Episode 6 - Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر6 - دِل اَدل بَدل - شکیل احمد چوہان

کیدو سے یاد آیا میں میٹرک میں پڑھتا تھا۔ ہمارے ہیڈ ماسٹر یوسف صاحب بڑے ہی بھلے آدمی تھے۔ وہ میٹرک کے طالب علموں کو ہر سال بورڈ ایگزام شروع ہونے سے پہلے رات کو اسکول کی بلڈنگ میں مفت پڑھایا کرتے تھے۔ ہمارے میٹرک کے ایگزام کو ایک ہفتہ رہتا تھا۔ فروری کی ایک سرد رات تھی۔ ریاضی پڑھانے کے بعد چھٹی سے پہلے ماسٹرصاحب نے ہمیں خود کے لکھے ہوئے پنجابی کے چند اشعار سنائے جن میں ہیر رانجھا کا تذکرہ بھی تھا۔
شعر سنانے کے بعد سر نے ایسے ہی پوچھ لیا آپ لوگوں کا کیدو کے بارے میں کیا خیال ہے۔ سر اپنی چھڑی سے ہر لڑکے کی طرف اشارہ کرتے۔ وہ جلدی سے اپنی جگہ سے اُٹھ کر ایک جملے میں کیدو کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتا اور پھر بیٹھ جاتا :
”کیدو بڑا بے غیرت تھا جی۔

(جاری ہے)


”سر جی!!وہ بھنگ بھی پیتا تھا۔“
”محبت کرنے والوں کا دشمن تھا سر جی!!“
”اُس کا چال چلن ٹھیک نہیں تھا اِسی لیے تو اُس کی شادی نہیں ہوئی تھی۔


سر سمیت سب لڑکے ہنس پڑے۔ کوئی لڑکا بھی کیدو کواچھے کریکٹر کا سرٹیفیکیٹ دینے کو تیار نہ تھا۔
”ایسے لنگڑے بھنگی کو کون اپنی لڑکی دیتا․․․․․․؟“
”جو کچھ اُس نے کیا۔ میں تو اُس کی دوسری ٹانگ بھی توڑ دیتا۔“ ایک لڑکا جارحانہ انداز میں بولا۔ شکر ہے وہاں کیدو نہیں تھا۔ اُس کا غصہ دیکھ کر لگتا تھا اگر کیدو اُس وقت وہاں ہوتا تو میرا کلاس فیلو یہ کر بھی گزرتا۔

”محبت کرنے والوں کا قاتل تھا۔“
”سیدھی سی بات ہے سر جی!!وہ سیڈیا (ولن) تھا۔“ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے لڑکے نے کہا۔ سر نے اپنی چھڑی میری طرف تان دی جیسے ایک نالی شکار پر تانی جاتی ہے۔ میں کھڑا ہو گیا۔ سر نے مجھے آنکھوں سے بولنے کا اشارہ کیا۔
”سر جی! میرے نزدیک کیدو ایک غیرت مند شخص تھا۔“ کلاس کے تمام لڑکوں نے گردن موڑ کر مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔
کچھ کی آنکھوں میں خون بھی اُتر آیا تھا جیسے یہ اُ ن کی غیرت کا معاملہ ہو۔میں نے گھبرا کر سر جی کی طرف دیکھا جو مجھے سنجیدگی سے دیکھ رہے تھے۔ سر نے مجھے مخاطب کرکے پوچھا:
”بس یا اور بھی کچھ کہنا چاہتے ہو۔“
”نہیں سر جی میں تو بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں۔“ میں نے سینہ چوڑا کرکے جواب دیا۔ سر نے پھر سے اپنی آنکھوں سے اشارہ کیا کہ میں بولوں۔

”ہیر کیدو کے گھر کی عزت تھی۔ کوئی بھی غیرت مند آدمی کیسے برداشت کرسکتا ہے ایک کاما (نوکر) مالکوں کی بیٹی سے رنگ رلیاں مناتا پھرے۔ ہم میں سے اگر کوئی بھی کیدو کی جگہ ہوتا تو وہ وہی کرتا جو کیدو صاحب نے کیا۔ کیدو محبت کا دشمن نہیں․․․․․․غیرت کی علامت ہے۔“
میرے بازو پر زور کی ضرب لگی تھی۔ میں نے نیچے جھک کر دیکھا تو سر جی کی چھڑی میرے آگے پڑی ہوئی تھی۔
میں نے نظریں اُٹھائی ہی تھیں ہیڈ ماسٹر یوسف صاحب آنکھوں میں انگارے لیے میرے سامنے کھڑے تھے۔ انہوں نے ایک زور دار طمانچہ میرے گال پر رکھتے ہوئے کہا :
”وڈا کیدو دا حمایتی۔“
…#…
”کوئی اِس وقت مجھے زہر لادے تو میں وہ بھی کھالوں۔“ سندس نے اپنی بھوک کی شدت کی آخری حد بھی بیان کر دی تھی۔
”بسمہ میں کینٹین سے کچھ لے کر آتی ہوں۔
“ ندا کو یہ حل ہی سوجا تھا سندس کا منہ بند کروانے کے لیے ۔بسمہ نے بھی خاموشی سے اپنی رضا مندی دے دی تھی۔
”مجھے نہیں کھانا کینٹین سے کچھ بھی۔ کتنے کتنے دنوں کا باسی ہوتا ہے․․․․․․“ سندس کسی ضدی بچے کی طرح بھولی صورت بنا کر مجھے کہنے لگی :
”مہروز بھائی!! آپ کے ہوتے ہوئے ندا کچھ لاتے ہوئے اچھی لگے گی․․․․․․کیا؟“ وہ سندس کا طنز تھا یا سوال اُس وقت مجھے کچھ سمجھ نہ آئی تھی۔

”آخر کیا چاہتی ہو تم․․․․․․“ ندا نے بے زاری سے پوچھا۔
”پاس ہی راحت بیکری ہے وہاں چلتے ہیں نا۔ وہاں سے کچھ کھا کر آتے ہیں۔“سندس نے دل کے ارادے ظاہر کر دیئے۔
”تمھارا دماغ تو ٹھیک ہے۔ نانی اندر بیمار پڑی ہیں۔ ہم اُن کی تیمارداری کے لیے آئے ہیں اور تمھیں سیر سپاٹے سوجھ رہے ہیں۔“ بسمہ کا دودھ کی طرح سفید مکھڑا اُس وقت ٹماٹر کی طرح لال ہو گیا تھا۔
میں نے زندگی میں صرف ایک بار ہی بسمہ کو غصے میں دیکھا ہے اور وہ اُس دن دیکھا تھا۔
”راحت بیکری سے تم نے جو کھانا ہے وہ بتا دو، یہیں منگوا لیتے ہیں۔“ ندا نے جلدی سے اپنی تجویز پیش کی تھی، جو کہ بسمہ کو بالکل بھی پسند نہ آئی۔ بسمہ نے تیکھی نگاہ ندا پر ڈالی ۔
”یہ ٹھیک ہے۔“ سندس نے چٹکی بجاتے ہوئے اپنی رضا مندی ظاہر کر دی، ساتھ ہی جو کھانا تھا وہ بھی بول دیا :
”میں تو برگر کھاؤں گی۔

”میں بھی۔“ ندا نے بھی سندس کی ہاں میں ہاں ملا دی ۔ بسمہ نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ میں آج تک اُس کا وہ دیکھنا نہیں بھول سکا۔ جس میں سوال، معذرت، مجبوری اور سب سے بڑھ کر محبت تھی۔
”تم کیا کھاؤ گی․․․․․․؟“ میں نے بھی الفت ہی سے پوچھا۔
”جو تم کھلاؤ گے۔“ بسمہ نے بولنے میں کنجوسی سے کام لیا۔ مگر اُس کی نظریں اُس دن سخی تھیں۔
انہوں نے جی بھر کر مجھے دیکھا میں تو وہ کام بھی نہ کر سکا۔ میں تو سندس ہی سے ڈرتا رہا۔ مگر بسمہ کا ڈر ختم ہو چکا تھا۔ نبیل کے بقول میں تو محبت میں بھی نالائق للّو ہی تھا۔
”چلو چلو پیسے نکالو۔“ سندس کی آواز نے بسمہ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی۔
ندا نے اپنے پرس میں ہاتھ ڈالا ہی تھا کہ بسمہ نے فٹ سے پوچھ لیا:
”پیسے کیوں․․․․․․؟“ سندس نے حیرانی سے بسمہ کی طرف دیکھا۔

”مہروز بھائی کون سا ابھی کماتے ہیں۔“ سندس نے رُک رُک کر ایک ایک لفظ پر زور دیکر کہا۔
”کماتے نہ بھی ہوں۔ تمھیں برگر تو کھلا ہی سکتے ہیں۔“ بسمہ نے بڑے مان کے ساتھ سندس کو جواب دیا۔میں نے بسمہ کی آنکھوں میں دیکھا۔ وہ آنکھوں ہی سے بہت کچھ بول گئی تھی۔
…#…
میں مہروز ماجد آج ایک کامیاب بزنس مین ہوں مگر سالوں پہلے ایسا نہیں تھا۔
میری بائیس سال کی عمر میں انتہائی سادگی کے ساتھ شادی ہوئی تھی تب میرا نیا نیا ہی کالج ختم ہوا تھا۔ دو چھوٹی بہنیں ہیں جن کی شادیاں ہو چکی ہیں اور وہ دونوں اپنے گھروں میں خوش ہیں۔ ابّو کا چند سال پہلے انتقال ہو گیا۔ امّی میرے ساتھ رہتی ہیں۔ پہلے ہم گوالمنڈی کے چھوٹے سے گھر میں پانچ افراد رہتے تھے اور آج ڈیفنس کے بڑے سے بنگلے میں بھی پانچ افراد ہی رہتے ہیں۔
امی ،میں، میری بیگم اور میرے دو جڑواں بیٹے جودان اور ریحان۔ جودان کا بزنس کی طرف رجحان تھا۔ وہ حفیظ سینٹر میں ہمارا کاروبار دیکھتا ہے۔ اور ریحان پڑھنے میں لائق ہے اِسلیے وہ یونیورسٹی میں پڑھتا ہے۔ میں پڑھ پڑھ کر تھک گیا تھا۔ میں نے اسٹڈی روم کی کھڑکی کھولی ۔ ریحان کے کمرے کی لائٹ جل رہی تھی۔ میں اسٹڈی روم سے نکلا اور ریحان کے کمرے کی طرف چل پڑا۔

میں نے ریحان کے کمرے کے دروازے پر دستک دی۔
”آجائیں پاپا!!“ میں کمرے میں داخل ہوگیا۔ ریحان نے لیپ ٹاپ سے نظریں ہٹا کر میری طرف دیکھا ۔
”کس سے بات ہو رہی ہے۔“ میں نے اُس کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا ۔
”ملائکہ سے․․․․․․“ اُس نے لیپ ٹاپ میرے سامنے کرتے ہوئے بتایا۔
”کیسے ہیں انکل․․․․․․؟“ ملائکہ نے رات بارہ بجے کے بعد بھی گرم جوشی ہی دکھائی تھی۔
ملائکہ اور ریحان یونیورسٹی میں کلاس فیلو ہیں اور اُن دونوں کا گروپ بھی ایک ہی ہے۔ اِس سے پہلے میں کچھ بولتا ملائکہ نے اگلا سوال پوچھ لیا:
”انکل آپ سوئے نہیں ابھی تک“
”میں اپنے اسٹڈی روم میں تھا۔“
”آپ کیStoryابھی تک Completeنہیں ہوئی؟۔“ ملائکہ نے حیرت سے پوچھا۔
”پروف ریڈنگ کر رہا ہوں۔“
اِس سے پہلے کہ ملائکہ آج پھر سے میری کہانی کے بارے میں پوچھتی میں نے وہاں سے اُٹھنا ہی بہتر سمجھا۔ میں ریحان کے کمرے سے نکل کر اپنے اسٹڈی روم میں آگیا اور اپنی کہانی کا مسودہ لے کر پھر سے بیٹھ گیا۔

Chapters / Baab of Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan