Ajal Aai - Panchwan Hissa - Article No. 2587

Ajal Aai - Panchwan Hissa

اجل آئی - پانچواں حصہ - تحریر نمبر 2587

آپ سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہی ہیں ممانی جان میں ایسے شخص کے ساتھ کیسے جا سکتی ہوں جس نے زبردستی میری ماں کے ساتھ نکاح کیا ہو، مجھے یاد ہے کہ یہ کس طرح میری ماں پر تشدد کیا کرتا تھا

Nusrat Zehra نصرت زہرا منگل 7 نومبر 2023

روز و شب اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ رواں دواں تھے اور پتہ ہی نہ چلا کہ شہر بانو کب اپنی ماں کی تصویر بن گئی ہوبہو گل بانو۔میٹرک کرنے کے بعد وہ گھر کے کام کاج سیکھنے لگی۔خاموش طبع ہونے کے باعث وہ کسی سے دوستی بھی نہ کرسکی۔نجانے عجب خان کے ذہن میں کیا ترکیب سمائی کہ شہر بانو کو مزید تعلیم کے لئے شہر جانا چاہئے اور اس کی شدید خواہش ہے کہ شہر بانو اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائے… ”گل بانو نے بارہا مجھ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ شہر بانو کو وہ ایک کامیاب انسان کے روپ میں دیکھنا چاہتی ہے۔

”ممانی جان آپ انہیں منع کر دیں میں ان کے ساتھ نہ جاؤں گی میں یہاں خوش ہوں۔”شہر بانو وہ تمہارا سوتیلا باپ سہی مگر تمہارے سر پر ایک آسرا تو ہے ایسا تو نہیں کہ تم بالکل لاوارث ہو، آپ سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہی ہیں ممانی جان میں ایسے شخص کے ساتھ کیسے جا سکتی ہوں جس نے زبردستی میری ماں کے ساتھ نکاح کیا ہو، مجھے یاد ہے کہ یہ کس طرح میری ماں پر تشدد کیا کرتا تھا۔

(جاری ہے)

میرا باپ مر چکا ہے، شہر بانو زچ ہو کر کہتی ہے۔
تم خود کو تنہا کیوں سمجھتی ہو شہر بانو، ہم سب تمہارے ساتھ ہیں۔
احمد علی شاہ انٹر کا امتحان پاس کرنے کے بعد سلطان پور سے باہر جانا چاہتے ہیں۔حاجرہ بی بی ہر قدم پر بندے علی شاہ کی کمی کو پورا کرتی جاتی ہیں۔تمہیں واپس آنا ہے۔میرے لعل نجانے کیوں میرے دل میں ہزاروں وسوسے جنم لے رہے ہیں اماں وسوسوں پر نہیں خدا کی ذات پر یقین رکھیں، وہی ہر مشکل میں ہمارا حامی و مددگار ہے ہم اس کی رضا کے بغیر صبر بھی نہیں کر سکتے۔
بے شک احمد علی شاہ، آفرین ہے تم پر جاؤ جہاں جانا چاہتے ہو جا سکتے ہو۔
ہمیں احساس ہے اس گدی کی حفاظت ہماری اوّلین ذمہ داری ہے۔مگر ہم چاہتے ہیں لحد تک علم حاصل کریں۔ہم آپ کو کبھی مایوس نہیں کریں گے ہمارے اجداد کی روحیں ہمارے اس عمل سے سرشار ہوں گی۔حاجرہ بی بی سے اجازت پا کر انیس برس کی عمر میں احمد علی شاہ تنہا سلطان پور سے روانہ ہوتے ہیں یونیورسٹی پہنچ کر انہیں احساس ہوا کہ دنیا بہت وسیع ہے اور اس کی (Dimensions) لامحدود، احمد علی شاہ حاجرہ بی بی کے نام ایک خط تحریرکرتے ہیں۔

پیاری اماں
آداب
یہاں پہنچ کر احساس ہوا کہ دنیا بہت وسیع اور سلطان پور کی باندی نہیں کہ وہ زندگی بھر اپنے مرشدوں کے قدموں میں بیٹھی رہے۔ہر شخص کو خدا کو اپنے طور پر اپنی کوشش کر کے ڈھونڈنا چاہئے۔ہم بھی انسان ہیں خطا کے پُتلے ہیں۔ہاں اگر تقوی اور پرہیزگاری اختیار کریں تو زیادہ اچھا ہے اسلام نے تعلیم حاصل کرنے کی اہمیت پر بہت زور دیا ہے۔
اب سلطان پور میں رہنے والوں کو چاہئے کہ وہ دنیا کے کاروبار کو سنبھالیں۔میں آپ کا فرمانبردار رہوں گا۔اس گدی کو ہماری ضرورت ہے اور اسے وسعت بھی دیں گے مگر اماں کیا یہ جائز ہے کہ ہمارے جیسے انسان فقط ہمارے سامنے دوزانوں ہو کر بیٹھے رہیں۔کیا زندگی پر ان کا اتنا سا حق بھی نہیں، اماں میں بھی کیا کروں اپنی باتیں آپ سے نہ کہوں تو بھلا کون ہے سننے والا۔
یونیورسٹی میں میرے بہت سے دوست ہیں۔مگر آپ کی باتیں ہر وقت یاد رکھتا ہوں کہ کسی سے بے جا تکلفی اچھی نہیں۔
اچھی اماں ہر دم مجھے دعاؤں میں یاد رکھئے گا۔
آپ کا
احمد علی
خط کو پا کر حاجرہ بی بی کی بے چینیاں سوا ہونے لگیں۔میرے بچے جس کا ڈر تھا وہی ہوا۔اب تمہیں بھی زمانے کی ہوا نے متاثر کرنا شروع کر دیا ہے وہ گویا خود سے ہمکلام تھیں احمد علی شاہ نے فزکس کا انتخاب کیا مگر چونکہ روحانیت ان کی روح میں پیوست ہے اس لئے (Metaphysics) اور (Spiritualism) پر جو بھی کتاب مل جاتی سے پوری توجہ اور انہماک سے پڑھتے۔

احمد علی شاہ جلد ہی یونیورسٹی کے اندر اور باہر ہونے والے مشاعروں میں شعر پڑھنے لگے ان کے بنیادی موضوعات ہی ما بعد الطبیعات اور روحانیت تھے ان کے استاد حیران تھے کہ وہ طالبعلم تو فزکس کے تھے مگر شعر ما بعد الطبیعات پر لکھتے تھے۔احمد علی شاہ نے پہلی غزل اپنے والد کی یاد میں لکھی تھی۔وہ منصور صحرائی تخلص کرتے تھے۔احمد علی شاہ المعروف منصور صحرائی کی پہلی غزل کو قبول عام کی سند مل چکی تھی جسے ان کے اساتذہ انہیں بے حد سراہتے تھے۔
تیرے چہرے کی لو جس دم بجھی تھی
وہ جیون میں قیامت کی گھڑی تھی

ہوئیں تھیں سب منا جاتیں معطل
فلک نے تو زمیں تک چھین لی تھی

یقین نہیں آتا تھا لُٹنے کا ہم کو
عجب اک ناگہاں سی آ پڑی تھی

دھواں اُٹھتا تھا خوابوں کے نگر سے
ہمیں نسبت جبھی تو خاک سے تھی

نہیں الزام دیتے دوستوں کو
کسی کی دوستی جو دیکھ لی تھی

رکھیں اُمید کیسے اس نگر سے
حقیقت لمحہ لمحہ ڈس رہی تھی

ایک اور نظم جسے مین لائبریری میں آویزاں کیا گیا تھا۔


جس سے مقتل کی ہوائیں بھی گریزاں تھیں بہت
پھر اسی راہ سے گزرے ہیں سربدیدہ گُہر
روکنے آئے تھے سفاک دستِ قاتل کو
پرچم سرفراز و جاہ کل اثاثہ تھا
تھی شجاعت رہی رخش و تفننگ و تیر
نسب نیک لہو میں بہت کُشادہ تھا
روشن بن کے کھٹکتے تھے چشم قاتل میں
جرأت فکر و عمل ان کا ہی لبادہ تھا
مصلحت مکر و ریا سے کنارہ کش تھے بہت
کہہ دیا کوئی بات وہ ارادہ تھا

ایک شب مشاعرے سے واپسی پر انہیں حاجرہ بی بی کے انتقال کی خبر ملی، جیسے ان کے سر سے سائبان اٹھ گیا فوراً ہی وہ سلطان پور کے لئے روانہ ہوئے۔
سلطان پور پہنچ کر احمد شاہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے۔حاجرہ بی بی ماں ہی نہیں ان کے لئے ہمدم دیرینہ کی طرح تھیں۔اماں آپ نے ہمیں مکمل طور پر تنہا کر دیا ہے اب اس دنیا میں ہمارے لئے کوئی (Attraction) باقی نہیں رہ گئی اب یہ فقط دار الامتحان کی طرح ہمارے سامنے کھڑی ہے۔
احمد علی شاہ فریاد کر رہے تھے۔اماں ہمیں معاف کر دیجئے۔آپ نے زندگی بھر دکھ پائے اور ہم آپ کی ذرہ برابر خدمت نہ کر سکے۔
احمد علی شاہ کا زیادہ تر وقت درگاہ پر ہی گزرتا ہے۔وہ زیادہ تر عبادتوں میں مشغول رہتے ہیں۔رنگ علی قلندر درگاہ کا سب سے پرانا خادم ہے وہ احمد علی شاہ سے کہتا ہے۔
”حاجرہ بی بی وصیت فرماتی تھیں کہ آپ جلد از جلد شادی کریں تاکہ آپ کا وارث اس دنیا میں آئے۔آپ تو جانتے ہیں اس گدی کی حفاظت سینہ بہ سینہ ہو رہی ہے۔
احمد علی شاہ سر جھکائے ہوئے ہیں۔
آہِ سرد بھر کر کہتے ہیں۔رنگ علی اب یہ دنیا میرے لئے رہنے کے قابل نہیں رہی میں شادی کر کے کیا کروں گا۔میرا تو اس دنیا میں کوئی بھی نہیں احمد علی شاہ رونے لگتے ہیں۔
شہر بانو کا سوتیلا باپ دھوکہ دہی میں اپنی مثال آپ ہے وہ وعدے وعید کر کے شہر بانو کو شہر لایا مگر اس سے اس کی سب سے قیمتی متاع چھین چکا ہے۔اس کے دل میں گُل بانو کے لئے جو بغض ہے وہ اُس کے مرنے کے بعد بھی قائم ہے اور جو بدلے وہ گل بانو سے نہ لے سکا وہ تمام شہر بانو سے لئے۔
شہر بانو کو اس لئے لایا تھا کہ اسے اعلیٰ تعلیم دلائے گا مگر یہاں وہ اس کا سودا ایک کروڑ روپے میں طے کرچکا ہے۔
تم مجھ پر یہ ظلم نہ کر پاؤ گے میں کسی کے ہاتھوں فروخت ہونا نہیں چاہتی۔تمہاری پاگل ماں بھی زندگی بھر ٹھوکریں کھاتی رہی مگر کبھی میری طرف پیار سے نہیں دیکھا۔اسے اپنے اعمال کی سزا ملی اور اب تو بھی انکار کر رہی ہے۔عیش کرو، وہ ارب پتی ہے عمر تو میرے برابر ہے مگر خیر اتنا بوڑھا محسوس نہیں ہوتا۔

شہر بانو کسی گھائل ہرنی کی مانند عجب کی طرف دیکھتی ہے۔
عجب خان تم نے میرے پاس چھوڑا بھی کیا ہے کہ میں اپنے بارے میں سوچ سکوں۔ہم کسی کسی پر مہربان ہوتے ہیں نادان ہر کوئی ہماری نظروں میں کہاں سماتا ہے۔تو بھی خوش نصیب ہے اور تیری ماں تجھ سے بھی زیادہ خوش نصیب کیونکہ اس کے چاہنے والے بھی بہت تھے تمہارا بیوقوف باپ پیار کے جال میں اسے پھنسا کر لے گیا مگر ایک دن میں نے ایکسیڈنٹ کر کے ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا۔

عجب خان شیطانی ہنسی ہنستا ہے۔شہر بانو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی ہے۔رونے والی لڑکیاں اگر حسین بھی ہوں تو اور زیادہ خوبصورت لگتی ہیں۔ہمیں ان پر اور بھی زیادہ افسوس ہوتا ہے۔تم نے مجھ سے میرے ماں باپ کو چھینا ہے۔مجھے ہر چیز سے محروم کر کے مجھ سے کیا چاہتے ہو میں ہر گز تمہارے کسی مقصد کو کامیاب نہ ہونے دوں گی۔“
اپنی انا کے قتل نے شہر بانو پر تشدد کرنے سے اسے کسی قدر سکون دیا۔
اب شہر بانو ایک تنہا پرندے کی مانند قید ہے رسیاں اس کے پورے جسم سے لپیٹ دی گئی ہیں ایک شب ملازمہ اسے کھانا دینے آتی ہے۔عجب خان سو رہا ہے۔مگر بے خبری کی نیند نہیں تمام ملازمین پر اسے اعتماد ہے ملازمہ شہر بانو کے تمام دکھ جانتی ہے وہ بھی یہ جانتی ہے کہ اس نے عمر بھر کیا کیا ظلم ڈھائے ہیں جبکہ عجب خان کی نوبیاہتا بھی گھر میں موجود ہے مگر وہ ان لوگوں میں سے جو فقط اپنی ہوس کی خاطر جیتے ہیں۔

”بیٹی میں تمہاری رسیاں کھول دیتی ہوں تم پچھلے دروازے سے بھاگ جاؤ۔اماں میں تمہاری احسان مند رہوں گی۔یہ وہ جملہ تھا جو شہر بانو نے اپنی اسیری کے اختتام پر ادا کیا اور نامعلوم منزل کی جانب چل دی۔
احمد علی شاہ یونیورسٹی ہاسٹل میں شفٹ ہو گئے تھے اپنی ماں کی یادوں سے نکلنے کے لئے انہوں نے یہی راستہ چنا تھا کہ دن بھر اپنی پڑھائی میں مصروف رہتے اور شب بھر ان کے لئے دعائے مغفرت کریں ایک شب جب وہ مشاعرہ پڑھ کر لوٹ رہے تھے، سیاہ چادر میں لپٹا ہوا مخمور سراپا اچانک ان کی گاڑی کے پاس آ کر رک گیا۔
خدارا مجھے بچا لیجئے۔وہ لوگ بہت ظالم ہیں وہ مجھے مار ڈالیں گے۔ایک نازک سی لڑکی نے سارے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔مخروطی انگلیاں سیاہ چادر سے جھانک رہی ہیں۔رہنما کا کام یہ ہے کہ وہ کوئی غلطی نہیں کرتے، اپنی والدہ کے کہے ہوئے الفاظ احمد علی شاہ کو یاد آ رہے تھے۔وہ گاڑی کو دوسری سمت موڑنے لگتے ہیں۔
مخمور سراپا پھر سامنے آ جاتا ہے۔
میں قسم کھا کر کہتی ہوں میں ایسے خاندان سے تعلق رکھتی ہوں جس کی شرافت کی گواہی ہر ایک دے گا مگر وہ میرا سوتیلا باپ ہے میں کب سے اس کے ظلم کی چکی میں پس رہی ہوں اگر آپ نے بھی میرا ساتھ نہ دیا تو میں برباد ہو جاؤں گی۔
احمد علی شاہ ایک لمحے کو رکے ”تم کون ہو اور یہ سب کچھ مجھے کیوں بتا رہی ہو۔احمدعلی شاہ پہلی بار گویا ہوئے میرا نام شہر بانو ہے میرے ماں باپ فوت ہو چکے ہیں۔
اب اس خاندان میں زندہ بچ جانے والی فقط میں ہی ہوں۔میرا بھائی امام شامل فقط 4 دن کا بچہ تھا جب قتل کر دیا گیا میرے ماموں نے اسے میرے باپ سے رنجش کی بنا پر قتل کیا تھا۔میری ماں ایک مظلوم عورت تھی وہ سلطان پور کی درگاہ سے بے حد عقیدت رکھتی تھی۔آپ مجھے وہاں تک پہنچا دیجئے۔میں آپ کی احسان مند رہوں گی۔تم سلطان پور کے بارے میں کیا جانتی ہو۔

احمد علی شاہ نے آہستگی سے اپنی گاڑی کا دروازہ کھولا۔
”ہاں اب بتاؤ سلطان پور کا نام سن کر احمد علی نے اسے گاڑی میں بٹھا لیا۔میرے باپ کو سلطان پور کے گدی نشینوں نے اس وقت پناہ دی جب پورا قبیلہ ان کے خلاف ہو گیا۔اسی گدی کے ایک بزرگ بندے علی شاہ اور ان کی بیوی جن کا نام حاجرہ بی بی بتایا جاتا ہے نے میرے ماں باپ کو پناہ دی۔
ان دونوں نے ہی میرے باپ کی شادی کروائی۔
پھر میرا بھائی بھی اسی درگاہ پر شہید ہوا تھا۔شہر بانو پھوٹ پھوٹ کر روتی ہے۔میں بدنصیب بنتِ بدنصیب ہوں۔ہم نے زندگی سے کچھ نہیں پایا۔فقط دکھوں نے ہمارے گھر کا رستہ دیکھ لیا ہے۔ہم سونے کو بھی ہاتھ لگائیں تو وہ مٹی ہو جاتا ہے شہر بانو زار و زار روتی ہے۔
”دیکھو اللہ تعالیٰ کی ذات اپنے بندوں پر مہربان ہے وہ دے کر بھی آزماتا ہے اور نہ دے کر فی الحال میں تمہیں اپنے سب سے اچھے دوست کے گھر لے چلتا ہوں۔

کیا آپ کا اپنا کوئی گھر نہیں ہے شہر بانو استفسار کرتی ہے۔
میں یہاں ہاسٹل میں رہتا ہوں دیکھو اس سے مدد طلب کرتے ہیں وہ اس مصیبت میں ضرور ہمارے کام آئے گا۔یقین ہے کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکل آئے گا۔
گھر کا مرکزی دروازہ سرمد نے ہی کھولا۔احمد علی شاہ تم خیریت تو ہے نا۔
عقب میں شہر بانو کو پا کر سرمد چونکا، پھر سنبھلا اور انہیں مہمان خانے میں لے آیا۔
آپ بیٹھیں میں امی کو جگاتا ہوں۔
دوسری جانب سرمد کی ماں جو پہلے سے جاگ رہی تھیں مہمان خانے میں داخل ہو گئیں۔سرمد یہ کون ہیں۔امی یہ میرے دوست ہیں، کیسے دوست ہیں، گھر نہیں ہے ان کا امی دراصل ہاسٹل میں رہتے ہیں تو یہاں ان کا کیا کام، کام تونہیں امی پریشانی ہے میرا مطلب (Emergency) ہے۔
سرمد یہ تو کوئی لڑکی ہے اور یہ تو خوبصورت ہے۔شکل سے تو تم کسی اچھے گھر کی لگتی ہو۔
ایک جوان بیٹا ہے خوبصورت لڑکیاں دولت مند لڑکوں کو دیکھتے ہی مچلنے لگتی ہیں۔شہر بانو کی آنکھوں میں ایک بجلی سے چمکتی ہے۔مگر اس بے بضاعتی پر وہ خاموش ہے۔
شہر بانو سر جھکا کر کھڑی ہے۔معاف کیجئے گا آپ کو بے وقت زحمت ہوئی ہم مجبور تھے۔
تمہیں تو میں جانتی ہوں احمد شاہ مگر یہ لڑکی کیا لگتی ہے تمہاری۔
دراصل ہم چاہتے ہیں آپ اسے کچھ دن کے لئے اپنے پاس رکھ لیں۔

کیا؟ ہم رکھ لیں تم کیسے کہہ رہے ہو جیسے یہ کوئی بات ہی نہیں۔
اور تم کیسی لڑکی ہو کہ تم پر اپنے ماں باپ کی عزت کا ذرا سا بھی ذمہ نہ تھا کیسی قیامت ہے رات کا یہ پہر، اجنبی مرد اچھے برے کی پہچان مشکل ہی نہیں ناممکن ہو چکی ہے کہ آپ کو اس کے بارے میں اس کے چلن کا اندازہ ہو سکے۔
آپ میری روداد سنئے مجھے رد نہ کریں۔دراصل میں نے اپنی عزت کی خاطر ہی اپنے لئے یہ راستہ چنا ہے۔
یہ بھی ممکن تھا کہ میں کسی گاڑی سے ٹکرا کر مر چکی ہوتی مگر اللہ کے نیک بندے کسی بھی وقت کہیں بھی مل جاتے ہیں۔وہ میرا سوتیلا باپ ہے میں تین ماہ کی تھی جب یتیم ہوئی اس نے میری ماں سے وعدہ کیا تھا کہ مجھے کبھی کوئی تکلیف نہ ہونے دے گا۔مگر میں شروع سے ہی اس سے ڈرتی تھی، میری ماں نے پہلی شادی اپنی پسند سے کی اس لئے میری ننہیال والوں نے میری ماں کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔
جس شخص نے میرے باپ کو روڈ ایکسیڈنٹ کے نام پر قتل کیا اسی سے میری ماں کی شادی ہو گئی بڑی منصوبہ بندی سے وہ سارے کھیل کھیلتا ہے اب وہ میری شادی ایک ایسے شخص سے کروانا چاہتا ہے جو عمر میں اس کے برابر ہے وہ میری قسمت کا سودا ایک کروڑ میں طے کر چکا ہے میں کب سے اس کے مظالم سہہ رہی ہوں گاؤں سے شہر تک میں شہرِ تعلیم حاصل کرنے آئی تھی مگر یہاں… شہر بانو رونے لگتی ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles