Shehr E Sheer Ka Wali - Professor Jalil Aali - Article No. 2458
شہرِ شعر کا والی- پروفیسر جلیل عالی! - تحریر نمبر 2458
جلیل عالی فطری شاعر ہیں ان کے اشعار میں حساسیت کا رنگ غالب ہے ان کی شاعری کسی ایک موضوع تک محدود نہیں بلکہ وہ اپنی شاعری میں فطرت کے تمام مناظر پر بات کرتے اور قدرت کے تمام پہلووٴں پر غورو فکرکرتے نظر آتے ہیں
لقمان اسد جمعہ 27 نومبر 2020
(جاری ہے)
پروفیسر جلیل عالی نے پرائمری تک درختوں کے نیچے خالی زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کی۔
پھر قصبے سے دور گورنمنٹ ہائی سکول کوٹ شیر سنگھ سے میٹرک کیا ۔یہ سکول ان کے گھر سے تقریباً3 کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔انہوں نے انٹر گورنمنٹ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ اور بی اے ایم اے او کالج لاہور سے کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو اور ایم اے سوشیالوجی کیا۔ ایم اے اردومیں نامور شاعر امجد اسلام امجد ان کے کلاس فیلو اور بنچ میٹ تھے۔ انہوں نے انٹر سے ڈبل ایم اے تک ہاسٹل لائف گزاری۔ دوسرے ایم ایے (سوشیالوجی) کی طالب علمی کے زمانے میں یونیورسٹی میگزین ”محور“ کے مدیر رہے۔ اس دوران ان کا پہلا انٹرویو بطور طالبِعلم مدیر ، نوائے وقت میں شائع ہوا۔شاعری میں باقاعدہ اصلاح کسی سے نہیں لی۔ انہیں اس زمانے کے اکابرینِ ادب جن میں احمد ندیم قاسمی، وزیر آغا، افتخار جالب، ڈاکٹر سید عبداللہ، جیلانی کامران، مظفر علی سید، حفیظ تائب، اسلم کمال، احسان دانش، سید محمد کاظم ، ڈاکٹر برہان احمد فاروقی، سجاد باقر رضوی، سید وقار عظیم، ڈاکٹر وحید قریشی، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، کشور ناہید، قتیل شفائی، جمیل الدین عالی ، شریف کنجاہی، اختر حسین جعفری، آفتاب اقبال شمیم، خالد احمداورسجاد میر کی قربت حاصل رہی۔ جلیل عالی نے 1969ءء میں تعلیم مکمل کی اور 1970ءء میں ان کا تقرر بطور لیکچرار ایف جی کالج واہ کینٹ میں ہو گیا۔ یہاں ساڑھے آٹھ برس تک وہ تدریسی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ پھر اس کے بعد 1979سے 2002 ء تک انہوں نے ایف جی سر سید ڈگری کالج راولپنڈی میں تدریسی خدمات سر انجام دیں اور 2002ء میں ریٹائرڈ ہو گئے۔جلیل عالی فطری شاعر ہیں ان کے اشعار میں حساسیت کا رنگ غالب ہے ان کی شاعری کسی ایک موضوع تک محدود نہیں بلکہ وہ اپنی شاعری میں فطرت کے تمام مناظر پر بات کرتے اور قدرت کے تمام پہلووٴں پر غورو فکرکرتے نظر آتے ہیں ۔ کہیں وہ کرب اور محرومی کا تذکرہ کرتے ہیں۔ تو کہیں امید اور خوشی کے موضوع پر شعرکہتے دکھائی دیتے ہیں
دیوار نہ گر جائے تصویر بدلنے سے
کمرہ ویراں ہو جاتا ہے اک تصویر ہٹا دینے سے
تجھے مہنگی پڑے گی اب دل آزاری ہماری
زمانوں سے ہمارے کھیت محرومِ نمو ہیں
ہمیشہ چھین لیتا ہے کوئی باری ہماری
ہم اُس سردار کے شانوں پہ سر دیکھیں گے کب تک
عدو کے سامنے جس نے انا ہاری ہماری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نکلے گا کوئی رستہ تدبیر بدلنے سے
ملتی نہیں آزادی زنجیر بدلنے سے
اس شہر کی سیرت میں کچھ فرق نہیں پڑتا
بس جرم بدلتے ہیں تعزیر بدلنے سے
حصارِ ذات سے باہر نکل پاوٴ تو آوٴ
زمانوں سے فقط لہریں گمانوں کی گنو ہو
کسی دن تم یہ دریا پار کر جاوٴ تو آوٴ
حدِ خواہش میں جینا ہے تو جاوٴ راہ اپنی
نہ دشتِ شوق کی وسعت سے گھبراوٴ تو آوٴ
یہ زندگی ہمیں قسطوں میں مارتی رہی ہے
اِدھر اُدھر کی عبث خاک چھانتے پھرے ہیں
جدھر جدگر ہمیں قسمت ہنکارتی رہی ہے
بھٹک رہی ہے خجل خواہشوں کے غاروں میں
