Ajal Aai - Chautha Hissa - Article No. 2586

Ajal Aai - Chautha Hissa

اجل آئی - چوتھا حصہ - تحریر نمبر 2586

جب تک علی زندہ تھا اس وقت تک حالات کچھ اور تھے اب تمہارا غیروں کے ساتھ رہنا ٹھیک نہیں

Nusrat Zehra نصرت زہرا جمعہ 27 اکتوبر 2023

”خدا کے پاک نام سے ابتداء ہے جس کے ہر عمل میں حکمتیں پوشید ہیں اور وہ پوشید حکمتیں جاننے کے لئے عقلیں دنگ ہیں وہ ذاتِ واحد کہ جس نے کوئی شریک اختیار نہیں کیا کہ اسے پا کر وہ خوش ہو اور جس کی جدائی اسے رنجیدہ کر دے مگر پھر بھی وہ تمام انسانیت کی شہ رگ سے بھی زیادہ نزدیک ہے۔
”وہ رب ذوالجلال چھ دن کے لئے زمین پر آیا، چھ دن میں اس نے زمین و آسمان خلق کئے اور جب وہ اس دنیا سے گیا تو یہاں دھواں ہی دھواں تھا۔
لوگو! اس دن سے ڈرو جس دن حساب کی سختی ہو گی اور پہاڑ روئی کے گالوں کی مانند اُڑیں گے۔“ اب دعا کے لئے ہاتھ اُٹھاؤ کہ پالنے والے ہمیں اس وقت تک موت نہ دینا جب تک کہ ہمارے سارے گناہ معاف نہ ہو جائیں۔
احمد علی شاہ اگرچہ نوعمر ہیں مگر اس کے باوجود سنجیدگی اور متانت کی تصویر ہیں انہیں دینی و دنیاوی تعلیم درگاہ پر ہی دی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

البتہ بندے علی شاہ کا اصرار ہے کہ اگر حاجرہ بی بی اجازت دیں تو احمد علی شاہ اعلیٰ تعلیم کے لئے سلطان پور سے باہر جا کر تعلیم حاصل کریں گے۔


علی امام اور گل بانو کے گھر میں تین برس کے بعد ایک ننھی خوشی لوٹی ہے شہر بانو کی شکل میں گل بانو اور علی کے درد میں کسی قدر کمی آئی۔بچی کی پیدائش سے گُل بانو کو اطمینان ہو گیا کہ ابھی خدا اُس سے مایوس نہیں ہوا۔وہ اپنی جان سے بھی زیادہ اس بچی کی حفاظت کرتے ہیں۔جبکہ امیر محمد ان کے لئے ابِر رحمت سے کم نہیں کہ جس نے دوستی کا حق ادا کر دیا۔

گرمیاں مکمل جوبن پر ہیں امیر محمد اور اس کے اہل خانہ کا اصرار ہے کہ یہ گرم دن کسی پُر فضا مقام پر گزارے جائیں۔علی اور گل بھی خوشی سے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہوئے۔ہوائی راستے یا ریل کی بجائے گاڑیوں پر جانے کی تیاری کی گئی امیر محمد کا اصرار تھا کہ علی امام اور وہ ساتھ ساتھ سفر کریں اور ایک ہی گاڑی میں بیٹھیں۔گل بانو منع کرتی ہے کہ وہ علی امام کے بغیر نہ جائے گی۔
مگر تقدیر کے ہاتھوں میں ابھی کچھ اور تیر باقی ہیں سفر ابھی تمام نہیں ہوتا کہ مخالف سمت سے آنے والی ایک نامعلوم جیپ مکمل طور پر اس گاڑی کو روند کر آگے چلی جاتی ہیں گل بانو امیر محمد کے بیوی بچوں کے ساتھ آگے جا رہی ہے۔مگر جب دیر تک امیر محمد اور علی امام نہ آئے تو امیر محمد کے ڈرائیور نے گاڑی کو پیچھے کی سمت لیا۔دور تک دونوں کا کوئی پتہ نہ تھا۔
ایک بے حد سنسان راستے پر ایک تباہ شدہ گاڑی نظر آتی ہے۔امیر محمد کا ڈرائیور پہچان چکا ہے کہ فرنٹ سیٹ اور اسکے برابر والی سیٹ پر امیر محمد اور علی امام کا تازہ تازہ خون پڑا ہوا ہے ونڈو اسکرین کے سارے شیشے ان کے سروں میں لگ چکے ہیں اور دونوں موقع پر ہی جان بحق ہو گئے کچھ لمحے قبل زندگی کیا تھی اور اب کیا ہو گئی تھی۔
شہر بانو ہذیانی انداز میں بین کرنے لگی، علی امام تم تو کہتے تھے اب کوئی دُکھ نہ دو گے تم نے اپنی تین ماہ کی بچی کا بھی پاس نہ کیا اور وہاں چل دیئے کہ اب میں تمہیں پکاروں تو تم جواب نہ دے سکو گے۔

