Episode 3 - Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر3 - دِل اَدل بَدل - شکیل احمد چوہان

”میں نے تمھارے لیے ایک بہت ہی پیاری لڑکی ڈھونڈ رکھی ہے۔“ نانی نے شفقت سے میرے گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے یہ خوش خبری سنائی۔ میں نے عجیب نظروں سے نانی کی طرف دیکھا وہ مسکرا کے کہنے لگیں :
”اپنی بسمہ!“
”بسمہ․․․․․․“ میں حیرانی سے بولا تھا۔ بسمہ میری چھوٹی خالہ آسیہ کی بیٹی تھی۔ چھوٹی خالہ کو میں اُن ہی کی خواہش کے مطابق خالہ کی بجائے ماسی کہتا تھا۔
ماسی اتنا پیارا لفظ تھا … ماسی مطلب ماں سی …عجیب وقت آ گیا ہے اب بڑے شہروں میں کام والی کو ماسی کہتے ہیں۔ وہ لوگ ٹاؤن شپ میں رہتے تھے۔ ہمارا اُن کی طرف آناجانا کم ہی تھا، وجہ وہی ہماری غربت۔ خالو وکیل تھے اس کے ساتھ ساتھ اُن کا اپنے بھائیوں کے ساتھ سانجھا کاروبار بھی تھا۔ خالو ہم سے میل جول کم ہی رکھنا چاہتے تھے۔

(جاری ہے)

میں نے نبیل سے اُس کی موٹر سائیکل لی۔

نانی نے اُس میں پیٹرول ڈلوا دیا۔ میں اور نانی ثانیہ کی منگنی کی مٹھائی لے کر ٹاؤن شپ پہنچ گئے۔
سردی کا موسم اور اتوار کا دن ماسی چھت پر بیٹھی ہوئی اپنے پوتے کے لیے سوئیٹر بُن رہی تھی۔ میں اور نانی چھت پر ہی چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد بسمہ کالے لباس میں ملبوس چائے کی ٹرے اُٹھائے آن پہنچی۔ اُن دنوں بسمہ کی رنگت مکھن سے زیادہ سفید تھی۔
روشن پیشانی، موٹی موٹی سرخ ڈوروں والی آنکھیں، اُجلا چہرہ، لمبی گردن، چمکتے دانت، ساون کی کالی رات کی طرح کالے سیاہ گیسو ۔اُس دور میں ساری رشتے داری میں بسمہ جتنی کوئی بھی لڑکی حسین نہ تھی۔بسمہ جتنی حسین تھی اُتنی ہی خوش اخلاق بھی۔ بات بات پر ہنس دیتی۔ ہنستی تو گال کے ایک طرف ڈمپل پڑتا تھا۔
”مہروز چائے․․․․․․!!“ بسمہ نے میرے سامنے چائے کا کپ رکھتے ہوئے کہا تھا۔
میں نے کپ اُس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے اُس کو غور سے دیکھا۔ وہ بھی مجھے غور سے دیکھ رہی تھی۔ بسمہ کے گورے مکھڑے پر چھوٹے چھوٹے سرخ کیل مہا سے تھے۔ جیسے اکثر نوجوان لڑکیوں کے مکھڑے پر ہوتے ہیں۔ چائے ختم کرنے کے بعد نانی اور ماسی کسی مریض کی عیادت کو چلی گئیں۔ بسمہ چار بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ دو بڑے اور دو چھوٹے، سب سے بڑا اپنے سسرال گیا ہوا تھا اپنی بیگم کے ساتھ۔
اُس سے چھوٹا قطر میں ہوتا تھا اور بسمہ سے چھوٹے والے دونوں کرکٹ میچ کھیلنے گئے تھے اور خالو صاحب اپنے دوستوں کی طرف۔ نانی اور ماسی کے جانے کے بعد میں اور بسمہ گھر پر اکیلے ہی تھے ۔
دو فٹ کی دوری پر بسمہ میرے سامنے کرسی پر بڑے اعتماد کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔
”بڑے دل والے ہو․․․․․․ اپنی محبت کے لُٹ جانے پر خود ہی مٹھائیاں بانٹ رہے ہو۔

”محبت․․․․․․“ مجھے بسمہ کی بات سُن کر کرنٹ سا لگا ۔ میں نے دل میں سوچا ابھی چند مہینے پہلے، زندگی میں صرف ایک بار جیسے تیسے کرکے میں نے ثانیہ سے اپنی خاموش محبت کا اظہار کیا تھا۔ ثانیہ اور اُس کے بھائی کے علاوہ کسی کو بھی پتہ نہیں تھا اِسے کہاں سے خبر مل گئی۔
”کہاں کھو گئے ہو․․․․․․؟“ بسمہ نے چٹکی بجاتے ہوئے میرے خیالوں کے سلسلے کو توڑا۔

