Judai - Article No. 1882

Judai

جدائی - تحریر نمبر 1882

ملاقاتوں کا عرصہ جس قدر طویل ہوتا ہے اتنا ہی جدائی کا کرب درد ناک ہوتاہے

Ghazanfar Natiq غضنفر ناطق ہفتہ 19 جنوری 2019

جُدائی، ازل سے ملنے والوں کا نصیب ہے۔ شاید ملنے اور بچھڑنے کا سلسلہ ابد تک ایک دوسرے کے ساتھ رہے گاکہ ہر ملاقات اور وصل کا انجام بہرحال جدائی ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ محبت میں جدائی سے گزرنا پڑے گا پھر بھی لوگ محبت کرتے ہیں اور کسی قُرب سے چین پاتے ہیں اور پھر جدا ہو جاتے ہیں۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ جیسے لوگ جان بوجھ کر جدائی کے صدمے اُٹھاتے ہیں ، بچھڑنے کا کرب سہتے ہیں اور فراق کے غمناک لمحوں سے گزرتے ہیں۔
جدائی کا دُکھ یا پھر جدائی کے دُکھ کی شدت کا انحصار وصل پر ہوتاہے۔ ملاقاتوں کا عرصہ جس قدر طویل ہوتا ہے اتنا ہی جدائی کا کرب درد ناک ہوتاہے۔ گو کہ محبت کو لمحوں میں قید یا مشروط نہیں کیا جا سکتا۔ مگر دیر تک محبت کے بندھن میں جُڑ کر رہنے کے بعد لوگ الگ ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

تو جیسے اُن کادل ٹوٹ جاتا ہے۔ جیسا کہ بچپن کی محبت جو کہ جوانی کی دہلیز کو عبور کرتی ہے، کئی سالوں پہ محیط ہوتی ہے۔

ایسی محبت کے گرفتار دل جدائی کو بہت شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ جدائی میں جدا ہونے کا عرصہ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے کہ اگر جدائی مختصر مدت کی ہو تو اِسے سہنا آسان ہے اگر کوئی طویل عرصے کے لیے بچھڑ رہا ہے تو یقینا جدائی کا صدمہ بھی شدید ہوتاہے۔ جدائی دو پیار کرنے والوں کا امتحان بھی خیال کیا جاتاہے۔ کہ کسی کے قرب اور پہلو میں رہنا باعثِ فرحت بھی اور باعثِ طمانیت بھی کہ کسی کے پاس رہ کر زندگی لطف دیتی ہے مگر کسی سے دورہو کر زندگی بہت مشکل ہو جاتی ہے اور یوں لگتاہے کہ جیسے جدائی قرب کا خمیازہ ہو۔
اک دوجے سے بچھڑتے وقت دو پیار کرنے والے دوبارہ ملنے کا وعدہ کرتے ہیں۔یہ سمے کی تاثیر ہوتی ہے یا درد کا اثر ہوتا ہے یا کچھ اور۔۔۔دونوں اک دوسرے پہ اعتبار کرتے ہیں۔یہ اعتبار بچھڑنے کے قرب کچھ کم کرتاہے۔ کبھی یہ جانتے ہوئے بھی کہ دوبارہ یوں ملنا قریب قریب ناممکن ہے پھر بھی اعتبار کر لیا جاتاہے۔ ویسے بھی دل والوں کو اعتبار جلد ہی آ جاتاہے۔
یہ اعتبار کبھی مجبوری سے ملتی جلتی شکل بھی ہو سکتاہے اور کبھی اعتبار کے ساتھ کچھ بے اعتباری بھی ہوتی ہے یا ہو سکتی ہے۔ کچھ خطوں میں شادی ابدی جدائی کی عام شکل ہے کہ شادی کے بعد محبت کرنے والے ہمیشہ کے لیے بچھڑ جاتے ہیں اور بے وفائی کا زیادہ مرتکب لڑکی ہی ٹھہرتی ہے اِس لیے اِن خطوں میں لڑکے کی نسبت لڑکیوں کی شادی جلد ہو جاتی ہے۔ یوں محبت کے دن کہیں اور گزار کر لڑکی اپنے شوہر کے ساتھ ہو لیتی ہے۔
شوہر اگر پہلی محبت سے بھی زیادہ محبت ، توجہ اور دھیان دے تو محبت کے نقش مٹنے لگتے ہیں کہ نئی محبت پُرانی محبت کو جیسے دل سے بُھلا دیتی ہے۔ اِن خطوں میں اُدھر کچھ دن جدائی میں کاٹ کر لڑکا کسی اور کی محبت کا اسیر ہو جاتاہے۔کہ دل جب ایک بار کسی سے لگ جائے تو اپنے کام کا نہیں رہتا۔ کبھی کہی تو کبھی کہی۔ کسی کے دل سے جُڑنے کے لیے بے تاب رہتاہے اور یوں کوئی جدائی کے دُکھ اُٹھانے کی بجائے کہی اور دل لگانے کو ترجیح دیتاہے۔ کہ کسی بے وفا کی یاد میں آنسو بہانے سے بہتر کسی سے آنکھیں چار کرنا ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles