Alhamra Adbi Award Ka Ajra - Article No. 2010

Alhamra Adbi Award Ka Ajra

الحمراء ادبی ایوارڈ کا اجراء - تحریر نمبر 2010

شاہد علی خان مدیرماہنامہ”الحمراء“نے پہلا ایوارڈ مصور‘ادیب‘شاعر اسلم کمال کو پیش کیا

جمعرات 11 اپریل 2019

خالد یزدانی
اُردو ادبی رسائل کا موٴرخ جب بھی تذکرہ کرے گا وہ مولانا حامد علی خان کے ادبی رسالے”الحمراء“کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔آج اس رسالے کو ان کے صاحبزادے شاہد علی خان باقاعدگی سے شائع کررہے ہیں ۔گزشتہ دنوں انہوں نے جم خانہ کلب کے حبیسمین ہال میں ملک کے معروف اہل قلم کو اکٹھا کیا اور اعلان کیا کہ ہم نے اب”الحمراء ایوارڈ“کا اجراکررہے ہیں اور ہر سال ایک ہی نہیں دو تین ادبی شخصیات کو ان کی خدمات میں الحمراء ایوارڈ پیش کیا کریں گے۔


لہٰذا جیوری کے متفقہ فیصلے کی روسے پہلا ایوارڈ لچنڈری مصور،ادیب اور شاعر اسلم کمال کو دینے کا فیصلہ ہوا اور آج کی تقریب کا اس سلسلے میں انعقاد کیا گیا ہے۔قرآن مجید کی تلاوت کے بعد شاہد علی خان مدیر ماہنامہ الحمراء لاہور نے تقریب کا آغاز کرتے ہوئے الحمراء رسالے کے اجرا سے ایوارڈ تک کے سفر پر مختصراً روشنی ڈالی۔

(جاری ہے)

اس تقریب کی صدارت خورشید رضوی اور مہمانان خصوصی خالد محمود انور اور خواجہ زکریا تھے۔


