Shahrah E Karakoram Ke Ajaibat - Article No. 2096

Shahrah E Karakoram Ke Ajaibat

شاہراہِ قراقرم کے عجائبات - تحریر نمبر 2096

شاہراہِ قراقرم بیس سال کے عرصے میں 1986ء مکمل ہوئی اور اسے پاکستان اور چین نے مل کر بنایا ہے۔ اس کی تعمیر کرتے ہوئے 810 پاکستانیوں اور 82 چینیوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ اس کی لمبائی 1300 کلومیٹر ہے

Dr Syed Muhammad Azeem Shah Bukhari ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بُخاری پیر 15 جولائی 2019

شاہراہِ قراقرم کے عجائبات شاہراہ قراقرم پاکستان کے شمال میں واقع وہ عظیم راستہ ہے جو وطنِ عزیز کو چین سے ملاتا ہے۔ اسے ''قراقرم ہائی وے''این-35 اور ''شاہراہِ ریشم'' بھی کہتے ہیں۔ یہ دنیا کے عظیم پہاڑی سلسلوں قراقرم اور ہمالیہ کو عبور کرتی ہوئی درہ خنجراب کی 4693 میٹر بُلندی سے ہو کر چین کے صوبہ سنکیانگ کو پاکستان کے شمالی علاقوں سے ملاتی ہے۔
یہ دنیا کی بلند ترین بین الاقوامی شاہراہ ہے۔ شاہراہِ قراقرم بیس سال کے عرصے میں 1986ء مکمل ہوئی اور اسے پاکستان اور چین نے مل کر بنایا ہے۔ اس کی تعمیر کرتے ہوئے 810 پاکستانیوں اور 82 چینیوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ اس کی لمبائی 1300 کلومیٹر ہے۔ یہ چینی شہر کاشغر سے شروع ہوتی ہے اور خنجراب،سوست،پسو،عطاآباد، کریم آباد، علی آباد، ہنزہ، نگر، گلگت، دینیور، جگلوٹ، چلاس، داسو، پٹن، بشام، مانسہرہ، ایبٹ آباد،ہری پورہزارہ سے ہوتی ہوئی حسن ابدال کے مقام پر جی ٹی روڈ سے ملتی ہے۔

(جاری ہے)

دریائے سندھ، دریائے گلگت، دریائے ہنزہ، عطاآباد جھیل، کئی قدیم ، قبرستان، یادگاریں، نانگا پربت اور راکاپوشی کی چاٹیاں، متعدد گلیشیئرز اور معلق پُل اس کے ساتھ ساتھ واقع ہیں۔ یوں یہ شاہراہ دنیا کے ان راستوں میں سے ایک ہے جن کی سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی اہمیت انتہائی زیادہ ہے۔ شاہراہ قراقرم کے مشکل پہاڑی علاقے میں بنائی گئی ہے اس لیے اسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ بھی کہتے ہیں۔
یوں تو اس شاہراہ پر کئی لوگ کئی بار سفر کر چکے ہیں لیکن سب کے مشاہدات میں فرق ہوتا ہے۔میں کوشش کروں گا کہ آپ کو اُن تمام علاقوں کے منفرد اور انوکھے پہلوؤں سے روشناس کراؤں جہاں سے یہ سڑک گزرتی ہے. قراقرم ہائی وے کب کیسے اور کتنی قربانیوں کے بعد بنی یہ میں آپ کو بتا چکا ہوں۔جاننے کی بات یہ ہے کہ یہ شاہراہ پہلے تھاکوٹ ضلع بٹگرام سے شروع ہوتی تھی لیکن پھر اسے ایکسٹینشن دے کر حسن ابدال تک کھینچ دیا گیا۔
اب تو اس میں ہزارہ موٹروے کا کچھ حصہ بھی شامل ہے،لیکن مجھ جیسے سیاحوں کو تو تھاکوٹ پل دیکھ کر ہی قراقرم روڈ والی فیلنگ آتی ہے یوں تو اللہ پاک نے پاکستان کے شمال کو ہر نعمت اور خوبصورتی سے نوازا ہے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر شاہراہِ قراقرم نہ ہوتی تو شاید یہ خوبصورتی بھی ہم میں سے بہت سوں کی نظروں سے اوجھل رہتی۔یہ روڈ وسیلہ ثابت ہوئی ہے گلگت بلتستان کے حُسن و ثقافت کو ہم تک باآسانی پہنچانے کا۔
