Urdu Zuban K Muhawraat Ka Ghalat Istemal - Article No. 2090

Urdu Zuban K Muhawraat Ka Ghalat Istemal

اردو زبان میں محاورات کا غلط استعمال - تحریر نمبر 2090

روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والے بعض محاورے، ضرب الامثال اور الفاظ ایسے ہیں جنھیں ہم بے خبری اور لا علمی میں استعمال کر جاتے ہیں

Hayat abdullah حیات عبداللہ جمعرات 4 جولائی 2019

روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والے بعض محاورے، ضرب الامثال اور الفاظ ایسے ہیں جنھیں ہم بے خبری اور لا علمی میں استعمال کر جاتے ہیں،حالاں کہ ان کے مطالب و مفاہیم پر تھوڑا سا بھی غور یا نظر ثانی کر لی جائے تو اصل صورتِ حال فوراً ہی ذہن میں آ جاتی ہے، ان میں سے بعض الفاظ اور محاورے ایسے ہیں کہ جن کا استعمال لاشعوری طور پر دین اسلام کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے مگر لوگ ان کے پس منظر میں موجود دینِ اسلام سے بے گانہ کر دینے والے معانی کو مکمل نظر انداز کر کے اپنے مطلب سے غرض رکھتے ہوئے انھیں بے دھڑک استعمال کرتے چلے جاتے ہیں اور ذرا ٹھہر کر نہیں سوچتے کہ ان کے استعمال سے ایمان پر بھی زد پڑ سکتی ہے، مثلاً بعض لوگ بعض لوگ کسی خوش خبری ملنے کی صورت میں بڑی دیدہ دلیری سے یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ '' قسمت کی دیوی مہربان ہو گئی'' ایسا بولنے والے کو خبر ہی نہیں کہ دیوی اور دیوتاؤں کا تصور تو ہندو مذہب کی اختراع ہے، اسے تو اللّہ کا شکر ادا کرنا چاہیے تھا مگر وہ اسے دیوی اور دیوتاؤں کی نوازش اور مہربانی سمجھ کر انتہائی نامناسب لفظ ادا کر رہا ہے، چور کی ڈاڑھی میں تنکا، نماز بخشوانے گئے روزے گلے پڑ گئے، ملّا کی دوڑ مسجد تک اور لکھے موسی پڑھے خدا، ایسے محاورے ہیں جن سے شعائر اسلام کی توہین ہوتی ہے مگر مسلمان ان کو استعمال کرتے چلے جا رہے ہیں، آئیے! ذرا دیکھیے اسلام کا مذاق کس کس انداز میں اڑایا جا رہا ہے؟
حاتم کی قبر پر لات مارنا:- اس کا معنی ہے سخاوت میں حاتم طائی کو مات دے دینا، اگر کوئی آدمی بہت زیادہ سخاوت کا مظاہرہ کرے تو اس کے لیے بھی یہ محاورہ استعمال کیا جاتا ہے یا اگر کوئی کنجوس آدمی کبھی سخاوت کر بیٹھے تو اس کے لیے بھی طنزاً یہ محاورہ استعمال کیا جاتا ہے مگر ذرا رک کر سوچیے کہ قبر پر لات مارنا کتنا گناہ ہے، اللّہ کے رسول نے تو قبر پر بیٹھنے سے بھی منع فرمایا ہے اور قبر کے اوپر چلنے کی بھی شدید وعید آئی ہے مگر یہاں تو قبر پر لات مارنے کا عندیہ دیا جا رہا ہے
قبلہ درست کرنا:- اگر کوئی شخص اپنی الٹی حرکتوں سے باز نہ آئے تو کہتے ہیں کہ اس کا قبلہ درست کرنا پڑے گا، حالاں کہ قبلہ نہ تو غلط جگہ پر واقع ہے اور نہ اسے درست کرنے کی ضرورت، یاد رکھیے قبلہ بالکل درست جگہ پر ہے اسے درست کرنے کی کوشش مت کیجیے-
خدا جھوٹ نہ بلوائے:- بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے وہ بیان کی جانے والی بات کو پُراثر کرنے کے لیے عادت کے طور پر یہ جملہ استعمال کر دیتے ہیں کہ'' خدا جھوٹ نہ بلوائے'' اس شخص کو اتنی خبر نہیں کہ وہ کیا کہ رہا ہے؟ کیا اللّہ بھی جھوٹ بلواتا ہے؟ اللّہ اور اس کے رسول نے تو جھوٹ بولنے والے پر لعنت کی ہے، رب کی شان کے متعلق بغیر سوچے سمجھے ایسے الفاظ استعمال کرنا کتنا بڑا گناہ ہے اس کا اندازہ کر لیجیے۔

(جاری ہے)


بغل میں چھری منھ میں رام رام:- یہ ضرب المثل ہے جو ظاہری دوست اور باطنی طور پر دشمن کے لیے استعمال ہوتی ہے، پہلی بات تو یہ کہ اسے کسی بھی مسلمان کے لیے استعمال نہ کیجیے کیوں کہ اپنے مسلمان بھائی کو منافق کہنا اور سمجھنا کسی طور صحیح نہیں دوسری بات یہ کہ مسلمان رام رام نہیں کرتے بلکہ اللّہ کو اس کے پاکیزہ ناموں سے یاد کرتے ہیں
بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا:- گنگا ہندوؤں کا ایک مشہور اور مقدس دریا ہے، ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ اس میں اشنان (غسل) کرنے سے پاپ (گناہ) دھل جاتے ہیں، ہندو اس دریا میں اپنے جلائے گئے مُردوں کی راکھ ڈالنا باعث نجات سمجھتے ہیں اسی مناسبت سے گنگا میں ہاتھ دھونا اور گنگا بہانا جیسے محاورے ایجاد کیے گئے، اول الذکر کا معنی ''فیض حاصل کرنا'' اور مؤخر الذکر کا مطلب ''فیض جاری کرنا'' ہے بہتر ہے کہ ہندو تہذیب کے آئینہ دار ان محاوروں کو ترک کر دیا جائے، یاد رکھیں! مسلمانوں کا مقدس پانی آبِ زم زم ہے۔

ساجھے کی ماں بھی بُری:- کسی چیز یا کسی کاروبار میں شراکت سے بچنے کے لیے محاوہ استعمال کرتے ہیں کہ ساجھے کی تو ماں بھی بُری ہوتی ہے، کسی ماں کی اولاد اگر ایک سے زیادہ ہو گی تو یقینی بات ہے کہ ماں بھی ساجھے ہی کی ہو گی، اکثر مائیں ساجھے ہی کی ہوتی ہیں، ماں جیسے مقدس رشتے کا یہ کس قدر استہزا اور توہین ہے کہ وہ اگر ساجھے کی ہو گی تو بُری ہو گی، اسلام نے تو والدین کے بہت زیادہ حقوق بیان فرمائے ہیں، بڑھاپے میں انھیں اف تک کہنے سے روکا ہے، ایک شخص نے نبی صل اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اے اللّہ کے رسول! مجھ پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ آپ نے فرمایا تیری ماں کا، اس نے پھر یہی پوچھا، آپ نے پھر یہی جواب دیا کہ تیری ماں کا، اس نے تیسری بار یہی سوال پوچھا تو آپ نے پھر بھی یہی جواب دیا، جب اس شخص نے چوتھی مرتبہ یہی سوال دریافت کیا تو آپ نے فرمایا تیرے باپ کا- (صحیح مسلم)
اللّہ کے رسول تو والدین کے حقوق سب سے زیادہ بیان فرمائیں مگر محاورے میں ساجھے کی ماں کو بُری کہا جائے یہ والدین کی توہین نہیں تو اور کیا ہے؟
ظلم خدا کا:- کسی آدمی کو اگر غصہ آئے یا کسی کا کام یا حرکت پسند نہ آئے تو فوراً کہا جاتا ہے '' ظلم خدا کا '' یہ جملہ کہنا قطعاً درست نہیں، اس لیے کہ اللّہ اپنے بندوں پر کبھی ظلم نہیں کرتا اللّہ کی ذات تو رحمت ہی رحمت ہے وہ تو کافروں کو ان کے کفر کے باوجود بھی نعمتوں سے نوازتا ہے، اگر اللّہ کسی کو پریشانی میں بھی مبتلا کرتا ہے تو یہ بھی اس کے گناہوں کے خاتمے اور اس کے اجروثواب میں اضافے کا سبب بنتا ہے، اللّہ قرآن میں فرماتا ہے کہ ''میں اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا '' (سورہ ق)
لیکن ہمارے ہاں بڑی ڈھٹائی کے ساتھ '' ظلم خدا کا یا غضب خدا کا '' بول دیا جاتا ہے
فٹے منہ کہنا:- ہمارے معاشرے میں یہ جملہ بھی بڑی حد تک عام ہے، لعنت ملامت یا مذمت کرنے کے لیے اس جملے کو عام استعمال کیا جاتا ہے ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ مومن اور مسلمان کبھی لعنت کرنے والا اور طعنہ دینے والا نہیں ہوتا (صحیح بخاری)
اللّہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کو لعن طعن کرنا اس کے قتل کے برابر ہے ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ لعنت کرنے والے قیامت کے دن نہ سفارشی بن سکیں گے اور نہ گواہ (صحیح مسلم)۔

Browse More Urdu Literature Articles