Ajal Aai - Aakhri Hissa - Article No. 2590

Ajal Aai - Aakhri Hissa

اجل آئی - آخری حصہ - تحریر نمبر 2590

شہربانو ہمیں اس سے قطعی کوئی غرض نہیں ہم تو یہ جانتے ہیں کہ ہم تمہارے بغیر نہیں رہ سکتے بلکہ تمہارے بغیر زندگی کا تصور نہیں کر سکتے

Nusrat Zehra نصرت زہرا بدھ 29 نومبر 2023

بات دراصل یہ ہے کہ لڑکی ہم اتنا ہی (Adventure) افورڈ کر سکتے ہیں جس سے ہماری ساکھ کو نقصان نہ پہنچے جہاں ہماری حیثیت پر حرف آنے لگے وہاں ہم جان چھڑانے میں ہی عافیت تصور کرتے ہیں تم مظلوم ہو، دکھی بھی مگر تمہیں اپنے پاس رکھنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ہم بھی اپنی عزت کے باعث ہی (Exist) کرتے ہیں۔تمہارے اس عمل کی خبر اس گھر سے باہر نکلی تو ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔
دنیا کا ہر شخص خواہ کتنا ہی (Broad Minded) کیوں نہ ہو تمہارے اس عمل کے پیچھے کسی مرد کو دیکھے گا۔
شاید آپ یقین نہیں کریں گی میرے دل میں مرد ذات کے لئے اتنی سی بھی جگہ نہیں ہے میں سب سے الگ رہ کر گمنامی کی زندگی جینا چاہتی ہوں مجھے کوئی نام نہیں چاہئے۔میرے دل میں صرف ایک ہی کسک ہے کہ میں اپنی ماں کی خواہش کے مطابق اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کر سکی۔

(جاری ہے)

سرمد میں سونے جا رہی ہوں اور پلیز احمد شاہ (Leave Us Alone) سرمد کی ماں آئینے میں اپنا سراپا دیکھنے لگتی ہے۔
اوہ خدایا…! میں تو ایک ہی رات میں اتنی بوڑھی لگنے لگی ہوں خدارا مجھے اور ٹینشن نہ دو رات اپنے آخری پہروں سے صبح کی جانب داخل ہونے لگی۔
سرمد ہم جانتے ہیں ہر شخص کا ظرف ایک سا نہیں ہوتا اگر خدا کو یہی منظور ہے تو ہم اسے سلطان پورے لے جائیں گے اب یہ وہیں رہے گی۔
ہم خلق خدا کے دکھوں سے بے نیاز نہیں رہ سکتے رہنمائی ہمارے سلسلے کی اساس ہے کوئی مدد کے لئے بلائے تو ہم منہ نہیں پھیرتے ہمیں ہر حال میں ان کی مشکلات کو نظر میں رکھنا ہے آپ کی اپنی کچھ مجبوریاں ہیں۔آپ اپنی دنیا میں خوش رہئے۔ہمیں آپ سے کوئی گلہ نہیں۔اب یہ سلطان پور میں ہی رہے گی۔شہر بانو جو بہت دیر سے ان کی گفتگو سن رہی ہے چونک کر انہیں دیکھنے لگتی ہے۔

آپ سلطان پور کو کیسے جانتے ہیں؟ ”دراصل میں خاکسار ہی بندے علی شاہ اور حاجرہ بی بی کا بیٹا ہوں اور ان کی گدی کا وارث بھی۔تو کیا آپ کے ماں باپ بھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔“
شاید یہی مشیت ایزدی ہے۔
شہربانو کے بے چین اور دکھی دل کو کسی حد تک قرار آ جاتا ہے۔سلطان پور وہ جگہ ہے کہ امی اپنے آخری وقت میں یہی کہتی تھیں کہ کاش مجھے اک بار وہاں جانے کا موقع مل جائے۔
امی کہتی تھیں جب تم پر ساری دنیا کے دروازے بند ہو جائیں تو تم سلطان پور کا رُخ کرنا وہاں ضرور کوئی راستہ سجھائی دے گا۔
شہربانو کا وجود تھا کہ کسی ہاتھ کی مسجاب دعا اتنی حسین لڑکی شاید احمد علی شاہ نے اس سے پہلے نہ دیکھی تھی بلکہ اس سے قبل تو وہ ایسے کسی واقعے سے دوچار نہیں ہوئے تھے۔تمام راستے وہ اس کے اجلے چہرے اور مخملیں ہاتھوں کو دیکھتے رہے کہ اس نے پورا وجود سیاہ چادر میں چھپا رکھا تھا۔

سلطان پور پہنچ کر شہربانو کو وہی پروٹوکول حاصل ہوا جو احمد علی شاہ کے کسی بھی مہمان کو حاصل ہونا چاہئے تھا۔یہاں آ کر وہ قدرے سنبھل چکی تھی کیونکہ یہاں کسی کو بھی اس کے خاندانی پس منظر کے بارے میں بتانے کی ضرورت نہ تھی۔سب لوگ علی امام اور گل بانو سے واقف تھے۔رنگ علی قلندر پہلی بار یہ محسوس کر سکنے میں کامیاب ہو سکا تھا کہ احمد علی شاہ کو شہربانو سے محبت ہو گئی ہے۔
سرمد مصطفی نے معذرت کے لئے کئی بار فون کئے مگر احمد علی شاہ کے دل میں کوئی ملال نہ تھا ایک لمحے میں ساری حکائتیں گذری جب انہوں نے دل کی دنیا میں قدم رکھا۔رنگ علی اقتدار و اختیار کے ہوتے ہوئے بھی ہم سوالی ہیں۔سچ ہے میرے سرکار میں جان گیا ہوں۔رنگ علی کے پیروں میں بندھے ہوئے گھنگھرؤں کی لے تیز ہو گئی ہوا بھی اس لے پر رقص کرنے لگی۔
ان اکیس سالوں میں ایک بار بھی کوئی آہٹ، کوئی چاپ نہ ہوئی زمانے کی کسی ہوا نے مجھے چھونے کی جرأت نہیں کی تھی۔
اب جبکہ شہربانو ہماری زندگی میں داخل ہوئی ہے تو رات کی رانی، چاند کی ٹھنڈک اور ہواؤں کی شبنم سب یکجا ہو گئے ہیں زندگی ایک لمحے میں بدل گئی اور ہمیں پتہ بھی نہ چلا کہ ہم اپنی روح میں یکجا ہو کر نئے ہو گئے ہیں اور یہ آزادی ہمیں تمام تر مناصب اور (Protocol) سے زیادہ بھا گئی ہے۔ہم جان گئے ہیں کہ روح کی آزادی صرف محبت کی مرہون منت ہے۔ایک عرصے کے بعد ہم اماں کی یادوں سے باہر آ کر سانس لے سکے ہیں زندگی ایک صاف شفاف شاہراہ کی مانند اپنے ہاتھوں میں گلابی رنگ لئے کھڑی ہے مگر یا احد اور جو رنگ سبز ہے۔
اور یا عزیز جو رنگ سیاہ ہے۔یہی ہماری منزل کی پہچان ہے۔رنگ علی ہنوز رقص میں تھا۔احمد علی شاہ گویا خود سے ہمکلام تھے ہم کیا کریں کیا اتنے انقلاب شہربانو کے دل پر بھی گزرے ہوں گے یا وہ ان سے بے خبر ہے اگر ہم اس سے کچھ پوچھتے ہیں تو خود غرض کہلائیں گے اور نہ پوچھیں تو یہ جو سانس کی ڈور ہے رکنے لگتی ہے۔خوشی کیا ہوتی ہے یہ ہم نے اپنے دل کی دھڑکن سن کر جانا ہے۔
اس سے قبل ہم علم ہی نہ رکھتے تھے۔خوشی بھی کہیں بستی ہے ہم تو زندگی کو صرف اتمامِ حجت ہی سمجھتے تھے جسے بالآخر اپنے خالقِ حقیقی سے مل جانا ہے ہمیں خبر ہی نہ تھی کہ درمیان کا جو وقت ہے جو کہ درحقیقت امتحان ہے۔سب سے کڑا وقت جب آتا ہے جب مالک کے عشق کے سامنے مجاز کھڑا ہو جاتا ہے۔اور اس نے اس دنیا کو دارِ امتحان قرار دیا ہے ہم…ہم اسے کھونا نہیں چاہتے۔
کوئی اسے روک لے۔احمد علی شاہ کسی فریادی کی مانند بول رہے تھے۔
احمد علی شاہ کے معمولات یکسر بدل چکے ہیں ایک سُرور ہے جس میں وہ پرواز کر رہے ہیں۔شہربانو کا دکھائی دینا ان کے لئے تشنفی کا باعث تو تھا مگر اسے دیکھتے ہی انہیں اپنے ادھورے پن کا بھی احساس ہوتا کہ وہ اپنے محبوب سے اس قدر قریب ہو کر بھی جُدا ہیں اور ایک دوسرے سے ہزاروں نوری سال کے فاصلے پر ہیں۔

چاند کی چودھویں شب اپنے پورے عروج پر ہے۔درگاہ پر قوالیاں ہو رہی ہیں۔احمد علی شاہ کے دل میں اپنے خالق کے تصور کے ساتھ اپنے محبوب کا تصور بھی جگمگا رہا ہے۔
یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے
یہ تیری نظر کا قصور ہے
کہ شراب پینا سکھا دیا
تیرے پیار نے تیری چاہ نے
تیری بہکی بہکی نگاہ نے
مجھے ایک شرابی بنا دیا
شراب کیسی، خمار کیسا
یہ سب تمہاری نوازشیں ہیں
کہ مجھ کو اپنی خبر نہیں ہے
کلام سنتے سنتے احمد علی شاہ پر غنودگی سی طاری ہو گئی وہ اپنا شانوں کو ڈھلکائے ہوئے محوخواب ہیں۔
حاجرہ بی بی کی آواز جیسے انہیں اپنے بہت قریب سنائی دیتی ہے۔
احمد علی شاہ، فکر کرو، اسباب سمیٹو، پل کی بھی مہلت نہیں احمد علی شاہ کی آنکھ کھلی تو پھر سے وہ حاجرہ بی بی کی یادوں کے حصار میں گم ہو گئے جو چاہ اور خوشی انہیں نصیب ہوئی تھی وہ پس منظر میں چلی گئی۔بار بار۔وہی الفاظ سماعتوں سے ٹکرائے تھے۔
”احمد علی شاہ فکر کرو اسباب سمیٹو پل کی بھی مہلت نہیں“
اماں کیا آپ اس سے ناخوش ہیں ہم شریعت سے بے خبر نہیں ہوئے ہم نے کوئی غلطی نہیں کی احمد علی شاہ گویا خود سے ہمکلام تھے۔

ساری رات وہ یونہی خالی الذہنی سے چاند کو دیکھتے رہے پس منظر میں مریدوں کی جماعت کبھی سجدے میں جاتی، کبھی رکوع میں، مگر احمد علی شاہ کی ساری قوتیں جواب دینے لگیں۔
نمازِ شب کا وقت ہے احمد علی شاہ چونک کر اپنے اردگرد دیکھ رہے ہیں یہ ان کے والد کے زمانے کا دستور ہے کہ نمازِ شب ضرور پڑھتے ہیں لیکن آج انہوں نے ایک فیصلہ کیا کہ وہ شہربانو سے ضرور بات کریں گے نجانے اماں کیا کہہ رہی تھیں۔
آدھی رات اور نیم صبح کا ملاپ اور فیروزی رنگ شہربانو کے حُسن کو اور بھی ماورائی بنا رہے تھے۔صحن میں بچھے ہوئے ایرانی تخت پر شاید وہ چاند کو ہی دیکھ رہی تھی۔یا چاند اسے دیکھ کر بار بار چھپنے پر مجبور ہو رہا تھا۔
احمد علی شاہ دیر تک گڑگڑاتے رہے مگر ان کے دل کا بوجھ ہلکا نہ ہوا۔
صبح کا اجالا چہار سو پھیل چکا ہے۔ہوا میں ایک پُر ہول اداسی ہے انجانا اسرار ہے احمد علی شاہ شہربانو سے ملنے آئے ہیں ان کو اپنی جانب آتا ہوا دیکھ کر شہربانو حیران ہے۔
کیونکہ اس سے قبل اتنی صبح میں وہ اس سے ملنے نہیں آئے۔شہربانو صحن میں بچھے ہوئے ایرانی تخت پر بیٹھی ہے۔شہربانو آج ہم تم سے کچھ کہنے آئے ہیں۔کچھ مانگنے آئے ہیں۔
تم تو جانتی ہو ہم تنہا ہیں امی کی وفات کے بعد ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ کوئی سُکھ کوئی خوشی ہمیں مل سکے گی مگر جب سے تم آئی ہو یقین کرو ہم بیان نہیں کر سکتے کہ ہم کن کیفیتوں سے دوچار ہیں۔
پوری کائنات کا محور بس تم ہونے کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگا مگر ہم دستِ سوال دراز کرتے ہیں اپنا دامن پھیلا کر کہ تم سے تمہیں مانگتے ہیں۔
احمد علی شاہ منتظر نگاہوں سے شہربانو کی سمت دیکھ رہے ہیں وہ مگر ساکت ہے۔
”جو بھی فیصلہ ہے ہمیں بتاؤ ہم تمہارے فیصلے کے منتظر ہیں۔“
”احمد علی شاہ آپ نے اب کہا ہے میں پہلی نظر میں ہی جان گئی تھی کہ آپ کیا چاہتے ہیں عورت کی نظر اس معاملے میں کبھی دھوکا نہیں کھا سکتی میں آپ کے دل سے بے خبر نہیں ہوں اور میں جانتی ہوں کہ آپ مجھے اس خونخوار دنیا سے بچانا چاہتے ہیں جس کیلئے میں آپ کی شکر گزار ہوں اور میرے پاس آپ کے احسانات کا شکریہ ادا کرنے کیلئے الفاظ بھی نہیں ہیں مگر کیا آپ جانتے ہیں میرا ماضی کتنا تلخ ہے اور میں کن حادثات سے گزر کر یہاں تک پہنچی ہوں“۔

”شہربانو ہمیں اس سے قطعی کوئی غرض نہیں ہم تو یہ جانتے ہیں کہ ہم تمہارے بغیر نہیں رہ سکتے بلکہ تمہارے بغیر زندگی کا تصور نہیں کر سکتے۔“
”احمد علی شاہ اتنے بڑے فیصلے کیلئے آپ نے مجھے ہی کیوں منتخب کیا آپ بہت بڑے انسان ہیں آپ کا مرتبہ بہت بلند اور بڑا ہے۔“
نہیں شہربانو ہم التجا کرتے ہیں ہم تمہاری خاطر تمام تر مراتب و مناصب سے دستبردار ہونے کو تیار ہیں احمد علی بے چینی سے کہتے ہیں۔

”محبت اس کائنات کا سب سے بڑا سچ ہے اور سب سے خوبصورت حقیقت بھی ہم بنجر صحراؤں کی مانند رہتے رہتے تھک چکے ہیں تم ہماری بے آب زندگی میں رنگ بھر دو گی تو ہمیں کچھ اور طلب نہ رہے گی۔“
احمد علی شاہ میں یونہی بے نام رہوں گی تو بھُلا دی جاؤں گی مگر آپ میری زندگی میں شامل ہو گئے تو سب کچھ ختم ہوجائے گا۔میرے قبیلے کے لوگ سو سال کے بعد بھی سر اُٹھانے والوں کو معاف نہیں کرتے، میں بہت حقیر ہوں میری خواہش نہ کریں۔

”مگر شہربانو ہم تمہیں اپنانا چاہتے ہیں“۔
احمد علی شاہ اگر آپ اتنا اصرار کرتے ہیں تو سنیے کہ میرے دل میں مرد ذات کیلئے کوئی جذبہ، کوئی احساس پیدا نہیں ہو سکتا میرے سوتیلے باپ نے میرے ذہن کے ساتھ ساتھ جسم کو بھی کھوکھلا کر دیا ہے۔شہربانو چادر میں منہ چھپا کر رونے لگی۔
اب آپ بتائیے اسے سن کر بھی آپ مجھے اپنائیں گے۔

شہربانو یہ تم نے کیا کہہ دیا۔تم نے اس سے قبل یہ بات ہمیں کیوں نہ بتائی احمد علی شاہ میں نے کہا تھا نا، میں وہ نہیں کہ جس کی خواہش کی جا سکے مگر آپ بھی تمام مردوں کی طرح ہیں جن کی محبت فقط عورت کے ظاہری وجود سے ہوتی ہے جائیے اپنا ناطہ اپنے جیسے کسی اعلیٰ نسب کے ساتھ جوڑئیے۔
صبح کا اجالا نہ تھا اجل کا پیغام تھا۔شہربانو کے قدم ریت کے بگولوں کے ساتھ ساتھ کسی نامعلوم کی سمت اُٹھ رہے تھے۔
احمد علی شاہ تھک کر دو زانوں ہو گئے اور کسی بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔
اماں آپ درست کہتی ہیں۔
ایک پل کی بھی مہلت نہیں۔
”قسم ہے عصر کی بے شک انسان خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور آپس میں حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے۔
(القرآن، سورہ عصر)
احمد علی شاہ سورہ عصر کو اس طرح دُہراتے ہیں جیسے کسی بھولے ہوئے سبق کو دہراتے ہیں جب سے شہربانو درگاہ سے گئی ہے احمد علی شاہ مستقل گریہ و زاری کے ساتھ مستقل ذکرِ خدا اور عبادات میں مشغول ہیں کبھی غش کھا کر گر پڑتے ہیں تو ان کیا مرید ان کے گرد رقص کرنے لگتے ہیں۔
جسے وہ روحانی رقص بھی کہتے ہیں۔
شہربانو کے بغیر آج درگاہ پر احمد علی شاہ کی پہلی رات ہے۔سخت سردی کے باعث مریدین آگ جلاتے ہیں، رنگ علی آگ کے گرد بیٹھنے والوں سے یوں ہمکلام ہے جیسے کوئی بہت بڑا بھیدی، کسی پر کوئی بھید منکشف کرتا ہے۔
”یہ بھید فقط میں ہی جانتا ہوں کہ سلطان پور کی گدی روحانیت سے پُراسراریت کی جانب کیس چلی گئی“۔

احمد علی شاہ غش سے ہوش میں آتے ہیں تو سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔سجدہ سے سر اٹھا کر اپنے والد کا خطاب دُہراتے ہیں۔
”وہ رب ذوالجلال چھ دن کیلئے زمین پر آیا، چھ دن میں اس نے یہ زمین و آسمان خلق کئے لوگو! اس دن سے ڈرو جس دن حساب کی سختی ہو گی پہاڑ روئی کے گالوں کی مانند اڑیں گے اور زمین پھٹ پڑے گی، دھیرے دھیرے بہنے والے آنسو آہ وبُکا میں تبدیل ہو گئے۔
مریدین بھی زار و قطار روتے ہیں۔
”اے خدا ہمیں اس اسماء کے صدقے میں معاف فرما جو وجہ تخلیق کائنات ہیں احمد علی شاہ پھر غش کھا کر گر پڑتے ہیں ان کے مرید پھر سے روحانی رقص کرنے لگتے ہیں۔
غش سے ہوش میں آ کر سورہ حمد کی تلاوت باآواز بلند کرنے لگتے ہیں پھر دیر تک سجدہ ریز رہتے ہیں۔
درگاہ پر نمازِ صبح کا وقت ہے احمد علی شاہ دیوانہ وار ذکرِ خدا میں مشغول ہیں کچھ مرید ان سے بات کرنے کی اجازت طلب کر رہے ہیں۔

”سرکار درگاہ پر ایک لاش لائی گئی ہے جو سخت سردی کے باعث مردہ حالت میں پائی گئی ہے۔آپ ہمارے راہنما ہیں اس طرح ایک بے یار و مددگار حالت میں کوئی لاش ملے تو اس کے بارے میں آپ کیا حکم دیتے ہیں۔
لاش کے چہرے سے کپڑا سرکایا گیا، احمد علی شاہ کے لئے دونوں جہاں لرز اٹھے۔
شہربانو، فیروزی لباس، سراپا نیلاہٹ احمد علی شاہ کانپنے لگتے ہیں۔

”دنیا ایک دھوکا ہے، ایک امتحان گاہ ہے مولائے متقیان ہر روز تین بار دنیا کو طلاق بائین دیتے تھے آج ہم بھی تجھے طلاق بائن دیتے ہیں۔“جا چلی جا، جاچلی جا ، جاچلی جا۔
یہ میرا محبوب مجازی ہے جیسے تجھے سونپاہوں اور اب تیری اس عطا کو لوٹاتا ہوں جو تو نے مجھے بخشی تھی۔تو نے منع فرمایا تھا مگر میں بضد تھا کہ خوشی خوشی بارِ اطاعت اٹھا لیا، پروردگار میں ہی ظالم ہوں، مجھے معاف فرما۔

احمد علی شاہ آسمان کی جانب دیکھتے دیکھتے خاموش ہو کر گر پڑے شہربانو کے نیلے وجود اور سرد قدموں کو چھو کر دیکھتے دیکھتے داعیٴ اجل کو لبیک کہتے ہیں۔
دوسرا پا نیلاہٹ میں مبتلا وجو درگاہ پر موجود ہیں سراسیمگی، بے وارثی خوف و دہشت اور سخت سردی، رنگ علی ہانپ رہا ہے۔
لوگو انہیں آگ کے قریب لٹا دو، شاید ان کی رنگتیں بحال ہو سکیں۔مریدین ٹوٹ کر گرپڑے اور رنگ علی کے دراز گیسو سرد بے رحم ہواؤں میں روئی کے گالوں کی مانند اڑنے لگے۔تمام سلسلہ رہنما منقطع ہیں۔احمد علی شاہ اپنے محبوب مجازی کے ہمراہ اپنے خالق کے ساتھ ملاقات کے لئے اپنے ابدی سفر پر روانہ ہیں۔

Browse More Urdu Literature Articles