آئیں اس عجوبہ نما سڑک پر اپنا سفر شروع کرتے ہیں اور دیکھے ان دیکھے حسن کو کھوجنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شاہراہِ قراقرم پنجاب میں حسن ابدال اور ہزارہ ڈویژن میں حویلیاں، ایبٹ آباد، مانسہرہ، بٹگرام اور بٹل کے خوبصورت علاقوں سے گُزر کر تھاکوٹ پہنچتی ہے۔تھاکوٹ ضلع بٹگرام کا آخری قصبہ ہے جس کے بعد ضلع شانگلہ شروع ہو جاتا ہے۔تھاکوٹ ہی وہ جگہ ہے جہاں شیر دریا، سندھ آپ کا ہم سفر بنتا ہے اور بنتا ہی چلا جاتا ہے یہاں تک کہ آپ اس سے تنگ آ جاتے ہیں۔
تھاکوٹ کے خوبصورت چینی ساختہ پل پر سے ہو کر آپ بشام سے گزرتے ہیں جو کوہستان سے پہلے اس روٹ کا آخری بڑا شہر ہے۔پھر کچھ ہی دیر بعد ضلع کوہستان شروع ہو جاتا ہے۔یہاں میں آپ کو بتاتا چلوں کہ کوہستان ایک وسیع علاقہ ہے جو خشک و چٹیل پہاڑوں پر مشتمل ہے۔یہ دیر کوہستان، سوات کوہستان، اپر کوہستان، لوئر کوہستان اور چلاس کوہستان پر مشتمل ہے۔
یہ پہلو بہ پہلو چلتا ہوا پہاڑی سلسلہ ہے جس کی خاصیت بنجر پن اور چٹیل پہاڑ ہیں۔عموماً کوہستان سے ہم خیبرپختونخواہ کا ضلع مراد لیتے ہیں جو کومیلا سے شروع ہو کر سازین تک جاتا ہے اور یہاں قراقرم ہائی وے کا سفر انتہائی کٹھن، تھکا دینے والا اور لمبا ہے۔ پاکستان کی تمام وادیوں کی شاہ رگ کوئی نہ کوئی دریا ہے جو اس وادی کو نہ صرف تمدن کی روشنی بخشتا ہے بلکہ اسکی تمام معاشرتی و معاشی زندگی کا دارومدار اسی دریا پر ہوتا ہے۔
کوہستان کی وادی کی لائف لائن دریائے سندھ ہے جو گلگت بلتستان سے اس علاقے میں داخل ہوتا ہے اور پورے کوہستان میں شاہراہِ قراقرم کے ساتھ ساتھ ایک لاڈلے بچے کی طرح چلا جاتا ہے۔یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ شاہراہ ریشم اور قراقرم میں فرق ہے۔شاہراہِ ریشم وہ تمام راستے تھے جو چین سے وسط ایشیاء کے ذریعے یورپ تک زیشم کی تجارت کے لیئے استعمال کیئے جاتے تھے جبکہ شاہراہ قراقرم وہ سڑک یا راستہ ہے جو شاہراہ ریشم کے راستوں کے کچھ حصوں پر بنائی گئی ہے،اس کو میں آگے چل کر ذرا تفصیل سے بیان کروں گا۔
کوہستان کے پہاڑ سختی، جانفشانی، کٹھنائیوں اور محنت کی علامت ہیں،مانا کہ سوات و مری کے پہاڑ زیادہ جاذبِ نظر ہیں مگر دریائے سندھ کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے کوہِ قراقرم کے یہ پہاڑ اپنے اندر ایک عجیب حسن رکھتے ہیں بشرطیکہ دیکھنے والی آنکھ میسر ہو۔انہی چٹیل پہاڑوں پر سے دودھ سے سفید جھرنے اٹھکیلیاں کرتے نیچے آتے ہیں اور سندھ کے گدلے پانی میں مل کہ اپنے وجود کی نفی کرتے ہیں۔
