Shanakhti Alamat, Hatheli Par Zakham Ka Nishan - Article No. 2316

Shanakhti Alamat, Hatheli Par Zakham Ka Nishan

شناختی علامت، ہتھیلی پر زخم کا نشان - تحریر نمبر 2316

صائمہ زیدی ہماری بہت زمانے کی دوست ہیں۔ جب وہ اسلام آبادمیں ہوتی تھیں تو تب بھی یہاں نہیں ہوتی تھیں۔ انکا قیام جرمنی میں ہے تو اب بھی ان کے شعر کی خوشبو سے یہ سارا شہرمہکتا رہتا ہے۔ ان سے ملاقات ہوئے عرصہ بیت گیا۔ لیکن جو ملاقات ہے اس کا تاثر آج تک قائم ہے

Ammar Masood عمار مسعود جمعہ 24 اپریل 2020

مجھے بچپن سے ہی شاعر کہلانے اور شعر کہنے کا بہت شوق تھا مگر بدقسمتی سے شعر کہنے کی قدرتی صلاحیت نصیب نہیں ہوئی۔ شعر کہنے کے لیئے بنیادی طور پر دو علوم سے واقفیت بے انتہا ضروری ہے۔ ریاضی اور موسیقی۔ ریاضی میں تعلیمی استعداد کبھی تینتیس نمبر سے آگے نہیں گئی اور موسیقی میں بھی بس اتنی شدھ بدھ ہے کہ اتنا بتا سکتا ہوں کہ گلوگار پکا راگ گا رہا ہے یا ابھی راگ پکا رہا ہے۔

یہ نہیں کہ میں نے شعر لکھنے کا ہنر سیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ علم العروض سیکھنے کے لیئے بارہا معروف شاعر پروفیسر احسان اکبر کی کلاس میں جا پہنچا۔ جس دن انہوں نے " شاعر " اور" متشاعر"کا فرق بیان کیا اسکے بعد انکی کلاس میں جانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ اپنے تئیں پھر بھی شعر کہنے کی کوشش کرتا رہا لیکن کبھی قافیہ روٹھ جاتا، کبھی "الف" گر جاتا، کبھی بحر چھوٹی پڑ جاتی اور کبھی اوزان خطا ہو جاتے۔

(جاری ہے)

" شعریت " کو قابو کرتاتو "معنویت " روٹھ جاتی اور معنویت پیش نظر رکھتا تو شعریت کا سرا ہاتھ سے چھوٹ جاتا۔ اسی کھینچا تانی سے بچنے کے لیئے نثر کا میدان آزمایا۔ لیکن یقین مانیئے اب بھی ان لوگوں پربہت رشک اتا ہے جو نہائت سہولت سے کسی خیال کو نظم کرلیتے ہیں۔ صائمہ زیدی کی شاعری پڑھ کر تو یہ رشک حسد میں بدل جاتا ہے۔ جس سہولت سے صائمہ زیدی کسی خوشنما خیال کو پابند کرتی ہیں اس پر حسد ہی کیا جا سکتا ہے۔