وہ جستجو جو ستارے شکارتی رہی ہے
کسے حقیقتِ نیرنگیِ جہاں کی خبر
ازل سے وقت کی فطرت بجھارتی رہی ہے
ہمارے سر سے بلائیں کہاں ٹلی ہوتیں
یہ اپنی ماں کہ جو صدقے اتارتی رہی ہے
اک اور بادِ بیاباں اک اور یادِ غزال
وہ پھونکتی رہی ہے یہ بہارتی رہی ہے
جہاں میں تھے ہی نہیں جب تو کیا پتہ پاتی
قضا کہ نام ہمارا پکارتی رہی ہے
کہاں کسی سے کبھی رازِ دل کہا عالی
یہ شاعری کہ ہمیں اشتہاارتی رہی ہے
______________
کہانی بے سرو پا روز اک تحریر تے ہو
ہم ایسے تو نہیں جیسا ہمیں تشہیرتے ہو
دکھاتے ہو ہمیں سب عکس من مرضی مطابق
حقیقت اور ہے تم اور کچھ تصویرتے ہو
کوئی معیارِ نیک و بد نہیں کُھلتا تمہارا
کسے تحقیرتے ہو اور کسے توقیرتے ہو
فلک سے تم پہ یہ کیسا عذاب اترا ہوا ہے
اُسے مسمارتے ہو خود جسے تعمیرتے ہو
تمہارے ساتھ کوئی گفتگو ہو بھی تو کیسے
ذرا سی بات پر تم دیر تک تقریرتے ہو
اِسی کو مصرفِ ایماں سمجھ رکھا ہے تم نے
کہ کوئی اختلافے تو اُسے تکفیرتے ہو
میاں یہ دل ہے ایسے صید ہو سکتا نہیں ہے
عبث دنیا کے رنگوں میں اسے زنجیرتے ہو
کہو کہتے ہوئے کیا کیا گزر جاتی ہے دل پر
کہ جس سے سننے والوں کے کلیجے چِیرتے ہو
سخن کو سونپتے ہو کیسے کیسے انگ عالی
کہیں اقبالتے ہواور کہیں پر مِیرتے ہو
اس سے اچھا تو میرے یار کیے جاتے ہیں
پروفیسر جلیل عالی کا تخلیقی سفر ابھی جاری و ساری ہے ۔ ان کی تصنیفات و تالیفات میں ”خواب دریچہ ( شعری مجموعہ )1984، شوق ستارہ ( شعری مجموعہ) 1998، عرضِ ہنر سے آگے (شعری مجموعہ)2007، لفظ مختصر سے مرے(انتخاب کلام جلیل عالی از خاور اعجاز) 2016، نور نہایا رستہ( مجموعہ نعت) 2018، پاکستانی ادب (شعری انتخاب برائے اکادمی ادبیات پاکستان) 2002، پاکستانی ادب(شعری انتخاب برائے اکادمی ادبیات پاکستان) 2005 قابلِ ذکرہیں جبکہ زیرِ ترتیب و اشاعت کتب میں منطق نہیں بنتی (اردو نظمیں) ، ایک لہر ایسی بھی (اردو غزلیں) ، شعری دانش کی دھن میں(منتخب تنقیدی مضامین)، عشق دے ہور حساب(پنجابی شعری مجموعہ) شامل ہیں۔ ان کے شعری مجموعے ” عرضِ ہنر سے آگے“ کو احمد ندیم قاسمی ایوارڈ ۲۰۰۷ اور پاکستان رائٹرز گلڈ ایوارڈ ( ۲۰۰۵ تا ۲۰۰۷) کا حق دار قرار دیا گیا۔ اور ان کے حمد و نعت کے مجموعے ” نور نہایا رستہ“ کو اوّل سیرت ایوارڈ ۱۴۴۱ ہجری کا اعزاز حاصل ہوا ۔ حکومت پاکستان پروفیسر جلیل عالی کو ان کی ادبی خدمات کے صلہ میں تمغہ امتیاز سے نواز چکی ہے۔
جلیل عالی کے ان خوبصورت نعتیہ اشعار کے ساتھ اس مختصر مضمون کا اختتام کیا جاتا ہے۔
مقصود ہے بس عرضِ تمنا مِرے آقاﷺ
میں محوِ سفر ہوں تِری یادوں کے جلومیں
تو ہی مِری منزل مِرا رستہ مِرے آقاﷺ
آباد ہے اک سرمدی احساس کنارے
سینے میں تِرا شوق مدینہ مِرے آقا
رکھ سایہٴ رحمت مین کہ منسوب ہیں تجھ سے
میں اور مرا چاند ستارہ مرے آقا
اشکوں کی روانی میں یہی وردِ زباں ہے
آقا مرے آقأ مرے آقأ مرے آقا
Browse More Urdu Literature Articles
کتنے یگ بیت گئے
Kitne Yug Beet Gaye
پروین شاکر کی حادثاتی موت کی نامکمل تحقیقات
Parveen Shakir Ki Hadsati Maut Ki Namukammal Tehqiqat
جلتی ہوا کا گیت
Jalti Hawa Ka Geet
ماں اور پروین شاکر
Maan Aur Parveen Shakir
پروین شاکر کا رثائی شعور
Parveen Shakir Ka Rasai Shaoor
ریت
Rait
لا حاصل از خود
La Hasil Az Khud
فقیرن
Faqeeran
داستان عزم
Dastaan E Azm
محمد فاروق عزمی کا پرعزم اور پر تاثیر قلمی سفر
Mohammad Farooq Azmi Ka PurAzam Aur PurTaseer Qalmi Safar
حلیمہ خان کا تقسیم 1947 کے شہداء کو سلام
'Walking The Divide: A Tale Of A Journey Home'
جہیز
Jaheez