اسی طرح چھوٹی چھوٹی آبشاریں بھی انہی پہاڑوں سے یوں گرتی ہیں کہ جسے پتھروں کے آنسو۔یہاں دریائے سندھ کا گدلا ، میلا اور پھیکا پانی ٹھاٹھیں مارتا ہوا گزرتا ہے۔داسو اس علاقے کا مرکزی شہر ہے جو بالکل قراقرم ہائی ویپر واقع ہے جہاں داسو ہائیڈروپاورپروجیکٹ کے علاوہ کوئی خاص قابل ذکر بات نہیں ہے۔ اس سے آگے ثمر نالا کے مقام پر ایک بڑا نالہ دریائے سندھ کا حصہ بنتا ہے۔
یہاں کچھ چھوٹے چھوٹے ہوٹل بھی ہیں جہاں کام کرنے والوں کو اپنے کوہستانی ہونے پر فخر ہے۔ ان کے بقول ”ہم کوہستانی مرد محنت و جفاکشی کا دوسرا نام ہیں“ اور یہ بات بالکل درست ہے۔ پاکستان کے شمال میں اس سے زیادہ سخت علاقہ اور کوئی نہیں جہاں زندگی گزارنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ سہولیات سے عاری کوہستان گرم، بے رنگ اور چٹیل پہاڑوں، دور دور بسائی گئی آبادیوں، چھوٹے بڑے پُلوں،لوازماتِ زندگی سے عاری قصبوں اور گدلے سے دریائے سندھ پر مشتمل ہے۔
ثمر نالے کے بعد سازین آتا ہے جو گلگت بلتستان کی جانب کوہستان کی آخری بڑی آبادی ہے اور پھر تھور کے بعد گلگت بلتستان شروع ہو جاتا ہے جہاں ''ویلکم ٹو لینڈ آف ماؤنٹینز'' کا بورڈ آپ کا استقبال کرتا ہے۔ اب آپ چِلاس کوہستان میں داخل ہوچکے ہیں جو گلگت بلتستان کے ضلع دیامیر میں واقع ہے۔یہیں ایک جگہ گزرتے ہوئے سڑک کے قریب مجھے تعمیراتی سامان رکھا نظر آ یا۔
غور کرنے پر معلوم ہوا کہ یہی بدنصیب دیامیر بھاشا ڈیم کی مجوزہ سائیٹ ہے جہاں گلگت بلتستان کا سب سے بڑا ڈیم بننے جا رہا ہے لیکن افسوس کہ یہاں کام کی رفتار نہ ہونے کے برابر ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم کا بند گلگت بلتستان جبکہ اسکی جھیل پختونخواہ میں بنے گی جس پر دونوں صوبوں میں رائیلٹی کا مسئلہ حل طلب ہے۔ امید ہے کہ یہ جلدی حل ہو جائے تاکہ ہم بھی سکھ کا سانس لے سکیں۔
چلاس، جہاں اکثر گرمی کا راج ہوتا ہے ایک بڑا اور قدیم شہر ہے جہاں سے بہت پہلے قدیم تجارتی قافلے گزرا کرتے تھے جسکی نشانی یہاں موجود ''تھلپان کی چٹانیں'' ہیں۔ چلاس کے پاس اس جگہ پر مختلف چٹانوں پر کئی ہزار سال قدیم بدھا کی تصاویر اور مختلف حروف کندہ ہیں جو اس بات کی طرف اِشارہ کرتے ہیں کہ بدھ مت کے عروج کے دور میں یہ کوئی مقدس مقام رہا ہو گا۔
لیکن ہماری ازلی بے حسی اور آرٹ سے نابلدی، ان چٹانوں پر کسی مردانہ کمزوری سے متاثر دل جلے نے مختلف اشتہار پینٹ کر کہ اسکی تصویروں کو چھپا دیا ہے لیکن ابھی بھی اس کو صاف کیا جا سکتا ہے۔ چِلاس کا انتظام وفاقی ادارے چلاتے ہیں، جو انتظام برائے شمالی علاقہ جات کے تحت ہوتا ہے۔ موسم گرما میں یہاں گرم اور مرطوب جبکہ سردیاں خشک اور سرد ہوتی ہیں۔
یہاں پہنچنے کے دو بڑے راستے ہیں۔ پہلا راستہ شاہراہ قراقرم جبکہ دوسرا وادی کاغان سے ہوتے ہوئے در بابوسر سے ہے۔ وادی چلاس کے عین وسط سے دریائے سندھ بہتا ہے اور غیر ملکی افراد کو یہاں سفر کرنے اور عارضی رہائش کے لیے خصوصی اجازت درکار ہوتی ہے۔ چلاس سے آگے ایک زیرِ تعمیر یونیورسٹی کی عمارت ہے جس کے لیئے زمین مقامیوں نے حکومت کو تحفتاً پیش کی ہے ۔
