Aik Saal Or Beet Gaya - Article No. 1857

Aik Saal Or Beet Gaya

ایک سال اور بیت گیا۔۔ تحریر:حیات عبداللہ - تحریر نمبر 1857

مہرو وفا کی کھوج میں ایک سال اور بیت چلا، کسی احسان مند اور وفا شعار کی تلاش میں زندگی کا ایک برس اور کم ہو گیا مگر چشم نم میں غم ہیں کہ کم نہیں ہو پائے

جمعہ 4 جنوری 2019

مہرو وفا کی کھوج میں ایک سال اور بیت چلا، کسی احسان مند اور وفا شعار کی تلاش میں زندگی کا ایک برس اور کم ہو گیا مگر چشم نم میں غم ہیں کہ کم نہیں ہو پائے، ہمارے گمان کدے میں اداسیاں گہری ہوتی چلی گئیں، اپنی خواہشوں کی تعمیر اور اپنی طلب کی تکمیل کی چاہ میں ہم نادانیوں کی ویرانیوں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے مگر امید بر نہیں آئی۔ کتنے موسم گزرے، کلیاں چٹکیں، سبز پتے زردیوں میں ڈھل گئے، کتنی ہی بار افق کے اس پار سورج ڈوب چلا، کتنی ہی بار اماوس کی راتیں اور چودھویں رات کی چاندنی ہم اپنی آنکھوں میں بھر چکے، وقت کا بے رحم پنچھی مسلسل اڑے جا رہا ہے مگر اپنوں کی بے اعتنائیاں کم ہونے میں نہیں آ رہیں، ان یخ بستہ موسموں کی ٹھٹھرتی راتوں میں ماضی کے کواڑ کھول کر دیکھیں تو کتنے ہی لوگ ہماری وفاؤں کو بھلا چکے، آئیں کسی اور کی نہیں اپنی بات کرتے ہیں کہ ہم نے اپنی ساری وفاؤں کو جس کے قدموں میں بھی ڈھیر کیا اسی نے اپنے پاؤں تلے ہمارے ارمانوں کو کچل ڈالا، یہ لوگوں کو کیا ہو چکا کہ وفاؤں کا صلہ کیوں نہیں دیتے؟ نقش وفا اتنے کیوں بگڑ تگڑ چکے،لوگوں پر کسی چکنے گھڑے کی مانند کسی احسان کا کوئی اثر کیوں نہیں ہو پاتا، لوگوں کے جتنا بھی قریب جائیں وہ اتنے ہی عجیب لگنے لگتے ہیں، جس دل میں بھی جھانک کر دیکھیں وہی ایک حبس کدہ محسوس ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

ایسا کیوں ہے کہ لوگ اعتبار اور پیار کے سارے وقار مجروح کر چکے۔ دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنے قریب سے چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے آپ طوفانوں میں گھرے بادبانوں کو کنارے پر لے آئیں، آپ جبر کے سورج تلے سلگتے شخص کو چندا کی چاندنی ہدیہ کر دیں۔ آپ اعزہ و اقربا کو رگ جاں میں کھب جانے والے سانحوں سے نجات دلا کر دیکھ لیں، آپ کسی کو تھر تھراتے آنسوؤں کی جگہ مسکان نواز کر آزما لیں۔
آپ بخ بستہ اور دھند آلود انسان کو اپنی محبت کی حرارت بخش کر تجربہ کر لیں۔ وہ شانتی ملتے ہی آپ کے ساتھ عداوتوں اور بغاوتوں پر اتر آئے گا اور ندامتوں کو کبھی اپنے قریب تک پھٹکنے نہیں دے گا۔ جفاؤں میں ڈھلے یہ سرد لہجے بڑا ہی درد دے جاتے ہیں۔ تم نے لہجہ بھی سرد کر ڈالا سردیوں کے عذاب کم تھے کیا؟ آج اچھا کہلوانے کے لیے مرنا ضروری ہو گیا ہے، حد تو یہ ہو گئی کہ ہمیں اجلے کردار کا دھنی اپنا محسن بھی اچھا دکھائی نہیں دیتا، البتہ اگر وہ شخص مر جائے تب ہم اس کے محاسن کو یاد کر کے اس کی مدح اور توصیف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں ہمیں زندہ لوگ اچھے دکھائی کیوں نہیں دیتے؟ ہمیں مرنے والوں میں ہی خوبیاں کیوں نظر آتی ہیں؟ اس جہان رنگ و بو میں یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ خلوص بے وقعت سا ہو کر رہ گیا ہے۔
محبت کہیں مبہم سے زاویوں میں گم ہو کر رہ گئی ہے۔ لوگ نیم واپلکوں سے بھی احسان، مروت اور خلوص کی طرف جھانکنے کے روادار نہیں رہے۔ کتنی تکلیف ہوتی ہے نا جب بدذوقی کے سانچے میں ڈھلا کوئی بے مروت شخص احسان فراموشی میں حد سے گزر جائے۔ اشک ہیں کہ چپ چاپ گرنے لگتے ہیں۔ جب بھی کوئی محبوب و مرغوب شخص بے وفائی اور بے اعتنائی کو ہی اپنا شعار بنا لے تو انسان کا دل کٹ کر رہ جاتا ہے پھر دھیرے دھیرے لوگوں کی چترائی اسے بے حس بنا ڈالتی ہے۔
اب تو خوشی کا غم ہے نہ غم کی خوشی مجھے بے حس بنا چکی ہے بہت زندگی مجھے یہاں ذرا ایک لمحے کے لیے توقف کر کے غور کیجیے کہ کہیں ہمارا شمار بھی انہی فریب کارو ں اور جفا کاروں میں تو نہیں ہوتا، ہم دنیا میں کسی بھی انسان پر احسان کریں وہ عارضی بنیادوں پر ہی تو ہوتا ہے مگر اللہ نے ہم پر ہر لمحے اور ہر آن جو احسانات کی برسات کر رکھی ہے وہ تو مستقل بنیادوں پر ہے پھر سوچیے کہ کہیں ہم اپنے اللہ کے احسان فراموش تو نہیں ہیں، ہم دوسروں پر اپنے احسانات اور اس کی احسان فراموشی کو یاد کر کے کتنا غصہ کرتے ہیں، کبھی سردیوں کی راتوں میں نرم گرم لحاف کے انڈر لپٹ کر سوچیے کہ کہیں ہم نے اپنے رب کے ساتھ وفاؤں کا بھرم تو نہیں توڑ ڈالا، اللہ رب العزت کے احسانوں اور رحمتوں کا تقاضا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت اور اطاعت ہر چیز پر مقدم ہونی چاہیے۔
سورة البقرہ آیت نمبر165 میں اللہ فرماتے ہیں کہ ”اور ایمان والے تو اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں“ اسی طرح سورة آل عمران آیت نمبر 31 میں ارشاد ہوتا ہے کہ ”(اے نبی) کہ دیجیے کہ اگر تم اللہ کے ساتھ محبت رکھتے ہو تو میری (نبی) کی اطاعت کرو، اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ سنو اے شکوہ سنج لوگو! اس چمکتی دمکتی اور خوش رنگ حیات کے لمحات میں سے ایک سال مزید کم ہو گیا۔
جانے کب ہم خاک اور راکھ کے ڈھیر تلے دفن کر دیے جائیں جانے کب ہم بھی ماضی کے دھندلکوں میں گم ہو جائیں، ہمیں بہرطور اپنے اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے وہی اللہ جس نے ہمارے بدن کی ایک ایک اینٹ کو ترتیب اور تہذیب عطا کی، جس نے ہمیں ہر نعمت سے لذت کشید کرنے کا ہنر عطا کیا۔ جو ہمارے ہر کرب کو طرب میں بدل ڈالتا ہے اس اللہ کی محبت اور اس کے رسول کی اطاعت سب سے اہم اور مقدم ہے باقی تمام دنیوی محبتیں اللہ اور اس کے رسول کی محبت کی غلام ہونی چاہئیں، لوگوں کے ساتھ احسان ضرور کیجیے مگر کسی ستائش اور صلے کی توقع کے بغیر فقط اللہ کی خوشنودی کے لیے۔ آئے، ٹھہرے اور روانہ ہو گئے زندگی کیا ہے سفر کی بات ہے

Browse More Urdu Literature Articles