Ajal Aai - Pehla Hissa - Article No. 2582

Ajal Aai - Pehla Hissa

اجل آئی - پہلا حصہ - تحریر نمبر 2582

قسم ہے اسی ذات پاک کی میں اپنی مرضی یا اپنی خواہش سے سلطان پور کا گدی نشین نہیں بنا

Nusrat Zehra نصرت زہرا پیر 25 ستمبر 2023

”ابتداء ہے اس ذاتِ بے ہمتا کے نام سے جو حوادث و امکاں پر غالب ہے“۔ساری تعریف اللہ کے لئے ہے جس کی تعریف و توصیف میں بولنے والوں کے تکلم کی رسائی نہیں اور اسکی نعمتوں کے گننے سے انہیں شمار نہیں کیا جا سکتا۔قسم ہے اسی ذات پاک کی میں اپنی مرضی یا اپنی خواہش سے سلطان پور کا گدی نشین نہیں بنا۔مجھے بزرگوں نے منتخب کیا اور تمام لوگوں نے ان کی تائید کی۔
میں نے اپنے حصے سے زیادہ تو کیا اپنا حق بھی ہمیشہ اپنے بیعت کرنے والوں کو تفویض کیا۔آج میں اپنے تمام چیدہ افراد اور معزز مہمانانِ گرامی کو اسی واسطے مدعو کیا ہے کہ وہ یہ جان لیں کہ میں اپنے فرزند بندے علی شاہ کو اپنا وصی اور جانشین مقرر کرتا ہوں۔حیدر علی شاہ خاموش ہوئے تو مجمع پر بھی ایک سکوت چھا گیا۔

(جاری ہے)

کئی ثانئے بعد مجمع میں سے ایک شخص نے باآواز بلند کہنا شروع کیا۔

”حیدر علی شاہ یہ سراسر نا انصافی ہے کہ ہم ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور گدی پر صرف آپ اور آپ کی اولادوں کا حق ہے۔ہم اس فیصلے کو نہیں مانتے اور اعلان کرتے ہیں کہ ہماری جانب سے سردار شاہ اس گدی کے وارث ہوں گے“۔
حیدر علی شاہ کچھ توقف کے بعد گویا ہوئے ”توفیق شاہ یہ ممکن نہیں یہ ہم نے مقرر نہیں کیا اس کیلئے صدیوں کا مقرر کردہ فیصلہ تمہارے سامنے ہے۔
تم جانتے ہو کہ متقی اور پرہیزگار ہونا اوّلین شرط ہے۔پھر یہ کہ گدی نشین جسے اپنا جانشین مقرر کر دے وہی وارث قرار پاتا ہے“۔
”حیدر علی شاہ یہی تو ہم کہتے ہیں کہ ہم گدی نشینی کو اس طرح تقسیم کر لیتے ہیں اس بار آپ ہمیں موقع دیجئے۔اگلی مرتبہ خوشی سے اپنا کوئی وارث مقرر کر دیجئے گا“۔
حیدر علی شاہ کے باریش و پُرجلال چہرے پر ایک سایہ نمودار ہوا اور وہ سکون سے گویا ہوئے ”توفیق شاہ جہالت کے ساتھ گفتگو کرنا کوئی برائی نہیں ہم فیصلہ کر چکے ہیں اور یہ بھی طے ہے کہ ہمارے مرنے کے بعد ہمارے جانشین کے طور پر بندے علی شاہ ہی ہمارے اور سلطان پور کی درگاہ کے وارث ہوں گے“۔
توفیق شاہ غصے کے عالم میں ایک سوداگر کی طرح کچھ کاغذات حیدر علی شاہ کی جانب بڑھاتے ہیں۔”یہ ہزاروں اراضیاں اور عیش و آرام سب کچھ آپ کے نام لکھنے کو تیار ہوں یہ فیصلہ نہ کریں کہ یہ آپ کو مہنگا بھی پڑسکتاہے“۔حیدر علی شاہ مسکر ائے۔”توفیق شاہ ہم اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں زندگی کو کمتر اور حقیر سمجھتے ہیں۔اس کی آسائشیں ہمارے لئے وبالِ جان ہیں۔
ہم ہر لحظہ موت کا انتظار کرتے ہیں اور خدا سے ملاقات کے آرزو مند رہتے ہیں۔تم موت سے نہ تو ہمیں ڈرا سکو گے اور نہ ہی اپنے مشن اور خلقِ خدا کی خدمت سے ہم کبھی دستبردار ہوں گے“۔
توفیق شاہ کا امیدوار بیٹا سردار شاہ حیدر علی شاہ پر رائفل تان کر کھڑا ہے۔
”ہم اللہ کی رضا کے سامنے اس قربانی سے کبھی دریغ نہیں کریں گے۔تم چاہو تو ہمارے لہو سے جہنم خرید لو ہم اللہ کی راہ میں اس قربانی سے کبھی دریغ نہیں کریں گے“۔

”حیدر علی شاہ یہی تو وہ باتیں ہیں جو ہمیں آپ کے خلاف اُکساتی ہیں۔کیا نہیں ہے ہمارے پاس! غصے میں آگ اگلتا ہوا توفیق شاہ اپنی سعی میں دلائل پیش کئے۔“
”فقط تقویٰ اور پرہیزگاری نہیں ہے“۔حیدر علی شاہ نے قطعیت سے کہا۔حیدر علی شاہ کہیں یہ بات آپ کی آخری بات ثابت نہ ہو جائے۔تمام اہلِ درگاہ صبر و ضبط کئے بیٹھے۔
حیدر علی شاہ سرکار حکم دیں کہ اس کا سر اُڑایا جائے۔
مریدین کے جوش کو دیکھتے ہوئے حیدر علی شاہ نے صبر سے جواب دیا۔نہیں اس بدبخت کی یہی سزا ہے کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے پھر بھی یہ راہِ راست پر نہ آئے تب بھی ہم اپنی ذات کے لئے اس کے ساتھ کوئی برائی نہ کریں گے کہ ہم اپنی نفسانی خواہشات کے غلام نہیں مریدین کے غم و غصے کو دیکھ کر توفیق شاہ، حیدر علی شاہ سے معافی طلب کر لیتا ہے۔
”حیدر علی شاہ آپ ہی اس گدی کے اصل وارث ہیں مجھے معاف کر دیجئے۔
سردار شاہ اور توفیق شاہ اب تم جا سکتے ہو تمہیں ہر جگہ امان ہے۔ہمارے مریدین نہتے ہیں ان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں فقط جذبہ ہے۔درگاہ پر حسبِ روایات نمازِ صبح کے لئے بیدار مریدوں کا ایک ہجوم حیدر علی شاہ کی امامت میں نماز ادا کر رہا ہے۔مریدین ربِ کائنات کے حضور سجدہ شکر ادا کر رہے ہیں کہ درگاہ ہتھیاروں سے گونج گئی۔امان طلب کرتا ہوا توفیق شاہ ایک بار پھر حیدر علی شاہ سے گدی نشینی کا تقاضہ کرتا ہے۔
تو کیا یہ اب بھی آپ کا آخری فیصلہ ہے کہ ہمیں نظر انداز کر کے اپنے من مانے قوانین تمام مریدوں پر لاگو کرتے رہیں گے“۔
توفیق شاہ اگر تم چاہو تو ہمارے خون سے اپنے لئے خدا کی ناراضی خرید لو اللہ نے تمہاری رسی کو دراز بھی کیا ہے اور تم میں بقول تمہارے ہر نشے کو خریدنے کی سکت ہے تو ہم یہ فیصلہ تم پر چھوڑتے ہیں ہوائیں دم سادھے درگاہ کا بدلا رُخ دیکھ رہی ہیں حیدر علی شاہ کی پشت ہتھیاروں سے چھلنی ہے اور مریدین کا کہرام۔
قاتل نے حیدر علی شاہ کی پشت پر وار نہیں کیا بلکہ اپنے دامن کو داغدار کیا ہے۔بندے علی شاہ روتے ہوئے مریدین کو صبر کی تلقین کرتے ”مولائے کائنات“ اپنی نفسانی خواہشات کے غلام نہ تھے جب مرحب نے مولا کے چہرہِ مباک پر تھوک دیا تو انہوں نے یہ کہہ کر مقابلے سے دستبرداری کا اعلان کیا کہ میں اپنی ذات کے لئے نہیں لڑتا۔“
درگاہ پر سورج اپنی آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے بندے علی شاہ غم کی تصویر ہیں اور مریدوں کے ہجوم سے خطاب کر رہے ہیں۔
صحن میں حیدر علی شاہ کا جسدِ خاکی رکھا ہوا ہے۔
”قسم ہے سیدھا راستہ دکھانے والے ربّ کی کہ رہنمائی ہماری اساس ہے ہم اس سے ہر گز دستبردار نہ ہوں گے۔اور اپنے والد کے مشن کو ہر حال میں جاری رکھیں گے۔
مریدین کی ایک جماعت حیدر علی شاہ کا جنازہ کاندھے پر اٹھائے درود کا ورد کرتی جاتی ہے۔بندے علی شاہ چشمِ تصور میں وہ دن یاد کرتے ہیں جب ان کے دادا محمد ابن شاہِ کی رحلت ہوئی تو حیدر علی شاہ کس طرح غم و اندوہ سے نڈھال تھے ہر شخص انہیں تسلیاں دے رہا تھا۔
مگر وہ ایک ہی جملہ دہراتے تھے۔
”سرکار نے مجھ سے بے وفائی کی میں ہر گز یہ بارِ سخت اٹھانے کے لائق نہ تھا۔“
ایک آنسو بندے علی شاہ کی آنکھ سے گر کر زمین کی گود میں جم گیا۔بندے علی شاہ آسمان کی جانب دیکھ رہے ہیں۔اے صبر دینے والے ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں ہمیں ہر حال میں سرخرو کرنا کہ تو نے ہی ہمیں سیدھا راستہ دکھایا اور چُنا اس کارِ خیر کے لئے۔

بندے علی شاہ کا چہرہ آسمان کی جانب اٹھا ہوا ہے۔اور فضا پر ایک پرہول اداسی چھائی ہوئی ہے۔
حیدر علی شاہ کو ان کے والد محمد ابنِ شاہ کے پہلو میں جگہ دی گئی اور صبر و ضبط کے نئے امتحانوں سے گزرنے کے لئے بندے علی شاہ صحرائے عشق میں پابرہنہ کھڑے ہیں۔
سلطان پور کی درگاہ، رب کے حضور سجدہ ریز بندے علی شاہ، خاک شفا ان کے آنسوؤں سے تر ہے۔

سرکار اتنا گریہ نہ کریں کہ یہ آنسو آپ کے جدِ بزرگوار کے مشن اور مقصد سے دور نہ کر دیں۔ایک مرید انہیں کاندھوں سے تھامے ہوئے ہے۔
نہیں میرے عزیز کیا تم نہیں جانتے کہ میرے چوتھے امام حضرت علی بن حسین (حضرت امام زین العابدینؑ کس قدر گریہ کرتے تھے جب ان سے دریافت کرنے والے نے دریافت کیا کہ آخر آپ کے لئے سب سے مشکل مرحلہ کون سا تھا۔
تو میرے مولا فرماتے ہیں۔”الشام الشام“ مریدوں کی جماعت بھی گریہ و فریاد کرنے لگی۔سلطان پور کی درگاہ میں بیک وقت غم و اندوہ اور امید کے سائے ہیں۔حیدر علی شاہ کی شہادت اور بندے علی شاہ کا گدی نشین ہونا پھر ان ہزاروں افراد کا ان کی طرف دیکھنا جو راہنمائی کے لئے ان کی جانب دیکھ رہے ہیں۔
سلطان پور کی درگاہ چٹیل میدان تھی۔جسے ایک خواب کی بشارت پا کر عراق سے ہجرت کر کے آنے والے محمد ابن شاہِ نے اپنے سجدوں سے روشن کیا اور آس پاس کے علاقوں میں بسنے والے ہزاروں شودر اسلام کے دامن پناہ میں آئے اور آباد ہو گئے۔
ان کی علم و حکمت سے متاثر ہو کر دنیا کے مختلف خطوں سے لوگوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی اور مرید بن گئے اسی اثر و رسوخ کو دیکھتے ہوئے ان کے خاندان کے دیگر افراد بھی سلطان پور میں آ کر آباد ہونا شروع ہو گئے۔مگر ان کے دل میں حیدر علی شاہ کے خاندان اور اِن کی علم و حکمت کی تائید و حمایت کی جگہ بغض و کینہ پروری نے لے لی۔محمد ابن شاہ کی وفات کے بعد حیدر علی شاہ گدی نشین ہوئے۔
حیدر علی شاہ اس سے قبل ہی مقبول خاص و عام تھے۔گدی نشینی نے ان کی توجہات کو مزید جلا بخشی۔
سلطان پور کی درگاہ سے دور ایک چھوٹے سے گاؤں میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ایک بے حد سبز درختوں والا گھر جل چکا ہے۔اور ایک نحیف و کمزور صدا ہے جس کے ساتوں بھائی مارے جا چکے ہیں۔ایک ضعیف اور لاچار سربہ زانوں ہے۔
راکھ بھڑک رہی ہے اور آنسو رواں ہیں۔
بیکراں خاموشی کی جھیل میں دبی دبی سسکیاں کبھی کبھی سر اُٹھاتی ہیں پھر خود اپنی ہی آواز سے ڈر جاتی ہیں۔
”بھگوان تو اتنا بے کس ہے یہ میں نہیں جانتا تھا۔ایک نہ دو ساتوں کے ساتوں“ پھر رونے لگتا ہے۔”آخر یہی ہے کیا، تیسرا دستور“ لڑکی اپنے بوڑھے باپ کی گود میں سر رکھ کر رونے لگتی ہے۔پتا جی ابھی چلئے ہم اس اندھیر ے میں نکل جائیں گے تو کوئی دیکھ بھی نہ پائے گا سویرا ہوا تو ہر کسی کی نگاہ میں آئیں گے۔
راکھی اور ہیمنت ایک بار پھر زندگی کی جانب چل پڑے۔
ایک نئی صبح ان کی منتظر ہے۔راکھی باپ کا شانہ تھامے لاغر قدموں سے چل رہی ہے۔پتا جی منزلیں ہم سے اتنی دور کیوں ہیں۔جو ہم شودر نہ ہوتے کسی اور ھرم پر جنم لیتے تو آج میرے ساتوں بھائی……سسکنے لگتی ہے۔ہیمنت بھی رونے لگتا ہے۔اور تھک کر بیٹھ جاتا ہے۔
راکھی اور ہیمنت ایک پہاڑی کی اُوٹ میں آنکھیں موندیں بے نام منزل کے مل جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔

درگاہ پر لنگر تقسیم کیا جا رہا ہے۔مریدین درگاہ پر لنگر تقسیم کر رہے ہیں۔
درگاہ پر ہجوم ہے۔
پتا جی اب تو حلق میں کانٹے چبھ رہے ہیں۔کیا کہیں سے تھوڑا سا پانی مل سکتا ہے۔راکھی لاچار آنکھوں سے باپ کی سمت دیکھنے لگتی ہے۔
دونوں چل پڑتے ہیں۔بہت دور سے ایک سبز گنبد دکھائی دیتا ہے۔راکھی بیٹا شاید یہاں سے میں تیرے لئے پانی لا سکوں۔
تو یہیں رُک میں ابھی آتا ہوں۔نہیں پتا جی میں نہیں رک سکتی میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گی۔
سلطان پور کی درگاہ کے مرید ہر رات کاندھے پر اشیائے خوردونوش لئے ایسے افراد کو ڈھونڈتے ہیں جو بھوک سے نڈھال ہوں سبز رنگ کے عمامے میں ملبوس ایک مرید ہیمنت سے پوچھ رہا ہے۔کیا میں آپ کے کچھ کام آ سکتا ہوں۔دو نحیف اور کمزور بدن کانپے، لرزے اور پتھر ہو گئے۔
مگر پیاس کی شدت نے ان کی نظروں میں جینے کی ایک اُمنگ پیدا کر دی۔
ہیمنت نے ڈرتے ڈرتے کہا، بھائی میں بہت غریب ہوں یہ نصیبوں جلی میری بیٹی ہے۔اور اس کے ساتوں بھائی مارے جا چکے ہیں۔تم کو اپنے اللہ کا واسطہ ہے ہم پر رحم کرو۔ہمیں تھوڑا سا پانی پلاؤ ورنہ یہ بچی پیاس کی شدت سے دم توڑ جائے گی۔
ہیمنت کا سراپا جیسے اپنے ہونے کا عذاب جھیل رہا ہے۔
اور ہر آن زندگی کو کبھی برف کی سل تو کبھی انگاروں پر ننگے پاؤں کھلی آنکھوں اور حواس خمسہ کی پوری بیداریوں سے سہہ رہا ہے نہیں بھائی فقط پانی کیوں، آپ ہمارے ساتھ چلیں، سامنے سلطان پور کی درگاہ ہے۔یہ بچی آپ ہی کی نہیں وہاں کے ہر شخص کے لئے اولاد کی طرح عزیز ہو گی۔میرے سرکار بندے علی شاہ سراپا مہربان ہیں آپ کو وہاں کوئی تکلیف نہ ہو گی۔

راکھی ڈری سہمی نظروں سے دو اجنبیوں کو دیکھ رہی ہے ایک مرید آگے بڑھ کر ہیمنت کا ہاتھ تھام لیتا ہے چلئے خدارا، نہیں مجھے تھوڑا سا پانی چاہئے۔مجھے اور کچھ نہیں چاہئے۔آپ چلئے تو سہی اگر جگہ پسند آ جائے تو رہئے گا ورنہ جہاں آپ کا جی چاہے چلے جائیے گا۔
ہیمنت اور راکھی مریدوں کے ساتھ چل پڑتے ہیں۔سلطان پور کی پیشانی پر چاند کا جھومر عجب حسن پیش کر رہا ہے۔
قطار در قطار مریدوں کی جماعتیں اپنے اپنے کاموں پر مامور، فرشتوں کی مانند جنہیں نہ اونگھ آتی ہے…نہ نیند۔اور دور ویہ کھجور کے درخت، سامنے بندے علی شاہ کا حُجرہ جس میں ایرانی تخت بچھا ہے۔جس پر ہر دم کوفے سے لائی گئی جائے نماز بچھی رہتی ہے۔طاق پر دورحلیں برابر برابر رکھی ہیں۔ایک پر قرآن پاک اور دوسرے رحل میں نہج البلاغہ رکھی ہے۔
بندے علی شاہ دعا پر بے حد ایمان و یقین رکھتے ہیں۔دعا کا دل یقین ہی ان کی تعلیمات کا اصل جزو ہے اور یہی جزو صحیفہ کاملہ کی شکل میں ہر لحظہ اُس ایرانی تخت کی کوفہ کی جائے نماز کی زینت ہے۔بندے علی شاہ قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول ہیں۔حجرہ میں ایک مرید حاضر ہوتا ہے۔سرکار ایک ضعیف العمر مفلوک الحال شخص ہماری درگاہ میں آیا ہے۔آپ سے ملاقات کا آرزو مند ہے۔
بندے علی شاہ نے نظر اٹھا کر دیکھا۔حجرہ میں موجود پردئہ سبز میں ہوا سے جُنبش پیدا ہوئی۔انہیں میرے پاس بھیج دو۔حجرہ میں رکھے ایک دیے کی لو تیز ہوئی راکھی اور ہیمنت حجرہ میں داخل ہوئے۔ہیمنت بندے علی شاہ کی سمت دوڑتا ہوا آیا اور قدموں میں گر پڑا۔سرکار میں ایک غریب شودر ہوں انہوں نے میرے ساتوں بیٹوں کو بھون ڈالا۔وہ ساتوں اپنی بہن کی عزت بچانے کی خاطر زندگی کی بازی ہار گئے۔
انہوں نے میرا گھر بھی جلا دیا مگر بھگوان نے میری کمر توڑ کر میری لاج رکھ لی اور میری بیٹی کی عزت محفوظ رہی۔وہ میری بیٹی تک نہیں پہنچ سکے۔اب میں ہوں اور یہ مجبور آپ کو اپنے اللہ کا واسطہ ہمیں امان دیجئے ورنہ ہم تباہ ہو جائیں گے۔میں تو اب فقط اسی مجبور کی خاطر زندہ ہوں۔اب مجھے جی کے کچھ نہیں کرنا بس آپ سے ایک التجاء ہے کہ میں اپنے دھرم پر نہیں مرنا چاہتا جس نے مجھ سے میرے ساتوں بیٹے چھین لئے۔
مجھے کلمہ پڑھوا دیجئے اب ہم اسی اللہ کے بندے بن کر رہیں گے جس نے ہمیں ایک نئی زندگی دی ہے۔اور اس مجبور اور بے کس کو اسلام کی کنیز بنا دیجئے۔میں ایسے ہزاروں شودروں کو جانتا ہوں جو اپنے دھرم کی ظلم کی چکی میں پستے پستے ادھ موئے ہو چکے ہیں۔کسی بھی وقت اسلام قبول کرنے کو تیار ہیں۔الحمد اللہ۔بندے علی شاہ نے آنکھیں موند لیں اور چشمِ تصور میں اپنے جدِ بزرگوار محمد ابن شاہ کا چہرہ ان کے پورے وجود کے گرد حصار بن گیا۔
جسے ان سے مخاطب ہو۔مرحبا اے جان پدر تم نے ہماری ریاضتوں کی تکمیل کر دی۔
ہیمنت محوِ انتظار ہے۔بندے علی شاہ نے اپنا ہاتھ ہیمنت کے ہاتھ میں دیا اور اس نے لڑکھڑاتی زبان سے کہنا شروع کیا۔
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔
ایک الوہی خوشی آنسوؤں کی شکل میں ہیمنت کی آنکھوں سے رواں ہو گئی۔تم بھی پڑھو۔سیاہ چادر میں چھپے ہوئے سراپے نے بھی لرزیدہ زبان میں پڑھنا شروع کیا۔

لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔
رنگ علی قلندر سلطان پور کی درگاہ کا سب سے پرانا خادم ہونے کے ساتھ ساتھ جذب و مستی کی جیتی جاگتی تصویر ہے جسے ہر شئے میں اپنا حقیقی مالک اور محبوب دکھائی دیتا ہے۔جو درگا ہ کی روایتی اسلامی عبادات سے ہٹ کر جذب کے عالم میں رقص کرتا ہے۔اس مجذوب کے اس انداز کو مالک کے عشق کے اظہار کے پر قبول کر لیا گیا۔
زمانے کی ہر شئے پر جس طرح معنی پہنانے والوں نے اپنا رنگ جمایا ہے وہیں کیف، جذب اور مستی کو نجانے کس کس طرح پیش کیا گیا۔محمد ابن شاہ سرکار کہتے تھے خدا کی جانب لے جانیوالا ہر راستہ مبارک اور سعد ہے۔اور وہ یونہی بندوں کو اپنی جانب بلایا کرتا ہے لہٰذا جو بھی اس جذب سے گزر کر رب کو پہچانے وہ ہمارا ہے۔ہم اس کا استقبال کرتے ہیں۔بندے علی شاہ نے رنگ علی کے ہیمنت اور راکھی کے محمد موسی اور حاجرہ بی بی بن جانے پر یوں اظہار پذیرائی کی تو گویا ہوئے۔ہم اسے اپنی درگاہ کا اثاثہ تصور کرتے ہیں۔

Browse More Urdu Literature Articles