صائمہ زیدی ہماری بہت زمانے کی دوست ہیں۔ جب وہ اسلام آبادمیں ہوتی تھیں تو تب بھی یہاں نہیں ہوتی تھیں۔ انکا قیام جرمنی میں ہے تو اب بھی ان کے شعر کی خوشبو سے یہ سارا شہرمہکتا رہتا ہے۔ ان سے ملاقات ہوئے عرصہ بیت گیا۔ لیکن جو ملاقات ہے اس کا تاثر آج تک قائم ہے۔ علم، حلم اور ہنر کا ایساخوش کن امتزاج مقدر کی بات ہے۔ انکے شعر میں وہ توانائی ہے کہ ہنر اور حوصلے دونوں کی داد دینے کی خواہش ہوتی ہے۔
لہجہ، لحن، اسلوب، آہنگ اور انداز سب دلفریب۔ انکے اشعار میں ذہانت بھی ہے اور متانت بھی،لطافت بھی ہے اورنزاکت بھی، شائستگی بھی ہے اور شستگی بھی، وقار بھی ہے اور معیار بھی۔ مہین جذبوں کو لفظ کرنا دشوار کام ہے۔ ریت سے شیشہ تخلیق کرنا دشوار کام ہے۔ خواب کو تعبیر کرنادشوار کام ہے۔ صائمہ زیدی کے شعر کا خمیر کٹھن جذبوں سے اٹھا ہے۔ لیکن بے مائیگی کے اظہار میں ہیجان نہیں ترنم ہے۔
غزل ہے۔ نظم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انکے اشعار میں محنت تو نظر آتی ہے مگر مشقت کا تاثر نہیں ملتا۔ یہ اشعار اس ابتدائی گفتگو کا بین ثبوت ہیں۔
راہزن میرے تعاقب میں چلے آتے ہیں
تو کہاں ہے؟ مری آواز پہ آنے والے
چشم کے پھول، سمن زار بدن، سرخئی لب
سب ترے باغ میں کھلنے کے لیے آئے تھے
وہ چاند کی سمت دیکھتی تھی میں آخر شب
کہ تیرا چہرہ مرے دوپٹّے سے چھن رہا تھا
عصر حاضر میں چند ایک کو چھوڑ کر قریبا تمام ہی شاعرات پر پروین شاکر کا رنگ غالب رہا۔
کچھ نے خود اس انداز کواپنانے کی کوشش کی اور کچھ کا فطری میلان ہی ایسا رہا۔پروین شاکر کو جو عروج نصیب ہوا وہ انکا انداز اپنانے والی کسی بھی شاعرہ کو مقدر نہ ہو سکا۔ صائمہ زیدی نے دانستا اس اثر سے بچنے کی کامیاب کوشش کی۔ گرچہ موضوعات انکے بھی محبت اور اسکی وارفتگی ہی رہے۔ اس وارفتگی سے کشیدکردہ غم کو ہی صائمہ نے قلم کیا مگر بات تو انداز بیان کی ہے۔
انکا لہجہ بارہا انکو پروین سے ممتاز کرتا ہے۔
کسی کے ہجر میں جلنا تو خاک ہو جانا
دلوں کو عشق سکھاتا ہے پاک ہو جانا
ٹانکنا میرے زرد دوپٹّے میں پھول اور ستارے
تجھ مہ رو کو آتا ہے یہ رمز ایجاد بھی کرنا
اسی شعری انفرادیت کی بناء پر شائد محسن بھوپالی نے صائمہ زیدی کے فن کو کچھ اس طرح پر کھا" صائمہ اپنی ہم عصرشاعرات سے متاثر ہونے کے باوجود غزلوں اور بالخصوص نظموں میں اپنا ایک الگ اور منفرد لہجہ بنانے میں کامیاب نظرآتی ہیں۔
"
محبت وہ آفاقی جذبہ ہے جو شعر میں ڈھلتا ہے تو اسے امر کردیتا ہے۔ صائمہ نے ذات کے اظہار کے لیئے اسی جذبے کاانتخاب کیا۔ انکی شاعری میں یہ جذبہ پوری شدت، حدت اورجدت کے ساتھ موجود ہے۔ وہ اظہار سے نہ خوفزدہ ہیں نہ ان کوبات کہنے سے قلم روکتا ہے۔ وہ مدہم لہجے میں دھیرج سے اپنی بات کہتی ہیں اور اس پر قائم رہنے کا حوصلہ بھی سکھاتی ہیں۔

