں نے بی ایڈکیا ہوا تھا، بھائی دسویں جماعت میں تھا۔ جب والدین اس دنیا فانی سے رخصت ہوئے تھے میں نے ساری توجہ اپنے بھائی کو دی، اسکو تعلیم دلوائی اور اچھی سی پرائیوٹ کمپنی میں اس کو ملازمت دلوائی ۔ ایک دن بھائی نے مجھ سے کہا” باجی اب میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا ہوں ، آپ شادی کرلیں ۔

نہیں پہلے میں اپنے بھائی کی شادی کردنگی ‘ یہ میری ضد ہے ۔ میں نے جواب دیا۔
میری بچپن کی سہیلی فرخندہ جس کومیں بھائی کے بعد چھوٹی بہن تصور کرتی تھی ، اسکواپنی بھابی بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے والدین کو کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔ فرخندہ میری بھابی بن کرہمارے گھر آئی تو میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ” فرخندہ میری سہیلی بن کررہنا بھابی نہ بن جانا۔
شروع شروع میں اس کا رویہ بہت اچھا رہا لیکن آہستہ آہستہ وہ ہم بھائی بہن کے مضبوط تعلق سے حسد کرنے لگی ۔ بھائی دفترسے آتے ہی میرے کمرے میں آتا جو فرخندہ کو آہستہ آہستہ وہ ہم بھائی بہن کے مضبوط تعلق سے حسد کرنے لگی ۔ بھائی دفتر سے آتے ہی میرے کمرے میںآ تا جو فرخندہ کو آہستہ آہستہ برا لگنے لگا۔ اور پھر وہ بھائی جو میرے اوپر جان دینے کوتیار رہتاتھا فرخندہ کی زلفوں کا اسیربن کررہ گیا۔
کئی کئی دن اس کی شکل دیکھنے کو ترس جاتی ۔ وقت گزرنا گیا۔ فرخندہ نے بھائی کو اکسایا کہ یہ مکان ثنا سے اپنے نام ٹرانسفر کرالو، اگر اسکی شادی ہوگئی تو یہ مکان اسکے شوہرکی ملکیت بن جائے گا۔لیکن میں نے صاف انکار کردیا۔
اگراس گھر میں میری تھوڑی بہت عزت تھی تو صرف اس لئے کہ یہ مکان میرے نام تھا۔ میرے اس فیصلے سے انہوں نے میرے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک شروع کردیا۔

