Parveen Shakir Ki Khushbu Aalm Safar Mein Hai - Article No. 1845

Parveen Shakir Ki Khushbu Aalm Safar Mein Hai

پروین شاکر کی خُوشبو عالمِ سفر میں ہے - تحریر نمبر 1845

خیال وخواب ہُو ا برگ وبار کا موسم فسطائیت‘جبر‘استحصال اور تشدد کے خلاف اپنے قلم کو وقف کئے رکھا24ویں برسی پر خصوصی تحریر

ہفتہ 29 دسمبر 2018

حسن عسکری کا ظمی
پروین شاکر کا تخلیقی سفر سر سبز وشاداب وادیوں سے ہو کر ارتقا کے مراحل طے کررہا تھا کہ اچانک تیز آندھی نے اس کے راستے میں بہت سے درخت گرادئیے‘اُسکے ہاتھ سے قلم چُھوٹ گیا‘وہ سر سے پاؤں تک اپنے بدن پر زخموں کا لباس پہنے”گوشئہ چشم “سے یہ منظر دیکھتی رہ گئی۔وہ کسی تمثیل کا کردار نہیں تھی مگر خود کلامی کے انداز میں دو لخت ہو کر خود سے پوچھتی رہی کہ مجھے غسل خون کس نے دیا‘وہ تیز آندھی کے مقابل اپنا چراغ زندگی بجھتا دیکھ کر خوشبو کی طرح بکھر جانا چاہتی تھی ۔

اُسے جس منزل پر پہنچناتھا وہ غبار راہ میں گُم ہو چکی تھی۔
منزل تھی غبار راہ میں گم اور رختِ سفر جلا ہوا تھا اس کا چہرہ زخموں کی نقاب اوڑھے اور بھی خوبصورت ہو چکا تھا مگر اسے اجنبی لوگوں نے پہچاننے میں اپنی شکست تسلیم کرلی وہاں اس کے پرس میں نام گھر کا پتہ فون نمبر موجود تھا اس کے بیٹے مراد کی نامرادی کا نقطہ آغاز وہ خبر تھی جسے سچ جاننے سے وہ انکار کرتا رہا لیکن اسے دلاسہ دینے والے اس خبر کی سچائی کو جان کر اسے خوشبو کی شاعرہ کے آخری دیدار کیلئے تیار کرنے لگے‘پروین شاکر خوشبو کی طرح خود بھی سفر کرگئی اور پھول کی طرح اس کا بدن جگہ جگہ سے کٹا پھٹا مٹی میں چھپا دینے کیلئے تا بوت میں رکھا جا چکا تھا۔

(جاری ہے)


عکس گل تر جلا ہوا تھا
خوابوں کا نگر جلا ہوا تھا
پروین شاکر کا آخری کالم ”گوشہ چشم“اس کی موت کے دوسرے روز شائع ہوا جس کا آغاز بھی اس جملے سے ہوا ”موت بر حق ہے لیکن مشاعرہ پڑھتے ہوئے جان بحق ہونے کا شوق ہمیں نہیں “ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دست قضا نے پروین شاعر سے یہ جملہ لکھوا یا اب تو یوں لگتا ہے کہ جیسے قزاق اجل اس کا محبوب تھا جو اس کی انگلی پکڑ کر اُفق کے اس پار لے گیا اور پروین شاکر اتنی سادہ تھی کہ اس کی باتوں میں آگئی حالانکہ ابھی تو اس کے جینے کا زمانہ تھا۔

کراچی کے خونچکاں واقعات نے اسے خون کے آنسو بہانے پر مجبور کردیا تھا اس کا یہ کہنا ”شہر قائد کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے اس کے بعد ہماری ہمت نہیں پڑی کہ ہم قائداعظم کے جشن ولادت میں شریک ہو سکیں “جس شہر نے آپ کو جنم دیا اسے دم توڑتے ہوئے دیکھنا آسان کام نہیں گویا وہ صحن چمن میں زلزلوں کی تاب نہ لا کر چل بسی اس نے بساط گل پر اپنی کومل غزل سجائی ‘شعروں کی خوشبو سے مشام جاں معطر کیا۔

جاں گسل لمحوں میں خود کلامی اور ایک ”ماہ تمام“کی صورت چاندنی پھیلانے کے بعد اپنی آواز کے کفن میں منہ چھپا کر منوں مٹی کے نیچے دوسرے جنم کے لئے عارضی نیند کا مزالے رہی ہے۔اس نے فسطائیت‘جبر‘استحصال اور تشدد کے خلاف اپنے قلم کو وقف کئے رکھا۔شاعر ی‘تنقید ‘کا لم نگاری میں اس کا لہجہ سب سے جدا ‘اس کا انداز اظہار منفرد اور اس کا اسلوب نگارش الگ پہچان رکھتا ہے ۔

نئے انداز کی کالم نگاری
مثال مژدہ باد بہاری
آئیے اس کے آخری کالم کی چند سطریں دیکھتے ہیں۔
کیا پتہ مشاعرے کے بعد گھر بھی پہنچ پائیں یا نہیں‘ابھی پچھلے دنوں ایسے ہی ایک مشاعرے سے واپسی پر افتخار عارف اور اظہر عباس ہاشمی دھر لئے گئے۔
”اتنی رات گئے آپ دونوں کہاں جا رہے ہیں“
”گھر جا رہے ہیں“
”یہ گھر جانے کا کونسا وقت ہے“
”شام ہوتی ہے گھر جانے کو جی چاہتا ہے “افتخار عارف نے اپنے شعر کی مار دینی چاہی ‘اس ظالم نے کسوٹی دیکھی تھی نہ ماہ دونیم پڑھی تھی نہ حرف بار یا ب پر ایک سوساٹھ تبصرے پڑھے تھے بالکل پروفیشنل تھا ۔
سوا س نے دونوں کو خوب ٹھونک بجا کر دیکھا اور جب اچھی طرح اطمینان ہو گیا کہ دونوں دہشت گرد نہیں بلکہ دہشت زدہ ہیں تو جان بخشی۔اس قسم کی ضیافت نیم شب کے ہم تو متحمل نہیں ہوسکے۔
پروین شاکر کی نثر میں شگفتگی ‘ندرت اظہار اور معاشرتی شعور کا موجود ہونا اپنی جگہ لیکن درد مندی اور مزاح کا حسین امتزاج غالب کی نثر سے ملتا جلتا معلوم ہوتا ہے ۔

زندگی نے مہلت نہ دی ورنہ پروین شاکر کی شاعری اور نثر ہم قامت دکھائی دیتیں ۔اس کی شاعری میں نظم اور غزل کا معیار فکری اعتبار سے بلند اور فنکارانہ شعور کا آئینہ دارہے۔وہ بین الاقوامی سطح پر جانی پہچانی شاعرہ اور نوجوان نسل کا اعتبار بڑھانے والی ایسی فنکارہ تھی جس کی مقبولیت کا تعین کرنا آسان نہیں ۔شاعری میں حزن وملال،اداسی ،آرزوؤں کی نا تمامی اور کسک سے مل کر جو فضا بنتی ہے اسے نوجوان دل زدہ لوگ نہ صرف پسند کرتے ہیں بلکہ اس کے اشعار میں اپنی حسرتوں کا عکس ڈھونڈ نکالتے ہیں ،پروین شاکر کی مقبولیت میں اضافہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کی غزل میں تہ درتہ جذبوں کا خوبصورت مرقع دکھائی دیتا ہے ۔

روایت کی پاسداری اور نئے تجربوں سے غزل کا دامن مالا مال کرنے کا رویہ پروین شاکر کو ایسی انفرادیت بخشتا ہے کہ اس عہد کی کوئی خاتون شاعرہ اس کی ہم پلہ قرار نہیں دی جاسکتی ۔انسانی مشاہدوں اور محسوسات میں رابطہ خاص کو موضوع بنانا سب سے مشکل کام ہے ،اکثر شعراء ،مشاہداتی شاعری پراکتفا کرتے ہیں یا وہ محسوسات کے حوالے سے اپنی داخلیت کا عکس غزل میں شامل کرتے ہیں لیکن پروین شاکر نے گردو پیش کو اپنے حواس سے اور محسوسات کو دروں بینی سے یکجا کیا ہے اور دونوں کے ارتباط سے غزل کو نیا تغزل بخشاکچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملا ل بھی وہ اس کیفیت میں مبتلا اپنا تخلیقی سفر طے کررہی تھی کہ اس سفر میں ایسا سانحہ رونما ہوا کہ رنج وملال کی کیفیت کو ابدیت سے ہمکنار کرکے وہ ہم سے جُدا ہو گئی ۔