امیر محمد کی بیوہ اور بچہ بھی زار و قطار رو رہے ہیں۔”میرا خیال ہے مخالف سمت سے کوئی تیز رفتار جیب ٹکرائی ہو گی۔لیکن ایسا کوئی امکان نہیں تھا بیگم صاحبہ، کہ ایسا کوئی حادثہ رونما ہوتا تو صاحب سنبھال نہ سکتے۔
ہماری تو قسمت ہی خراب ہے میں تو تیار ہی نہ تھی جانے کے لئے امیر کی ضد کے سامنے مجھے جھکنا پرا مجھے کیا معلوم تھا کہ انہیں موت بُلا رہی ہے۔

علی امام کا سوئم ہے گل بانو کے قبیلے کے افراد تعزیت کے لئے جمع ہیں ساتھ ہی اس کا چچا زاد کزن عجب خان بھی ہے۔گُل بانو حیران ہے کہ انہیں کس طرح خبر ہوئی مگر موقع کی نزاکت کے مطابق وہ خاموش ہے۔اپنے لوگوں کو دیکھ کر زیادہ بیقرار ہے عجب خان اسے مسلسل تسلیاں دیتا ہے۔اسے یقین دلاتا ہے کہ اب وہ اسے ایک بھائی کا احساس عطا کرے گا۔گل بانو کی ذہنی حالت ایسی ہے کہ کوئی بھی سہارا پا کر خود کو زمین سے جُڑا ہوا محسوس کرتی ہے۔

”جو کچھ بھی ہوا اسے بھول جاؤ اب ہم ہی تمہارا سب کچھ ہیں مانا کہ میں بُرا انسان ہوں مگر میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تمہیں کوئی دُکھ نہ دوں گا۔اس کہانی کے پیچھے اصل مجرم میں ہی ہوں نہ میں تم سے شادی کی ضد کرتا۔اور نہ ہی نوبت یہاں تک پہنچتی۔لیکن خدا گواہ ہے کہ اب میں کسی بُری نیت سے تمہارے پاس نہیں آیا۔بلکہ اسی میں ہماری بھلائی ہے بلکہ تمہیں اور تمہاری بچی کو تحفظ دینے کی خاطر میرے دل میں ایک تڑپ ہے۔
میں سچ کہہ رہا ہوں کہ علی کے مرنے کا جتنا دکھ ہمیں ہے اسے خدا جانتا ہے۔جب تک علی زندہ تھا اس وقت تک حالات کچھ اور تھے اب تمہارا غیروں کے ساتھ رہنا ٹھیک نہیں۔
گُل بانو ایک عرصے کے بعد اپنے گھر واپس آتی ہے۔اس کا باپ بے بسی کے عالم میں ہے فالج کے حملے نے اس کی سماعت اور گویائی کی قوتوں کو متاثر کیا ہے جبکہ شہر بانو کا بھائی عزیز خان علی کے گھر والوں کو قتل کرنے کے الزام میں اشتہاری ملزم ہے۔

