Ajal Aai - Teesra Hissa - Article No. 2585

Ajal Aai - Teesra Hissa

اجل آئی - تیسرا حصہ - تحریر نمبر 2585

جب تک ہم بدلہ نہ لیں ہمیں سکون نہیں ملتا

Nusrat Zehra نصرت زہرا جمعرات 19 اکتوبر 2023

بچہ بندے علی شاہ کی گود میں ہے اور حاجرہ بی بی اپنی سونی گود کو دیکھ کر رنجیدہ ہیں وہ کونسی دعا ہے جو میں نے نہیں مانگی مجھے تو اب ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میری دعاؤں میں تاثیر نہیں۔اس درگاہ پر آنے والے اپنی مرادیں پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں مگر میں ہی محروم ہوں، شک نہ کرو حاجرہ اللہ کی ذات بہت مہربان ہے بس ہر کام کے لئے ایک وقت معین ہے اور جب خدا کی طرف سے کشا کش ہو کوئی اسے روک نہیں سکتا، صبر کرو بندے علی شاہ حاجرہ بی بی کا حوصلہ بندھاتے ہیں۔

مگر میں کسی کو گود نہ لوں گی میں اسے خدا سے فریاد کرتی ہوں جس نے مجھے جنونی ہندوؤں سے بچا کر آپ کی پناہ میں دیا وہ اس بار بھی مجھ پر مہربان ہوگا۔
”ہاں ہم تمہارے جذبات سمجھتے ہیں حاجرہ عورت ماں بن کر خود کو مکمل تصور کرتی ہے۔

(جاری ہے)

بندے علی شاہ حاجرہ بی بی کے شانوں کو تھام لیتے ہیں۔“
بندے علی شاہ اور دیگر مریدین عبادتِ الٰہی میں مشغول ہیں۔

بچہ تین دن کا ہے۔گل بانو درگاہ کے صحن میں بیٹھی ہے جہاں نسبتاً زیادہ سناٹا ہے گُل بانو کے بھائی عزیز خان کے ساتھ دیگر لوگ بچے کے بارے میں استفسار کرتے ہیں۔گُل بانو اچانک عزیز خان کی آمد پا کر حیران ہے۔بچہ کہاں ہے۔کونسا بچہ گُل بانو پوچھتی ہے۔عزیز خان کا چہرہ غصے سے سرخ ہے آنکھیں انگارے برسا رہی ہیں۔”مگر آپ کو اس سے کیا کام ہے۔
آپ اس معصوم سے کیا چاہتے ہیں“ ہم تمہارے گناہ کی نشانی کو ہی مٹانے آئے ہیں۔عزیز خان آگے بڑھ کر بچے کو تلاشنے لگتا ہے۔گُل بانو منتیں کرنے لگتی ہے۔نہیں خدارا آپ اسے کچھ نہیں کہیں گے۔آپ بھلا اس سے کیا سوال کریں گے آپ کے مجرم ہم دونوں ہیں گل بانو کی تیز آواز سے علی امام باہر آتا ہے۔بندے علی شاہ بھی عبادات کو چھوڑ کر صحن میں موجود ہیں۔

میرے عزیز تمہیں کس کی تلاش ہے۔بندے علی شاہ قدرے نرمی سے سوال کرتے ہیں یہاں تمہیں کوئی مجرم تو نہ ملے گا البتہ اللہ کے بندے اور قلندر زیادہ دکھائی دیں گے۔“
دیکھو مجھے تم سے کچھ نہیں لینا تم اللہ کے نام پر جو کاروبار کرتے ہو ہم اسے جانتے ہیں مگر ہم اس بچے کو ڈھونڈنے آئے ہیں۔گل بانو کی آنسوؤں میں گھلی آواز سے تمام اہل درگاہ متوجہ ہوتے ہیں۔
تم نے کبھی میری خبر نہیں لی میں کس حال میں یہاں تک پہنچی“۔تمہارا حال خود تمہاری وجہ سے بگڑا تم نے جو گناہ کیا اب تم قیامت کے دن اس کا مزا چکھنا۔مگر میں آپ کو اپنا بچہ کسی صورت نہیں دے سکتی عزیز بھائی۔نہیں بانو یہ اس بچے کے ماموں ہیں ان کا بھی اس پر حق ہے کہ اسے دیکھیں اسے گود میں لے کر پیار کریں اور یوں بھی ہم تو اپنے بچے کو بندے علی شاہ سرکار کی خدمت میں دے چکے ہیں۔
مگر اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ میں ایک ایسے شخص کو اپنا بچہ دوں جس کے سر پر خون سوار ہے۔
نہیں ہم مبارک باد دینے نہیں آئے۔عزیز خان بچے کو دوبارہ جھولے میں لٹا دیتا ہے۔ہم تم پر یہ واضح کرنے آئے ہیں کہ اب تم گناہ کے اس کھیل کو زیادہ دیر تک نہ چلا سکو گے۔مگر یاد رکھو جب تک ہم بدلہ نہ لیں ہمیں سکون نہیں ملتا ایسی ہی ایک آگ ہم تمہارے سینے میں لگائیں گے۔
جو تم نے ہمارے سینے میں لگائی ہے۔
فکر، تردد اور غم کی نئی آندھیاں درگاہ میں اپنے پنجے گاڑ رہی تھیں بچہ جس کا نام امام شامل رکھا گیا اور جسے بندے علی شاہ نے تجویز کیا تمام دنیا کی فکرات سے بے نیاز پالنے میں بے خبری کی نیند سو رہا ہے۔
دیکھو گل میں سمجھتا ہوں ماں کے دل کی کیا حالت ہوتی ہے۔مگر یاد رکھو کہ ہم اپنے بچے کو اس سے قبل ہی بندے علی شاہ کے سپرد کر چکے ہیں اب وہ اس درگاہ کا غلام ہے۔
نہیں علی وہ میری محبت کی نشانی ہے، وہ کسی کا غلام نہیں۔دیکھو بانو جو وقت کا تقاضہ ہے اسے سمجھ لو گی تو زندگی آسان ہو جائے گی۔تم جانتی ہو نا ہم کن خطرات سے دوچار ہیں۔مگر مجھے یقین ہے خدا ہم پر ضرور مہربان ہو گا۔گل بانو تمام رات مضطرب رہی اسے ایک پل چین نہیں آیا کبھی اسے یہ محسوس ہوتا کہ بچے کے دل کی دھڑکن رک گئی ہے اور کبھی وہ اس کی نبضیں ٹٹولنے لگتی۔

صبح صادق کے وقت نمازیوں کی قطاریں سلطان پور کی درگاہ میں بندے علی شاہ کی اقتداء میں نماز ادا کر رہی ہیں۔گُل بانو بچے کو سینے سے لگائے بیٹھی ہے دور کہیں گاڑیوں کے رکنے کی آواز سے اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں پھر گولیوں کی بوچھاڑ سے سلطان پور کی درگاہ کے در و دیوار لرزنے لگے پانچ نمازی بیک وقت جامِ شہادت نوش کر گئے قبل اس کے کہ گل بانو دروازہ بند کرتی ایک گولی نازک گلے کو چیرتی ہوئی آرپار ہو گئی اور ایک دلدوز چیخ کے ساتھ اس کی آواز ہمیشہ کے لئے بند ہو گئی۔
سفاک قاتلوں کے لئے روزِ جشن ہے قاتل اپنی فتح کا اعلان کرتے ہیں گناہ کی نشانی کا یہی انجام ہونا چاہئے تھا۔”میں نہ کہتا تھا یہ چار دن کا شوق تم دونوں کو بہت مہنگا پڑ سکتا ہے۔اب تم سب نے دیکھا ہم نے اپنی بے عزتی کا بدلہ لے لیا۔گل بانو سکتے میں مبتلا ہے۔علی امام بچے کی خون آلود لاش بندے علی شاہ کو تھماتے ہوئے کہتا ہے۔”سرکار میرا یہ نذرانہ قبول کریں۔

”خدا کا قہر نازل ہو ان پر جنہوں نے چار دن کے نازک پھول کو بھی نہیں بخشا،نہیں سرکار وہ آپ ہی کا غلام تھا، ہم نے آپ کے احسان کا بدلہ چکا دیا۔
عورتیں بین کرتی ہیں گل بانو کو رُلانے کی تو بین کرتی ہیں۔
بدنصیب تو نے اس خوشی سے جو پایا تھا اسے چھین لیا گیا ہے۔ دنیا نے تجھ سے سب کچھ لوٹ لیا ہے تیرا پھول سا نازک بچہ، ہمیشہ کے لئے سو گیا ہے۔
گل بانو کی آنکھ میں غم کی حرارت جنم لیتی ہے۔ایک آنسو رخسار سے گر کر اس کے خون آلود دوپٹے میں جذب ہو جاتا ہے۔وہ دوپٹہ جس پر ابھی تازہ خون کے دھبے ہیں۔
شہیدوں کی لاشیں درگاہ کے صحن میں رکھی ہیں۔ساتھ ہی چار دن کے امام شامل کا ننھا لاشہ رکھا ہوا ہے۔بندے علی شاہ غم سے نڈھال ہیں۔بار بار علی امام سے کہتے ہیں” ہم تمہاری مہمان نوازی نہ کر پائے جس پر ہم تہہ دل سے شرمندہ ہیں کہ ہم تمہاری محبت کی نشانی کو نہ بچا سکے۔
بندے علی شاہ سر پہ بندھا عمامہ کھول کر رونے لگتے ہیں ان کا گریبان چاک ہے۔روزِ جزا ہم خدا کو کیا منہ دکھائیں گے۔رنگ علی قلندر پھٹی پھٹی آنکھوں سے نازک گلے کے زخموں کو دیکھ کر ہذیانی انداز میں صدائیں دے رہا ہے۔

پھر چمکے گا، یہیں سے اک اور ستار ہ پھر ابھرے گا
یہیں اک اور ستارہ پھر ڈوبے گا
یہیں اک اور ستارہ پھر ابھرے گا

جنازے اٹھائے جاتے ہیں اور تدفین عمل میں لائی جاتی ہے۔
ننھی لاش کو درگاہ میں ہی دفن کر دیا جاتا ہے۔گُل بانو کی حالت دگرگوں ہے بندے علی شاہ کی صلح جوئی مشہور ہیں مگر وہ بھی یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم قاتلوں کو نہیں چھوڑیں گے۔اس ظلم پر خاموش رہنے سے آسمان زمین پر آفتیں نازل کرے گا۔مگر علی امام کا مؤقف سن کر بندے علی شاہ بھی اس معاملے کو خدا کے سپرد کرتے ہیں کہ اب جو چلا گیا اس کا کوئی نعم البدل ملنا محال ہے۔

”میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اور گل بانو یہاں سے چلے جائیں اب ہمارے پاس حفاظت کرنے والی کوئی شے باقی نہیں رہ گئی۔“
بندے علی شاہ خاک پر بیٹھے ہیں میرے عزیز میں تمہیں کچھ نہ دے سکا۔میں تو تم سے معافی مانگنے کو بھی گناہ سمجھتا ہوں۔”سرکار میرے نصیب میں ہے یہی لکھا تھا۔میں بانو کو لے کر اتنی دور چلا جاؤں گا کہ پھر کسی قیامت کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ پاؤں فقط بانو کے لئے میرے دل میں ایک کسک ہے۔
اب میں جی کر کیا کروں گا۔میں نے بڑی چاہ سے اسے اپنی شریکِ زندگی بنایا تھا لیکن وہ بدنصیب محروم بھی کی گئی تو اس سے جس کی حفاظت کی اسے مجھ سے زیادہ فکر تھی۔بندے علی شاہ روتے ہیں۔علی امام ان کے شانے تھام لیتا ہے۔
”خدا آپ کو آپ کی مہربانیوں کا اجر عطا فرمائے گا۔“
زنان خانے میں موجود خواتین گل بانو کی گود اُجڑ جانے پر غم و اندوہ کی تصویر دکھائی دے رہی ہیں۔
حاجرہ بی بی الگ افسردہ ہیں۔بہن ہم نے تمہیں کچھ بھی نہ دیا اور سب کچھ تم سے چھن گیا۔ہو سکے تو ہمیں معاف کر دینا گل بانو کی گود میں اپنے چار دن کے مقتول بچے کے ننھے ننھے کپڑے ہیں جنہیں وہ کبھی آنکھوں سے لگاتی ہے تو کوئی آنسو ان میں جذب ہو جاتا ہے آنسو تھمتے ہیں تو نالہٴ و فریاد جاری ہوتا ہے۔
”میں تو بھول ہی گئی تھی کہ میں نے اسے اس درگاہ کو سونپا تھا وہ تو آپ کی امانت تھا میں ماں تھی خواہ چار دن کے لئے مگر میرا دل نہیں مانتا تھا کہ ہم اسے کسی کو سوپنیں شاید مجھے اس کی سزا ملی ہے۔

مریدوں کی ایک جماعت علی امام اور گُل بانو کو شہر چھوڑنے جاتی ہے۔جہاں سے علی امام مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے چلے جاتے ہیں۔اولاد کے نہ ہونے کا غم بندے علی شاہ کے لئے سوہان روح بنتا جا رہا ہے اسی لئے وہ مکہ کا رُخ کرتے ہیں ان کا ایمان ہے کہ مکہ پہنچ کر ان کو اپنی مراد مل سکتی ہے۔
روضہٴ رسول پہنچ کر ان کے دل میں یہ یقین راسیخ ہو جاتا ہے کہ اب انہیں اپنی مراد مل جائیگی گویا انہیں بشارت ہو جاتی ہے۔

بندے علی شاہ لوٹ کر آئے تو علم و حکمت کے نئے باب ان پر وا ہو چکے ہوتے تھے، دوسری جانب سردار شاہ اور توفیق شاہ اپنے گھرمیں مردہ پائے جاتے ہیں اور ان کے نوکر گھر سے غائب ہوتے ہیں سردار شاہ نے اپنی بیوی حسینہ بائی کے قتل کے بعد دوسری شادی نہ کی تھی مگر ان کا جو اندازِ زندگی تھا، توفیق شاہ نے بھی اس کو اپنا لیا تھا۔
باپ بیٹے کی تدفین میں بندے علی شاہ بھی شریک تھے۔
دونوں نے بے شمار دولت جمع کر لی تھی۔اس کی تقسیم کا مسئلہ درپیش تھا تمام افراد اس نتیجے پر پہنچے کہ بندے علی شاہ کیونکہ وہ ایک واحد شخص ہیں جن کا فیصلہ سب کو قبول ہو گا۔
”ہم سمجھتے ہیں سردار شاہ نے جن جن افراد سے زمینیں چھین لی تھیں انہیں کو لوٹا دی جائیں۔اور وہ لوگ جو بڑے زمیندار ہیں عدل و انصاف پر قائم رہیں اللہ کی زمین کو فساد پھلانے کے بجائے نیک مقاصد کے لئے استعمال کریں۔

حاجرہ بی بی پر اللہ تعالیٰ نے رحمت کے دروازوں کو وا کر دیا ہے ان کے دل کے کلیوں کی طرح آنگن میں بھی بہار آنے کی اُمید ہو گئی۔سلطان پور کی درگاہ میں مریدوں نے جشن کا سماں کر رکھا ہے پوری درگاہ پر چراغاں ہو رہا ہے۔کیونکہ سلطان پور کی گدی کا وارث اس دنیا میں آنے والا ہے عقیدت مند چڑھاوے چڑھا رہے ہیں درگاہ پر قوالیاں ہو رہی ہیں۔نے نواز اپنے سازوں سے ہدیہ تہنیت بھیج رہے ہیں۔

میرا پیا گھر آیا، میرا پیا گھر آیا۔رنگ علی قلندر دیوانہ وار رقص کرتا جا رہا ہے۔بندے علی شاہ سجدئہ شکر میں ہیں ان کے دل میں ایک قلق ضرور ہے کہ علی امام کے چار دن کے بچے پر ہونے والا ظلم کسی طرح سے بھی جائز نہ تھا۔
علی اورگل زندگی کی اس آنکھ مچولی کے کھیل میں جھیل چکے ہیں سخت خطروں میں گھری ہوئی زندگی جس میں ہر دم خوف کا پہرہ ہے۔
علی امام جس مقام پر رہائش پذیر ہے وہیں اس کے گاؤں کے چند افراد گاہے گاہے اس سے ملنے آتے رہتے ہیں وہ اسے بتاتے ہیں کہ گُل بانو کے چچازاد کزن نے جو اس سے شادی کا خواہشمند تھا، علی امام کے گھر والوں کو ہلاک کر دیا ہے۔علی پر یہ المیہ خبر بجلی بن کر گرتی ہے۔جس کے باعث اسے دل کا ایک شدید دورہ پڑتا ہے۔
موت و زیست کے اس کھیل میں اس بار زندگی جیت کر اس کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے۔
علی امام اسپتال میں داخل ہے۔گاؤں سے آنے والے اس کے دوست اسے بتاتے ہیں کہ گاؤں میں انہوں نے ایک قانونی کارروائی کے ذریعے علی کی ساری جائیداد اُس کے نام لکھوا لی ہے۔
امیر محمد جو علی کے بچپن کا دوست ہے۔علی سے اصرار کرتا ہے کہ ان کے ساتھ ہی قیام پذیر ہو جائیں۔گل بھابھی جو بھی ہوا وہ بہت بُرا ہوا مگر اب ہم آپ دونوں کو اس سے زیادہ تباہی و بربادی میں مبتلا ہونے نہیں دیں گے۔

امیر تم صحیح کہتے ہو مگر جو کچھ میں دیکھ چکی ہوں، سوچتی ہوں دیکھنے سے قبل اندھی کیوں نہ ہو گئی۔کیوں میں نے اپنے نومولود کو سسکتے ہوئے دیکھا جبکہ اسے سسکنا بھی نہ آیا تھا۔زار و قطار رونے لگتی ہے۔
صبر کریں بھابی، اب اس کے سوا چاہ کار بھی کیا ہے۔عزیز خان نے گاؤں میں لوٹ کا بازار گرم کر رکھا ہے۔وہ ہر شے پر حاکمیت جتانا چاہتا ہے۔
پہلے تو میں سمجھتا تھا کہ سب کچھ آپ کے والد کے کہنے پر ہوتا ہے مگر عزیز خان نے آہستہ آہستہ آپ کے والد کو بالکل بے اختیار کر دیا ہے اور ہر چیز کا مالک بن بیٹھا ہے۔
شہر بانو اور علی امام امیر محمد کے گھر میں منتقل ہوتے ہیں۔
حاجرہ بی بی دردِ زہ میں مبتلا ہیں بندے علی شاہ بے چینی سے ہر گزری ساعت کا انتظار کر رہے ہیں۔درگاہ پر موجود ایک عورت بندے علی شاہ کے وارث کے آنے کی نوید سناتی ہے۔

کہیں سے پرندوں کے غول یوں ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں جیسے ان ذہنوں میں کسی آنے والے زمانے کے درد کا سندیسہ ہے۔بندے علی شاہ سجدئہ شکر ادا کرتے ہیں بچے کا نام احمد علی شاہ تجویز کیا جاتا ہے۔حاجرہ بی بی پہلی بار کھل کر ہنستی ہیں۔نومولود کے ننھے منے ہاتھوں کو چوم کر اسے آنکھوں سے لگاتی ہیں اور کہتی ہیں۔مجھے معلوم تھا میرا خدا مجھ سے ناراض نہیں ہو سکتا۔
مگر تم نے مجھے اتنی راہ کیوں دکھائی۔میں تو ڈر ہی گئی تھی کہ شاید تم کبھی نہ آؤ گے۔خدایا اس پر رحم فرما جس نے اپنا چار دن کا بچہ ہم پر قربان کر دیا تھا۔خدایا مجھے معاف کرنا اور میرے بچے کو ہر شے کے شر سے محفوظ رکھنا کہ ہم اُن دونوں مہربان ہستیوں کا احسان اتارنے کی سکت نہیں رکھتے۔خدا کرے کہ گل بانو کی گود پھر سے ہری ہو جائے۔میرا سلام ہے اُس کی قربانی پر حاجرہ بی بی رونے لگتی ہیں۔
بچہ آہستہ آہستہ پرورش کے مدارج طے کرتا ہے۔تین برس کی عمر میں اسے حکمت و روحانیت کے مدارج آسان کر کے بتائے جاتے ہیں۔احمد علی شاہ کی رسمِ بسم اللہ کے موقع پر انہیں بتایا گیا کہ وہ مستقبل کے رہنما ہیں اور رہنما کبھی کوئی غلطی نہیں کرتے۔بندے علی شاہ کا خطاب شروع ہوا۔

Browse More Urdu Literature Articles