واقعتاً گلگت بلتستان کو اب نئی یونیورسٹیوں کی اشد ضرورت ہے۔ چلاس کے بعد کچھ چھوٹے چھوٹے قصبے آتے ہیں جہاں سیاحوں کے لیئے ہوٹل و ریزارٹ بنائے گئے ہیں۔پتہ چلا کہ یہ ابھی کچھ سال پہلے بنے ہیں،یہ دیکھ کر لگتا ہے کہ اب واقعی پاکستان ایک بڑی ٹریول ڈیسٹینیشن بنے گا۔ ان شاء اللہ۔ آگے چلیں تو آپ کا سامنا رائے کوٹ کے پُل سے ہو گا جہاں سے نانگا پربت کے بیس کیمپ ''فیری میڈوز'' کو راستہ جاتا ہے جو ایک انتہائی خوبصورت جگہ ہے۔
یہاں سے آگے قراقرم ہائی وے کا حلیہ ہی بدل جاتا ہے۔ ٹوٹی پھوٹی سی روڈ یک دم نئی نویلی دلہن کی طرح سج دھج کر سامنے آ جاتی ہے۔ #سنا ہے حدِ نظر سے آگے زندگی اب بھی مسکراتی ہے(اتباف ابرک) کچھ آگے سفر کریں تو ایک راستہ استور کو مُڑتا ہے جو آگے راما، چِلم چوکی، بُرزیل پاس اور دیوسائی سے ہو کر سکردو تک جاتا ہے۔ یہاں سے چلتے چلتے آپ کو نانگا پربت ویو پوائنٹ کا بورڈ نظر آئے گا جہاں سے اس ہیبت ناک پہاڑ کا سحر انگیز نظارہ کیا جا سکتا ہے۔
یہ پہاڑ سر کرنا بہت مشکل ہے اور اسی خواہش میں کئی کوہ پیما اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں تبھی ہم جیسے اسے دیکھ کر ٹھنڈی آہیں ہی بھر سکتے ہیں۔آگے چل کر جگلوٹ کے بعد اس سڑک پر میرا پسندیدہ مقام ''جنکشن پوائینٹ'' آتا ہے۔ ایسا مقام دنیا بھر میں اور کہیں نہیں تبھی تو کہتے ہیں کہ پاکستان خدا کی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت ہے۔ گلگت شہر سے 45 کلومیٹر جنوب میں واقع اس جگہ دنیا کے تین عظیم اور ہیبت ناک پہاڑی سلسلے ہندوکش، قراقرم اور ہمالیہ ملتے ہیں اور انہی کی گود میں دریائے گلگت اور سندھ کا سنگم ہوتا ہے یعنی ایک ہی جگہ تین سمتوں میں آپ تین مختلف پہاڑی سلسلوں اور دو بڑے دریاؤں کا نظارہ کر سکتے ہیں۔
پہاڑ،دشت،سمندر، ٹھکانے دریا کے زمیں کو رنگ مِلے ہیں بہانے دریا کے نہیں چٹان کے پیچھے یونہی چادرِ آب ہیں آبشار کے پیچھے خزانے دریا کے(ظہیر احمد) یہ جگہ قراقرم ہوئی وے کے بالکل کنارے پر واقع ہے۔ چار سال پہلے جب میرا یہاں سے گزر ہوا تھا تو یہاں ایک بورڈ ہوا کرتا تھا جس پہ اس جگہ کی تفصیل درج تھی۔اب جب گیا تو یہ جگہ بن رہی تھی بورڈ بھی غائب تھا اور اوپر بنا مانومنٹ بھی۔
یہاں سے کچھ آگے ایک ٹوٹی پھوٹی سڑک سکردو تک جاتی ہے جو آج کل زیرِ تعمیر ہے۔ اس علاقے میں قراقرم ہائی وے کسی خوبرو دوشیزہ کی طرح ہے جو محبوب کے لیئے خوب ہار سنگھار کئے بیٹھی ہے۔سامنے برف پوش چوٹیوں کا نظارہ، مٹیالا سندھو دریا، کناروں پر چیری اور خوبانی کے شاپر تھامے ننھے منے بچے، خوبصورتی یہ نہیں تو اور کیا ہے؟؟؟ مری ہری بھری خوبصورت وادیاں مثلِ بہشت بریں میرے دیس گلگت بلتستان خاک تیری امبریں تو بے مثال ہے میرے گلگت بلتستان تو لا جواب ہے میرے گلگت بلتستان لاکھوں سلام گُلِ خندہ وطن کے گل زاروں کو لاکھوں سلام قُدرت کے حسین نظاروں کو تو بے مثال ہے میرے گلگت بلتستان تو لا جواب ہے میرے گلگت بلتستان(انور حُسین برچہ ) تبھی تو گلگت بلتستان کو پاکستان کے سر کا تاج کہا جاتا ہے۔
نہ صرف یہ انتہائی دلکش و حسین ہے بلکہ اگر آپ پاکستان کا نقشہ دیکھیں گے تو یہ سب سے اوپر واقع ہے جیسے کسی شہنشاہ کے سر پر تاج ہو۔ لگے ہاتھوں اس علاقے کا کچھ تعارف ہو جائے۔گلگت بلتستان کا کل رقبہ تقریباً 119985 مربع کلومیٹر ہے، اس کی آبادی تقریباً چودہ لاکھ چھیانوے ہزار سات سو ستانوے نفوس پر مشتمل ہے۔ دو ڈویژنوں گلگت، بلتستان پر مشتمل اس مجوزہ صوبے کا مرکزی مقام گلگت ہے۔
جبکہ ان ڈویژنز کو سکردو، گانچھے، شِگر،خرمنگ، گلگت، غذر، ہُنزہ، نگر، دیامیر اور استور میں تقسیم کیا گیا ہے۔اردو کے علاوہ یہاں پر بلتی، شینا، بروشسکی، کشمیری، واخئی، کوہواری اور کوہستانی زبانیں بولی جاتی ہیں۔شمالی علاقہ جات کے شمال مغرب میں افغانستان کی واخان کی پٹی ہے جو پاکستان کو تاجکستان سے الگ کرتی ہے جب کہ شمال مشرق میں چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ کا ایغورکا علاقہ ہے۔
جنوب مشرق میں مقبوضہ کشمیر، جنوب میں آزاد کشمیر جبکہ مغرب میں صوبہ خیبر پختونخواہ واقع ہیں۔ دنیا کے بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے کوہ قراقرم،کوہ ہمالیہ اورکوہ ہندوکش تینوں یہاں موجود ہیں۔ یہاں پر سات ہزار میٹر سے زائد بلند 50چوٹیاں واقع ہیں، اسی طرح تین بڑے گلیشیر بھی یہیں واقع ہیں۔ دنیا کا بلند ترین محاذ جنگ سیاچن گلیشیئر بلتستان کے ضلع گانچھے کے پہاڑی سلسلے قراقرم میں واقع ہے تاہم متنازع ہونے کی وجہ سے کبھی اسے بلتستان میں شمار کیا جاتا ہے اور کبھی نہیں۔
مناور اور جٹیال (یہیں سے ایک روڈ گلگت شہر کو مڑتی ہے) سے ہو کر ہم دینیور پہنچتے ہیں۔ دریائے گلگت کے کنارے واقع دینیور شہر سرسبز کھیتوں اور پاپولر کے گھنے درختوں کے حوالے سے مشہور ہے۔ دینیور کی سُرنگ کے اوپر شاہ سلطان علی عارف کا مزار، دریائے گلگت پر دینیور کا منہدم شُدہ معلق پُل،چینی انجینئرز کا قبرستان اور آثارِ قدیمہ سے تعلق رکھنے والی دینیور کی کُندہ چٹانیں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔
شاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ اب تک تقریباً 20000 سے زائد ایسی چٹانیں اور مقامات دریافت ہوئے ہیں جو قدیم تہذیبی اہمیت کی حامل ہیں۔ شمالی علاقہ جات میں ہنزہ اور ہربن کی جانب دس بڑی جگہیں آثار قدیمہ کی موجودگی کی وجہ سے نہایت اہم ہیں۔ یہ آثار حملہ آوروں، تاجروں اور زائرین کی یادگار ہیں جنھوں نے اس قدیم تجارتی راہدری میں سفر کیا۔ 5000 اور 1000 قبل مسیح کے درمیانی عرصہ میں ان آثار میں کثرت سے جانوروں، تکونی انسان اور شکار کی شبیہات جن میں جانور انسانوں سے بڑے دکھائے گئے ہیں۔

Browse More Urdu Literature Articles