”بابا تقدیر نے مجھ سے سب کچھ چھین لیا ہے اور میں اتنی مجبور ہوں کہ مجھے اس کے سارے واروں کو چپ چاپ سہنا پڑا ہے۔تم تو مجھے دو بول تسلی کے بھی نہ دے سکو گے۔تمہارے پاس مجھے دینے کے لئے تھا ہی کیا،مگر جو مجھ سے ہمیشہ خوشیاں دینا کا وعدہ کرتا تھا وہ بھی مجھے چھوڑ کر جا چکا ہے۔گل بانو مستقل گریہ و زاری کرتی ہے۔عجب خان اس کے سر پر چادر اوڑھاتا ہے۔
گل بانو آج سے تیرا غم میرا غم ہے تیرے بھائی بے غیرت ہو گئے ہیں تو کیا ہوا میں تو ہوں اب تو میرے لئے اُسی طرح ہے جیسے عزیز خان کے لئے۔
گُل بانو دل ہی دل میں عجب خان کو سراہتی ہے۔اور خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔”عجب خان تم نے اس بے وارثی میں میرا سر ڈھک دیا ہے جب مجھے کسی پر بھی اعتبار نہ رہا تھا تم نے مجھ بدنصیب پر جو احسان کیا میں زندگی بھر اسے اتارنہ سکوں گی۔

”شہر بانو یتیم نہیں، ہم اس کے وارث ہیں۔“ گل بانو کا دل عجب خان کی بات پر اعتبار پا لیتا ہے۔
احمد علی شاہ کا رجحان بچپن ہی سے مضطربانہ ہے انہیں ہر دم یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ وہی اس درگاہ کا مستقبل ہیں اور سب کچھ اُنہی پر منحصر ہے حاجرہ بی بی نے انہیں منتوں، مرادوں سے مانگا ہے مگر وہ بھی یہ چاہتی ہیں کہ احمد علی شاہ دنیا میں جہاں سے چاہیں اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔
اور لوٹ کر اپنے جد محمد ابن شاہ کے لگائے ہوئے پودے کی آبیاری کریں۔مریدوں کی ایک جماعت ہر وقت احمد علی شاہ کے ساتھ ساتھ رہتی ہے”احمد علی شاہ کو عام بچوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرنی چاہئے تاکہ انہیں عام لوگوں کے حالات کا علم ہو سکے۔“بندے علی شاہ گویا ہوئے۔
”سلطان پور پسماندہ گاؤں ہے شاہ صاحب یہاں تعلیم کے لئے عام لوگوں کے لئے بھی مواقع نہیں اور شہر یہاں سے بہت دور ہے ہمارا خیال ہے کہ وہ کچھ بڑے ہو جائیں تو انہیں یہاں سے بھیجا جائے اللہ تعالیٰ نے جو علم آپ کو عطا فرمایا ہے آپ وہی انہیں بھی سکھائیے۔

”حاجرہ بی بی اب زمانہ بدل رہا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ دامن بچا کر آہستہ آہستہ سرکنا شرو ع ہو گئے ہیں۔ماسوا ان بے بدل ساتھیوں کے جو ہمیشہ ہر مشکل میں ہمارے ساتھ رہے ہیں۔ہم چاہتے ہیں ہماری اولاد دنیا کی کسی بھی شے سے محروم نہ رہے۔اور یہاں سے باہر جا کر دنیا کے حالات و واقعات سے باخبر رہے کل کو ہم نہیں ہونگے۔احمد علی شاہ ہی ہمارے باپ دادا کے اصل وارث ہوں گے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گل بانو کو احساس ہو رہا ہے کہ عجب خان کا اصل چہرہ پہچاننے میں اس سے غلطی ہو گئی ہے وہ اس کی جائیداد اور اس کے حصے کے مال و دولت پر تصرف حاصل کرنے کے لئے بے چین ہے۔
”عجب خان میرا دل تو زخم کھاتے کھاتے پتھر ہو گیا ہے۔مگر تم لوگ آج بھی وہی ہو تم پر کسی حالت کا ذرہ برابر اثر نہیں ہوا۔گل کے لہجے میں غم و اندوہ کی آندھیاں گھلی ہیں۔

”ہاں تم صحیح سمجھیں ہماری زبان ایک ہے، ہم جس کے کل دشمن تھے سو سال کے بعد بھی اُس کے دشمن رہیں گے۔“
میں چاہتا ہوں تم ایک ایک پیسے کے لئے میری محتاج رہو اگر تم میری نہیں بن سکیں تو کیا ہوا اب بھی میں تم پر پہرے داروں کی طرح نظر رکھ سکتا ہوں تم مجھ سے بچ کر جاؤں گی کہاں۔”عجب خان تم مرد ہو تو اپنے قول اور اپنے معافی ناموں کو یاد کرو۔
جو علی کے مرنے کے بعد تم نے مجھ سے کیے تھے۔“
”گل بانو اگر بچ کر جا سکتی ہو تو جا کر دکھاؤ میں تمہیں چیلنج دیتا ہوں“ عجب خان خطرناک حد تک گل بانو کے قریب ہے۔گل ایک جھٹکے سے اس کی گرفت سے آزاد ہونے کی کوشش کرتی عجب خان میں کہتی ہوں ہوش میں آؤ۔گل بے بس ہے۔عجب خان شیطانی ہنسی ہنس رہا ہے۔گل بانو تم تو واقعی پھول سے بھی نازک ہو آج اس کا اندازہ ہو گیا کہ ایک مسلا ہوا گلاب بھی اپنے اندر کیسی شگفتگی رکھتا ہے۔
میں حیران ہوں گل میں کہتا ہوں کہ مجھ سے شادی کر لو فائدے میں رہوں گی۔یہاں کا ہر شخص تمہارے بارے میں سوال کرتا ہے میں تم پر زبردستی کر کے فیصلہ نہیں کروانا چاہتا مگر تم مانتی ہی نہیں۔
اب گل ہے اور بے بضاعتی، طوفان کے جلو میں ایک درد کا سمندر کہ جب علی کے مرنے کے بعد اس کے دل میں جینے کی بھی امنگ نہ رہی تو اسے عجب خان کی بیوی بننا پڑا۔

شہر بانو کا تمام بچپن ڈر اور خوف کے سائے میں پروان چڑھنے لگا وہ عام بچوں کی مانند کسی بھی کھیل میں حصہ لینے کے بجائے ہمیشہ گل بانو کے پہلو میں سمٹ کر بیٹھی رہتی، جس کا تذکرہ کئی بار گل بانو نے اپنی بھابھی سے کرتی۔نجانے بچی کے دل میں کیا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے عجب خان کو وہ کبھی دل سے اپنا باپ تسلیم نہ کر سکے گی۔
نہیں بانو حالات ایک سے نہیں رہتے اور عجب خان ہمیشہ تو اس دنیا میں نہیں رہے گا۔
آخر اسے بھی تو موت آئیگی۔
گل کے چہرے پر ایک پھیکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
بھابھی یہ خبر کس کو ہے کہ کون جیتا ہے اور کون مرت اہے۔بندے علی شاہ کا وقت آخر ہے ان کے سرہانے سورۃ یٰسین کی تلاوت کی جا رہی ہے۔گردن توڑ بخار نے بالآخر ان کی جان لے لی۔مریدوں کی آہ و بُکا، حاجرہ بی بی پہ غشی طاری ہے احمد علی شاہ حیران و پریشان ہیں کہ فقط دس برس کی عمر میں انہیں گدی نشین ہونا پڑا۔

احمد علی شاہ آپ پر بہت بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے یہ درست ہے کہ آپ عمر کے اعتبار سے کم سن ہیں مگر دانشمندی کا تعلق عمر سے نہیں ہوتا، ہمیں ہر حال میں اس عہد کی پاسداری کرنا ہے جو تمہارے باپ نے اپنے جد سے کیا تھا۔وہ فقط روحانیت ہی کے وارث نہ تھے۔ان کا دنیا سے بھی تعلق تھا۔اسی لئے انہوں نے عقد بھی کئے جبھی تو یہ سلسلہ دارا ہوتا گیا۔
جب تک زندہ رہوں گی تمہیں یہ عہد یاد دلاتی رہوں گی۔تم کوئی عام بچے نہیں ہو۔
احمد علی شاہ کی آنکھوں میں ایک تڑپ ہے جاننے کی ایک اضطراب ہے اس اسرار کو ایک لحظے میں کھول کر پڑھ لینے کا۔”اماں آپ ہمیشہ کہتی ہیں کہ میں عام بچہ نہیں مگر آپ بتاتی نہیں کہ ایسا کیوں ہے۔
احمد علی شاہ اس لئے ایسا نہیں ہے کہ تمہارے پیدا ہونے کی بشارت مکہ میں ہوئی جب تمہارے والد مایوس ہو گئے تو مکہ چلے گئے۔
وہیں انہیں یہ قرار حاصل ہوا کہ وہ بے وارث نہیں رہیں گے۔ان کا ایمان تھا کہ تم ایک خاص مقصد کے تحت دنیا میں بھیجے گئے ہو۔تمہاری حفاظت بھی اسی مقصد کی وجہ سے کی جاتی ہے کہ کہیں کوئی دشمن تمہیں نقصان نہ پہنچا دے۔”مگر دشمن ہمیں کیوں نقصان پہنچائیں گے۔ احمد علی شاہ، حق کے راستے میں ایسی مشکلیں آتی رہتی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں حق کی تبلیغ کرنے، اسے پھیلانے اور جو لوگ ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔
ان کی امیدوں کا پاس کرنے کے لئے بھیجا ہے۔تمہارے دادا حیدر علی شاہ نے اسی مقصد کے لئے شہادت پائی، ان کے والد محمد ابن شاہ ہمارے سلسلے کے پہلے رہنما تھے۔میں جب بندے علی شاہ کے پاس آئی تو ہندو تھی پھر انہوں نے مجھے پناہ دی۔غرض ہم نے قربانیاں دیں دکھ جھیلے تب کہیں جا کے ہم پر اسرار و رموز کھلے کیونکہ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے علم عطا فرماتا ہے۔
میں نے بھی تمہارے والد سے کسی قدر اسرار سیکھے مگر وہ فرماتے تھے کہ ہر شخص کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اپنے طور پر کوشش کرے اپنے طور پر خدا کوڈھونڈنے کی سعی کرے مگر اس وسیلہ ہر حال میں اختیار کرے اماں ہم آپ کو کبھی مایوس نہیں کریں گے ۔احمد علی شاہ ایک بات کا خیال رکھنا کہ تم ہمارے رہنما ہو اور رہنما کبھی غلطی نہیں کرتے ان تمام لوگوں کی امیدوں کا پاس کرنا ہے جو راہنمائی حاصل کرنے کے لئے ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔
اور جو تم سے حسن ظن رکھیں ان کے گمان کو سچا ثابت کرنا ہمارا ایک فرض یہ بھی ہے کہ ہم مہربانی کا سلوک کریں۔خواہ سامنے والا شخص ہماری جان کا دشمن ہی کیوں نہ ہو۔اور یاد رکھو کہ کبھی اپنے نفس کے لئے کوئی کام نہ کرنا مولائے متقیان فرماتے ہیں۔”اپنے نفس کے ساتھ اس طرح جہاد کرو جیسے میدانِ جنگ میں کرتے ہو“۔
اماں آپ کی باتیں مشکل ہیں مگر ہم انہیں سیکھنے کی کوشش کریں گے۔
ہاں میرے بچے اب تم ہی ہمارا سب کچھ ہو۔ہمارا اصل اثاثہ ہمارے سلسلے کے وارث، گل بانو مرض الموت میں مبتلا ہے ہر طرح کی چارہ گری بے اثر، ہر علاج بے سود گل بانو کی موت کے وقت شہر بانو فقط سات برس کی ہے۔
شہر بانو لڑکپن سے ہی عجب خان سے خوفزدہ ہے۔شرو ع سے ہی اس کے دل میں وسوسے ہیں مگر وہ ان باتوں کو بیان کرنے سے قاصر ہے عجب خان کے لئے عورتوں کی کمی نہیں ہے۔گل بانو بھی اس کی ضد تھی کیونکہ اس نے اس کے خلاف مزاحمت کی تھی اس کا انکار کیا تھا۔اور انکار کرنے والوں کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔گل بانو کی بھابھی، شہر بانو کی پرورش کی ذمہ دار ٹھہرائی جاتی ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles