Tareekh Saaz Shakhsiyat, Molana Muhammad Yousaf Mujahid Al Hussaini - Article No. 2228

Tareekh Saaz Shakhsiyat, Molana Muhammad Yousaf Mujahid Al Hussaini

تاریخ ساز شخصیت،مولانا محمد یوسف مجاہدالحسینی - تحریر نمبر 2228

مولاناکے ملکی اور غیر ملکی شخصیات اور حکومتی اداروں کے سربراہوں کے ساتھ تحقیقی اور علمی کام کے سلسلے میں روابط رہتے تھے۔ مولانا شعبہ تصنیف وتالیف میں منفرد حیثیت سے سرفراز تھے۔ آپ کی لائبریری میں کئی قلمی اور نادر ونایاب کتب موجود ہیں جن سے استفادہ کرنے کے لئے بالخصوص شعبہ صحافت یا ابلاغیات میں پی ایچ ڈی کرنے کا ارادہ رکھنے والے دور دراز کا سفر کرکے آپ کے در پر حاضری دیتے

بدھ 25 دسمبر 2019

تحریر: سید ذکر اللہ حسنی

دنیا کے مختلف حصوں میں گوناگوں خیالات کی حامل قومیں اور لوگ آباد ہیں جن کی ایک پہچان ہے جو تاریخی پس منظر کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جوکسی سے سن کر اورکسی کے نظریات وخیالات سے متا ثر ہو کر تاریخ مرتب کرتے ہیں مگر کچھ شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں جو خود تاریخ کی خالق ہوتی ہیں۔ زندہ قومیں ہمیشہ ایسی تاریخ ساز شخصیات کو یاد رکھتی ہیں چنانچہ ایسی ہی ایک تاریخ ساز شخصیت، قافلہ حریت وآزادی کے ہمسفر، ممتاز عالم دین، نامور صحافی اور تحریک ختم نبوت کے بانی رکن آج سے تقریبا 93برس قبل4جنوری 1926کو انڈیا کی ریاست کپورتھلہ سلطان پور لودھی میں مولانا محمد ابراھیم صاحب کے گھرپیدا ہوئے۔

گول چہرہ، گندمی رنگت، درمیانہ قد، استدلال اور متا ثرکن گفتگو میں یکتا، چاق وچوبند، حالات پہ عقابی نظریں، بے شمار خصوصیات کی حامل شخصیت! یہ ہیں! حضرت علامہ مولانا محمد یوسف مجاہد الحسینی رحمة اللہ علیہ۔

(جاری ہے)

آپ کا اصل نام محمد یوسف مجاہد تھا، لیکن جب آپ1945ء کو شیخ الاسلام مدرس مسجدنبوی ا شریف، اسیرمالٹا، پیرطریقت حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمتہ اللہ سے بیعت ہوئے تو اپنے نام کے ساتھ حسینی کو بڑھا لیا۔

اب آپ مولانا مجاہدالحسینی کے نام سے ہی ممتازومعروف ہیں۔ آپ ابھی بچپن میں ہی تھے کہ آپ کے والد محترم انتقال فرماگئے۔ پھر پرورش آپ کی والدہ محترمہ اور پھوپھی جان نے کی، آپ نے اپنی ابتدائی دینی تعلیم بھی گھر میں حاصل کی۔آپ کا تعلق دیندار، سلیقہ شعار اور علمی خاندان سے ہے اور ہرکامیاب انسان ماں کی گود اور تربیت کاہی مرہون ہوتا ہے۔
گھر میں ابتدائی تعلیم(عربی)کے بعدسلطان پور میں قائم مدرسہ تعلیم القرآن میں داخل ہوئے اور ابتدائی عربی وفارسی کے ساتھ چھٹی جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ پھرجالندھر میں مدرسہ عربیہ خیرالمدارس میں داخل ہوگئے۔ وہاں مولانا خیرمحمدجالندھری، مولانا مشتاق احمد ہوشیارپوری، مولانا محمدعبداللہ رائے پوری(فرزند مفتی فقیراللہ صاحب) اور مولانا محمدشریف فرزند مولانا خیر محمدسے تعلیم حاصل کی۔
مولانا سید ابوذربخاری اور مولانا سعیدالدین شیرکوٹی اور مولانامجاہدالحسینی آپس میں کلاس فیلو ہیں۔ 1943ء میں دارالعلوم دیوبند حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمدمدنی کی خدمت میں حاضری دی لیکن ان کی گرفتاری کے سبب شرف تلمذ حاصل نہ ہوسکا،چنانچہ دیگر طلباکی مشاورت اور بالخصوص حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی کے حکم پر ان کی قیادت میں ہی دارالعلوم ڈابھیل (انڈیا)چلے گئے۔
وہاں مولانا شبیر احمد عثمانی سے بخاری شریف کا ابتدائی حصہ پڑھا لیکن سوئے اتفاق مولانا علامہ شبیر احمد عثمانی گھٹنے کی تکلیف کے باعث واپس دیوبند تشریف لے گئے۔ ان کی جگہ مولانا شمس الحق افغانی سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند اور وزیر معارف ریاست (قلات)سے بخاری شریف کے اسباق کی تکمیل کی۔ اس کے علاوہ مولانا مفتی محمدشفیع، مولانا ظفر احمد عثمانی، مولانا محمد مسلم دیوبندی، مولانا عبدالجبار اعظمی اور مولانا احمد نور صاحب سے بھی اکتساب فیض کے ساتھ سند فراغت حاصل کی، چنانچہ1944-45ء میں دورئہ حدیث مکمل کرکے واپس سلطان پور آگئے۔
یہاں ایک نئی دینی درسگاہ کے قیام کی خاطر اپنے استاد حضرت مولانا خیر محمد جالندھری کو افتتاحی تقریب میں مدعو کیاگیا تو جدید معلومات سن کر اور تدریسی شعبہ میں استعداد دیکھ کر حضرت مولانا خیر محمد صاحب واپس تشریف لا کر اپنے ساتھ خیرالمدارس جالندھر لے گئے۔ وہاں ابتدائی کتب کی تدریس کے علاوہ شعبہ خوشنویسی اور تصنیف وتالیف میں مہارت رکھنے کے سبب نئے شعبہ جات کے استاد مقرر ہوئے۔
1946ء میں جب ہندومسلم فسادات شدت اختیار کرنے لگے تو استاد محترم مولانا خیر محمد صاحب کی اجازت سے واپس سلطان پور آگئے اور انجمن تعلیم القرآن عیدگاہ(سلطان پور)کے صدر مقرر ہوگئے۔ تحریک آزادی جب ملکی تقسیم پر منتج ہوئی تو ہجرت کرنا پڑی اور شہر کے سب سے آخری قافلہ کے ساتھ عازم پاکستان ہوگئے۔ 1947ء میں چونکہ حضرت امیر شریعت سید عطااللہ شاہ بخاری اپنے مخلص رفیق جماعت نوابزادہ نصراللہ خاں خانگڑھ میں قیام پذیر ہوئے تھے اور شاہ صاحب کے فرزند اکبر مولانا سید ابوذربخاری: مولانا مجاہدالحسینی کے جالندھر میں کلاس فیلو تھے اس تعلق کی وجہ سے مولانا مجاہدالحسینی بھی نوابزادہ نصراللہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اپنے بزرگوں سے مشاورت کے ساتھ مظفر گڑھ شہر میں آباد ہوگئے۔
بعد ازاں اپنے ہم جماعت سید ابوذر بخاری کے ساتھ مل کر آپ نے کوچہ صحافت میں قدم رکھا۔ ملتان کے روزنامہ زمیندارسدھارکے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ اپنے دینی رجحان کی وجہ سے اس کی ادارت کوخیر باد کہناپڑا۔ پھر ہفت روزہ جریدہ غریب کااجراکیا۔ اس کی ادارت میں علامہ طالوت اور مولانا ابوذر بخاری کی نگارشات شائع ہوتی تھیں،چنداشاعتوں کے بعد ایک ایسی نظم بھی شامل اشاعت ہوئی جس میں قادیانیت پر سخت تنقید کی گئی تھی۔
جس پر ملتان کے قادیانی ڈی سی ایس ایم حسن نے غریب کی اشاعت ختم کرنے اور زرضمانت مبلغ پانچ سو روپے ضبط کرنے کی دھمکی دی جس پر ہفت روزہ غریب کی اشاعت بند ہوگئی۔ حضرت امیرشریعت کے حکم پر مولانا مجاہدالحسینی روزنامہ آزادکی ادارت کے فرائض انجام دینے لاہور چلے گئے۔ روزنامہ آزاد اس وقت مقبول ترین اخبار تھا، اور برصغیر کی صحافتی تاریخ میں اس کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
روزنامہ آزاد کا ڈیکلیئریشن زعیم احرار شیخ حسام الدین کے نام تھا۔1946ء میں روزنامہ آزاد کے آغاز پر اس کے چیف ایڈیٹر نوابزادہ نصراللہ خاں تھے، جبکہ آغا شورشکاشمیری، ماسٹر تاج الدین انصاری سمیت چار افراد کے نام ادارہ تحریر میں شامل تھے۔جس وقت ملتان میں ہفت روزہ غریب کی اشاعت پر پابندی عائد ہوئی تو اسی عرصہ میں آغا شورش کاشمیری نے روزنامہ آزاد کی ادارت چھوڑ کرہفت روزہ چٹان کا آغاز کردیا تھا۔
پہلے ان کی جگہ مفکر احرار چوہدری افضل حق کے قریبی عزیز چوہدری ظہور الحق روزنامہ آزاد کے چیف ایڈیٹر مقرر ہوئے، پھر ڈاکٹر صابر ملتانی کا نام بھی شامل رہا آخر میں مولانا مجاہدالحسینی صاحب1950ء سے1953ء تک چیف ایڈیٹر رہے۔ اسلامی دستوری سفارشات کے22نکات مرتب کرنے اور تحریک ختم نبوت کو کامیاب بنانے کے سلسلے میں آل مسلم پارٹیز کنونشن پاکستان کے زیراہتمام 1953ء میں علامہ سید محمد سلیمان ندوی کی زیرصدارت مشرقی اور مغربی پاکستان کے عظیم المرتبہ علماکرام اور مشائخ عظام کا جو تاریخی اجتماع حاجی مولا بخش سومرو(سابق وفاقی وزیر بحالیات)کی رہائش گاہ متصل مزار قائد اعظم کراچی میں منعقد ہوا تھا اس کی کارروائی مرتب کرنے اورتاریخ ساز اجلاس کے شرکاکے دستخط کرانے کی سعادت بھی مولانا مجاہدالحسینی کوحاصل ہوئی، وہ دستخط مولانا کے پاس اصل حالت میں موجود تھے۔
ان شخصیات میں سے علامہ سید محمد سلیمان ندوی، امیر شریعت سید عطااللہ شاہ بخاری، مولانا ابوالحسنات سید محمد قادری، مولانا عبدالحامد بدایونی، مولانا سید ابوالاعلی مودودی، مولانا شمس الحق افغانی، مولانا احمد علی لاہوری، سید محمد داو د غزنوی، مولانا مفتی دین محمد ڈھاکہ، مولانا راغب احسن ڈھاکہ، پیر سرسینہ شریف مشرقی پاکستان، مولانا مفتی محمد شفیع، مولانا احتشام الحق تھانوی، مولانا محمد یوسف بنوری، مفتی جعفر حسین، سید مظفر علی شمسی اور دیگر عظیم دینی وعلمی شخصیات کے اسماگرامی خصوصا قابل ذکر ہیں۔
1953ء کی تحریک ختم نبوت کے آغاز میں ہی حکومت نے مولاناظفر علی خاں کے روزنامہ زمیندار اور روزنامہ آزاد کو ایک سال کیلئے بند کردیا اور ایڈیٹر زمیندار مولانا اختر علی خاں:فرزند مولانا ظفر علی خاں اورمولانا مجاہدالحسینی لاہور سنٹرل جیل میں قید کردیے گئے تھے۔ حضرت امیر شریعت اور دوسرے رہنماو ں کے ساتھ ایک سال قید رہے۔ جیل میں حضرت امیر شریعت کے علاوہ حضرت شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری، مولانا ابوالحسنات سید محمد احمد قادری خطیب جامع مسجد وزیرخاں لاہور، مولانا عبدالحامد بدایونی بانی جمعیت علماپاکستان، ماسٹر تاج الدین انصاری صدر مجلس احراراسلام پاکستان، شیخ حسام الدین سیکرٹری جنرل مجلس احرار پاکستان، مولانا محمد علی جالندھری ناظم اعلی مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان، صاحبزادہ سید فیض الحسن سجادہ نشین آلومہار شریف، مولانا سید نورالحسن شاہ بخاری ناظم اعلی تنظیم اہلسنت پاکستان، مظفر علی شمسی ناظم اعلی تحفظ حقوق شیعہ، مولانا لال حسین اختر، مولانا محمد حیات فاتح قادیان اور دیگر عظیم شخصیات کے ساتھ پس دیوار زنداں رہے۔
اس اثناء میں مولانا ابوالحسنات کے حکم پرمولانا مجاہدالحسینی امامت کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔پھر سال کے بعد رہائی ملی تو تنظیم اہلسنت کے ہفت روزہ دعوت کے ایڈیٹر رہے اور اس کے ذریعے اپنا مو قف لوگوں تک پہنچاتے رہے۔ جولائی1956ء میں روزنامہ نوائے پاکستان لاہور کا آغاز ہوا تو اس کے چیف ایڈیٹر مقرر ہوئے،نوائے پاکستان لاہور کا معروف روزنامہ تھا جب حکومت نے نوائے وقت کی جبری بندش کی تو چھ ماہ حمید نظامی مرحوم بھی اس کے ایڈیٹر رہے تھے۔
1955-54ء میں نوائے پاکستان کی ادارت نامور صحافی مولانا مرتضی احمد خاں میکش کے سپرد تھی۔ تحریک ختم نبوت کے ترجمان روزنامہ آزاد پر پابندی کے باعث نوائے پاکستان کو جماعتی ترجمان کیلئے منتخب کیا گیا، تو مولانا میکش نے بلا توقف پرچہ جماعت کو دیدیا۔ اس طرح روزنامہ نوائے پاکستان ترجمان ختم نبوت کے طور پر 1956ء سے 1959ء تک اشاعت پذیر رہا، اس کے ساتھ1958ء میں ہفت روزہ ساربان لاہور کا اجراہوا تو1964ء تک اس کے بھی چیف ایڈیٹر رہے۔
اس کے بعد حضرت شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری کی سرپرستی وادارت میں شائع ہونے والے ہفت روزہ خدام الدین سے وابستگی اختیار کی اور 1974ء تک اس کے رئیس التحریر رہے۔ لاہور سے لائل پور نقل مکانی کے بعد القاسم سکول قائم کیا جو سات سال خدمات انجام دیتا رہا پھر لائل پور سے روزنامہ پیغام کا اجراہوا تو چند برس اس کے چیف ایڈیٹر رہے بعد ازاں سید وکیل جیلانی کے سپرد کیا۔
اس وقت ان کے صاحبزادے سید منیر جیلانی روزنامہ پیغام فیصل آباد، ساہیوال وغیرہ سے شائع کررہے ہیں۔ 1985ء میں ماہنامہ صوت الاسلام کے نام سے ایک ماہنامہ کاآغاز ہوا جو اپنے منفرد انہ انداز تحریر اور معلوماتی مضامین کے ساتھ باقاعدگی سے شائع ہوتارہا۔مولانا صاحب فراش ہوئے تو ماہنامہ صوت الاسلام کی اشاعت باقاعدہ ممکن نہ ہوسکی تاہم مولانا نے اس میں بھی اپنی قلمی مصروفیات ترک نہ کیں اور توجہ کتب پر دینا شروع کردی۔
ان کا نظریہ تھا کہ اخبار میں شائع بات اطلاع کے طور پر رہتی ہے اور اس کی زندگی ایک دن کی ہوتی ہے جبکہ کتاب تاریخ کا حصہ بن جاتی ہے اور ہمیشہ پڑھی جاتی ہے۔ راقم الحروف کو ماہنامہ صوت الاسلام فیصل آباد کی تیاری واشاعت اور مولانا کی کئی کتب کمپوز کرنے اور پروف ریڈنگ کی سعادت حاصل ہے۔ مولانا کے شعبہ صحافت میں باقاعدہ شاگردوں میں ہفت روزہ خدام الدین کے سابق ایڈیٹر مولانا عبدالرشید انصاری مرحوم ایڈیٹررسالہ نورعلےٰ نور،مولانا صابر سرہندی، راقم الحروف سید ذکراللہ حسنی بیوروچیف روزنامہ اسلام ہیں۔
راقم کو یہ سعادت بھی حاصل ہے کہ استاد گرامی مولانا مجاہد الحسینی سے بیس سال تک استادی شاگردی کا تعلق رہا،کبھی ناراضگی نہ ہوئی بلکہ ملنے میں دیر ہوجاتی تو وہ رابطہ کرکے ملنے کا حکم فرماتے۔ان کے دست مبارک سے سند شاگردی تحریری طور پر بھی وصول کرنے کا امتیازی اعزاز بھی حاصل ہے۔ مولانا کی کتب کی تدوین واشاعت میں مولانا دلبر خان تقریباًآٹھ سال سے معاون وتصنیف میں شاگرد ہیں۔
علاوہ ازیں جامعہ امدادیہ کے مہتمم مولانا مفتی محمد طیب، مولانا مفتی محمد زاہد، دارالتحقیق کے سربراہ مفتی مسعود ظفر ان کے علمی معاونین میں سے ہیں۔ مولانا اپنے معمولات میں ان حضرات کے علاوہ اپنے صاحبزادے ڈاکٹر پروفیسر محمد ابوبکر صدر اور داماد بھائی ندیم احمد سے خصوصی مشاورت ہوتیجبکہ خانگی واہم معاملات میں گائے سوپ کے حاجی شیخ محمد اظہر سے بھی مشاورت کرتے تھے۔
مولاناکے ملکی اور غیر ملکی شخصیات اور حکومتی اداروں کے سربراہوں کے ساتھ تحقیقی اور علمی کام کے سلسلے میں روابط رہتے تھے۔ مولانا شعبہ تصنیف وتالیف میں منفرد حیثیت سے سرفراز تھے۔ آپ کی لائبریری میں کئی قلمی اور نادر ونایاب کتب موجود ہیں جن سے استفادہ کرنے کے لئے بالخصوص شعبہ صحافت یا ابلاغیات میں پی ایچ ڈی کرنے کا ارادہ رکھنے والے دور دراز کا سفر کرکے آپ کے در پر حاضری دیتے۔
سیرت مرکز کے نام سے تحقیقی ادارہ بھی قائم کئے رکھا۔ مولانا کی چند اہم تصانیف میں سے (1) معاشیات قرآنی (2) تعلیم القرآن قاعدہ (باتصویر) (3) سیرت وسفارت رسول (اول صدارتی ایوارڈ یافتہ کتاب) (4)رسول اللہ کانظام خدمت خلق(5) سات سورتیں(6) قرآن وحدیث میں(سات عدد) کی اہمیت (7) مشاہیر کی تقریریں (8) خطبات امیر شریعت (9)شاہ ولی اللہ کے دیس میں (سفرنامہ)(10) سفرنامہ ارض الاسلام(11) حج وعمرہ کی ادائیگی کا آسان طریقہ (مصور) (12)اسرائیل اور۔
۔۔(13) اسلامی زرعی معیشت(14) مکتوبات رسول اللہ (15)اسیران مالٹا (شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی اور سید حسین احمد مدنی کی خدمات کا تذکرہ اور ان پر تنقیدات کا تجزیہ)، (16)رسول اللہ کا نظام امن عالم،(17)رسول اللہ کانظام خدمت خلق وغیرہ کتب سمیت کئی موضوعات پر کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ مغربی پاکستان کے سابق چیف اوقاف مسعود کھدرپوش کے دور میں جب مولانا غلام مرشد خطیب بادشاہی مسجد لاہور ریٹائرد ہوگئے تو سب سے پہلے مولانا مجاہدالحسینی کو بادشاہی مسجد کی خطابت اور علمااکیڈمی کا ڈائریکٹر مقرر کرنے کی پیشکش ہوئی کیونکہ علمااکیڈمی کے قیام کا منصوبہ مولانانے ہی نے پیش کیا تھا، لیکن مولانا نے یہ دونوں اہم اور قابل قدر عہدے اپنی ذاتی مجبوریوں کی وجہ سے قبول کرنے سے انکار کردیا۔
لائلپور کا نام فیصل آباد تجویز کرنیکی قرارداد جامع مسجد کچہری بازار کے خطبہ جمعہ میں پہلی مرتبہ پیش کرنے کا اعزاز بھی آپ کو حاصل ہے۔یہ قرارداد بھی مولانا کے اثاثہ میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ آپ کو مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کے بانی رکن اور مرکزی سیکرٹری نشرواشاعت کا اعزاز بھی حاصل ہے، نیز مولانا مفتی محمود کی زیرقیادت متحدہ دینی محاذ کے بھی آپ سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے تھے،عالم اسلام کی ادبی تنظیم رابطہ عالمی ادب اسلامی فیصل آباد کے سربراہ بھی رہے۔
متعدد مرتبہ امیر الحجاج وخادم الحجاج بھی مقرر ہوئے۔ مرکزی مسجد کچہری بازار وعیدگاہ کے بھی خطیب اور سعودی عرب جانے والے صحافتی وفد کے رکن رہے ہیں۔ مولانا نے کئی سو نادرو نایاب خطوط جمع کئے کیونکہ آپ کو بڑی شخصیات کے خطوط جمع کرنے کا شوق تھا۔ آپ نے کئی ملکوں کے ادباء، سفیروں، تحریکوں کے بانیوں، مسالک کے شیوخ، علماء، وزراء، سیاسی جماعتوں کے قائدین، دینی جماعتوں کے رہنماو ں کے پرانے ونئے خطوط جمع کئے ہیں، جنہیں کتابی صورت میں طبع کرنے کاعزم مصمم رکھتے تھے۔
مولانا مجاہد الحسینی کے دوستوں میں مجیب الرحمن شامی(ایڈیٹر روزنامہ پاکستان)،سابق ایڈیٹر ہفت روزہ چٹان اقبال فیروز (محفل، شیبا ہوٹل)،پروفیسر انور محمود خالد(سیرت نگار)، پروفیسر قاری محمد طاہر(ایڈیٹر ماہنامہ التجوید)، محمود شام(ایڈیٹر جنگ گروپ)، میاں محمد اسلم لدھیانوی(ایڈیٹر ڈیلی یارن)، محمد شفیع(72گڈیاں)، حافظ ریاض چشتی(النور ٹرسٹ)، سید توصیف اللہ(ہمسائے)، مولانا ارشاد الحق اثری(اہلحدیث عالم)، عرفان صدیقی (سابق مشیر وزیراعظم) سمیت متعدد صحافی، علماء کرام و ملنے والے حیات ہیں۔
مولانا کی امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کے گھرانے سے خاص عقیدت تھی۔ ان کے صاحبزادگان جب بھی فیصل آباد تشریف لاتے مولانا کے پاس ضرور حاضری دیتے۔ مولانا علمی وتحقیقی رسائل کو پسند فرماتے تھے۔ مولانا سمیع الحق بھی ماہنامہ الحق کی نسبت سے متعدد بار ان کی پرانی رہائش گاہ پیپلزکالونی تشریف لائے۔ جبکہ ملک وبیرون ملک مدارس سے شائع ہونے والے متعدد رسائل تبادلے اور اعزازی طور پر ان کے نام جاری ہیں۔
ان کے ان رسائل پر تبصرہ ہوتا تھا کہ عبادات کے فضائل قسط وار چھاپ کر ایک دوسرے کو دینے سے ان رسائل کا حق ادا نہیں ہوتا۔ بلکہ دینی مدارس کے ترجمان رسائل کو عوامی ہونا چاہیے۔ دینی مسائل کیلئے تو کتب کافی ہیں۔ مولانا مجاہد الحسینی رحمہ اللہ سے ہماری آخری ملاقات ہسپتال میں ہی ہوئی۔ جس میں انہیں استغفار، کلمہ طیبہ کا ورد کرتے پایا۔ جب انہیں شفیق کاشف صاحب کی طرف سے اپنے صاحبزادے سید محمد حسان حسنی کے ہمراہ کتب خوشبو اور عطر کا تحفہ دیا توبہت مسرور ہوئے ڈھیروں دعائیں دیں۔
مولانا نے بیٹے کے سر پر دست شفقت رکھا اور اس کی کامیابی کیلئے خصوصی دعا فرمائی۔ مولانا بستر مرگ پر بھی ختم نبوت اور سیرت النبی کے موضوعات پر کام کرنے کے خواہاں تھے۔ مجھ سے جو آخری بات کی وہ بھی ختم نبوت کانفرنس کروانے پر مشاورت تھی۔ مولانا مجاہد الحسینی نے 3دسمبر 2019کو اپنے آخری کالم اخبار وافکار کا آغاز کیا۔ جس کا موضوع تھا کہ نفاذ اسلام کی آواز کیوں معدوم ہے؟ مگر اس کی چار سطریں ہی لکھ پائے اور طبیعت خراب ہوگئی۔
یہ کالم بھی نفاذ اسلام کی فکر کے ساتھ ہی نامکمل رہ گیا۔ جسے ان شاء اللہ ان کی نہج پر مکمل کرنے کا ارادہ ہے۔ مولانا مجاہد الحسینی نے کالم کو چھوڑ کر اسی روز3دسمبر2019رات آٹھ بجے اپنے لیٹر ہیڈ کا پیڈ منگوایا اور اس پر اپنے ہاتھ سے قرآنی آیات اورتین چار سطریں کچھ یادداشتیں لکھنے کے بعد توحید باری تعالیٰ اور عشق ختم الرسل میں ڈوب کر ایک نظم لکھی۔
جسے 'حمد'کہا جاسکتا ہے۔ اس کا عنوان ''یا اللہ ''رکھا۔ حمد کے اشعار کچھ یوں ہیں۔ یا اللہ! تو خالق، مالک، تیری ذات قدیر میں ہوں تیرا بندہ عاصی، سر تا پا تعذیر تو ہے عالم ظاہر باطن تو واحد ستار ختم الرسل کی امت میں ہی رکھنا میرا شمار نامہ عمل نہ دید کے لائق رہنے دے ستّور میرے نبی کی نظروں سے بھی کرلینا دُور (مجاہد الحسینی) اس کے بعد خود لکھنے کی ہمت نہ رہی تو اپنی صاحبزادی سے کہا لکھو!۔
جنہوں نے سرخ رنگ سے ایک قطعہ ذکرالٰہی پر لکھا۔ وہ قطع یہ ہے۔ کیا مفت میں زاہدوں نے الزام لیا تسبیح کے دانوں سے عبث کام لیا یہ نام وہ ہے جو بے گنتی لیں کیا لطف جو گِن گِن کے تیرانام لیا حضرت استاذی مولانا مجاہد الحسینی رحمہ اللہ تقویٰ کے اعلیٰ درجات پر فائز تھے۔ عاجزی وانکساری اور صاف گوئی کا پیکر تھے۔ انہوں نے انتقال کے چند لمحات پہلے خطاطی کا عربی قطعہ بھی تحریر کیا۔
یہ قطعہ بمعہ ترجمہ یہ تھا۔'' التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ ''یعنی گناہ سے توبہ کرنے والا گویا اس نے گناہ نہیں کیا۔ مولانا مجاہد الحسینی پہلے پندرہ دن ہسپتال رہے۔ پھر دوبارہ تکلیف ہونے پر سول ہسپتال کے کارڈیک سنٹر میں آئے۔ جہاں امراض قلب کے ماہر ترین معالج ڈاکٹر جاوید اقبال نے ان کے علاج میں بھرپور تعاون کیا۔ ہسپتال میں بھی مولانا کے چاہنے والوں کا ہر وقت تیمارداری کیلئے تانتا بندھا رہتا تھا۔
آنے والوں سے خوشگوار انداز میں گفتگو اور مولانا کے مخصوص چٹکلے اس شعر کے مصداق تھے کہ ان کے دیکھے سے جو منہ پہ آجاتی ہے رونق، وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے۔ مولانا کی تیمار داری کیلئے آنے والا ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ مولانا بہت بہتر ہیں۔ کیونکہ مولانا کی 93سال عمر کے باوجود یادداشت کسی بھی طرح نوجوانوں سے کم نہیں تھی۔ ان کی اچانک گفتگو کرتے ہوئے طبیعت بگڑ جاتی۔
مولانا دل کی بیماری کے علاوہ گردوں کے مرض میں مبتلاء تھے۔ آخر کار 17دسمبر2019کو صبح چار بجے ان کے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا اور وہ کلمہ طیبہ واستغفار کے کلمات لبوں پر سجائے دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ گویا علماء دیوبند کا علمی آئینہ، ایک عہد، ایک تاریخ اور دنیا کی کئی لائبریریوں کا مجموعہ ہمیشہ کیلئے پیچھے والوں سے جدا ہوگیا۔
استاد محترم مولانا مجاہدالحسینی رحمہ اللہ کا جنازہ ٹیکنیکل ہائی سکول کی جامع مسجد میں عصر کی نماز سے متصل پڑھایا گیا۔ مولانا مجاہد الحسینی نے ہمارے سامنے بھی متعدد مرتبہ یہ بات کہی اور گھر میں بھی وصیت کی تھی کہ ان کا جنازہ ترجیحاً امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے خاندان سے دستیاب شخصیت پڑھائے۔ جس پر مجلس احرار اسلام پاکستان کے مرکزی رہنما نواسہ امیر شریعت مولانا سیدکفیل شاہ بخاری کی امامت میں نماز جنازہ ادا کی گئی۔
جبکہ پیپلز کالونی نمبر1چن ون روڈ پر پی ایس او پٹرول پمپ کے عقب میں قدیم قبرستان میں ان کی اہلیہ کی قبر کے ساتھ تدفین کی گئی۔جہاں اوکاڑہ سے مولانا کے دوست قاری سعید صاحب نے دعا کی۔ ان کے جنازہ میں جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک سے مولانا سمیع الحق شہید کے داماد و بھتیجے عرفان الحق حقانی، معروف صحافی مجیب الرحمٰن شامی، فیض اللہ کموکا ایم این اے، مرکزی علماء کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ زاہد محمود قاسمی، ڈاکٹر قاری محمد طاہر، جامعہ دارالقرآن کے مہتمم قاری محمد یٰسین، جامعہ امدادیہ کے نائب صدر مفتی محمد زاہد، مولانا محمد یوسف رابع، حافظ محمد امجد، انجمن تاجران منٹگمری بازار کے صدر حاجی محمد عابد، مفتی عبدالرحمٰن ظفران کے صاحبزادگان مفتی مسعود ظفر،مولانا ذوالفقار نقشبندی، میاں شیخ محمد اظہر گائے سوپ، خطیبِ شہر مفتی محمد ضیاء مدنی، مولانا محمد صابر سرہندی، ڈاکٹر زاہد اشرف، قاری عبدالرحیم بلوچ، مولانا حق نواز خالد،تبلیغی جماعت کے مولانا عباد اللہ، اقبال فیروز،جمعیت اہلحدیث کے رہنما مولانا محمد یوسف انور، حافظ عبد القیوم انور، حافظ شفیق کاشف، صاحبزادہ خالد محمود قاسمی، فیصل آباد یونین آف جرنلسٹس کے صدر میاں سلیم شاہد، جنرل سیکرٹری سید ذکر اللہ حسنی سمیت مختلف مدارس کے اساتذہ کرام و طلباء اور عوام الناس نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی۔
اگلے روزایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی صبح 9 بجے ٹیکنیکل ہائی اسکول مسجد میں کی گئی۔ مولانا کی ان دنوں رہائش 552 ڈی ایڈن ویلی کینال روڈ فیصل آبادمیں تھی۔مولانا کے صاحبزادے پروفیسر ابوبکر صدرکا رابطہ نمبر ہے۔ ان کی وفات پر تعزیت کیلئے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن، عرفان صدیقی سابق مشیر وزیراعظم، اوریا مقبول جان، مولانا زاہد الراشدی،حاجی اکرم انصاری سابق ایم این اے سمیت متعدد دینی، سیاسی، سماجی، علمی، تنظیموں کے عہدیداران ورہنماؤں کی آمد وفون کالز کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔
مولانا مجاہد الحسینی رحمہ اللہ کی شخصیت ہمہ جہت تھی۔ان کی سیرت النبی پر تحقیقی کاوشوں، تاریخ میں پہلی دفعہ آپ کے انٹرنیشنل ریلیشنز عربی کے علاوہ دیگر زبانوں میں احادیث کی دریافت پر ملکی سطح پر اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے نوازا جانا چاہیے۔ امید ہے حکومت میں شامل علمی حلقے اس جانب توجہ فرمائیں گے۔ ضلعی انتظامیہ کو مولانا مجاہد الحسینی رحمہ اللہ کی سابق رہائش گاہ 62بی ہریاں والا چوک پیپلزکالونی نمبر1یا کشمیر انڈر پاس کا نام مولانا مجاہد الحسینی سے منسوب کرکے علم، جستجو اور تحقیق سے تعلق کوعیاں کرنا چاہیے۔
مولانا انتہائی شفیق اور چھوٹوں سے بہت محبت کرتے، نوجوانوں پر بہت زیادہ شفقت کرتے۔ جو کوئی بھی انہیں دعوت دیتا وہ قبول کرتے۔ اپنا آخر بڑا سفر صوابی کا کیا، دارالعلوم اکوڑہ خٹک بھی کچھ دیر قیام کیا۔ شہر کے متعدد علمی،ودینی حلقے انہیں تقریبات میں بلاتے تو وہ بڑی محبت سے تشریف لے جاتے۔ ان کی ایک عادت تھی کہ وہ تعزیت کے خطوط ضرور لکھتے۔
رابطہ رکھتے۔ہر پاس بیٹھنے والے کو لکھنے پر قائل کرتے اور آخر کار اسے قلم کار بنا چھوڑتے۔وہ چھوٹوں کو بڑا بنانے کا ہنر جانتے تھے۔ مولانا مجاہد الحسینی رحمہ اللہ کی زندگی کے گوشے بطور شاگرد اتنے ہیں کہ ہجرت کی داستان اور خوں آشام واقعات پر ہی کئی کالم لکھے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح ہر ہر موضوع پرتفصیل موجود ہے۔ اس مختصر سی تحریر میں میرے جیسے شاگرد کیلئے ان کی زندگی کے تمام گوشوں کا احاطہ کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔
مقامی سیٹلائٹ چینل سٹی 41کے بیوروچیف ظفر ڈوگر صاحب نے ذاتی دلچسپی اور ہماری درخواست پر مولانا کا آٹھ گھنٹے تک ایک ٹیلی انٹرویو مولانا کے پردہ فرمانے سے چند ہفتے قبل ہی کیا تھا۔ جو متعدد بارایک گھنٹے کے مکمل پروگرام آج سٹی فورٹی ون کے ساتھ میں نشر ہوچکا ہے۔ ممتاز علمی ودانشور شخصیت اوریا مقبول جان نے بھی نیو ٹی وی چینل میں اپنے پروگرام حرف راز میں دو تین قسطوں میں مولانا کے انٹرویوز کئے تھے۔
جبکہ الامین اکیڈمی ستیانہ روڈ کے مفتی مصطفےٰ عزیز کی ذاتی دلچسپی سے سیرت پر تحقیقی کام اور مولانا کا سیرت پر لیکچر بھی منعقد ہوا تھا جو الامین اکیڈمی کے یوٹیوب چینل اور سوشل میڈیا پیجز پر موجود ہے۔ علاوہ ازیں مولانا کی زندگی کے تقریباً تمام شعبوں کا احاطہ کرتی مولانا کی بائیوگرافی مولانا کے دوست اور مصنف جناب میاں محمد اسلم ایڈیٹر ڈیلی یارن فیصل آباد نے مولانا مجاہد الحسینی رحمہ اللہ کی زندگی میں ہی تحریر کرلی تھی۔
جو ایک ہزار صفحات کی ضخیم کتاب کی صورت میں موجود ہے۔ جو جلد طباعت کے مراحل سے ہوتے ہوئے قارئین کیلئے دستیاب ہوگی۔ ان تمام متذکرہ باتوں کے علاوہ مولانا مجاہدالحسینی کی صحافتی، ملی، معاشرتی اوردینی خدمات انتہائی قابل قدر ہیں۔ جو طوالت کے خوف سے احاطہ تحریر میں نہیں آ سکتیں۔میرے جیسے نوجوان اخبار نویس حضرات اور اہل قلم ودانش نے مولانا کے تجربات، مشاہدات اور تاریخ کے اس گہرے سمندر سے استفادہ کیا تو ان کے جذبات یہ تھے کہ انہوں نے تاریخ کو پڑھنے اور دیکھنے کی سعادت حاصل کی۔

Browse More Urdu Literature Articles