Ajal Aai - Dosra Hissa - Article No. 2584

Ajal Aai - Dosra Hissa

اجل آئی - دوسرا حصہ - تحریر نمبر 2584

ہم کل بھی آپ کی خود ساختہ گدی نشینی کے خلاف تھے اور آج بھی اسے سختی کے ساتھ مسترد کرتے ہیں

Nusrat Zehra نصرت زہرا پیر 9 اکتوبر 2023

محمد موسیٰ اب تک حیرت، دکھ اور خوشی کی مختلف کیفیات میں مبتلا ہے۔اے بندۂ خدا تمہیں ہر جگہ امان ہے۔ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ تم دینِ واحد پر ایمان لائے۔اور یہاں کوئی کسی کا آقا اور غلام نہیں مگر فقط رہنمائی کے باعث ہم اپنے بیعت کرنے والوں کے جذبات کو اوّلیت دیتے ہیں۔
سرکار میں بے حد غریب ہوں مجھے تو اپنے ہی جیسے انسانوں کے ساتھ بیٹھنے کی بھی اجازت نہ تھی۔
آپ نے مجھے بے حد بڑا مقام دیا ہے۔مقام تو ہم تم سے طلب کرنا چاہتے ہیں۔کیا تم حاجرہ بی بی کو ہمارے نکاح میں دینا پسند کرو گے۔
محمد موسیٰ لمحہ بھر کو گنگ حیران نظروں سے بندے علی شاہ کی جانب دیکھتا ہے۔
کیا کہا سرکار آپ نے یہ شودر آپ کی گھر والی۔
مگر اسلام اس تفریق کو ختم کر دیتا ہے اب کسی کی ذات برتر اور کسی کی ذات کمتر نہیں فقط تقویٰ اور پرہیزگاری ہی اصل معیار ہے انسانیت کا۔

(جاری ہے)

اور ہمارے سرکار رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجتہ الوداع میں واضح اور صاف الفاظ میں تمام انسانیت کو پیغام دیا ہے کہ اب کسی عجمی کو کسی عربی پہ فوقیت نہیں اور بس فوقیت فقط تقویٰ اور پرہیزگاری ہے جو اللہ اور اس کے رسول اور اس کے چیندہ بندوں کی خوشنودی کا باعث ہے۔آپ نے دنیاوی اعتبار سے تمام انسانیت کو ہر وہ پیغام اپنی سنت میں قرار دیا جس سے، کسی بھی وقت ہمارا سابقہ پڑ سکتا ہے۔
چنانچہ آپ نے کوئی ابہام نہیں رکھا اپنے امتیوں اور اپنی سنت کے درمیان۔
ہماری الہامی کتاب جس کا نام قرآن مجید ہے۔میں بتایا گیا ہے کہ ہر شئے کا ایک جوڑ ہے اور عورتوں کو مردوں اور مردوں کو عورتوں کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔اور اس فیصلے کو خدا نے لوحِ محفوظ میں لکھ رکھا ہے۔شاید خدا کو یہی منظور تھا اسی لئے تم اتنی دور سے ہمارے پاس آئے ہو۔

سرکار مگر اب بھی وہ لوگ میری بیٹی کے پیچھے ہیں وہ اسے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔
محمد موسیٰ فکر نہ کرو۔اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہے وہ ہمیشہ ہماری حفاظت فرمائے گا۔
سلطان پور کی درگاہ پر بندے علی شاہ کا حجرہ حجلہٴ عروسی ہے جہاں ایک پتے کی آواز سے بھی ڈر جانے والی راکھی اب حاجرہ بی بی بن چکی ہے۔گلابی رنگ نے پورے حجرے کو جو اب حجلہٴ عروسی بن چکا ہے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

بندے علی شاہ حاجرہ بی بی کے سامنے دو زانوں ہیں۔کیا تم جانتی ہو کہ اب تم ہماری ہو چکی ہو۔حاجرہ خاموش رہی۔
حاجرہ ایک گھمبیر مگر جذب سے بھری ہوئی آواز حاجرہ کی سماعت سے روح کی پوروں کو چھونے لگی۔
جی…وہ فقط اتنا ہی کہہ پائی۔
ہم تم سے مخاطب ہیں اب تمہیں ڈرنے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
بندے علی شاہ ایک انجانی کیفیت کے زیرِ اثر حاجرہ کا نرم ہاتھ اپنی انگلیوں سے چھو رہے ہیں۔