تقریب میں سر فراز سید،سعید احمد خان،خالد تنویر،بریگیڈئر(ر)حامد سعید،ڈاکٹر میجراشرف ،پروفیسر غازی علم الدین ،محمد فاروق قاسم ،سونان اظہر جاوید،احتشام ربانی ،جمیل یوسف،قاضی جاوید،سلمیٰ اعوان ،بشریٰ رحمن ،سیما پیروز،شاغ شاہد ،برکی ،چغتائی ،فوزیہ تبسم ،بشیر طراز نے ادبی رسالے الحمرا، الحمراء ایوارڈ اور پہلے ایوارڈ کے حق دار مصوروادیب اسلم کمال پر گفتگو کی۔
خالد تنویر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا میں شاہد علی خان کا ممنون ہوں جنہوں نے مجھے اس تقریب میں شریک ہونے کا موقع دیا اس سے میرا قد کاٹھ بلند ہو گیا۔
شاہد علی خان کا گھرانہ ایسا ہے جس نے مستقل مزاجی سے تین نسلوں سے ذہنی، جسمانی ،صلاحیتیں صرف کیں ان کے داداظفر علی خان نے زمیندار کو وقار بخشا،والد حامد علی خاں ادب وصحافت کا بڑا نام اور شاہد علی خان نے بھی کئی مسافتیں طے کیں ۔
پہلا الحمراء ایوارڈ جس کو دیا جارہا ہے اس کی تصاویر پکار پکار کر کہتی ہیں ہماری طرف دیکھو ہم اسلم کمال کا شاہکار ہیں ۔بریگیڈئر(ر) حامد سعید نے کہا ہم اگر چشمے سے فیض یاب ہوں تو اس چشمے کا ذکر بھی لازم ہے یہ ایوارڈبھی اسی سلسلے کی کڑی ہے ،ایوارڈ متعارف ہو چکا،اگر اسلم کمال کا خاکہ لکھنا ہوتا تو اس کی خامیاں خوبیاں لکھتا لیکن یہ موقع نہیں اسلم کمال اپنے فن میں یکتاہیں ۔
لکھنے پڑھنے کاکام اضافی کام ہے تھوڑا بہت قلم گھسیٹتے ہیں:
میری بہکی بہکی باتیں
جیسے میرکے نازک شعر
اس کی سوچی سمجھی باتیں
جیسے غالب کا دیوان
ڈاکٹر میجر اشرف نے کہا مجھے اس بات کا فخر ہے کہ میری کتاب”دردکا سورج“کا سرورق انہوں نے بنایا۔کتاب ہو نہ ہو اس کا سرورق میرے لئے آج بھی فخر کی بات ہے ۔محمد فاروق نے کہا اسلم کمال سے گزشتہ ڈیڑھ سال سے وابستگی ہے اس دوران ان سے بہت کچھ سیکھا۔
آج جس ایوارڈ سے نوازے جارہے ہیں میں سمجھتا ہوں اس کے حقدار ہیں ۔سونان اظہر جاوید مدیر ماہنامہ تخلیق نے کہا شاہد علی خان اور مجھ میں دو قدرمشترک ہیں یہ بینکر تھے اور میرا بھی ادب سے خاص تعلق نہ تھا البتہ میرے لئے انتظامی امورمعاون ثابت ہوئے اور جس طرح دو اپنے والد کے رسالے الحمراء کو مسلسل شائع کر رہے ہیں میں اپنے والد اظہر جاوید کے رسالے تخلیق کو شائع کررہا ہوں جہاں تک اسلم کمال کی بات ہے یہ جتنے اچھے مصور ہیں اتنے پیارے انسان بھی ہیں ۔
اس ایوارڈ کے اجراپر شاہد علی خان کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باددیتا ہوں ۔
احتشام ربانی نے کہا اسلم کمال حقیقت پسند انسان ہیں میں نے ان کی ایک کتاب پڑھی جس میں انہوں نے اپنے بچپن کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا۔مصور بہت عظیم انسان ہوتے ہیں جو اپنے تجربات ومشاہدات کو پیش کرتے ہیں ۔اسلم کمال کی صلاحیت خداداد ہیں اس لئے میں ان کو مصوری کا دل کہتا ہوں میری دعا ہے کہ شاہد علی خان اپنے والد اور بزرگوں کے مشن کو اس طرح جاری رکھیں ۔
جمیل یوسف نے کہا ہم یہاں اسلم کمال کو ایوارڈدینے کی تقریب میں شرکت کے لئے جمع ہیں اس کی اصل وجہ شاہد علی خان ہیں
۔
یہ ان کی محفل ہے ادبی رسائل پر نظر ڈالیں تو کوئی ایسا رسالہ نظر نہیں آتا جو ان کے کسی فرزند ارجمندنے آگے بڑھایا جبکہ اسلم کمال کی تعریف میں کیا کہا جائے جو کہا جائے کم ہے ۔قاضی اختر نے کہا پہلا الحمراء ایوارڈ اسلم کمال کو دینے کا فیصلہ اچھا ہے ۔
یہ بہت اچھے ہیں یہ خوبی اتنی ہی عظیم ہے جتنی ان کی تصاویر بشریٰ رحمن نے کہا یہ خوبصور ت شامل ہے اور اس میں اتنے ہی خوبصورت پھول برسائے جارہے ہیں جتنے حق دار ہیں اسلم کمال یہ ایک اچھی رسم ہے اس کو جاری رہنا چاہئے۔اسلم کمال کی تصویروں کے رنگ بولتے ہیں ان کے سفر نامے ہوں یا افسانے ان میں سے بہت رنگ نکلتے ہیں جس طرح سورج ڈوبتے ہوئے رنگ بکھیرتا ہے ۔

اس ایوارڈ کے حق دار اسلم کمال ہیں اور میں سمجھتا ہوں یہ پہلا غیر متنازعہ ایوارڈ ہے ۔سلمیٰ اعوان سب سے پہلے شاہد علی خان کو مبارک باددیتی ہوں آپ نے الحمراء ایوارڈکا اجراکیا اور سب سے پہلے جس کو اس ایوارڈ کے لئے منتخب کیا وہ اسلم کمال ہیں ۔یہ کمال کی ہمہ جہت شخصیت ہیں ۔فوزیہ تبسم اسلم کمال سے ادب واحترام بہت زیادہ ہے ان کے رنگ تصانیف سب دیکھیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے میں ان کی روحانیت سے بھی بہت متاثر ہوں ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر پر آبدیدہ ہو جاتے ہیں ان کی نیت ہی کی وجہ سے اللہ ان کو اور نوازتا ہے۔
سیما پیروز،شبہ طراز،تسنیم کوثر،آغا شاہد نے اسلم کمال کو پہلا الحمراء ایوارڈ ملنے پر مبارک باددی تھی۔انور محمود خالد نے تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا مولاناحامد علی خان الحمراء اور اسلم کمال یہ تینوں نام میرے لئے محترم ہیں اور پھر حکم شاہد علی خان کا تھاان سے کئی سالوں سے قریبی تعلقات ہیں میری مولانا حامد سے بھی ملاقات رہی جب بھی شاہد علی خان کو دیکھتا ہوں یاد آجاتے ہیں جہاں تک اسلم کمال کا تعلق ہے میرے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ یہ خطاط اچھے ہیں یا ادیب ،جب مجھے بتایا کہ پہلا الحمراء ایوارڈ اسلم کمال کودیا جارہا ہے تو خوشی ہوئی کہ اس سے بہتر انتخاب ہو نہیں سکتا۔

خواجہ زکریانے کہا میں شاہد علی خان کا شکر گزارہوں کہ الحمراء تواتر سے مل رہا ہے میں مولانا ظفر علی خان کی فیملی کا بہت بڑامداح ہوں ۔الحمراء کے نام سے ادبی پرچہ اوراب ایوارڈ کا اجرا اچھی بات ہے اور پہلا ایوارڈ اسلم کمال کو دینا اس سے بھی اچھی بات ۔ڈاکٹر خورشید رضوی میرے دل میں بھی خواہش موجود ہے کہ آج دونوں شاہد علی خان اور اسلم کمال بارے اپنے احساسات کا اظہار کردیں ،حسب اور نسب جوہے اس میں کیا فرق ہے ۔

نسب آدمی کو نسب در نسب اور حسب آدمی اپنے لئے خود پیدا کرتا ہے ۔شاہد علی خان کا کارنامہ جس پر
خراج تحسین پیش کیا اس تسلسل کا آئینہ دار ہے ان کی نسب کی دولت بھی اور حسب سے آگے بھی بڑھایا اب اپنے والد کے نام پر ایوارڈ کا اجراکیا اور سب سے اچھے حقدار اسلم کمال کودیا۔اس موقع پر پہلا الحمراء ایوارڈ صدر محفل اور مہمانان خصوصی نے اسلم کمال کو پیش کیا۔
اس موقع پر اسلم کمال نے اپنی نظم ”گروپ پورٹریٹ“سنائی۔
میرے یارو،میرے پیارو
میرے ہمعصراے اہل قلم لوگو
سنو،دیکھو ،توجہ چاہتاہوں
ملتمس ہوں ،میں مصورہوں
میرے ایزل کی جانب دیکھنا اور مسکرانا ہے
تمہارے خواب ہیں جتنے
وہ سارے اپنی آنکھوں میں بسا کر
نگاہوں میں سجا کر
گنگنانا ہے کوئی نغمہ سنانا ہے
میرے اس کینوس کے بے نشاں اندر
لہو بن کر ٹپکنا ،رنگ بن کر پھیل جانا ہے
کیں اک خط لگا کر ،زاویہ درزاویہ
کہیں نقطہ جما کر دائرہ دردائرہ
قوس کی قوسِ قزح کے پار اترنا ہے
نیا کوئی افق تسخیر کرنا ہے
نیا سورج بنانا ہے
خود اپنا آسماں تعمیر کرناہے
نیا کون ومکاں تسخیر کرتاہے
میرے ہمعصراے اہل قلم لوگو
یہاں چاروں طرف پھیلی ہوئی تیرگی پر
روشنی ہی روشنی تحریر کرنا ہے

Browse More Urdu Literature Articles