Shehzaadiyan - Article No. 2073

Shehzaadiyan

شہزادیاں - تحریر نمبر 2073

چند ادیبوں کو پڑھ کر انسان بے ساختہ سوچتا ہے کہ کیا وہ واقعی شہزادیاں ہی تھیں ؟یا میکلورڈ روڈ کے کسی پاگل خانے کی رہائشی تھیں؟ یہ بھی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ممکن ہے کہ اس زمانے کی شہزادیوں کو واقعی کسی قسم کی کوئی دماغی بیماریاں رہی ہوں

Ahmad khan lound احمد خان لنڈ جمعہ 14 جون 2019

جب سے ہوش سنبھالا ہے شہزادے اور شہزادیوں کی کہانیاں سنتے آئے ہیں۔ہر کہانی میں شہزادے بیچاروں کو شہزادیوں کی ناجائز فرمائشیں پوری کرنا پڑتی ہیں ،کبھی شہزادے بیچاروں کوکو ہ قاف کے جنگلوں میں دربدر پھرنا پڑا ہے تو کھبی اس خلق خدا کو جادوگروں سے جنگیں کرنا پڑی ہیں لیکن ایک بات ہمیشہ تمام کہانیوں میں متفر ق رہی ہے کہ چاہے جنگل کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو ،چاہے دیو یا جن کتنے ہی خوفناک کیوں نہ ہو جیت ہمیشہ شہزادوں کی رہی ہے اور ہرکہانی کے آخر میں شہزادیاں شہزادوں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کرتی پائی گئی ہیں۔
ہمارے اردو ادب میں ہمیشہ سے ہی کہانیوں میں شہزادیاں یا بادشاہ ،ان کو فرمائش اور شرطیں لگاتے کرتے بیان کیا گیا ہے اور ہمیشہ ہی بڑی اوٹ پٹانگ قسم کی شرطوں کے عوض وہ اپنی زندگیاں یا تخت جیتنے والوں مہاراجوں یا شہزادوں کے نام کرتی رہی ہیں ،ممکن ہے کہ تاریخی لحاظ سے شہزادیوں کے پاس اس کی کوئی ٹھوس وجوہات موجود ہوں لیکن ہمارے اردوا دب کے ادیب اس ضمن میں جو مختلف حوالہ جات بیان کرتے ہیں،ان کی تحریروں اور کہانیوں کو دیکھ کر انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ، کیا شہزادیاں ہمیشہ ہی ویہلیاں ہوتی ہیں؟ اور ان کے پاس شرط لگانے کے علاوہ اور کوئی کام کاج نہیں ہوتا؟ چند ادیبوں کو پڑھ کر انسان بے ساختہ سوچتا ہے کہ کیا وہ واقعی شہزادیاں ہی تھیں ؟یا میکلورڈ روڈ کے کسی پاگل خانے کی رہائشی تھیں؟ یہ بھی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ممکن ہے کہ اس زمانے کی شہزادیوں کو واقعی کسی قسم کی کوئی دماغی بیماریاں رہی ہوں۔

(جاری ہے)

اگر اس پر تحقیق کی جائے تو ممکن ہے کہ ریسرچر کو دماغ کھپانے کے لیے نیا موضع مل جائے اوراس پر مقالے تحریر کریں کہ شہزادیاں اس قسم کی فرمائش کیوں کیا کرتی تھی؟اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں سے چند کو اس کے عوض ایم فل یا پی ایچ ڈی کی ڈگری تک سے بھی نواز دیا جائے۔ اب حاتم طائی کی کہانی ہی دیکھئے بیچارے حاتم طائی کی آدھی زندگی منیر شامی کی محبوبہ کی فرمائشیں پوری کرنے میں گزر گئی ،شہزادی نے جب فرمائشیں بیان کی تھی تو اس وقت بیچارے شہزادے منیر شامی پر جوانی کا سرور تھا لیکن شہزادی کی فرمائشوں کے پورے ہونے تک وہ بیچارہ بوڑھا ہوکر لاٹھی ٹیکتا ہوا شہزادی کے پاس پہنچا اور شہزادی بھی اس وقت یقینا دادی اماں کی عمر کو پہنچ چکی ہوگی،چشم تصور میں اس منظر کو اگر دور جدید پر لاگو کیا جائے تو منظر تقریباَیہ ہو سکتا ہے۔
"شہزادی حسن بانوایک تھڑے پر بیٹھی ہے ۔اس کے نزدیک اس کی ایک خادمہ ہاتھ میں کھانسی کا سیرپ لئے ٹہری ہے۔اچانک شہزادی کو اطلاع دی جاتی ہے کہ شہزادہ منیر شامی ،حاتم طائی کے ہمراہ آرہا ہے۔شہزادی فوراَ ہی اپنا میک اپ کا سامان منگواتی ہے اورتھڑے پر بیٹھے بیٹھے تیار ہونے لگتی ہے، ادھر حاتم طائی اور منیر شامی لاٹھیاں ٹیکتے خراماں خراماں چلے آرہے ہیں،اس دوران حاتم طائی غالباَکچھ کہنے کی کوشش کرتا ہے لیکن کھانسی کے سبب اس کی آواز کہیں ڈوب جاتی ہے ،آخرکار حاتم طائی حسن بانو کو منیر شامی کے حوالے کر کہ لاٹھی ٹیکتا ہواباہر آجاتا ہے اور منیر شامی اور حسن بانو تھڑے پر بیٹھ کرماضی کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کھانسی کا سیرپ پینا شروع کر دیتے ہیں"۔
مندرجہ بالا تاریخ اور واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے قارئین اکرام ہمیں بھی دور جدید کی شہزادیوں کی فرمائشوں اور شرائط کو پورا کرنے سے احتزاز کرنا چاہیے۔

Browse More Urdu Literature Articles