حاجرہ کیا تمہیں خبر ہے کہ مولائے کائنات کے حجلہٴ عروسی میں جب انہوں نے جنابِ سیدہ سے دریافت کیا کہ وہ اس وقت جبکہ وہ مولا کے نکاح میں آ چکیں کوئی خواہش کریں تو انہیں اسے پورا کرنے میں بے حد خوشی ہوگی جنابِ سیدہ نے کیا جواب فرمایا۔
”’نہیں میں نہیں جانتی ہوں“
بندے علی شاہ مسکرا کر کہتے ہیں۔جناب سیدہ نے کہا کہ اگر اس وقت وہ ان کے ساتھ دو رکعت نماز ادا کریں تو انہیں بے حد خوشی ہوگی۔
ہم چاہتے ہیں ہم بھی اس راحت آفریں لمحے میں اپنے خدا کا شکر ادا کریں کیا تم ہمارا ساتھ دو گی؟
جی میں ہمیشہ ہر موڑ پر آپ کے ساتھ رہوں گی۔
وعدہ کرتی ہو۔
حاجرہ اپنا ہاتھ بندے علی شاہ کے ہاتھ میں تھما کر خود کو دنیا کی سب سے خوش نصیب لڑکی سمجھنے لگتی ہے۔
حاجرہ اب آہستہ آہستہ تمام علوم سے آشنا ہو رہی تھی جو اسے بندے علی شاہ کی رفاقت نے بخشے تھے۔
بندے علی شاہ کے ساتھ وہ ہر کام بڑی خوش اسلوبی سے انجام دینے لگی تھی۔
درگاہ پر توفیق شاہ اور سردار شاہ ایک نیا طوفان اٹھاتے ہیں بندے علی شاہ یہ سراسر ناانصافی ہے کہ آپ جیسے شخص کو اس گدی کا وارث قرار دیا جا رہا ہے جس نے سراسر خلافِ شرع ہندوؤں کو پناہ دینے کی آڑ میں ان کی لڑکی کو اپنے پاس رکھ لیا ہے اور ہمارے خانوادے پر آپ کی وجہ سے جو داغ لگ گیا ہے وہ کبھی دھل نہیں سکے گا۔
ہم کل بھی آپ کی خود ساختہ گدی نشینی کے خلاف تھے اور آج بھی اسے سختی کے ساتھ مسترد کرتے ہیں۔
بندے علی شاہ درگاہ کے عین وسط میں کھڑے ہیں جہاں محمد ابن شاہ کو خواب میں بشارت ہوئی کہ اس چشمے پر جانا اور وہاں ڈھیروں شودر ایک دن تمہارے آل اولاد کے ہاتھ پر اسلام قبول کریں گے۔
دیکھو توفیق شاہ ایک بات تو روزِ روشن کی مانند عیاں ہے کہ ہم نے آج تک آپ کی ہر گستاخی اور ہر حرکت کو معاف کیا اور آپ نے ہماری طبیعت کا ہمیشہ ناجائز فائدہ اٹھایا ہم اپنی جگہ سے حرکت بھی کریں تو وہ خلافِ شرع قرار پاتا ہے۔
آخر، آپ شریعت کے بارے میں جانتے ہی کیا ہیں۔ہم نے اسی درگاہ کو اپنے سجدوں سے روشن کیا۔اپنے لہو سے اس کی آبیاری کی اور آپ فقط دھونس، دھمکی، الزامات اور غلط انداز فکر سے ہمیشہ نقصان پہنچاتے آئے ہیں جہاں تک نکاح کا تعلق ہے تو یہ ہم اور ہمارا خدا جانتا ہے کہ ہم نے کس خلوصِ نیت کے ساتھ ایک بے یار و مددگار لڑکی کو سہارا دیا ہے۔اور اپنے دین کی حفاظت کی ہے ورنہ اس سے قبل ہم اسے جانتے بھی نہ تھے ہم نے اپنے والد کے خون کا بدلہ لینے کے بجائے آپ کو معاف کیا فقط اس لئے کہ ہم بدلہ لینے کے بجائے معاف کر دینے کو اوّلیت دیتے ہیں۔
ہم کسی انسان سے درشتی سے پیش آنے کے بجائے اس کے سیدھے راستے کی جانب آنے کی دعا کرتے ہیں اور برے اخلاق کو اس دنیا کا سب سے برا عمل سمجھتے ہیں۔کیونکہ ہمارے نبی کریم نے فرمایا ہے کہ تم سب سے زیادہ پسندیدہ وہ ہے جس کا اخلاق اچھا ہے۔ہم آپ کی سیاہ کاریوں پر مزید روشنی نہیں ڈالنا چاہتے۔بہتر یہی ہوگا کہ ہم اپنی اپنی راہ لیں۔
توفیق شاہ بھی عین وسط میں آ کر ایک بار پھر اپنی رائفل صاف کر رہا ہے۔
بندے علی شاہ شاید آپ اپنے والد کا انجام بھول چکے ہیں وہ بھی آپ کی طرح ہمارے بڑھے ہوئے ہاتھوں کو جھٹکتے رہتے تھے۔کیا آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ آپ کے پاس صرف لوگوں کی حمایت ہے اور ہمارے پاس ہزاروں اراضیاں، دنیا ہمارے قدموں کے نیچے ہے ہم جب چاہتے ہیں اسے کچل کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔
نہیں توفیق شاہ اب وقت آ گیا ہے کہ آپ حالات کو اپنی نظر سے نہیں حقیقت کی نظر سے دیکھیں۔
سچ ہے کہ زبان ایک ایسا درندہ ہے کہ اسے کُھلا چھوڑ دیا جائے تو یہ پھار کھائے آپ کے اور ہمارے راستے نہ تو کبھی ایک تھے اور نہ کبھی ایک ہوں گے۔
توفیق شاہ نے ایک ہوائی فائر کیا اور درگاہ سے رخصت ہوا۔
سلطان پور کی درگاہ سے کچھ میل دور آدھی رات، جنگل کی جان لیوا خاموشی اور دو آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے سائے کبھی لرز جاتے ہیں تو جھک کر چلنے لگتے ہیں اور پھر کسی آہٹ کو نہ پا کر رواں دواں ہو جاتے ہیں۔
جنگلی جانور انسانی جسموں کی مہک پا کر ان کا پیچھا کرنے لگتے ہیں۔علی امام اور کتنی دور ہے آبادی اب تو چلتے چلتے تھک گئی ہوں۔
صبر کرو گل بانو بس اب تھوڑی دیر اور ذرا ہمت سے کام لو تھوڑا فاصلہ رہ گیا ہے ہم منزل پر پہنچ کر ہی دم لیں گے۔منزل پر پہنچنے سے ہمیں کوئی نہیں روک سکتا۔
ہاں میں بھی اسی آس میں جی رہی ہوں کہ تم ہی مجھے دکھوں کے اس جنگل سے چھڑا کر لائے ہو تو باقی سارے غم بھی تمہارے ساتھ سے ہی دور ہوں گے۔

