Nine Wali Dine - Article No. 2329

Nine Wali Dine

نائن والی ڈائن - تحریر نمبر 2329

جب کوئی عورت سات ماہ تک نہانے دھونے اور صفائی ستھرائی سے کنی کترائے تو ڈائن بن جاتی ہے!۔ ۔۔ شمشو چچابولتے بولتے رُک گئے۔۔۔اُس کے گرد بیٹھے ،ہم سب بچوں نے یک زبان ہوکر پوچھا۔۔ کیوں شمشو چچا؟

وسیم خان عابد جمعہ 8 مئی 2020

نوٹ:کہانی کے تمام کردار اور واقعات فرضی ہیں کسی قسم کی مطابقت محض اتفاقیہ ہوگی۔
جب کوئی عورت سات ماہ تک نہانے دھونے اور صفائی ستھرائی سے کنی کترائے تو ڈائن بن جاتی ہے!۔ ۔۔ شمشو چچابولتے بولتے رُک گئے۔۔۔اُس کے گرد بیٹھے ،ہم سب بچوں نے یک زبان ہوکر پوچھا۔۔ کیوں شمشو چچا؟ ۔۔۔ شمشو چچا کچھ دیر کے لیے خاموش ،اُپلوں کی راکھ ،کسی انگارے کی تلاش میں کریدتے رہے اور جب اُسے چھوٹا سا انگارا مل گیا تو ، اپنا ایک ہاتھ اُس کے اوپر لے جاکر اُس سے حرارت جذب کرنے لگے اورپھر ہماری طرف متوجہ ہوکر بولے۔
۔ بچو! ۔۔ وہ ڈائن اِس لیے بن جاتی ہے ،کیونکہ اُس میں شیطانی طاقتیں آجاتی ہیں۔۔۔ پھر وہ مردوں اور لڑکوں کو کھا جاتی ہے۔۔۔!!۔۔۔ہم بجھی ہوئی آگ کے گردخوف کی وجہ سے دائرہ آہستہ آہستہ تنگ کر رہے تھے۔

(جاری ہے)

۔۔ حالانکہ ہمیں شیطانی طاقتوں کا مطلب بالکل بھی معلوم نہیں تھا۔۔۔ ہم خوفزدہ تھے اورباہر ہوا کی ہلکی سی سرسراہٹ بھی ہمارے رونگٹے کھڑے کر دیتی ۔

