Episode 7 - Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan
قسط نمبر7 - دِل اَدل بَدل - شکیل احمد چوہان
میں کوٹ کی جیب میں تین سکے لیے ”تین برگر“ خریدنے کے لیے راحت بیکری پہنچا۔ میں نے جاتے ہی تین برگر کا آرڈر دے دیا۔ لڑکے نے تین برگر پیک کر کے 120 روپے کا بل کاٹ کے میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کاؤنٹر کی طرف اشارہ کر دیا۔ میں شاپنگ بیگ اُٹھائے کاؤنٹر پر پہنچا۔ بل کاؤنٹر پر دیا اور خود اپنی خالی جیبیں ٹٹولنے لگا۔ دو منٹ تک میں یہ ڈرامہ کرتا رہا۔ کاؤنٹر والا مجھے غور سے دیکھ رہا تھا کیونکہ میں کبھی بھی اچھا ایکٹر نہیں رہا تھا۔
”کاکا!! شاپر رکھ دے․․․․․․ اور پیسے لے آ․․․․․․ پھر لے جانا․․․․․․ برگر۔“ کاؤنٹر والے نے بڑے اسٹائل سے کہا۔ مجھے ایسے لگا جیسے اُس نے میری غربت کو گالی دی ہو۔ یہ سُننے کے بعد بھی میں شاپر نہیں رکھ سکتا تھا ۔
جتنے فخر سے میں نے اُس کو گھڑی پیش کی تھی۔ اُس سے کہیں زیادہ حقارت سے کاؤنٹر پر بیٹھا ہوا شخص بولا :
”کاکا! یہ بیکری ہے گھڑیوں کی دکان نہیں۔“
”آپ یہ گھڑی رکھ لیں میں 120روپے آپ کو دے جاؤں گا اور اپنی گھڑی لے جاؤں گا۔“
”اپنی گھڑی پکڑ، شاپر رکھ اور نکل․․․․․․“ اُس آدمی نے باقاعدہ میری بے عزتی کر دی تھی۔ میرا دل چاہا ایک زور سے لگا دوں اِس کے کان کے نیچے۔ غریب ہوا تو کیا ہے، ہوں تو گوالمنڈی سے۔ لیکن یہ بھی اِس مسئلے کا حل نہیں تھا۔ میں نے مفاہمت کا رستہ اختیار کیا اور بڑی معصومیت سے کہنے لگا :
”چاچا جی!! برگر مجھے کسی بھی قیمت پر لینے ہیں۔“
”ٹھیک ہے تو پھر تم یہ گھڑی مجھے 120میں بیچ دو۔ رات کو مالکوں کو حساب دیتے ہوئے 120روپے کی جگہ گھڑی تو نہیں دے سکتا… نا؟ گھڑی میں خود رکھ لیتا ہوں اور 120روپے اپنی جیب سے حساب میں ڈال دیتا ہوں۔“
”مگر یہ تو بالکل نئی ہے آج پہلی بار ہی پہنی ہے۔ اِس کی قیمت تو 120سے بہت زیادہ ہے۔“ میری باتوں سے اُس شخص کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اُس نے گھڑی میری طرف کر دی۔ میں نے گھڑی پکڑنے کی بجائے ۔وہ شاپر پکڑنا بہتر سمجھا جس میں تین برگر تھے۔ جب میں پلٹا تو وہی دو شیزہ جس سے میری ٹکر ہوئی تھی مجھے غور سے دیکھ رہی تھی۔ جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہی ہو۔
”Sorryمیں نے دیکھا نہیں تھا۔“ میں یہ بول کر چل پڑا ۔
”آپکا نام پوچھ سکتی ہوں․․․․․․؟“اُس دوشیزہ نے میرے باہر نکلنے سے پہلے ہی پوچھ لیا۔
”مہروز ماجد۔“
”آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔“
”مجھے بھی․․․․․․“ میں نے اُسے جواب دیا اور بیکری سے باہر نکل آیا۔ایک سو بیس کا بل دل کے اوپر لگی ہوئی جیب میں رکھ لیا۔
”تم اپنے لیے کچھ نہیں لائے․․․․․․“ بسمہ نے سنجیدگی کے ساتھ پوچھا۔ میں نے نفی میں گردن ہلائی ۔ بسمہ اُٹھ کر میرے پاس آگئی اور آدھا برگر مجھے دے کر کہنے لگی :
”آدھا آدھا کھا لیتے ہیں۔“
”تم کھاؤ مجھے بھوک نہیں ۔“