ایک روز میں تنخواہ لیکر کچھ شاپنگ کرکے رات کودیر سے آئی تو مجھے اپنے کانوں پر اعتبار نہ آیا۔ فرخندہ اپنے شوہر سے کہہ رہی تھی ” جاوید ثناء کسی صورت میں یہ مکان ہمارے نام کرنے کو راضی نہیں ہے ․․․ ․بس ایک صورت ہے وہ یہ کہ ہم اس کوراستے سے ہمیشہ کیلئے دور کردیں ! کیا مطلب ؟ بھائی بولا۔ صبح میں چائے میں اس کو زہرڈال کردے دونگی اور مشہور کردیں گے کہ شادی نہ ہونے کی وجہ سے تحریر کردونگی ، اسکے دستخط کرنے مجھے بخوبی آتے ہیں۔
اس بھائی نے جس کی خاطر میری اپنی شادی کی عمر گزرگئی، اس نے میرے قتل کے فیصلے کی توثیق کردی ․․․․․․ اف میرے خدایا! کہتے ہیں جب پریشانی آتی ہے تو ہر طرف سے آتی ہے۔ میں نے راتوں رات اس گھر کو چھوڑنے کافیصلہ کرلیا۔ مکان کے کاغذات ، کچھ نقدی ، کپڑے لیکر تیار تھی کہ طوفانی بارش شروع ہوگئی ۔ بارش رکنے کانام نہیں لے رہی تھی اور رات تیزی سے گزررہی تھی ۔
خدا کرکے بارش تھم گئی تو صبح کی اذانیں ہورہی تھیں ۔ میں خاموشی سے بیگ لیکر ریلوے سٹیشن پر آگئی ۔ میراارادہ کراچی جانے کاتھا جہاں میری دور کی خالہ رہتی تھیں۔ پلیٹ فارم مسافروں سے کھچا کھچ بھرا ہواتھا۔ قلی مجھے بلیک میں ٹکٹ دینے کی کوشش کررہاتھا کہ ایک صاحب جو اعلیٰ لباس میں ملبوس تھے کہنے لگے ” محترمہ ! سنیں آپ اکیلی سفر کررہی ہیں ؟ جی ہاں “ میں نے مختصر ساجواب دیا۔
میرے ایک دوست نے میرے ساتھ جاناتھا ، وہ کسی مجبوری کے تحت نہیں جارہا ، ایک سیٹ خالی ہے اگر آپ جاناچاہیں تو میرے سفر کرسکتی ہیں، آپ مجھ پر مکمل اعتماد کرسکتی ہیں۔ ہم دونوں سلیپر میں اکیلے تھے لیکن ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جوخدا کی مخلوق سے محبت کرتے ہیں، سارے راستے انہوں نے مجھ سے کوئی ایسی ویسی بات نہیں کی۔ ہم لوگ کراچی پہنچ گئے تو باہر ڈرائیورگاڑی لیکر آیا ہواتھا۔
پہلے انہوں نے مجھے لانڈھی ڈراپ کیا اورجاتی دفعہ اپنا ورننگ کارڈ مجھے دیکر بولے ” محترمہ! اگر میں آپکے کسی کام آجاؤں تو میری بہت بڑی خوش قسمتی ہوگی ۔ خالہ کے حالات بھی زیادہ اچھے نہیں تھے ۔ مجبوراََ مجھے ملازمت کیلئے بھاگ دوڑ کرنی پڑی مگر غیر شہر جہاں ہر کسی سے جان پہچان نہیں تھی، مجھے کہیں ملازمت نہیں ملی اور پھر قدم خودبخود ان صاحب کے پتے کی طرف اٹھ گئے ۔
وہ ایک بہت بڑی بیکری کے مالک تھے ۔ مجھے انہوں نے فوراََ ملازمت بھی دیدی اور میرے لئے ایک فلیٹ رہنے کیلئے دیدیا ۔ پھر ایک دن وہ میرے پاس آئے اوربولے ” ثنا کب تک اکیلی زندگی بسرکرو گی، تم شادی کرلو، کوئی زبردستی نہیں ہے۔
مجھے بھی اس عمر میں سہارے کی ضرورت تھی ۔ میں نے بخوشی رشتہ قبول کرلیا اور انکی دلہن بن کرانکے گھر آگئی ۔ گھر کیا تھا․․․․․․ محل تھااور اب جبکہ وہ میرے شوہر بن چکے تھے تو میں نے اپنی ساری کہانی ان کو سنائی ۔
انہوں نے کہا ” تمہیں اپنے حق کیلئے ضرور لڑنا چاہئے ، لاہور میں میرے ایک دوست جو ماڈل ٹاؤن میں رہتے ہیں بہت تجربہ کاروکیل ہیں، انکا نام راشد بخاری ہے وہ تمہاری مدد کرینگے ۔
اپنی بچپن کی سہیلی اور بھائی کورشتے کی اہمیت کا احساس دالنے کیلئے میں لاہور آکر ایک عالیشان ہوٹل میں ٹھہری اور پھروکیل صاحب کی مدد سے کیس کردیا۔ میرا بھائی بھی ہرپیشی پرآتا تھا․․․․․․ شرمندہ شرمندہ ! لیکن میں نے اس سے کوئی بات نہیں کی ۔
عدالت نے فیصلہ دیا کہ اس مکان کی قانونی طور پر وارث ثناء بٹ صاحبہ ہیں لہٰذایہ عدالت فراڈ کے ذریعے جعلی مختار نامہ تیار کرنے مکان پر قبضہ کرنے اورثناء بٹ جعلی ڈیتھ سیٹفکیٹ پیش کرنے پر بھائی اور بھابھی کے خلاف مقدمہ درج کرنے اور فوری طور پر مکان بمعہ سامان قرق کرنے کاحکم جاری کرتی ہے پھر میں وکیل صاحب اور سرکاری اہلکار کے ساتھ مکان کا قبضہ لینے پہنچی توبھابی فرخندہ بھائی جاوید اور انکی بچی جوتین سال کی ہوچکی تھی ․․․․․ باہر کھڑے تھے۔
بھائی بولا باجی ! میں معافی تو مانگ نہیں سکتا لیکن خدایا مرحوم والدین کے صدقے اگرہوسکے تواپنے گنہگار بھائی کو معاف کردینا ، یہ رہی آپکے گھر کی چابیاں !
بچی بولی ” آنٹی اب ہم لوگ کہاں رہیں گے ، ہمارے ابوکی تواتنی تنخواہ بھی نہیں کہ کرایہ کامکان لے سکیں۔ میں نے بچی کو گود میں اٹھایااور دیوانہ وار پیار کرتے ہوئے کہا” میری بیٹی ! تمہیں کوئی بے گھر نہیں کرسکتا ، یہ لوچابیاں ․․․․․․ آج سے اس گھر کی مالکن میری پیاری بیٹی نازیہ ہے ۔ میں نے روتے ہوئے دیوانہ وار اسے پیار کیااور چابیاں اس کے حوالے کردیں․․․․․․ اور پھر میں واپس کراچی آگئی۔

Browse More Urdu Literature Articles