۔۔لیکن شمشو چچا سے کہانی میں سوالات بھی پوچھتے رہتے۔ہم کہانی سننے کے لیے شمشو چچا کے قریب سرک رہے تھے اور جو بچہ چچاکے گھٹنے کے ساتھ لگ کربیٹھ جاتا، خود کو بلاؤں سے محفوظ تصور کرتا۔
شمشو چچاہمارے دور کے رشتہ دار تھے ۔اُن کا گھر بار، بیوی ،بچے کچھ بھی نہیں تھا۔گھر والوں سے سنتے تھے کہ: شمشو چچا ،جسے دنیا شمشیر خان کے نام سے جانتی تھی، ایک بہادر اور دولت مند شخص تھا اور دادا جی کے بچپن کا دوست ۔
شمشیر نے شادی بھی کی تھی اور ایک بیٹا بھی تھا،لیکن اُس کی ایک لت ایسی تھی جس نے اُس کی زندگی برباد کردی ۔۔اور وہ تھی، جوئے کی لت!۔۔۔ شمشیر کو جوئے کا ایسا نشہ چڑھا تھا، کہ زمینیں جائیداد ، حتیٰ کہ آبائی گھر بھی جوئے میں ہار گیا۔بیٹا چھوٹی ہی عمر میں نمونیا کا شکار ہوکر مر گیا اور بیوی کو یہ کہہ کر طلاق دے دی کہ: مجھ کنگلے کے ساتھ اپنی باقی زندگی برباد مت کر۔
۔!
شمشو چچا کو ہم نے جھکی ہوئی کمر اور ایک بڑی لاٹھی ٹیکتے ،ہمارے حجر ے میں ایک کمزور بزرگ کی شکل میں دیکھا ۔ جہاں اسے تین وقت کا کھانا مہیا کیا جاتا اور اُس کی موجودگی کی وجہ سے حجرہ چوبیس گھنٹے کھلا رہتا ۔ شام کے کھانے اور عشاء کی نماز کے بعد بچے شمشو چچا کے گرد بیٹھ جاتے اور اُس سے مختلف واقعات کہانیوں کی شکل میں سنتے۔ وہ چھوٹی سی بات کو بہت لمبا کھینچتا ، اور تجسس بھرے لمحات میں پانی پینے، نسوار رکھنے اور نسوار تھوک کر پانی کی کلیاں کرنے لگ جاتا اور ہم بچے ۔
۔۔اب اِس کے بعد کیا ہوگا؟۔۔۔ کے تجسس میں مبتلا ہوکر اُس کے الفاظ کا انتظار کرتے۔
شمشو چچا پھر سے گویا ہوئے۔۔ بچو! یہ ساتھ والے ادریس میاں کو جانتے ہو ۔۔نا! ۔۔اس کی دادی ڈائن تھی!!۔۔۔ (ادریس ہمارے پڑوس میں رہنے والا ملنسار شخص تھا، جو گرلز سکول میں چپراسی تھا)۔۔۔ شمشو چچا نے پانی کا گھونٹ حلق سے اُتارتے ہوئے کہا:اُس زمانے میں ، میں جوان تھا۔
میرے نیفے میں ہر وقت آبدار خنجررہتا تھا،جو اتنا تیز تھا،کہ ہڈی تک چیر سکتا تھا!۔۔لوگ میرے سامنے بات کرتے ہوئے بھی ڈر تے تھے۔ ۔۔ لیکن ادریس کا دادا بڑا ڈرپوک تھا۔۔۔ اُسے شک پڑ گیا تھا کہ اُس کی بیوی کے ساتھ کچھ مسئلہ ہے کیونکہ دن کے وقت اُس کی بیوی سر کے گرد ایک کپڑا لپیٹ کرلیٹ جاتی اور سر درد کا بہانہ کرکے سارا دن سوئی رہتی ۔ لیکن سرِ شام اُس کا جسم توانائی سے بھر جاتا۔
بچو!۔۔۔ اُس وقت ہمارے علاقوں میں بجلی نہیں تھی، اس لیے کھانا کھانے کے لیے دیے جلائے جاتے اورکھانا کھانے کے بعد بجھا دیے جاتے کیونکہ اکثریت غریب کسانوں کی تھی جو ساری رات دیا جلانے کا تیل بھی خریدنے سے قاصر تھے۔ ادریس کا دا دا نائی تھا اور دن بھر لوگوں کی حجامتیں کرکے شام کو جلدی سو جاتا۔ ادریس کی دادی جلدی جلدی بچوں کو سلا دیتی اورگھر کے سامنے کوڑے کے بڑے ڈھیر پر کھڑی ہو جاتی جہاں چیونٹیوں نے زمین کھود کر مسکن بنایا تھا۔
وہ اپنا لباس اُس غلاظت کے ڈھیر پر پھینکتی، اُس کے بال سیدھے کھڑے ہوجاتے اور چہرہ تبدیل ہوکر کسی درندے کی شکل اختیار کر لیتا۔ وہ ہوا کی رفتار سے بھاگ کر کہیں غائب ہوجاتی۔ اُن دِنوں علاقے میں کافی خوف ہراس تھا اور گاؤں کے سب لوگوں نے اُس طرف جانا ترک کر دیا تھا۔ کچھ لوگوں نے ڈائنوں کو ایک جُھنڈ کی شکل میں بھی دیکھا تھا،اور گمان یہی تھا کہ یہ کسی دوسرے علاقے سے آئی ہوئی ڈائنیں ہیں جو آپس میں جُھنڈ بنا کرساری رات آوارہ گردی کرتی ہیں۔
ادریس کے دادا نے محلے والوں سے بات کی اورپیر صاحب کو ساری رودارالف تا یے سنادی۔پیر صاحب کے مشورے سے گاؤں کے چند جوان منتخب کیے گئے ،جن میں سے ایک میں بھی تھا۔ ہمیں پیر صاحب نے بتا دیا کہ جب تک اس عورت کی حالت تبدیل نہیں ہوتی اُس وقت تک ہم اُسے ٹھیک نہیں کرسکتے ،لیکن جب اُس کی حالت غیر ہوجاتی ہے، تووہ اتنی طاقتور اور خوفناک ہوجاتی ہے کہ انسان اُسکا چہرہ دیکھنے پرہی ہوش کھو دیتا ہے۔
اسی لیے پیر صاحب نے گاؤں کے اُن بہادروں کو چُنا ، جنھیں یقین تھا کہ ڈائن کا سامنا کر تے ہوئے اُن کے دل مضبوط رہیں گے۔
اُس شام ہم نو لڑکے ڈائن کے گھر کے سامنے سرکنڈوں میں چھُپ کر بیٹھ گئے اور گھر پر نظر رکھنے لگے۔ پیر صاحب نے ہمیں کچھ رسیاں دم کرکے دی تھیں اور ایک سفید لمبا چوڑا کپڑا بھی دیا تھا۔ میں ڈرتا تو نہیں تھا،لیکن پھر بھی ایک ایسی حالت کا سامنا کرنا تھا جس سے پہلے کبھی دوچار نہیں ہوا،اس لیے ایک عجیب سی بے چینی تھی،جسے دور کرنے کے لیے ،میں دل ہی دل میں آیت الکرسی پڑھ رہا تھا۔
اچانک گھر کا دروازہ کھلا اور وہ عورت بڑی سی چادر میں لپٹی ہوئی غلاظت کے ڈھیرکی طرف قدم بڑھانے لگی۔وہ کچھ سونگھنے کی کو شش کر رہی تھی۔ کیونکہ چاند کی چاندنی میں ہمیں اسکا چہرہ صاف نظر آرہا تھا۔شاید اُسے ہمارے ہونے کا احساس ہورہا تھا۔۔یا کچھ اور۔۔ لیکن پھر اُس نے ٹھیک اُسی جگہ جہاں پر انسانی فضلہ اور گندگی پھینکی جاتی ہے کھڑے ہوکر اپنی چادر پھینکی اور آسمان کی طرف منہ اٹھا کر تیز تیز سانس لینے لگی۔
۔ جیسے کسی آنے والے کی بو ہوا میں ڈھونڈ رہی ہو۔۔۔ اُس نے ماتھے کے گرد لپٹی ہوئی پتلی چادر ہٹائی اور اردگرد دیکھنے لگی۔ اُس کے بال بالکل سیدھے کھڑے ہو گئے اور جسم پر لرزہ طاری تھا۔ میرا جسم بھی پسینے سے شرابور تھا اور ہاتھ خنجر کے دستے پر جم چکا تھا،جوں ہی اُس نے کپڑے پھینکے ہم سب نے اُس کی طرف دوڑ لگائی۔دو لڑکوں نے اُس پر سفید چادر ڈالی اور رسیوں والوں نے رسیوں کے پھندے اُس کی گردن اور جسم میں ڈال کر کَس لیے ۔
میں نے پیر صاحب کی ہدایت کے مطابق اُس کے کندھے پر خنجر کا وار کیاجس کی شدت سے وہ کسی وحشی درندے کی طرح غُرانے لگی، لیکن تھوڑی سی مزاحمت کرنے کے بعد بے ہوش ہوگئی۔ پیر صاحب نے آکر اُس پر کچھ پھونکنا شروع کردیا۔اُس کا چہرہ اور جسم کفن کی مانند سفید چادر میں لپٹا ہوا تھاجو خون کی وجہ سے اُس کے بدن کے ساتھ چپک گیا تھا۔ ہم نے کپڑے میں لپٹا اور خون میں تر اس کا جسم اُٹھا کر چارپائی پر رکھ دیا ، اور اُسے اُس کے گھر لے گئے ۔
خون بہنے کے بعد ڈائن کی شیطانی طاقت ختم ہوچکی تھی اور اُس عورت نے عام انسانوں کی طرح باقی زندگی گزاری۔