علی امام جھک کر آہستہ سے گل بانوں کی پیشانی پر بوسہ دیا۔جان کیا تم اتنی سی مشکل سے گھبرا گئی ہو علی گل بانو کے ہاتھوں کو تھامے جنگل کی بے رحم فضاء کی پرواہ کئے بغیر محبت کی گلنار مہریں ثبت کرنے لگا۔
جنگل کی بیکراں وسعتیں اور نا مہربان فضاء میں دو دھڑکتے دلوں کی ایک صدا نازک اور اک بے چین دھڑکن اپنی بے چینیوں کو نزاکتوں کی نذر کرتی رہیں کہ صبح کا اجالا چاروں اور پھیل گیا۔
گل بانو علی امام نے جھک کر گل کی پیشانی کو چوم کر کہا۔
اب چلو شاید یہ صبح ہمیں کوئی راستہ سمجھائے۔صبح کا اجالا چہار سو پھیل چکا ہے۔گل بانو کا دودھ اور شہد میں گُھلا ہوا سراپا مٹی سے اٹا ہوا ہے پر پھر بھی آنچ دے رہا ہے۔چشمِ تصور سے وہ اپنے باپ کے گھر عیش و آرام یاد کرتی ہے جہاں اس کی خواہش سے قبل سب کچھ اسے مل جاتا۔
ذہن کے پردوں پر بار بار بابا کا بارعب چہرہ دکھائی دے رہا ہے۔

ہم قبائلی اپنی عزت پر کٹ مرتے ہیں مگر اپنی عزت کو غیروں کے ہاتھوں لٹتے نہیں دیکھ سکتے۔مگر ہم آپ کی بیٹی کو اپنی بیٹیوں سے بڑھ کر چاہیں گے اور جہاں تک قیمت ادا کرنے کا تعلق ہے تو ہم اس کے لئے بھی تیار ہیں مگر آپ ہاں تو کریں۔ دوسرا چہرہ علی امام کے باپ کا تھا جس نے گل بانو کی بھیک مانگی مگر خالی دامن لے کر لو ٹ آیا۔خدارا بابا مجھ پر رحم کریں یہ گل بانو تھی جو بابا کے قدموں میں گری ہوئی تھی۔
میں علی کے بغیر نہیں رہ سکتی۔
گل بانو کے منہ سے یہ جملہ سنتے ہی سردار اورنگزیب کو یوں لگا کہ جیسے وہ ہزاروں فٹ کی بلندی سے نیچے گر پڑے ہوں۔گُل کیا تم واقعی اُس شہری لڑکے سے………!
ہاں بابا…گُل بانو ہاتھ جوڑ کر اپنے باپ سے فریاد کر رہی ہے۔نہیں بابا نہیں میں اس کے بغیر مر جاؤں گی اور اس کے بعد شیشم کی لکڑیوں سے مزیں دروازہ مقفل ہونے کی صدا…! جہاں وہ پورے تین ماہ قید رہی۔

شہر بانو نے ایک جھرجھری لی۔اورعلی کا ہاتھ مضبوطی سے تھام کر بولی علی تم مجھے کبھی چھوڑو گے تو نہیں۔
کبھی نہیں علی نے چرمرائے ہوئے پتوں پر پاؤں رکھتے ہوئے کہا۔مگر یہ خیال تمہارے دل میں آیا بھی کیسے کہ میں بھلا تمہیں چھوڑ دوں گا؟گل کی آنکھوں سے ایک آنسو بہہ کر علی امام کی ہتھیلیوں میں جذب ہونے لگا۔
دور کہیں سے کبوتروں اور پرندوں کے غول قطار در قطار کسی آبادی کا پتہ دینے لگے گل بانو اور علی امام ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے انہی پرندوں کی سیدھ میں چلنے لگے ایک پہاڑی سلسلے کے بعد گنبدِ سبز اور ایک سیاہ علم کسی درگاہ کی نشاندہی کر رہا ہے۔

علی وہ سامنے شاید کوئی مسجد یا درگاہ ہے۔خوشی اس کی آنکھوں سے پھوٹی پڑ رہی تھی ’’ہاں‘‘ علی نے اس کے ہاتھوں کو سرخوشی سے تھامتے ہوئے کہا۔
رنگ علی قلندر سلطان پور کی درگاہ کے مرکزی دروازے پر بیٹھا ہے رنگ علی اپنے دراز گیسوؤں کی اوٹ سے درگاہ پر آنے والے ان اجنبیوں کو دیکھ رہا ہے۔
علی امام دو زانوں ہو کر اس سے اس جگہ کی بابت دریافت کرتا ہے۔

بھائی کیا آپ مجھے بتائیں گے کہ یہاں سے آبادی کتنی دور ہے۔اور اگر میں یہاں پناہ لینا چاہوں تو کس سے اجازت طلب کرنی ہو گی۔رنگ علی کے پیروں میں پڑے ہوئے گھنگھروں کی لے تیز ہو گئی اور بے خودی کے عالم میں رقص کرتا ہوا بندے علی شاہ کے حجرے میں جا پہنچا یہ رنگ علی قلندر کا دستور ہے کہ جب کوئی مہمان درگاہ میں آتا ہے تو وہ یونہی بے خودی میں رقص کرنے لگتا ہے۔
بندے علی شاہ جان گئے کہ کوئی مہمان آیا ہے۔
درگاہ کے عین وسط میں علی امام اور گل بانو کھڑے ہوئے ہیں۔بندے علی شاہ انہیں دیکھ کر مسکرا دئیے ”چشم ما روشن دلِ ما شاد“ اے نوجوان کیا میں تمہارا نام جان سکتا ہوں مجھے علی امام کہتے ہیں اور یہ وہ لڑکی ہے جس سے میں نکاح کرنا چاہتا ہوں۔کیا آپ میری مدد کریں گے۔علی ملتجی نگاہوں سے بندے علی شاہ کی جانب دیکھنے لگا۔

