Parwarish Looh O Qalam - Article No. 1822

Parwarish Looh O Qalam

پَرورشِ لوح وقلم․․․․ - تحریر نمبر 1822

فیض انٹر نیشنل فیسٹیول 2018ء جاوید اختر اور شبانہ اعظمی کی خصوصی شرکت نے محفل سجادی

جمعرات 6 دسمبر 2018

وقار اشرف
ملک کے معروف ترقّی پسند انقلابی شاعر اور دانشور فیض احمد فیض کی 34ویں برسی کے موقع پر الحمرا ہال لاہور میں 3روزہ فیض انٹر نیشنل فیسٹیول سجایا گیا جس میں ادب ‘شعر وسُخن کے دلدادہ افراد کی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔یوں تو فیسٹیول میں مختلف سیگمنٹس رکھے گئے تھے اور ہر سیشن میں لوگوں کی دلچسپی دیدنی تھی لیکن بھارت سے آئے ہوئے عالمی شُہرت یافتہ شاعر جاوید اختر اور انکی اہلیہ نامور اداکار شبانہ اعظمی خاص توجہ کا مرکز رہیں جنہوں نے فیسٹیول کی رونق اور اہمیت میں مزید اضافہ کیا ۔


یہ دونوں تین روزہ دورے پر واہگہ کے ذریعے لاہور آئے تھے اور تینوں روز بہت معروف گزرے۔ لاہور آمد کے موقع پر جاوید ختر اور شبانہ اعظمی کا گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ امن اور محبت کا پیغام لے کر پاکستان آئے ہیں ،اتنی عزت دینے پر اہل لاہور کا شکریہ ،لاہور آکر بہت اچھّا لگا ہے ،وہ اپنے ساتھ صرف اور صرف محبت لے کر آئے ہیں ۔

(جاری ہے)


وہ فلمی دنیا میں پاکستان اور بھارت کے درمیان مشترکہ فلم سازی کے بھی خواہاں ہیں ۔

لاہور میں انہوں نے گورنرہاؤس میں گورنر پنجاب چودھری محمد سرور سے بھی ملاقات کی ،ا س موقع پر گورنر پنجاب کی اہلیہ پروین سرور اور فیض احمد فیض کی صاحبزادی سلیمہ ہاشمی بھی موجود تھیں ۔اس موقع پر گورنر پنجاب چوہدری سرور نے کہا کہ پاکستان اَمن پسند ملک اور اپنے ہمسایہ ممالک سے برابری کی بنیاد پر اچھّے تعلقات کا خواہاں ہے ،دونوں ممالک میں ثقافتی دفود کے تبادلوں سے ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنے کے مواقع ملتے ہیں ۔

اگلے روز انہوں نے وزیر اطلاعات وثقافت پنجاب فیاض الحسن چوہان سے بھی ملاقات کی ،اس موقع پر فیاض الحسن چوہان نے انہیں پھول پیش کئے ۔فیاض الحسن چوہان کا اس موقع پر کہنا تھا کہ شبانہ اعظمی اورجاوید اختر فلمی وادبی دنیا کی بڑی شخصیات ہیں ،ان کے دورے سے پاک بھارت تعلقات میں بہتری آئے گی ۔فیض فیسٹیول میں جاوید اختر اور شبانہ اعظمی نے فیض احمد فیض اور کیفی اعظمی کے حوالے سے یادیں تازہ کیں ۔

شبانہ اعظمی نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے والد کیفی اعظمی آخری عمر میں معاشرے میں سدھار لانے کی جدوجہد میں جُت گئے تھے ،میں نے اپنے والد کو جاوید اختر کی صورت میں دوبارہ دریافت کیا ہے کیونکہ دونوں میں بہت سی خصوصیات مشترک ہیں ۔کیفی کی کل جمع پانجی 18فلم اور کمیونسٹ پارٹی کا کارڈ تھا۔
شبانہ عظمی کا گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ والد کو ہمیشہ کرتاشلوار میں دیکھ کر تکلیف ہوتی تھی کیونکہ میں سوچتی تھی کہ کاش وہ بھی پینٹ شرٹ پہنتے اور دفتر جایا کرتے لیکن ایسا نہ ہوسکا ۔
شاعر کی بیٹی ،شاعر کی بیوی اور شاعر کی بہوہونے پر متعدد بارشاعر ہونے کا سوال کیاجاتا ہے جس پر ہنس کے جواب دیتی ہوں کہ میں شعر تو نہیں کہتی لیکن شاعری کے لئے مہمیزکاکام ضرور کرتی ہوں ۔
شبانہ نے اس موقع پر نظم ”عورت“سنائی اور آخر میں فیض کی نظم ”بول کہ لب آزاد ہیں تیرے ”تر نّم کے ساتھ پڑھی ۔شبانہ اعظمی نے کہا کہ وہ 7سال بعد لاہور آئی ہیں اور وعدہ کرتی ہوں اگلے سال پھر لاہور آؤں گی ۔
سلیمہ ہاشمی نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فیض اور کیفی اعظمی میں ایک مزید قدر مشتر ک ہے کہ دونوں کا طرز تحریر اور بیانیہ بے خوف ور عدم مساوات کے خلاف جنگ پرمبنی تھا۔
ایک نوجوان نے ایک تقریب کے دوران فیض سے استفسار کیا تھا کہ انقلاب کب آئے گا تو فیض نے ہنس کر کہا تھااتنی بھی کیا جلدی ہے ۔سلیمہ ہاشمی نے کہا کہ فیض کو ٹیسٹ کرکٹ میں سنچری اور فلمیں بنانے کا بہت شوق تھا ،انہوں نے فلمیں بنانے کیلئے سرمایہ کار دوستوں کو آمادہ بھی کیا ،ایک آدھ فلم بنائی بھی لیکن وہ ڈبوں میں ہی بندرہی ۔
فیض جب جیل جاتے تو ہماری والدہ ایلس فیض اسے چھپانے کی بجائے سب کو بتایا کرتی تھیں کہ سچ بولنے پر جیل جانا پڑسکتا ہے ،ہم اس پر حیران ہوتے تھے کہ سچ بولنا تو اچھّی بات ہے اس پر جیل کیوں ہو سکتی ہے لیکن یہ بات ہمیں کئی سالوں بعد جا کر سمجھ آئی ۔
فیض ایک دفعہ جیل میں تھے اور میں ایک تقریب کے دوران ان کی کتاب لوگوں میں بانٹ رہی تھی ،اس وقت لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تھے جسے دیکھ کر میں بہت متاثر ہوئی ،اس وقت مجھے لگا کر اباجیل جانے کے علاوہ بھی کچھ کرتے ہیں ۔
اس موقع پر سلیمہ ہاشمی نے فیض احمد فیض کے حوالے سے اور بھی یادیں تازہ کیں ۔ایک گھنٹہ پر مشتمل اس سیشن میں لوگوں کی دلچسپی قابل دید تھی اور وہ فیض اور کیفی اعظمی کی حِس مزاح پر تالیاں بجاتے رہے ۔
جاوید اختر نے اس موقع پر اپنی مشہور زمانہ نظمیں ”نیا حکم نامہ “اور ”وقت“سنا کر خوب داد سمیٹی۔ کیفی اعظمی کی نظم ”نئی زمین نیا آسمان نہیں ملتا“بھی تقریب کے آخر میں سنوائی گئی ۔
عدیل ہاشمی اور میرا ہاشمی نے اس سیشن کی میزبانی کے فرائض انجام دئیے۔
16جنوری کو فیسٹیول کے پہلے روز ”یاد کی راہ گزر “کے نام سے گلوکارہ طاہرہ سید کے ساتھ ایک شام منائی گئی۔مدیحہ کو ہر کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے اجوکا تھیٹر نے سرائیکی ڈرامہ ”کالا مینڈھا بھینس “پیش کیا۔17نومبر سر گرمیوں کے لحاظ سے بھر پور دن تھا۔اس روز ”سا قیارقص کوئی رقص صبا کی صورت “میں ڈانس پر فارمنس کے علاوہ سید مظفر علی ‘عمران عباس اور سلیمہ ہاشمی نے فلم کے حوالے سے ”نور کی لہر “سیشن میں گفتگو کی ۔

فاروق قیصر کے ساتھ گفتگو سیشن کے میزبان ارشد محمود تھے ۔صحافت میں سیاست کے حوالے سے ضیاء الدین احمد ‘ماروی سرمد ‘وسعت اللہ خان اور حامد میر نے گفتگو کی ۔جاوید شیخ‘ ثمینہ پیرزادہ ‘ثانیہ سعید ‘سمیعہ ممتاز ‘صبا قمر ‘عمران عباس اور دیگر نے ”کچھ اُلجھی ہوئی باتیں “کے عنوان سے سیشن میں گفتگو کی ۔”یہاں سے شہر کو دیکھو “سیشن میں کامران لاشاری ‘نیر علی دادا ‘ڈاکٹر عارفہ سید اور قاسم جعفری نے ورثہ ہماری ذمّہ داری کے حوالے سے گفتگو کی ۔

لوک گلوکار طفیل نیازی کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے ”گلشن باو“سیشن میں ان کے بیٹوں جاوید نیازی ‘بابر نیازی نے گفتگو کی ۔”ہراک اولیٰ الامرکو صدادو“میں بھی مقررین نے گفتگو کی ۔”ہم بھی دیکھیں گے “سیشن میں ایوننگ آف پوئٹری اینڈ پیانو کے حوالے سے عدیل ہاشمی اور اسدانیس نے گفتگو کی۔ سہیل احمد اور نعمان اعجاز نے”ماضی سے (بے)حل تک “سیشن میں حصہ لیا ۔
لعل بینڈنے ”ساز کا رنگ “کے عنوان سے سیشن میں پر فارم کیا ۔ضیاء محی الدین نے مشتاق احمد یوسفی کے حوالے سے گفتگو کی۔
فیسٹیول کے تیسرے اور آخری روز”سا قیا رقص کوئی رقص صبا کی صورت “میں ڈانس پر فارمنس پیش کی گئی۔زہرہ نگاہ اور ڈاکٹر عارفہ سید کی گفتگو پر مبنی سیشن ”’وہی خواب معتبر تھے “بھی دلچسپی سے بھر پور تھا ۔
”بات کہاں ٹھہری ہے “کے عنوان سے ہونیوالے سیشن میں سلطانہ صدیقی ‘کاشف نثار‘امینہ مفتی‘اصغر ندیم سید نے”ڈرامے کا تاج جس کے سر “پر گفتگو کی۔سلطانہ صدیقی نے کہا کہ میں نے سب کچھ پی ٹی وی سے ہی سیکھا ہے ،ماضی میں صرف ایک ہی چینل تھا جس سے ڈرامہ نشرہوتا ہے لیکن آج ہفتے میں ایک چینل سے 21ڈرامے نشر کئے جاتے ہیں ،اب ڈرامے بہت آگے چلے گئے ہیں ،پی ٹی وی پر بہت سی چیزوں پر کُھل کر بات نہیں ہوسکتی تھی لیکن آج ہر موضوع پر بات کر سکتے ہیں ،پی ٹی وی پر بہت پابندیاں تھا ۔

اصغر ندیم سید نے کہا کہ چینل کمانے کے لئے آئے ہیں اور ان کا یہ دعویٰ بالکل درست نہیں کہ وہ آرٹ کی خدمت کررہے ہیں ،کرنٹ افےئر ز میں روزانہ ایک ہی مزاج نظر آتا ہے ۔ڈراموں میں سماج کے تقاضے مد نظر رکھنا پڑتے ہیں ،آرٹ ایک سروس ہے اسے بہتر کیسے استعمال کرنا ہے ،رائٹر سوسائٹی کو کس نظر سے دیکھتا ہے یاد کھانا چاہتا ہے ،ٹی وی پر مردوں کے پاس دیکھنے کی کوئی چیز نہیں ہے ۔
آمنہ مفتی نے کہا کہ میں نو سال سے لکھ رہی ہوں ،الفاظ اپنا رستہ خود بناتے ہیں ،ہمیں لکھنے کی جو آزادی ملنی چاہےئے تھی وہ نہیں ملی ،پندرہ ڈرامے لکھ چکی ہوں ،رائٹر پر پابندی نہ چینل اور نہ ہی فنا نسر نے بلکہ ناظرین نے لگائی ہے ۔
ادیب کی سوچ بڑی نازک ہوتی ہے ۔
میرے ڈرامے ”زن مرید “کا موضوع بڑا خوفناک تھا،ریٹنگ عوام کاری ایکشن ہے ،مجھ پر سلطانہ صدیقی کی طرف سے کوئی پابندی نہیں ہے ۔
سلطانہ صدیقی نے کہا ہے ہمارے پاس ایکٹنگ انسٹیٹیوٹ نہیں ہیں ،فنکاروں کا فقدان ہے ،اگر کسی کی بہن یا بیٹی پسند آجاتی ہے تو اسے کاسٹ کرلیا جاتا ہے ،کیبل اٹھانے والا کیمرہ مین بن جاتا ہے ،حکومت ساتھ دے اور ٹیکس کم کردے ۔باہر کام کرنے کے لئے حکومت کی سپورٹ چاہےئے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ خواتین ہی نہیں بلکہ مرد بھی ڈرامہ شوق سے دیکھتے ہیں ،ڈرامہ بہت مہنگا ہو گیا ہے ،فنکاروں میں ڈسپلن نہیں ہے ،ڈرامے کی لاگت بڑھتی جارہی ہے ،ہر ڈرامے میں وہی چہرے ،وہی آرٹسٹ نظر آتے ہیں ،مجھے نہیں پتہ کہ انڈسٹر ی کیسے چلے گی ،یہ غلط ہے کہ لوگ نیوز زیادہ دیکھتے ہیں ،اب رجحان تبدیل ہورہا ہے ۔
اصغر ندیم سید نے کہا کہ اب دنیا سوشل میڈیا پر سمٹ گئی ہے جس سے ڈرامے کو بھی چیلنج کا سامنا ہے ۔
کاشف نثار نے کہا کہ ماضی میں سٹیٹ کی خواہش کے مطابق ڈرامہ ہوتا تھا،تمام ادوار کے ڈراموں میں اس وقت کی حکومت کسی نہ کسی طرح اثر انداز ہوتی رہی ہے ،آج حالات مختلف ہیں ،ڈرامہ بہت مہنگا ہو گیا ہے ،آج اچھا ڈرامہ تین سے ساڑھے تین کروڑ روپے میں بنتا ہے ،انڈسٹری پھیل رہی ہے اور کہانی سکڑ رہی ہے ۔

عرفان کھوسٹ ‘رخشندہ نوید‘شوکت علی اور راشد محمود نے ”توں تے آکھیاں سی “سیشن میں گفتگو کی۔ صغریٰ صدف اس سیشن کی میزبان تھیں۔
شعیب ہاشمی سیشن میں سلیمہ ہاشمی ‘نوید شہزاد نے عدیل ہاشمی کے ساتھ گفتگو کی ۔”ہم نے سب شعر میں سنوارے تھے ۔“میں ڈاکٹر تقی عابدی نے اصغر ندیم سید کے ساتھ ”باقیات فیض “کے حوالے سے گفتگو کی ۔
اُستاد حامد علی خان نے ”کلاسیکل میوزک پٹیالہ گھرانہ “سیشن میں امینہ علی کے ساتھ گفتگو کی ”ہم دیکھیں گے “میں یٹنا ثانی نے کلام فیض گا کر محفل لوٹ لی ۔
ضیاء محی الدین کی فیض احمد فیض کے حوالے سے گفتگو بھی خاصے کی چیز تھی ۔اس کیساتھ ساتھ آؤٹ ڈور میں بھی کئی سیشن ساتھ ساتھ چلتے رہے ۔فیسٹیول کے دوسرے روز ایک نشست کے دوران جاوید اختر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُردو زبان انتہائی مشکل ہے ،12سال کی عمر میں اچھّی شاعری کی سمجھ آچکی تھی ،اس کے باوجود کافی برس تک شعر کہنے کی ہمت نہ ہوئی ۔

جاوید اختر نے کہا شاعر کو کبھی کبھی کڑوی بات بھی کہنی چاہئے،اشعار سے لوگوں کے ایمان بدل جاتے ہیں ،اس پر مجھے اعتراض ہے ۔بر صغیر پاک وہند میں ہر شخص گلوکار ہے اور یہاں گیت سننے کا رجحان ہے،جب کہ مغرب میں میوزک سننے کے لئے نہیں بلکہ ڈانس کیلئے بنایا جاتا ہے ۔تاہم ہم لوگ مغرب کی اندھا دھند نقل کرتے ہیں۔
انہوں نے اپنی شہرہ آفاق فلم ”شعلے “کے حوالے سے کہا کہ ”شعلے“ایک ایسی فلم تھی جس کے تمام کردار آج بھی مقبول ہیں ۔بھارتی نغمہ نگار نے دوران تقریب دوبارہ فلم اسکرپٹ لجھنے کی خبر سنائی جب کہ ان کی کتاب ”ترکش “منٹوں میں فروخت ہو گئی۔وہ بھارت سے اپنے ساتھ کتابیں لائے تھے ۔

Browse More Urdu Literature Articles