”تمھیں کس نے بتایا․․․․․․؟“
”سب جانتے ہیں۔“ بسمہ نے کرسی کی بیک سے ٹیک لگاتے ہوئے جواب دیا۔ میرے زخم پھر سے ہرے ہوگئے ۔ میرا چہرہ فق ہوگیا۔ کوشش کے باوجود بھی میں اپنے ماتھے پر شکست کی شکنوں کو آنے سے نہ روک سکا۔ میری خاموش محبت بسمہ سے ڈھکی چھپی نہ رہی تھی۔
”مہروز دفعہ کرو ثانیہ کو اُسے تم سے کبھی محبت تھی ہی نہیں۔ وہ تو اکثر تمھارا مذاق اُڑایا کرتی تھی اور مجھے اُس پر شدید غصہ آتا تھا۔
“ میں نے ڈبڈباتی آنکھوں سے بسمہ کی طرف دیکھا۔ بسمہ کے رُخِ روشن پر جان لیوا مسکراہٹ تھی۔
”سچ کہہ رہی ہوں بھئی!“ بسمہ کے عنابی ہونٹوں پر پھر مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔ مجھے اُس کے رویے سے یہ تاثر مل رہا تھا جیسے یہ کوئی بڑی بات نہ ہو۔
”ویسے ایک بات ہے․․․․․․عاشق تم سچے ہو۔تمھیں ثانیہ کے علاوہ کبھی کوئی نظر ہی نہیں آیا۔“
”کون․․․․․․؟ کس کی بات کر رہی ہو؟“ جیسے ہی میں نے کھردرے لہجے میں یہ پوچھا۔
بسمہ کی موسیقیت سے بھرپور آواز آنا بند ہو گئی۔ وہ کچھ سہم سی گئی۔ وہ جو چند لمحے پہلے بڑے اعتماد سے میرے ساتھ تڑاخ پڑاخ باتیں کر رہی تھی اُسے یک لخت کوئی سانپ سونگھ گیا ۔ وہ اُٹھ کر وہاں سے چھت پر بنے ہوئے اکلوتے کمرے کے اندر چلی گئی اور وہاں کھڑی ہو کر تانک جھانک کرنے لگی۔ میں شش و پنج میں مبتلا تھا یہ کیا ماجرہ ہے۔ میں اپنی جگہ سے اُٹھ کر بسمہ کی طرف بڑھا۔
وہ میری طرف ہی دیکھ رہی تھی۔ جیسے ہی میں کمرے میں اُس کے سامنے جا کر کھڑا ہوا اُس نے فٹ سے نظریں جھکا لیں۔ اُس کی سانسیں تیز تیز چل رہی تھیں اور اُن سے سوندھی سوندھی خوشبو آرہی تھی۔ میں اُس کی پریشانی کو سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ اُسے اعتماد دینے کے لیے میں نے اپنا ہاتھ اُس کے کندھے پر رکھنے کے لیے جیسے ہی اُٹھایا وہ ترنت بھرنت دو قدم پیچھے ہٹ گئی۔

”میں بچپن ہی سے تمھاری ہوں․․․․․․“ بسمہ نے چشم الفت سے میری طرف دیکھ کر کہا۔ میں ایک لمحے میں کزن سے محبوب بن گیا۔ نانی کے الفاظ میرے کانوں میں گونجے:
”میں نے تمھارے لیے ایک بہت ہی پیاری لڑکی ڈھونڈ رکھی ہے۔“
نانی کی آواز کے پیچھے پیچھے ہی ایک آواز میرے کانوں میں پڑی:
”محبت کرتی ہوں تم سے۔ اپنے دل کو قابو میں رکھنا یہ میرے بس میں نہ تھا مگر پھر بھی میں خود کو بے بس نہیں سمجھتی۔
تم ہماری شادی سے پہلے مجھے ہاتھ نہیں لگا سکتے۔“ بسمہ نے اقرارِ محبت کے ساتھ ساتھ اپنے اختیارات بتاتے ہوئے مجھے خود سے دور رہنے کا فرمان بھی جاری کیا تھا۔ یہ سنتے ہی میرا دل عش عش کر اُٹھا۔ وہ جو کہیں ملتان کی گلی میں نکڑ کے ساتھ بیٹھا ہوا گر یہ کر رہا تھا وہ کھسکتا کھسکاتا ٹاؤن شپ آگیا ۔ اب ملتان کی جگہ ٹاؤن شپ میرے لیے مقدس تھا۔
چند منٹ کے اندر ہی میرے دل نے پارٹی بدل لی۔
”تم یہاں سے جاؤ کوئی آجائے گا۔“ بسمہ نے بڑی نزاکت کے ساتھ اگلا حکم دیا۔
”کیوں جاؤں․․․․․․میرے دل میں کوئی چور نہیں ہے۔“ میں اُلجھن سے بولا تھا۔
”پلیز میری خاطر․․․․․․کسی نے ہم دونوں کو کمرے میں ایک ساتھ دیکھ لیا تو میں بدنام ہو جاؤ ں گی۔“
بسمہ کی آواز میں سچائی تھی۔ میں نے نظر بھر کر اُسے دیکھا۔
وہ واقعی کسی اپسرا سے کم نہ تھی۔ میں کمرے سے نکلنے لگا تو بسمہ کے ایک جملے نے میرے قدم روک لیے ۔
”میں نے بڑی دعائیں مانگی تھیں کہ تمھاری ثانیہ سے شادی نہ ہو۔“میں نے پلٹ کر بسمہ کو دیکھا جس کے چہرے پر اعتماد تھا۔
”اگر تم سے میری شادی نہ ہوئی تو میں مرجاؤں گی۔“ میرا چہرہ کھل گیا۔ دل کے زخموں پر محبت کا مرہم ایسے لگا جس سے کوئی نشان باقی نہ بچا۔

Chapters / Baab of Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan