Last Episode - Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan

آخری قسط - دِل اَدل بَدل - شکیل احمد چوہان

میں صوفے پر لیٹا ہوا ثانیہ کو ہی دیکھ رہا تھا۔ اُس نے میرے بیٹے کو جھولے میں ڈالا ہی تھا کہ میں صوفے سے اُٹھ کر اُس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ ثانیہ اچانک مجھے اپنے سامنے دیکھ کر ڈر گئی ۔ اِس سے پہلے کہ میں کوئی بات شروع کرتا میرے بیٹے نے رونا شروع کر دیا۔
”یہ اُلّو کا پٹھا پھر سے اُٹھ گیا ہے۔“
”یہ بڑا نہیں چھوٹا ہے۔“ ثانیہ نے میرے بیٹے کو جھولے سے اُٹھاتے ہوئے کہا ۔

”بڑے چھوٹے کی پہچان کیسے کرتی ہو․․․․․․دونوں ایک جیسے ہی لگتے ہیں۔“
”ماں کو پہچان ہو جاتی ہے۔“ ثانیہ نے چھوٹے کو سینے سے لگاتے ہوئے ممتا کی آنکھ کے متعلق بتایا۔
”اِن کے نام نہیں رکھنے کیا․․․․․․؟“ میں نے پوچھا۔
”آپ کا موڈ ٹھیک ہو تو․․․․․․“ ثانیہ نے مجھ پر شکوے سے بھر پور نگاہ ڈالی۔

(جاری ہے)

میں تھوڑا سا شرمندہ ہوا ۔ چھوٹا سو گیا تو ثانیہ نے اُسے جھولے میں ڈالتے ہوئے کہا:
”عالی نے مجھے دو نام بتائے تھے۔


”تمھیں بتائے تھے․․․․․․؟“ مجھے حیرت کا شدید دھچکا لگا ۔ ثانیہ نے گردن کو بڑے فخر سے ہلاتے ہوئے کہا:
”بڑے کا نام ریحان اور چھوٹے کا جودان۔“
”تو پھر ٹھیک ہے بڑا ریحان اور چھوٹا جودان۔“ میں نے اُسی وقت عالی کے بتائے ہوئے ناموں پر تصدیق کی مہر لگا دی ۔ میں اور ثانیہ آمنے سامنے کھڑے تھے میں نے ہی بات شروع کی :
”Thank Youثانیہ․․․․․․“
”کس بات پر․․․․․․؟“
”میرے بچوں کی ماں بننے پر․․․․․․“
”ماں تو میں عالی کے بچوں کی بنی ہوں آپ کی تو صرف بیوی ہوں۔

”یہ کیا بات ہوئی ثانیہ․․․․․․؟“
”اب آپ مجھے ثانی بھی کہہ سکتے ہیں۔“
”اب کیوں کہہ سکتا ہوں۔“
”اب حق ہے آپ کے پاس … میں آپ کی بیوی ہوں۔ جس طرح آپ مجھ سے یک طرفہ محبت کرتے تھے۔ میں بھی اُسی طرح یک طرفہ خرم کو پسند کرتی تھی۔ مجھے لگتا تھا کہ اچھی زندگی گزارنے کے لیے روپیہ سب سے اہم ہوتا ہے۔ میں غلط تھی اور عالی ٹھیک تھی۔
عالی نے مجھ سے کہا تھا کہ شوہر بُرا ہو تو گاڑی بنگلے کاکیا کرنا۔ میں عالی کو فون پر اپنے بڑے بڑے دکھڑے سناتی اور وہ مجھے اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیاں بتاتی ۔ مجھے اُس پر بڑا رشک آتا تھا …“ ثانیہ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئی پھر کہنے لگی:”اگر آپ مجھے ثانیہ کی جگہ ثانی کہیں گے تو مجھے لگے گا کہ … آپ نے مجھے اپنی بیوی کے طور پر قبول کر لیا ہے۔
“ثانیہ نے مجھے یہ یقین دلا دیا تھا کہ وہ میری ہوگئی ہے۔ مجھے اُس سے اعتماد ملا۔ میں نے اُس کا ہاتھ تھام لیا ۔
…#…
بیس سال ہو چکے ہیں میری اور ثانی کی شادی کو، ہماری کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ ثا نی نے کبھی اس کی آرزو بھی نہیں کی۔ وہ تو ریحان اور جودان ہی کی ماں بنی رہی۔ وہ دونوں بھی مجھ سے زیادہ ثانی پر جان چھڑکتے ہیں۔

ثانی آج بھی مجھ سے اکثر عالی کی باتیں لے کر بیٹھ جاتی ہے۔ سچ کہوں تو وہ مجھ سے بھی زیادہ عالی کوجانتی اور چاہتی ہے۔ سُنا ہے جس سے انسان محبت کرتا ہو وہ اُس جیسا ہی ہو جاتا ہے ۔ مجھے تو اب ثانی بھی عالی جیسی ہی لگتی ہے۔ عالی جب بات کرتی تھی تو اُس کے اکثر جملوں میں ”جی“ آتا تھا۔ میں نے نوٹ کیا ہے اب ثانی بھی اکثر جی کا استعمال کرتی ہے۔
ثانی مجھے ”آپ“ کہہ کر بلاتی تھی۔ شادی کے بعد مجھے نہیں یاد پڑتا ثانی نے مجھے ”آپ“ کے علاوہ کبھی مخاطب کیا ہو۔ثانی کا کہنا ہے کہ عالی نے تو مجھے اپنی زندگی میں ہی قبول کر لیا تھا ۔ خالی یہ بات ہی کافی ہے اُس کی عظمت کو بیان کرنے کے لیے۔ثانی کبھی اچھے موڈ میں ہو تو مجھے عارفہ اور بسمہ کا نام لے کر بھی چھیڑتی ہے۔ بسمہ کے شوہر کا سال پہلے زیرِ تعمیر مکان کی چھت گرنے سے انتقال ہوگیا تھا۔
اب اُس کا بڑا بیٹا کاروبار دیکھتا ہے اور بسمہ کی بیٹی ملائکہ ریحان کی کلاس فیلو ہے۔ ہو سکتا ہے بسمہ میری سمدھن بن جائے۔
عارفہ کے اب تک دس بچے ہو چُکے ہیں۔ کتنے بیٹے اور کتنی بیٹیا ں، یہ مجھے بھی نہیں معلوم۔ تنویر سچ میں مشرقی شوہر ثابت ہوا ہے۔ نبیل اور فرزانہ بھابھی کے تین بچے ہیں۔ بیٹی سب سے بڑی ہے جس کا نام نبیل نے عالی رکھا ہے اور اُس سے چھوٹے دو بیٹے ہیں۔
میرا اور نبیل کاارادہ ہے کہ ہم جودان اور عالی کی شادی کریں گے۔
نبیل بھی اب ڈیفنس میں ہی شفٹ ہو گیا ہے۔ میں اور نبیل اب ہر ویک اینڈ پر اپنے اُسی پرانے محلے جاتے ہیں۔ نبیل نے اپنا وہ گھر کسی کو کرائے پر دے رکھا ہے۔ اُس آدمی نے اُس مکان میں ایک ریسٹورنٹ کھول لیا ہے۔ اب ہم دونوں چھت پر اُسی جگہ کرسیوں پر بیٹھتے ہیں۔ وہ الگ بات ہے کہ اب ہم دودھ کی جگہ بلیک کافی یا گرین ٹی پینے لگے ہیں۔
اب تو خلیل بھائی کی دکان سے بھی خالص دودھ نہیں ملتا۔ خالص دودھ تو اب بھینس کا کٹا یا پھر گائے کا بچھڑا ہی پیتے ہیں۔ اب کہاں لاہور میں خالص دودھ ملتا ہے۔
میں خود کو محبت کا چیمپئن سمجھتا تھا۔ آج میں اقرار کرتا ہوں کہ مجھے محبت کرنا عورتوں نے سکھایا۔ نانی اور امّی کی شکل میں۔ میری امی جنھوں نے میری زندگی بچانے کے لیے خلیل کے سامنے ہاتھ جوڑے تھے۔
کبھی بہنوں کی شکل میں جو خلیل کے پیروں میں میری خاطر بیڑیوں کی طرح لپٹ گئی تھیں۔
عالی․․․․․․ !اُسے کیسے بھول سکتا ہوں جو میری ڈھال بن گئی تھی ۔ثانی․․․․․․! جس کا کوئی ثانی نہیں۔ اُس نے میرے بچوں کی خاطر اپنی جوانی گال دی۔ عالی اور ثانی، اِن دونوں نے میری زندگی کو گلزار بنا دیا۔ عالی جس کے متعلق میں نے کبھی نہیں سوچا تھا وہ میری زندگی میں کیسے آئی اور جس کے بارے میں ہمیشہ سے ہی سوچا تھا وہ مجھے کیسے ملی۔انسان کیا سوچتا ہے اور کیا ہو جاتا ہے۔ آنے والے وقت کے بارے میں تو صرف میرا اللہ ہی جانتا ہے۔ ہمارے ارادے ہماری سوچیں سب دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا وہ کب کیسے دلوں کی اَدل بَدل کر دیتا ہے۔
…ختم شد…

Chapters / Baab of Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan