Vaba Main Muhabbat - Article No. 2295

Vaba Main Muhabbat

وبا میں محبت!! - تحریر نمبر 2295

شہباز کو جب عمارہ سے محبت ہوئی تب وہ زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی۔ اس نے امید بھری نگاہوں سے شہباز کی جانب دیکھا، ان گہری آنکھوں میں بے بسی تھی، امید تھی یا پھر کوئی اور رنگ تھا

Syed Badar Saeed سید بدر سعید اتوار 29 مارچ 2020

شہباز کو جب عمارہ سے محبت ہوئی تب وہ زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی۔ اس نے امید بھری نگاہوں سے شہباز کی جانب دیکھا، ان گہری آنکھوں میں بے بسی تھی، امید تھی یا پھر کوئی اور رنگ تھا لیکن وہ جو کچھ بھی تھا اس نے ایک لمحہ کے لئے شہباز کو خود سے بیگانہ کر دیا تھا۔ اس کا دل شدت سے چاہا کہ وہ ان گہری آنکھوں والی لڑکی کو کسی طرح بچا لے۔
وہ عمارہ کو وینٹی لیٹر پر منتقل کرنے میں مدد فراہم کرنے لگا۔ اسی لمحے جانے کیا ہوا کہ زندہ رہنے کے لئے جدوجہد کرتی عمارہ نے شہباز کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا۔ ہاتھوں پر پہنے ہوئے مخصوص دستانوں کے باوجود وہ اس کے ہاتھ کا لمس محسوس کر سکتا تھا۔ اس نے نرمی سے اپنا ہاتھ چھڑانا چاہا لیکن عمارہ نے کسی خوفزدہ بچے کی طرح اپنی گرفت مزید مضبوط کر لی۔

(جاری ہے)

ایسے لگ رہا تھا جیسے اس نازک سی لڑکی کے جسم کی ساری طاقت اس کے ہاتھ میں سمٹ آئی ہے۔ اس کی آنکھوں میں ایسا خوف اتر آیا کہ جیسے شہباز نے اس کا ہاتھ چھوڑاتو وہ مر جائے گی۔ شہباز کو ان نیلگوں آنکھوں میں دوڑتا خوف اپنے دل پر قدم رکھتا محسوس ہوا۔ اس نے مضبوطی سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ عمارہ شہباز کا ہاتھ تھامے ہوئے وینٹی لیٹر پر منتقل ہوئی تھی۔
ایک نرس جلدی سے اسے انجکشن لگا رہی تھی۔ شہباز کو اس کی آنکھوں میں سوئی چبھنے کی تکلیف نظر آئی۔ پوری دنیا جیسے ان دو آنکھوں میں سمٹ آئی تھی۔ اس کا دل چاہاکہ وہ چیخ کر نرس کو انجکشن لگانے سے روک دے لیکن وہ ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ اس لئے نہیں کہ یہ انجکشن اس لڑکی کے لئے زندگی کی علامت تھا بلکہ اس لئے کہ اس کے روکنے کے باجود نرس نے اس کی بات کسی صورت نہیں ماننی تھی۔
شہباز ڈاکٹر نہیں تھا، وہ اس ہسپتال کا وارڈ بوائے تھا۔ اس کا کام اتنا ہی تھا جتنا وہ کر چکا تھا۔ اگر وہ عمارہ کے لئے کچھ کرنا چاہتا تو بھی زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتا تھا کہ اس کے بیڈ کی چادر بروقت تبدیل کر دے یا پھر اسے واش روم لیجانے کے لئے فوری وہیل چیئر کا بندوبست کر دے۔ اس سے زیادہ نہ اس کے پاس اختیار تھا اور نہ ہی انتظامیہ اسے اجازت دے سکتی تھی۔
البتہ سکیورٹی گارڈ کے ساتھ اچھی دوستی کی وجہ سے وہ کبھی کبھار کسی واقف مریض کے لواحقین کو وارڈ میں داخلے کی اجازت دلوا دیتا تھا۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو اس کی خدمت سے خوش ہو کر یا بحالت مجبوری رعایت حاصل کرنے کے لئے خاموشی سے اس کے ہاتھ پر دس بیس روپے رکھ دیتے تھے۔ ایسے پیسوں میں سکیورٹی گارڈ کا بھی حصہ ہوتا تھا لیکن یہاں وہ ایسے نہیں کر سکتا تھا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ عمارہ ایک مہلک وبا کا شکار ہو کر یہاں تک پہنچی تھی۔ اس وبا سے اتنے لوگ مر چکے تھے کہ اب ڈاکٹر بھی خوف زدہ ہو چکے تھے۔ مائیں اپنے بچوں کو محض شک کی بنا پر تنہا ہسپتال چھوڑ جاتی تھیں۔ لوگ وبا کا شکار ہونے والے سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ شہر لاک ڈاؤن ہو چکا تھا۔ جن سڑکوں پر کبھی چلنے کی جگہ نہ ملتی تھی اب وہاں الو بولتے تھے۔
ان حالات میں اگر شہباز چاہتا تب بھی بھلا کون عمارہ سے ملنے آتا؟ اسے اب مرنے تک یہیں رہنا تھا اور اگر وہ ٹھیک ہو جاتی تب بھی اسے کم از کم دو ہفتے قید تنہائی کاٹنے تھے۔ شہباز جانتا تھا کہ یہ قید تنہائی کتنی خوفناک ہے۔ اس نے اسی وارڈ میں چیختے چلاتے لوگ دیکھے تھے۔ لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ چودہ دن ایک ایسے بیڈ پر چھت کی طرف دیکھتے دن رات کیسے بسر ہوتے ہیں جہاں نہ کوئی اپنا پاس ہو اور نہ ہی دھیان بٹانے کا کوئی اور بہانہ موجود ہو۔
چودہ دن ایک ہی جگہ لیٹے چھت کو تکتے جانا اتنا اذیت ناک عمل ہے کہ صحت مند لوگ بھی یہاں سے جاتے تو ذہنی مریض بن چکے ہوتے تھے۔ جو واقعی بیمار ہوتے انہیں یہ قید تنہائی سسکتے ہوئے گزارنی پڑتی تھی۔ پیاس کی شدت سے چلاتے مریضوں کو اکثر اس لئے بھی پانی نہ دیا جاتا کہ اس کے بعد کوئی انہیں واش روم تک لیجانے کو تیار نہ ہوتا تھا۔ موت کا خوف پورے وارڈ پر آسیب بن کر چھایا ہوا تھا۔
خصوصی لباس کی کمی کی وجہ سے ڈاکٹر تو دور کی بات ہے وارڈ بوائے یا دیگر عملہ بھی اشد ضرورت کے وقت ہی وارڈ میں جھانکتا تھا۔ ان حالات میں شہباز اس لڑکی کے لئے چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا جس کو دیکھتے ہی سب جان گئے تھے کہ وہ اسی وبا کا شکار ہو چکی ہے جو کسی ڈائن کی طرح لوگوں کے بچے نگلتی چلی جا رہی ہے۔ شہباز اتنا ہی جانتا تھا کہ اس مریضہ کا نام عمارہ ہے۔
اس سے زیادہ نہ وہ پوچھ سکتا تھا اور نہ ہی کسی نے اسے بتایا تھا۔
عمارہ کو وینٹی لیٹر پر منتقل کیا جا چکا تھا۔ شہباز وارڈ سے باہر آ گیا۔ اس نے اسی ہسپتال میں جانے کتنی ڈیڈ باڈیز کو اپنے ہاتھوں سے سٹریچر اور پھر ایمبولینس میں منتقل کیا تھا لیکن آج پہلی بار اسے اپنی ملازمت بری لگنے لگی تھی۔ وہ اس گہری آنکھوں والی لڑکی کی ڈید باڈی کو ایمبولینس میں رکھنے کا تصور بھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔
اس دن وہ جلدی گھر آ گیا۔وہ اس ہسپتال سے دور بھاگ جانا چاہتا تھا جہاں وہ لڑکی زندگی اور موت کی کشمکش میں پڑی تھی جس سے اسے پہلی نظر میں محبت ہو گئی تھی۔ رات اپنے کمرے میں چارپائی پر لیٹے چھت کو تکتے تکتے وہ صرف ایک ہی بات سوچ رہا تھا کہ کیا عمارہ ٹھیک ہو سکتی ہے؟ اگر وہ ہسپتال کے سب سے سینئر اور قابل ڈاکٹر حسن سے بات کرے تو شاید وہ کچھ کر سکیں، پھر اس نے خود ہی اس خیال کو رد کر دیا۔
ڈاکٹر حسن کے بارے میں کبھی کسی نے غفلت یا سستی کی شکایت نہیں سنی تھی۔ اگر ان کے لئے ممکن ہوتا تو پھر انہیں سفارش کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔ اگلے روز شہباز ہسپتال نہیں گیا۔اس نے نہ تو لباس تبدیل کیا اور نہ ہی کھانا کھایا، سارا دن اسی طرح اپنے کمرے میں لیٹا اسی ایک لڑکی کے بارے میں سوچتا رہا جو شاید اسے جانتی بھی نہ تھی ۔ اس کی آنکھوں کے سامنے وہی لمحہ بار بار آ جاتا جب اس نے شہباز کا ہاتھ تھاما تھا۔
وہ ایک لمحہ سارے دن پر بھاری پڑ گیا تھا۔ شہباز کو لگتا کہ اس کا سانس پھیپھڑوں میں کہیں پھنس گیا ہے، سینہ بھاری ہونے لگتا تو وہ اونچی آواز میں چلانے لگتا۔ اس کی حالت وبا کا شکار بننے والے ان مریضوں جیسی ہو گئی تھی جو سانس لینے کے لئے پوری طاقت صرف کرتے اور پھر تھک کر چیخنے چلانے لگتے تھے۔وہ رات اسی طرح گزر گئی۔ اگلے روز اس نے چاہا کہ ہسپتال سے پھر چھٹی کر لے۔
وہ کافی دیر خالی ذہن لئے اپنی چارپائی پر بیٹھا زمین پر پڑی چپل کو تکتا رہا۔ پھر جانے کیا ہوا کہ وہ اچانک اٹھا اور چپل پہن کر ہسپتال کی جانب چل پڑا۔ اسے مسلسل چھٹیوں کی وجہ سے اپنی ملازمت جانے کی فکر نہ تھی بلکہ وہ چاہتا تھا کہ ایک بار پھر اس لڑکی کو دیکھے جس نے موت کے خوف سے اس کا ہاتھ تھاما تھا۔ پہلی بار کسی کو لگا تھا کہ وہ اس کی زندگی بچا سکتا ہے۔
کسی نے پہلی بار ڈاکٹر کی بجائے اس سے امیدیں وابستہ کی تھیں اور پہلی بار ہی یہ امیدیں غلط تھیں۔ اس کے باوجود مسیحائی کا غرور شہباز کی رگ رگ میں اترنے لگا تھا۔ وہ محسوس کرسکتا تھا کہ جب کوئی اپنی ساری امیدیں کسی ڈاکٹر سے وابستہ کر لیتا ہے تو اس وقت ڈاکٹر کس کیفیت سے گزر رہا ہوتا ہے۔
شہباز انہی سوچوں میں گم کب ہسپتال پہنچا اسے خود بھی معلوم نہ ہوا۔
وہ غائب دماغی کے ساتھ بس چلتا چلا جا رہا تھا۔ وہ اس وقت چونکا جب اس کے سامنے وہی وارڈ تھا جس میں عمارہ کو رکھا گیا تھا۔ اسے سکیورٹی گارڈ نے اندر جانے سے روک دیا۔ خصوصی لباس پہنے کوئی اس وارڈ میں نہیں جا سکتا تھا۔گارڈ حیران تھا کہ شہباز اتنی بڑی غلطی کیسے کرنے لگا تھا۔ شہباز وہیں شیشے سے عمارہ کو دیکھنے لگا۔ اس معصوم سی لڑکی کے چہرے پر ابھی تک موت کا خوف طاری تھا جیسے کسی ماہر پینٹر نے موت اس کے چہرے پر پینٹ کر دی ہو۔
وینٹی لیٹرکی مدد سے زندگی کی ڈور کو کھینچنے کی کوشش کرتی عمارہ اس قدر معصوم لگ رہی تھی کہ شہباز زیادہ دیر اسے اس حال میں نہ دیکھ پایا۔وہ وہاں سے واپس گیا اور مخصوص لباس پہن کر آ گیا۔ وارڈ بوائے کی حیثیت سے سب کو اسی سے امید تھی کہ وہ قربانی کا بکرا بنتے ہوئے وباکے شکار مریضوں کی دیکھ بھال کرے گا۔ اس لئے کسی نے اس کے اس طرح وارڈ میں جانے پر کوئی اعتراض نہ کیا۔
وہ سیدھا عمارہ کے بیڈ کے پاس گیا۔ اس کی چادر کی شکنیں دور کیں اور پھر اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اس کا چہرہ تکنے لگا۔ کچھ دیر وہ اسی طرح عمارہ کا چہرہ دیکھتا رہا جیسے کسی فیصلہ کن نتیجے پر پہنچنے والا ہو۔ کچھ دیر بعد اس نے خاموشی سے اپنے حفاظتی دستانے اتارے اور اپنے ہاتھوں میں عمارہ کا ہاتھ تھام لیا۔ زندگی اس ایک لمحے میں سمٹ آئی تھی۔
ایک عجیب سی سرشاری کی لہر اس کے جسم میں دوڑنے لگی۔ عاشق کے ہاتھ میں محبوب کا ہاتھ آ جائے تو اس سے بڑی خوش نصیبی بھلا کیا ہو گی؟ یہاں عاشق کا ہاتھ محبوب کے ہاتھ میں اس کی بدنصیبی کی علامت تھا لیکن شہباز کے لئے یہی خوش نصیبی تھی۔ اس نے زیر لب آہستہ سے کہا: عشق میں لوگ اکٹھے جینے اور مرنے کا فیصلہ کرتے ہیں لیکن ہم نہ اکٹھے جی سکے ہیں ور نہ مر سکیں گے۔
مجھے وبا کے موسم میں محبت ہوئی ہے اس لئے ہمارے مرنے کے درمیان بھی چند دن کا فرق باقی رہے گا۔ شہباز اٹھا اور اس نے اپنا ماسک ہٹا کر انتہائی عقیدت سے عمارہ کے ہاتھ کی پشت پر بوسہ دیا اور پھر وہ ہاتھ بیڈ پر رکھ دیا۔ وارڈمیں جاتے وقت اس کا انداز ایسے جواری کا سا تھا جو سب کچھ ہار چکا ہوتا ہے لیکن اب واپسی کے وقت وہ یوں سر اٹھائے ہوئے تھا جیسے دونوں جہان فتح کر چکا ہو۔

ایک ہفتے بعد ہسپتال میں تھرتھلی پڑ گئی۔ اسی ہسپتال کا وارڈ بوائے وبا کا شکار ہو کر ہسپتال لایا گیا تھا۔ ڈاکٹر میڈیا کو اس کی قربانیوں سے آگاہ کر رہے تھے کہ کس طرح مریضوں کی زندگی بچاتے بچاتے ان کا اپنا وارڈ بوائے اسی مرض کا شکار ہو گیا ہے۔ٹی وی چینلز پر اس کی قربانی کو سراہا جا رہا تھا اور اس پر پیکجز چلائے جا رہے تھے۔ شہباز کو اسی وارڈ میں منتقل کیا گیا جہاں عمارہ کو رکھا گیا تھا۔
اس پر وبائی مرض شدت سے حملہ آور ہوا تھا۔ ڈاکٹر حیرت کا اظہار کر رہے تھے کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی وبا کے حملے کے بعد وہ کسی قسم کی احتیاط کیوں نہیں کر پایا اور بروقت اپنا علاج شروع کروانے میں ناکام کیوں رہا۔ ڈاکٹر حسن نے اسے فوری طور پر وینٹی لیٹر پر منتقل کرنے کی ہدایت دی لیکن شہر میں پھیلی وبا اور تیزی سے آتے مریضوں کی وجہ سے ہسپتال میں کوئی وینٹی لیٹر خالی نہیں تھا۔
اسی دوران ڈاکٹر حسن نے کچھ پورٹس دیکھتے ہوئے کہا: بیڈ نمبر چار کی مریضہ کو وینٹی لیٹر سے اتار لیں، وہ اب بہتر ہے اور تیزی سے ریکور کر رہی ہے۔ بیڈ نمبر چار کی مریضہ کا وینٹی لیٹر شہباز کو لگا دیا گیا۔ ڈاکٹر حسن نے مریضہ کی رپورٹس دیکھتے ہوئے جونیئر ڈاکٹر سے کہا: اس مرض میں مریض کی اپنی ہمت اور قوت ارادی کو بہت اہمیت حاصل ہے، جیسے یہ مریضہ کسی بھی وجہ سے مرنا نہیں چاہتی تھی۔
اس کے جسم نے ردعمل دینا شروع کر دیا اور دیکھو چند ہی دن میں یہ دوبارہ زندگی کی جانب لوٹ رہی ہے۔ دوسری طرف اس کی جگہ ہمارے وارڈ بوائے کو لٹایا گیا ہے۔وہ شاید مریضوں کو دیکھ دیکھ کر اس قدر خوفزدہ ہو چکا ہے کہ ہمت ہار بیٹھا ہے۔ اسی لئے اس کی حالت تیزی سے بگڑتی چلی گئی ہے۔ جونیئر ڈاکٹر نے دونوں مریضوں کی ہسٹری نوٹ کی۔ ڈاکٹر وارڈ سے باہر چلے گئے۔

ایک ہفتہ مزید گزر گیا۔ ہسپتال میں ایک اور مریض مر گیا۔ اسی روز عمارہ کو ہسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا۔وہ خطرناک زون سے باہر آ چکی تھی اور اب اسے پھلوں اور ادویات کے سہارے ریکوری کے عمل کو بہتر بنانا تھا۔ وہ کبھی نہیں جان سکتی تھی کہ اسی روز مرنے والا شہباز اس سے کتنی محبت کرنے لگا تھا۔ وبا کے دنوں کی ایسی محبت جو ایک صحت مند انسان کے لئے موت کا پیغام لائی تھی۔
عمارہ کبھی نہیں جان سکتی تھی کہ کسی نے اس کے ہاتھ کی پشت کو ہیرے کی مانند چوما تھا۔ شاید اس دنیا میں شہباز کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ وبا سے نہیں عشق سے مرا تھا۔ عمارہ نے ہسپتال سے نکلتے وقت شہباز کی لاش کو سٹریچر پر دیکھا تو ایک لمحہ کے لئے اس کے دل میں اس مردہ شخص کے لئے رحم کا جذبہ پیدا ہوا، اس نے اپنے بچ جانے کا شکر ادا کیا۔ وہ تیزی سے باہر نکلتی چلی گئی تاکہ کہیں اس لاش کے قریب رکنے کی وجہ سے وہ ایک بار پھر اسی وائرس کا شکار نہ ہو جائے جو اسے موت کے منہ تک لے گیا تھا۔ وبا کے دنوں کی محبت اپنے انجام کو پہنچ چکی تھی۔

Browse More Urdu Literature Articles