مل، کہ اب جا کے میسر ہوئی پوری خلوت
آ، کہ اب دشت بدن بیچ میں حائل نہ رہا
ایک ہم ہیں کہ پر کاہ بھی چاہے نہ ہمیں
ایک تو ہے کہ تجھے سارا چمن چاہتا ہے
صائمہ زیدی اپنی کتاب کے دیباچے میں لکھتی ہیں" میرے اطراف آئینے ہی آئینے ہیں اور ان آئینوں میں بٹے ہوئے زندگی کے ہزار ہا عکس ایک آئینے سے دوسرے آئینے کا سفر ایک حیرت سے دوسری حیرت کا سفر ہے حیرانی سے اس شہرِ آئینہ کو دیکھتی ہوں بے بسی سے ہاتھ ملتی ہوں ہزار ہا رنگین کواڑوں والے زندگی کے شہرِطلسمات کے پہلے دروازے کی۔
دہلیز پر پڑتے میرے یہ قدم، اور عرصہُ عمرمختصر۔زندگی شائد کبھی سمجھ نہ آئے۔
ہر بڑا شاعر اپنے ساتھ اپنے الفاظ اور اپنے استعارے لے کر آتاہے۔ وہ نئے لفظ تراشتا ہے، نئی تراکیب تلاشتا ہے، نئی تلمیحات بناتا ہے۔ اس کار دگر میں اگر کاوش نظر آئے تو فن خاک ہوجاتا ہے۔ صائمہ زیدی کے ہاں نئے لفظ بھی ملتے ہیں اور نت نئے استعارے اور کنائے بھی۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ انکے شعرمیں اس جدت سے یبوسیت نہیں پیدا ہوتی بلکہ بے ساختہ پن اور تروتازگی کا احساس ہوتا ہے۔ جب ہی تو انکی شاعری کے ہم ہی قتیل نہیں ایک زمانہ انکے شعر کا معترف ہے۔
صائمہ زیدی کی شاعری کے بارے میں احمد ندیم قاسمی کہتے ہیں " اسکے ایک ایک مصرعے میں چھپے ہوئے جوہر کی دریافت نے مجھے سرشار کر دیا"صائمہ زیدی اس عہد کی وہ شاعرہ ہیں جو عمر سے کئی دہائیاں آگے کا سفر کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔
پہلی کتاب“ دھوپ لوں ہتھیلی پر“ آئی تو خوب شہرہ ہوا۔ شہرت نے ان کو مزید خاموش بنا دیا۔ حجاب بڑھا دیا۔ صائمہ زیدی مشہور ہونے سے بال بال بچتی رہیں۔شہرت کے جنجال سے ڈرتی رہیں۔ یہی خوف، خاموشی اور خدشہ انکو جرمنی لے گیا۔لیکن شاعرفاصلے بڑھنے سے بدلتا نہیں، نکھرتا ہے۔
صائمہ زیدی کی شاعری میں محبت اور اسکی افسردگی کے سوا مزاحمت کا موضوع بھی بہت توانائی کے ساتھ موجود ہے۔
وہ صرف آئینہ نہیں دیکھتی بلکہ بسا اوقات اس سارے سماج کو آئینہ دکھا بھی دیتی ہیں۔ یہ کام وہ سوچنے والا ذہن کر سکتا ہے جو اپنے گرد و پیش سے بے خبر نہیں ہے۔ یہ اشعار اس بات کی مثال کے طور پر دیکھیئے
سوچ رکھنا بھی جہاں جرم بغاوت ٹھہرے
لب کشائی کی وہاں کیا کوئی صورت ٹھہرے
تم کو تو قتل بھی جائز ہو بنام غیرت
میں اگر شعر بھی کہہ دوں تو بغاوت ٹھہرے
ظلمت جبر، لہو، خوف، سلاسل، پہرے
دیکھیے اب کہاں رہوار سیاست ٹھہرے صائمہ زیدی کی شاعری میں ہتھیلی کا استعارہ بہت خوبی سے استعمال ہوا ہے۔
انکی پہلی کتاب کا نام بھی "دھوپ لوں ہتھیلی پر"ہے۔ وہ اس استعارے کے تمام تر امکانات کو بروئے کار لاکر شعر میں سموتی ہیں۔ جیسے
صبا سے جب بھی کوئی پھول مانگوں
ہتھیلی پر وہ سوکھے ہات رکھ دے
یا پھر انکی مختصر نظم دیکھیئے کہ
چاند ڈھل گیا جاناں
خواب نیم شب ٹوٹا
کہہ رہی ہے چشم نم
دھوپ لوں ہتھیلی پر
اور مانگ میں بھر لوں
صائمہ زیدی کے شناختی کارڈ پر انکی شناختی علامت۔
ہتھیلی پر زخم کا نشان ہے۔ اس مضمون کے شروع میں ہی میں نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ میں بوجوہ کسی کی شاعری پر تبصرہ یا تجزیہ کرنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ اسی لیئے مضمون کو اس بات پر ختم کرتا ہوں کہ مجھے تو صائمہ زیدی کی شاعری پڑھ کر ہمیشہ یہی لگا کہ وہ بہت خوبی سے اپنی ہتھیلی کے زخم کو آئینوں پر تحریر کرتی رہی ہیں۔ اپنی تمام عمر کوشعر میں تصویر کرتی رہی ہیں۔

Browse More Urdu Literature Articles