Zaviya Nazar - Article No. 2284

Zaviya Nazar

"زاویہ نظر" - تحریر نمبر 2284

انسان ہونے کے ناطے ضروری ہے کہ ہم اپنا تجزیہ کریں۔ ہم اکثر پوری دنیا کے جج بن جاتے ہیں۔ جیسا کہ دوسروں پر باتیں کرنا،خامیاں ڈھونڈنا،انہیں کمزور کرنا۔

شمائلہ ملک جمعرات 19 مارچ 2020

انسان ہونے کے ناطے ضروری ہے کہ ہم اپنا تجزیہ کریں۔ ہم اکثر پوری دنیا کے جج بن جاتے ہیں۔ جیسا کہ دوسروں پر باتیں کرنا،خامیاں ڈھونڈنا،انہیں کمزور کرنا۔ اس سب میں ہم یہ بھول جاتے ہیں۔ کہ کیا ہم خود اس لائق ہیں کہ دوسروں پہ بات کر سکیں۔بات کرتے ہوۓ ہم یہ نہیں سوچتے کہ کیا پتہ وہ ہم سے بہتر ہوں لیکن وقت اور حالات کے ہاتھوں مجبور ہوں۔
فرض کریں ایک دفتر میں 7۔8 لوگ کام کرتے ہوں، سب اچھا کھاتے اور اچھا پہنتے ہوں جو نہ اچھا کھا تا ہو اور نہ ہی اچھا پہنتا ہے باقی سب اسے بے وقوف سمجھ کر مذاق اڑائیں۔ لیکن کوئی پس منظر میں نہیں جاتا۔ یہ نہیں سوچتے کہ گھر میں کمانے والا صرف وہ ایک فرد 15000 میں گھر کیسے چلاتا ہے۔ بیوی بچوں کی خوا ہشیں پوری کرنے کے لیے کتنے خواب دل میں چھپاۓ پھرتا ہے ۔

(جاری ہے)

ہم خود غرضی میں دوسروں کے لیے راۓ کھڑی کر دیتے ہیں۔ جو سراسر غلط ہوتی ہیں ۔ اگر قدرت نے ہم پر کرم کر دیا۔ ہمیں خوشحالی دے دی تو ہمیں بجاۓ غرور کے اپنی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہئیے ۔اس دنیا میں سب کے حالات ایک جیسے نہیں ہوتے ہم روزانہ ہزاروں لوگوں کو روزی کی تلاش میں نکلتے دیکھتے ہیں۔ کچھ لوگ کاروبار کی طرف،کوئی دفتروں،کوئی پرائیویٹ و سرکاری ملازمت اور کوئی مزدوری کے لیے، اندازہ لگائیے کیا ان سب کے حالات برابر ہو سکتے ہیں۔
کبھی بھی نہیں ۔یہ سب بڑا خواب دیکھ سکتے ہیں،محسوس کر سکتے ہیں،خواہشیں بھی رکھ سکتے ہیں لیکن یہ سب اپنے خوابوں کی تکمیل نہیں کر سکتے۔ اسی طرح ہمیں ایک اور چیز ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جو بات ہمیں ناگوار گزرتی ہے وہی بات دوسرے بھلا کیوں خوشی سے برداشت کر سکتے ہیں۔اگر ہم انسان ہیں تو دوسرے بھی انسان ہیں اور اگر ہم دوسروں کو چھوڑ کر اپنی کمیوں ،غلطیوں کو ٹھیک کرنا شروع کر دیں تو یقین جانیے ہمارے پاس دوسروں پر بات کرنے کا وقت تک نہیں بچے گا۔
اور کبھی کبھی ہم دوسروں کو جج کرنے میں ایسی غلطی کرتے ہیں۔ جس سے ہمیں نقصان کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ جیسے کوئی اچھے سے بزنس چلا رہا ہو۔ اسے دیکھ کر ہم بھی وہی کام شروع کر دیں کہ وہ تو بہت منافع کما رہا ہے۔ اس میں ہماری نظر منافع پر ضرور ہوتی ہے لیکن اس کے کام کے طریقہ کار،ڈیلنگز،سروسز ،لنکس وغیرہ پر نظر ثانی نہ کر کے نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ہمیں اس فرق کو سمجھنا ہوگا کہ ہاتھی کی الگ جسامت اور چال ہوتی ہے،شیر کی الگ،کیڑے مکوڑوں کی الگ تو ہم ان سب کو اکٹھا کیسے کر سکتے ہیں ۔کیونکہ قدرت نے ان سب کی پیدائش میں کوئی راز رکھا ہے۔ ان میں سے کوئ بھی بیکار نہیں ہے۔ جب ہم کسی سے گفتگو کرتے ہیں تو ہمارا لہجہ،انداز،لفظوں کا چناؤ ایسا ہوتا ہے کہ وہ سننے والے پر اچھا اثر ڈالے۔ اگر ان باتوں پر عمل کریں تو نہ صرف علم بلکہ کاروبار،معاشی،معاشرتی اور ہماری سیاسی ترقی کا سبب بن سکتا ہے۔
کسی سے بات کرتے ہوۓ اگر ہمیں اس کے چہرے کے آثار اچھے نہ لگیں تو ہمارے ذہن میں اس کے خلاف ایک امیج سیٹ ہو جاتا ہے اور جب جب وہ انسان سامنے آۓ اسکا پہلے والا امیج ہماری نظروں میں فٹ ہو جاتا ہے بالکل اسی طرح دوسروں کی نظر میں ہمارے رویۓ سے ہی امیج بن جاتا ہے اور خود کو بہتر منوانے اور بنانے کے لیے ہمیں آج ہی سے اپنا انداز فکرو سوچ بدلنا پڑے گا۔
اور یہ اچھے ایک ہی بار نہیں بن سکتے اس کے لیے روز کام کرنا پڑے گا۔ جیسے ہم گھر کو بہتر بنانے کے لئے روز گھر کی صفائی کرتے ہیں تاکہ گھر ہلکا پھلکا اور نظروں کو اچھا لگے بالکل اسی طرح ہمیں بھی روز عادتوں کو بہتر بنانا ہوگا۔ورنہ پھر وقت آتا ہے جب انسان کے پاش کاش کے بغیر کچھ نہیں ہو تا اور خیال آتا ہے کہ کتنے لوگوں کو پریشان کیا،کتنوں کی زندگی ہماری وجہ سے دشوار ہوئی،کتنے لوگوں کی دل آزاری ہوئی، تو بعد کے کاش سے بہتر ہے ابھی سے چھوٹے چھوٹے قدم اچھائی کی طرف بڑھانا شروع کریں تاکہ آنے والا وقت ہمارے اور ہماری نسلوں کے لیے اچھا ثابت ہو۔

Browse More Urdu Literature Articles