جب میں نے نویں کا امتحان پاس کیا، تو ابونے، امی جان اور مجھے گاؤں سے اپنے پاس پشاور بُلا لیا۔۔۔ابّونے حیات آباد میں ایک بنگلہ کرایے پر لیاتھا ،جس کے سامنے والی گلی کے بنگلہ نمبرنائن میں نفیسہ آنٹی رہتی تھی۔ نفیسہ آنٹی سے محلے کی عورتیں کبھی نہیں ملتی تھیں ، ورنہ باقی گھروں کی عورتیں آپس میں آتی جاتی رہتیں۔
۔۔عورتیں بات چیت میں نفیسہ آنٹی کو نائن والی ڈائن کہتی تھیں۔۔۔ مجھے امّی جان نے سختی سے منع کیا تھا کہ: نائن نمبر بنگلے کے سامنے سے بھی مت گزرنا، وہاں ڈائن رہتی ہے،جو مردوں اور لڑکوں کو کھا جاتی ہے!!۔۔۔ جب محلے میں دوستی ہوگئی اور سکول جانا شروع کیا، تو لڑکے گپ شپ میں نفیسہ آنٹی کے متعلق بھی باتیں کرنے لگے،لیکن ہر ایک اُس کی اصلیت سے بے خبر تھا۔
۔اُس کی شخصیت کے گرد ،دوری کا ایک طلسم تھا۔۔۔ سرِ شام اُس کے بنگلے کے اندر بڑی اور مہنگی گاڑیوں کا تانتا بندھ جاتا۔۔۔ٹیکسیوں میں سجی سنوری عورتیں بھی آتیں اور اُس کے بنگلے میں گھس جاتیں!!۔۔۔ نفیسہ آنٹی کو کسی نے دن کے وقت نہیں دیکھاتھا ، لیکن وہ عصر کے بعد بنگلے کے لان میں یا بالکونی میں بیٹھ کر باہر دیکھتی رہتی ۔ ۔۔وہ نہایت خوبصورت تھی،چالیس سے اوپر کی تھی لیکن کھلے بال ،سیڈول جسم اور گوری رنگت کی وجہ سے فلمی ہیروئن لگتی تھی۔
جب کبھی راستے میں یا ساتھ والی سُپر مارکیٹ میں سامنا ہوجاتا تو مجھے دیکھ کر مسکراتی اور بات چیت کی کوشش بھی کرتی ،لیکن میں ڈائن کے خوف کی وجہ سے، ہوں ہاں میں جواب دیکر وہاں سے کھسک جاتا۔۔۔حالانکہ اُس کے اردگرد مہنگی پرفیوم کا اروما رہتا ،جودماغ کو گُد گُدا دیتا۔۔۔
پھر کلاس میں طارق آیا جو اِس سے پہلے کسی اور سکول میں پڑھتا تھا۔
طارق نفیسہ آنٹی کو جانتا تھا۔وہ اُس کے بنگلے میں بھی گھر والوں سے چھپ کر جاتا تھا ،کیونکہ وہ اُسی گلی میں رہتا تھا۔ طارق میرا بینچ فیلوبن گیاجس نے میرے دل سے نفیسہ آنٹی کے متعلق ڈائن کا خوف نکال دیا۔۔۔اور مجھ سے اُس کا تعارف ایک عورت کے طور پر کیا ۔۔۔
گرمیوں کی اُس دوپہر طارق مجھے نفیسہ آنٹی کے بنگلے میں جوس پینے کے بعد اکیلا چھوڑ کرباہر چلا گیا۔
۔۔نفیسہ آنٹی کا کمرہ سخت گرمی کے باوجود بھی تیز اے سی کی وجہ سے یخ ٹھنڈا تھا ۔۔۔اُس کے بیڈ پر سفید ریشمی چادریں بچھی ہوئی تھیں۔شیشے کی کھڑکھیوں کے سامنے موٹے کپڑے کے سبز مووننگ پردے لگے ہوئے تھے۔اور دیواروں پر مخمل کا پلستر ہوا تھا،جو بہت بھلا معلوم ہوتا تھا۔۔۔ اس ماحول نے مجھے بہت مرعوب کیا۔۔۔۔ نفیسہ آنٹی مجھے دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔
۔۔لیکن میں جھجک اور مرعوبیت کی وجہ سے خاموش بیٹھا تھا۔۔۔ وہ مسکرا رہی تھی اور مجھے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی،وہ سفید سلک کے لباس میں ملبوس تھی!!!۔ بہت ہی خوبصورت۔۔۔۔ سفید کپڑا۔۔۔!!! ۔۔۔جسم ۔۔۔!!!۔لمبے بال۔۔ !!! ۔۔کپڑے۔۔!!۔۔اروما۔۔!۔۔اروما۔۔!۔۔۔۔!!!۔۔۔
امی جان ٹھیک ہی تو کہتی تھی کہ: ۔۔۔۔نفیسہ ایک ڈائن ہے۔۔۔جو مردوں اور لڑکوں کو کھا جاتی ہے!!۔۔۔بالکل کھا جاتی ہے!!۔۔ امی جان ٹھیک ہی تو کہتی تھی۔۔۔۔!!!!۔۔۔۔!!!

Browse More Urdu Literature Articles