Episode 19 - Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر19 - دِل اَدل بَدل - شکیل احمد چوہان

میں اپنے کمرے میں داخل ہوا تو ثانیہ ایک بچے کو فیڈر سے دودھ پلا رہی تھی جبکہ دوسرا جھولے میں سویا ہوا تھا۔ نبیل کے الفاظ میرے کانوں میں گونجے:
”ثانیہ میری بہن کے بچوں کی ماں بن گئی ہے۔ اِس لیے میں نے بھی اُسے بہن مان لیا ہے۔ تم بھی اُسے بیوی کے طور پر قبول کرلو۔“
تقریباً48گھنٹے پہلے عالی میرے ساتھ اِس کمرے میں تھی۔
اب اُس کی جگہ ثانیہ نے لے لی تھی۔ میرے دو بچوں کی ماں بن کر ۔ میں چپ چاپ صوفے پر بیٹھ گیا۔
”السلام علیکم ۔“ثانیہ نے مجھے سلام کیا تھا۔
میں نے اُس کے سلام کا جواب نہیں دیا اور خاموش ہی بیٹھا رہا۔ کوئی آدھے گھنٹے بعد ثانیہ نے ٹیوب لائٹ بند کرکے زیرو کا بلب جلا دیا تھا۔ میں بھی صوفے پر ہی لیٹ گیا۔ جب ثانیہ نے یہ دیکھا تو وہ بھی جھولے کی طرف منہ کرکے لیٹ گئی۔

(جاری ہے)

جس میں میرے دونوں بیٹے سوئے ہوئے تھے۔ کوئی آدھے گھنٹے بعد ثانیہ اپنے بیڈ سے اُٹھی اور اپنا کمبل اُٹھایا اور میرے اوپر ڈال دیا اور خود الماری کھول کر کچھ تلاش کرنے لگی۔ الماری کے اندر اُسے دو کھیس مل گئے تھے۔ ثانیہ نے اُن کو نکالا اور اپنے اوپر لیتے ہوئے لیٹ گئی۔ کوئی گھنٹے بعد میرا دوسرا بیٹا رو پڑا ۔ ثانیہ نے جلدی سے اُسے اُٹھایا، اپنے سینے سے لگایا اور اُسے بھی دوسرے فیڈر سے دودھ پلایا۔
وہ ثانیہ کی چھاتی کے ساتھ لگا لگا ہی سو گیا تو ثانیہ نے اُس کا بوسہ لیا اور اُسے پھر سے جھولے میں ڈال دیا۔
رات بھرمیں نے زیرو بلب کی روشنی میں آدھی کھلی اور آدھی بند آنکھوں کے ساتھ ثانیہ کو عالی کے بچوں کی ماں کے روپ میں دیکھا۔ ثانیہ نے اُس سلام کے علاوہ مجھ سے کوئی دوسری بات نہیں کی ۔میں نے تو اُسکے سلام کا جواب تک دینا مناسب نہیں سمجھا تھا۔

اگلی چند راتیں بھی اِسی طرح گزر گئیں میں صوفے پر پڑا رہتا اور ثانیہ کبھی بیڈ پر سو جاتی اور کبھی اُٹھ کر میرے بیٹوں کو سینے سے لگا کر سلانے لگتی۔ فرق صرف اتنا آیا تھا کہ پہلی رات ثانیہ کے اوپر دو کھیس اور اب ایک رضائی تھی۔ اِن چند راتوں میں نہ ثانیہ نے مجھے بلایا اور نہ ہی میں نے ثانیہ سے کوئی بات کی۔ سب گھر والوں کے ساتھ ثانیہ کا رویہ بڑا اچھا تھا، خاص طور پر میرے بیٹوں کے ساتھ۔
اُن پر تو وہ واری واری جاتی۔ وہ میں بھی پچھلی چند راتوں کے دوران خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔ کہاں ایک وہ ثانیہ جو اپنی ناک پر مکھی تک کو نہیں بیٹھنے نہیں دیتی تھی … اور ایک یہ ثانیہ جو میرے بیٹوں کا ناک منہ چومتے نہیں تھکتی تھی۔
…#…
چند دن بعد میں نانی کو ریلوے اسٹیشن ٹرین پر بٹھانے گیا۔
نانی ملتان جا رہی تھیں۔ ٹرین کے آنے میں ابھی وقت تھا۔ میں اور نانی پلیٹ فارم پر ٹرین کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ نانی نے میری طرف دیکھتے ہوئے بات شروع کی:
”میں جانتی ہوں تم نے اب تک ثانیہ کو بیوی کے طور پر قبول نہیں کیا․․․․․․بیٹا اب تم اُس کے ساتھ زیادتی کر رہے ہو․․․․․․وہ پہلے ہی بہت دُکھی ہے اُسے مزید دُکھ مت دو․․․․․․ اُسے اپنا بنا لو۔

”وہ تو دُکھ دینے والی ہے۔“ میں نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ نانی نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا اور پھر پوچھنے لگیں :
”کیا دُکھ دیا ہے اُس نے تمھیں․․․․․․؟ یہی نا کہ اُس نے تمھاری بجائے اُس موئے ڈیلر سے شادی کر لی․․․․․․اور بتاؤ․․․․․․؟ ہاں باپ کی تھانیداری پر اُس کو غرور ضرور تھا مگر اُس کے باپ کا رُتبہ اور عہدہ بھی اُس کا گھر نہیں بچا سکا۔
تمھیں پتہ ہے وہ ڈیلر اُسے شراب پی کر مارا کرتا تھا۔ جب عالی اور ثانیہ فون پر بات کرتی تھیں تو اُسے لگتا تھا کہ ثانیہ تم سے باتیں کرتی ہے۔ اُس کمینے نے ثانیہ پر بڑے ظلم ڈھائے ہیں․․․․․․یہاں نہ جاؤ، وہ نہ کرو، اُس سے نہ ملو․․․․․․بات بات پر رُوکا ٹوکی کرتا تھا وہ بے غیرت۔ ایک دن ٹیلی فون کا بل دیکھ کر ثانیہ سے کہنے لگا:
”اپنے یار کو لاہور کم فون کیا کرو․․․․․․“ ثانیہ نے صفائی دی کہ میں تو عالی سے بات کرتی ہوں تو غصے سے چلایا:
”ٹیلی فون کا بل تمھارا باپ دے گا۔
“ ثانیہ نے اُسے منع کیا کہ وہ اُس کے باپ کو بیچ میں مت لائے تو اُس نے ثانیہ کو بہت مارا۔ جب یہ خبرتیرے خالو طلعت کو پتہ چلی تو اُس نے خرم کی خوب مرمت کی۔خرم نے غصے میں آکر ثانیہ کو طلاق دے دی اور ملتان میں یہ خبر مشہور کر دی کہ ثانیہ کا اپنی خالہ کے بیٹے مہروز سے چکر تھا اِس لیے میں نے اُسے طلاق دی ہے۔ عالی کو لگتا تھا کہ اُس کی وجہ سے ہی ثانیہ کو طلاق ہوئی ہے۔
اس لیے وہ ثانیہ کا تم سے نکاح کروانا چاہتی تھی ۔عالی نے ثانیہ سے بھی بات کی تھی۔ پہلے تو اُس نے انکار کر دیا تھا پھر عالی کے سمجھانے پر وہ مان گئی مگر تم نہیں مانے تھے، اگر عالی زندہ ہوتی تو وہ بھی ثانیہ کے ساتھ تمھارا نکاح کروا کے ہی دم لیتی۔
مہروز بیٹا! ثانیہ تھوڑے غصے والی ہے۔سب کے ساتھ گھلتی ملتی نہیں، کھری بات کرتی ہے۔ سب کا اپنا اپنا مزاج ہوتا ہے اُس کا بھی ہے۔ اِن سب باتوں کے باوجود وہ دل کی بڑی اچھی ہے۔“انجن کی سیٹی بج گئی تھی۔ نانی کی ٹرین پلیٹ فارم پر آچکی تھی۔ اگر ٹرین نہ آتی تو نانی کی باتوں کا سلسلہ مزید چلتا۔ میں نے نانی کو ٹرین میں بٹھایا جب میں واپس آنے لگا تو نانی نے میرا ماتھا چوما اور بڑی محبت سے کہنے لگیں:
”ثانیہ کا خیال رکھنا۔“

Chapters / Baab of Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan