Urdu Zuban K Sath Sootela Salook Akhir Kab Tak - Article No. 2279

Urdu Zuban K Sath Sootela Salook Akhir Kab Tak

اردو زبان کے ساتھ سوتیلا سلوک آخر کب تک؟ - تحریر نمبر 2279

زبان کسی بھی قوم کا اثاثہ ہوتی ہے جو قومیں اپنی زبان، تہذیب و ثقافت اور ورثے کا خیال رکھتی ہیں، وہی دنیا میں اعلیٰ مقام حاصل کرتی ہے

جمعرات 12 مارچ 2020

نجمہ ظہور
زبان ہمارے کے لیے اللہ تعالٰی کی طرف سے ایک خاص تحفہ ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہماری زندگی میں اس کا کردار بہت واضح ہے زبان انسانوں سے زندہ ہے اور انسان زبان سے ۔زبان کی ترقی قوموں کی ترقی کا سبب ہوتی ہے۔ باوقار قومیں ہمیشہ اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنی زبان کو سینے سے لگا کر رکھتی ہیں اس کی قدر کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر فخر محسوس کرتیں ہیں نہ کہ ان کی وجہ سے احساس کمتری میں مبتلا ہو کر خود کو کم تر سمجھتی ہیں۔
ترقی یافتہ اقوام کھبی بھی بیرونی دنیا سے کٹ کر الگ تھلگ ہونے اور اپنی ثقافت اور زبان سے بے رخی اختیار کرنے کا درس نہیں دیتی ہے۔ دنیا میں جن اقوام نے ترقی کے مدارج تیزی سے طے کئے ہیں سبھی نے ہمیشہ اپنی ثقافت اور قومی زبان کو فوقیت دی ہے۔

(جاری ہے)

اردو زبان كی ترقی و ترویج كا آغاز مغلیہ دور سے شروع ہوا اور یہ زبان جلد ہی ترقی كی منزلیں طے كرتی ہوئی ہندوستان كے ہندوؤں اور مسلمانوں کی زبان بن گئی۔