اس کا محبوب کہیں بھی جاتا مگر لوٹ کر اس کے پاس آجاتا اور یہی بات اس ہر جائی کی پروین شاکر کو پسند تھی لیکن وہ خود جہاں جا چکی وہاں سے پلٹ کر آنا اس کے لئے ممکن نہیں ۔اب اس کا بیٹا مراد علی اس کی راہ دیکھتا رہے یا قلم قبیلہ اس کی آواز اور لہجے کا نمنائی بن کر کسی بھی محفل میں چلا جائے اسے وہ چاند چہرہ اور ستارہ آنکھیں ،وہ سلگتی ہوئی خوبصورت پیشانی کو چھونے والے ہاتھ کبھی دکھائی نہیں دیں گے ۔
وہ نرم و نازک لہجے کی شاعرہ اب کسی محفل کی میزبانی کی ذمہ داری قبول نہیں کرے گی ۔اس نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب وہ کسی مشاعرے میں شرکت نہیں کرے گی۔
”سو کراچی سے بہتیر ے بلاوے آئے مگر ہم نے معذرت کرلی ․․․․․․ویسے ہماری سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ لوگ کون ہیں جو مشاعرہ کررہے ہیں اور یہ لوگ کون ہیں جو مشاعرہ پڑھ رہے ہیں ․․․․گھر میں میت رکھی ہوتو غزل سرائی ہم سے ممکن نہیں“
آج سے 24برس پہلے پروین شاکر جس حادثے کا شکار ہوئی جانے کیوں لگتا ہے کہ اُسے کسی ایسے حادثے کی نذر کردیا گیا جسے تقدیر سمجھ کر قبول کرلیا گیا ہے ورنہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ”خوبصورتی“کے ساتھ حرفِ حق کا گلا گھونٹ دیا جائے ،”گوشئہ چشم“میں تیر پیوست کردیا جائے،یہ تیر کس کمان سے نکلا،کس نے چلایا اور پروین شاکر کا قلم کس نے چھین لیا۔
وہ لوہے کی چادروں میں کس طرح لپیٹ دی گئی۔اس کی آنکھوں پر آبلے کہاں سے نمودار ہوئے وہ تو صرف اتنا بتا سکی
آنکھوں کی جگہ آبلے پڑے تھے
اور تار نظر جلا پڑا تھا
ملبہ تھا تمام شہر خوبی
اور ہو کے کھنڈر جلا پڑا تھا
سال 2018ء آخری سانس لے رہا ہے اس سال کی آغوش میں قلم کاروں اور فنکاروں کی بے دم بجھی ہوئی آنکھیں اور بہت سے نوحوں کا تسلسل ہمیں غمزدہ کرچکا ہے ۔
اب امور غم سہنے کا حوصلہ نہیں ،گزرے ہوئے دوستوں کو پکارنا لا حاصل ہے ۔عمورہے نہ انہیں عموپکارنے والی رہی!
راہ عد م میں ہر قدم رخصت ہونے والوں کو منزلِ شام فنا کے قریب لے جاتا ہے ،پروین شاکر نے کتنے دُکھ سہے اور کتنے دن زندہ رہی وہ سب خواب وخیال ہو چکا ۔اُس کی شاعری کا حُسن وجمال اُفق ادب پر مثالِ ماہِ تمام موجودرہے گا اور فضائے شعروسخن میں خوشبو ئے نافِ ختن کی طرح اس کی غزل کا ہر لفظ مہکتا رہے گا۔

Browse More Urdu Literature Articles