ضرور بندے علی شاہ خوش دلی سے مسکرائے آؤ تم دونوں میرے ساتھ آؤ میں دنیاوی لحاظ سے اتنا آسود حال تو نہیں پر پھر بھی میرا غریب خانہ تمہارے لئے حاضر ہے۔یہاں تمہیں کسی قسم کی تکلیف نہ ہو گی۔
بندے علی شاہ کا حجرہ جو حاجرہ بی بی کے آنے کے بعد خاصا تبدیل ہو چکا ہے۔حجرے نے کسی حد تک خوابگاہ کی شکل اختیار کر لی ہے۔کمرے میں قرمزی رنگ کے پردے آویزاں ہیں۔
دو پلنگ ہیں جن پر مخملیں چادریں بچھائی گئی ہیں جبکہ وہ ایرانی تخت جس پر کوفے کی جائے نماز بچھی ہوئی ہے اب تک اپنی پرانی جگہ پر پرانی وضع پر قائم و دائم ہے۔
حجرے میں حاجرہ بی بی نمودار ہوتی ہیں۔
آداب… وہ گل بانو سے مخاطب، گل بانو سر کے اشارے سے جواب دیتی ہے۔کیا نام ہے تمہارا۔حاجرہ بی بی اپنائیت سے دریافت کرتی ہیں۔میرا نام گل بانو ہے۔
اس سے قبل کہ گل بانو کچھ کہے۔علی جواب دیتا ہے یہ وہ لڑکی ہے جس سے میں پیار کرتا ہوں اور اس سے نکاح کرنے کا خواہش مند ہوں۔
یہ تو بہت خوشی کی بات ہے خدا مبارک کرے۔تمہاری جوڑی سلامت رہے۔گل تشکر آمیز نگاہوں سے حاجرہ بی بی کو دیکھتی ہے۔شکریہ میں آپ کا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گی۔
بندے علی شاہ کا حجرہ چاند کی چودھویں رات اور دو دلوں کی اک صدا۔
کائنات ازل سے اس ایک کیمیا پر استوار ہے جب آدم و حوا سپردگی کی اس حسین انتہا پر تھے کہ جنت کے عیش و آرام کو ترک کر کے انہوں نے اس لذت آفرینی اور سرشاری کو پایا۔
بندے علی شاہ کے حجرہ کا وہ ایرانی تخت جس پر ہمہ وقت کونے سے لائی گئی جائے نماز بچھی رہتی ہے اور جہاں صحیفہ کاملہ کی دعاؤں کا ورد ہمہ وقت جاری رہتا ہے۔آج اسے کسی کے دل کی صدا پر چاند تاروں کی مانند سجایا گیا ہے۔

بندے علی شاہ اور حاجرہ بی بی چاند کی آب و تاب کو دیکھ کر مسکراتے ہیں میٹھے پانی کا چشمہ آج ایک اُلوہی خوشی کے ساتھ بہہ رہا ہے ۔حاجرہ بی بی کا عکس پانی اور چاند کے ساتھ اور بھی ماورائی محسوس ہو رہا ہے۔جبکہ بندے علی شاہ کا حجرہ آج ایک بار پھر حجلہٴ عروسی بنایا گیا ہے۔کمرے میں سرخ مخلمیں چادریں اور مدھم روشنیاں اور گل بانو کا مخمور سراپا اور علی امام کی دیوانہ وار چاہت حجلہٴ عروسی کی ہر بے جان چیز کو جان بخش رہے ہیں۔

بانو، علی کی گھمبیر آواز پر گل بانو کا نازک سراپا کانپ گیا۔بانو علی ایک بار پھر گل بانو کو اپنے وجود کا احساس دلا رہا ہے۔کیا تمہیں یقین آ گیا کہ ہم ایک ہو چکے ہیں۔”جواباً گل بانو کی آنکھوں سے ایک آنسو گر کر علی امام کی ہتھیلی پر ٹھہر گیا۔
یہ کیا؟ یہ میری بات کا جواب نہیں کیا یہی ہے میری بے قراریوں کا صلہ۔
علی…”گل بانو کے آنسو رواں ہو گئے“ کیا تم مجھ سے زندگی بھر یونہی پیار کرتے رہو گے؟
ہاں…علی نے بے قراری سے کہا۔
کیا اس میں کوئی شک ہے جانِ علی آب و آتش و باد و خاک ایک ہو گئے ہوا نے مٹی کے آگے سر جھکا دیا اور کائنات کے سارے رنگ ایک ہو گئے۔
درگاہ پر سورج کی کرنیں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہی ہیں کہیں کسی کلی پر سورج کی روشنیوں نے پورے چمن میں اس کے وجود پر عطائیں کی ہیں تو اس کا سراپا نکھر، نکھر گیا ہے۔
حاجرہ بی بی پیار سے گل بانو کی تھوڑی کو چھو کر اسے پیار بھری نگاہوں سے دیکھتی ہیں۔
گُل بانو محبت فقط پا لینے کا نام نہیں اور جب خدا تمہیں تمہارے محبوبِ مجازی سے ملا دے تو اُس کی خوبیوں کے ساتھ اُس کی خامیوں کو بھی اسی پیار سے قبول کرو۔کیونکہ محبت اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔اور اس کی ناقدری کرنا بہت بڑا گناہ۔گل بانو محبت دھیان گیان کی سب سے پہلی سیڑھی ہے۔
گل بانو محویت سے حاجرہ بی بی کی باتیں سنتی رہی۔

درگاہ پر وقتِ عصر بندے علی شاہ سے علی امام اور گل بانو رخصت طلب کر رہے ہیں۔جاؤ اے عزیز تمہیں خدا کی پناہ میں دیا تمہیں اللہ کو سونپا۔بندے علی شاہ، علی امام کے دائیں بازو پر امام ضامن باندھتے ہیں۔درگاہ کے مرکزی دروازے سے باہر چند گاڑیاں نہایت تیز رفتاری کے ساتھ آ کر رکتی ہیں۔
گُل کے بھائی نہایت سُرعت کے ساتھ درگاہ میں داخل ہوتے ہیں۔

مریدین دم بخود ہیں۔
گل کہاں ہے؟ عزیز خان اور علی امام مقابل ہیں۔
عزیز بھائی اب گُل میری منکوحہ ہے۔مگر میں صرف یہ بتانے آیا ہوں کہ اب ہمارا گل سے کوئی رشتہ باقی نہیں رہا مگر یہ یاد رکھنا کہ تمہارے اس گناہ کا انجام اچھا نہ ہو گا تم دونوں اپنے اللہ کے بھی مجرم ہو اور اپنے خاندانوں کے بھی اب تمہیں کہیں بھی سکون نہیں ملے گا۔

گاڑیاں جس تیز رفتاری سے آئیں اسی تیز رفتاری کے ساتھ واپس چلی گئیں۔دور تک فضا میں غبار چھا گیا اور کچھ ہی دیر میں گل کے بھائی اہل درگاہ کی نظروں سے اوجھل ہو گئے مگر گل اور علی کے لئے ایک نئے امتحان کا آغاز ہو گیا۔
گل دیوار سے سر ٹکائے بیٹھی ہے۔حاجرہ بی بی حجرے میں نمودار ہوتی ہیں۔ گل کے بالوں میں پیار سے اپنی انگلیاں پھیرتی ہیں۔
گُل ہم چاہتے ہیں تم یہیں رہو یہ نسبتاً محفوظ مقام ہے۔گُل کی آنکھوں سے ایک آنسو گر کر حاجرہ بی بی کی ہتھیلی میں جذب ہوا اور دور کہیں پکھیرو کھلے آسمان تلے محوپرواز ہوئے۔
وقت اس طرح گزر گیا جیسے پر لگائے اپنی اڑانوں میں گم ہو ایک برس نے گل بانو کی گود میں ایک زمرد جڑ دیا تھا جس کا نام بندے علی شاہ نے ہی تجویز کیا تھا۔مگر وہ خود کسی اولاد سے محروم تھے۔
گُل اور علی امام سے بچے کو لئے بندے علی شاہ کی خدمت میں حاجر ہیں۔میں اس قابل تو نہیں کہ آپ کی مہربانیوں کا صلہ دے سکوں مگر پھر بھی اس حقیر سے نذرانے کو قبول کریں میں اس درگاہ کا احسان مر کر بھی نہ چکا سکوں گا۔
(جاری ہے)

Browse More Urdu Literature Articles