برصغیر پر قبضے کے بعد انگریزوں نے جلد ہی بھانپ لیا تھا کہ اس ملک میں آئندہ اگر کوئی زبان مشترکہ زبان بننے کی صلاحیت رکھتی ہے تو وہ اردو ہے اسی لئے فورٹ ولیم کالج میں نووارد انگریزوں کو اردو کی ابتدائی تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کیا اور یوں اردو کی بالواسطہ طور پر ترویج بھی ہونے لگی۔ مگر انگریزاقتدار آنے کے بعد 1867میں ہندوؤں نے اردو زبان كی مخالفت شروع كر دی۔
اردو زبان كی مخالفت كے نتیجے سے اردو ہندی تنازعہ شروع ہوا ۔ اردو ہندی تنازعہ کے بعد مسلمان راہنماوں خصوصا سرسید احمد خان نے بھانپ لیا کہ اگر ہندوں اردو جیسی زبان کو برداشت نہیں کرپا رہے تو آگے وہ مسلمانوں کو کیسے ان کو ان کا حق دیئں گے۔ اردو ہندی تنازعہ ان بڑے واقعات میں سے ایک واقع ہے جس نے برصغیر کی تاریخ کا رخ موڑ لیا تھا۔ زبان کسی بھی قوم کا اثاثہ ہوتی ہے جو قومیں اپنی زبان، تہذیب و ثقافت اور ورثے کا خیال رکھتی ہیں، وہی دنیا میں اعلیٰ مقام حاصل کرتی ہے، دیکھ لیں وہ اقوام کہاں سے کہاں پہچ گئی ہیں جہنوں نےاپنی زبانوں پر انحصار کیا۔
مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا ممکن نہیں ہوا۔ اس زبان کے ساتھ اپنے ہی لوگ سوتیلوں جیسا سلوک کر رہے ہیں افسوس آج ہم کہاں کھڑے ہیں اردو زبان کی حفاظت کے لیے مسلمانوں نے اپنے لیے الگ وطن کا مطالبہ کیا تھا اور اس کو تحفظ فراہم کیا مگر ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ آج پاکستان میں خود ہی اس زبان کو اپنے ہاتھوں سے ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
1948 کو اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا مگر افسوس کا امر ہے کہ پاکستان میں اردو قومی زبان ہونے کے باوجود بے یارومدگار ہے دیگر زبانوں کے حوالے سے پاکستان میں مختلف دن منائے جاتے ہیں مگر اردو کا قومی زبان کا دن نہیں منایا جاتا۔ ارود ہماری نہ مذہبی زبان ہے نہ قومی اور نہ ہی اسے کسی غیر ملک سے درآمد کیا گیا ہے بلکہ اس نے ہندوستان میں ہی جنم لیا اور اس کی پیدائش ہندوں اور مسلمانوں دونوں کی مشترکہ کوششوں سے ہوئی ہے۔
اکثر لوگوں کو کہتے ہوئے سنا ہو گا کہ میری اردو کمزور ہےیہ بات انگریزی کے بارے میں کہی جائے تو پھر بھی قابل قبول ہو۔ اگر آج کل ہم تعلیمی اداروں کی بات کریں تو والدین اپنے بچوں کو اردوسکول میں بھجتے ہوئے شرم محسوس کرتے ہیں ہمارے اسکولز اور تعلیمی اداروں میں انگریزی زبان کو زیادہ فوقیت دی جاتی ہے اس اردو دشمنی میں عام آدمی عمومی اور ہمارا اشرافیہ طبقہ خصوصی کردار ادا کر رہا ہے۔
ہمارے وہ ادارے جنہیں ہم جدید تعلیم کے نمائندہ ادارے کہتے ہیں اس سلسلے میں پیش پیش ہیں اور اردو زبان کو نظر انداز کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہے۔ ان اداروں میں اردو کے مضمون اردو پڑھانے والوں اور اردو بولنے والوں کے ساتھ جانبدارانہ سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اردو کے اساتذہ کا مشاہر ہ اور دیگر مراعات بھی دوسرے اساتذہ کی نسبت کم ہوتی ہیں، بلکہ اکثر اوقات یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ اردو پڑھانے کی ذمہ داری دیگر مضمون کے استاد کے سپرد کر دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے طلباء کو اردو کے حوالے سے نہ صرف اچھی بنیاد فراہم نہیں کی جاتی، بلکہ ان کی اردو میں دلچسپی بھی ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔
ان اساتذہ کے سطحی معیار کی بناء پر طلباء اردو کے بنیادی اصولوں سے آگاہی حاصل نہیں کر پاتے۔ اس ناروا سلوک کی انتہاء یہ ہے کہ اردو بولنے والے لوگ ان نام نہاد جدید تعلیمی اداروں میں احساس کمتری کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اگر کوئی ہمارے سامنے بول رہا ہو اور اس کو انگریزی نہ آتی ہو تو اسے کم پڑھا لکھا تصور کیا جاتا ہے اور اس کا مذاق اڑایا جاتا ہےجس بچے کو انگریزی اچھی آتی ہو اس کو زیادہ لائق اور قابل سمھجا جاتا ہےآج کل تو اچھی نوکری بھی اسے ملتی ہے جس کی انگریزی اچھی ہو گی۔
ہر ملک کی اپنی ثقافت اور زبان ہوتی ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ اپنی زبان اور ثقافت کو چھوڑ کر دوسروں کی زبان اور ثقافت کو اختیار کیا جائے۔قومیں صرف انگریزی وساطت کی بنا پر ترقی نہیں کرتیں بلکہ اس کے اپنے نظریات، روخانیت اور شناحت ہوتی ہےجس سے اس قوم کی پہچان ہوتی ہے۔ قابل شرم بات یہ ہے کہ کچھ اداروں اور اسکولز میں اردو میں بات کرنے پر پابندی ہوتی ہے۔
اکثر اوقات اردو میں لکھی ہوئی درخواست قابل نہیں ہوتی حالانکہ ہماری دفتری زبان اردو ہے کسی نے سچ کہا ہے کہ اگر کسی قوم کو مٹانا ہو تو پہلے اس قوم کی ثقافت اور زبان کو ختم کر دیں۔آج ہم اپنے ہاتھوں سے یہ دونوں چیزیں ختم کر رہے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے غیروں کی زبان کی پیروی کو چھوڑ کر اپنی زبان کو فروغ دیں۔قومی زبان ہمارا اثاثہ ہے ہمیں چاہیے کہ اس زبان کو دفتری زبان بنایا جائے تاکہ عام آدمی جو انگریزی نہیں جانتے باآسانی اپنے کاموں کو سرانجام دے سکیں اور بلاوجہ احساس کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔

Browse More Urdu Literature Articles