”مل جُل کے کھانے سے محبت بڑھتی ہے۔“ بسمہ نے شرماتے ہوئے کہا۔ سندس نے فوراً ہماری طرف نظریں اُٹھا کر دیکھا۔ اب مجھے بھی سندس کے دیکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔ میں نے زندگی میں بڑے برگرکھائے مگر اُس آدھے برگر کا ذائقہ ہی کچھ اور تھا۔ شائد اُس پر بسمہ کے ہاتھ لگے تھے۔ برگر ختم کرنے کے بعد بسمہ بول پڑی :
”ندا تم سندس کے پاس بیٹھو میں اور مہروز تم دونوں کے لیے کینٹین سے چائے لے کر آتے ہیں۔“ بسمہ اپنی جگہ سے اُٹھی اور باغیچے سے ایک گلاب کا پھول توڑ لائی اور بڑے اعتماد سے مجھے پیش کر دیا۔ میں نے سندس اور ندا کی طرف دیکھا اور پھر بسمہ کے ہاتھ سے وہ پھول لے لیا۔ بسمہ نے اپنی محبت کا اعلان کر دیا تھا۔ میں بسمہ کی عزت کی وجہ سے بزدل بنا ہوا تھا۔ بسمہ کی محبت نے مجھے بہادر بنا دیا۔بسمہ نے اپنی نازک ہتھیلی میری طرف بڑھا دی۔ میں نے گلاب کا پھول دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ میں منتقل کیا۔ اپنا ہاتھ اُس کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ بسمہ کی ہتھیلی گلاب کی پتیوں ہی کی طرح نرم تھی۔ میں آج بھی اپنے ہاتھ پر بسمہ کا لمس محسوس کرتا ہوں۔ میں اپنی جگہ سے اُٹھ گیا اور بسمہ کے ساتھ ساتھ چل پڑا۔ چائے تو ایک بہانہ تھی۔ ہم دونوں سندس اور ندا کے سامنے کچھ فاصلے پر بیٹھ کر باتوں میں مشغول ہوگئے۔
”مہروز!! تایا جی نے اجمل کے لیے میرا رشتہ مانگا ہے۔ امی نے یہ کہہ کے بات ٹال دی ہے کہ ابھی میں پڑھ رہی ہوں۔ تم بھی تو کچھ کرو۔“
”امی اور نانی کو رشتے کے لیے بھیج دیتا ہوں ․․․․․․“میں نے فٹ سے جواب دیا۔
”کچھ کام کرو۔ اجمل کا شٹرنگ کا کاروبار ہے․․․․․․اچھے خاصے پیسے کماتا ہے․․․․․․ وہ۔“
”میرا آخری سمیسٹر چل رہا ہے․․․․․․پڑھائی چھوڑ کر کام کیسے کروں․․․․․․؟“ میری گردن پر ایک زور دار تھپڑ پڑا ۔ایک لمحے کے لیے تو میرے طوطے ہی اُڑ گئے ۔پلٹ کر دیکھتاہوں تو خالو کھڑے تھے۔ خالو رشید نے تلوار سے زیادہ تیز نظروں سے بسمہ کی طرف دیکھا۔ وہ خاموشی سے گردن جھکائے وہا ں سے چپ چاپ ہی خالو کے آگے لگ کے چل پڑی۔ خالو رشید مجھے دو چار اور لگا دیتے اگر میں پبلک پلیس پر نہ ہوتا۔ اِس بے عزتی کے بعد نانی سے ملنے کی بھی ہمت نہ ہوئی۔ میں گردن جھکا ئے کینٹ سے پیدل ہی گوالمنڈی کی طرف چل پڑا ۔
کنال روڑ سے مال پر چڑھتے ہوئے میں نے نہر کی طرف دیکھا جس میں گندا پانی بہے جا رہا تھا۔ میرا دل چاہا کہ اِس گندے پانی میں چھلانگ لگا کر جان دے دوں مگر یہ تو چھوٹی سی نہر تھی۔ یہ صرف مجھے گیلا کرتی، ڈبو نہیں سکتی تھی، کیونکہ میں بڑا اچھا تیراک بھی تھا۔تیراک نہ بھی ہوتا ڈھیٹ عاشق ایسے تھوڑی مر جاتے ہیں۔ جب تک وہ اپنے حصے کی رسوائی نہ پی لیں … تب تک نہر کا گندا پانی بھی اُن کی حلق میں نہیں جا سکتا۔
ایک ماہر تیراک ہونے کے باوجود بھی میں طبقاتی نہر کو پار نہیں کرسکا ۔ جہاں محبت سے زیادہ انسانوں کے لیے دولت اہم ہوتی ہے۔ وہ تین سکے میں نے اُسی گندے پانی میں پھینک دیئے تھے۔
”وہ گھڑی کہاں ہے․․․․․․؟“
”کون سی گھڑی․․․․․․؟“
”جو عارفہ نے تمھیں تحفے میں دی تھی۔“ میں نے اپنے ابّو جی کو بھی کبھی اتنے غصے میں نہیں دیکھا تھا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ابّو کو کسیے پتہ چلا کہ میں نے وہ گھڑی 120روپے میں بیچ دی ہے۔ میں ذہن پر زور دے کر سوچ رہا تھا۔ بیکری میں ابّو کا کون سا واقف تھا جس نے میرے آنے سے پہلے ہی یہ خبر ابو کو سُنا دی ہے۔
”بیٹا بتا دو․․․․․․“ امی نے شفقت سے پوچھا۔
”وہ ․․․․․․نانی کی دوائی․․․․․․“ میں کوئی بہانہ تلاش کر رہا تھا۔
”کیا ہوا ماں جی کو ․․․․․․ وہ ٹھیک تو ہیں نا۔“ امی تو فوراً نرم پڑ گئیں ۔ ابو بھی کچھ حد تک ٹھنڈے ہوگئے تھے۔
”نانی بالکل ٹھیک ہیں․․․․․․آپ فکر نہ کریں۔“ میں نے امی کا ہاتھ تھامتے ہوئے اُنہیں تسلی دی۔
”الّو کے پٹھے․․․․․․اُس گھڑی کی وجہ سے ․․․․․․تنویر نے عارفہ سے شادی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔“
”ابو جی میں سمجھا نہیں۔“
”سُن رہی ہو․․․․․․مہروز کی ماں․․․․․․یہ سمجھا نہیں کیسا بھولا بنا بیٹھا ہے۔“ امی نے میری طرف شکایتی نظروں سے دیکھا پھر کہنے لگیں :
میں نے اور ماں جی نے جس دن تم سے پوچھا تھا، تم اُسی دن بتا دیتے کہ تم اور عارفہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہو۔ کوئی لڑکی کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو عارفہ سے اچھی تو نہیں ہو سکتی نا۔“
”امی جی!!آپ غلط سمجھ رہی ہیں․․․․․․میرے اور عارفہ کے درمیان ایسا ویسا کچھ نہیں ہے۔“
”ایسا ویسا کچھ نہیں ہے تو پھر سالوں سے اُس سے تحفے کیوں لے رہے ہو۔ اُس نے تو بتایا ہے کہ جو کپڑے آج تم پہن کر گئے ہو۔ وہ سارے اُسی نے تمھیں گفٹ کیے ہیں۔ یہ پینٹ شرٹ ، بیلٹ، کوٹ، صرف بوٹ تم نے میرے پیسوں سے خریدے ہیں۔“ میں نے خود کے سراپے پر واجبی سی نظر دوڑائی۔ بات تو ابو جی کی ٹھیک ہی تھی۔
”مہروزکی ماں اِسے کھانا دو۔“ ابو جی یہ بول کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔ بھوک کس کافر کو تھی۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر ماجرہ کیا ہے۔ میں نے امّی سے درخواست کی :
”امّی مجھے ساری بات بتائیں․․․․․․؟“
”پہلے تم مجھے ساری بات بتاؤ۔“ امی نے اُلٹا مجھ سے پوچھ لیا ۔
”میں کیا بتاؤں․․․․․․؟“ میں نے کھُلے منہ کے ساتھ پوچھا۔
”مہروز مجھے تم سے یہ اُمید نہ تھی۔“ امّی نے شکایتی انداز میں یہ کہا اور باورچی خانے میں چلی گئیں۔ تھوڑی دیر بعد میرے سامنے مونگ کی دال اور دو روٹیاں پڑی ہوئی تھیں۔
”کھانا کھا کے برتن باورچی خانے میں رکھ دینا۔“ امّی نے اپنے کمرے میں جاتے ہوئے کہا۔
آدھا برگر کھانے کے بعد میں پاگل تھا جو مونگ کی دال کھاتا۔ میں نے اُسی طرح برتن اُٹھائے اور باورچی خانے میں جا کے رکھ دیئے۔ ساری رات مجھے بسمہ کا چہرہ دکھائی دیتا رہا۔ بسمہ کاباپ سمجھ کر میں نے خالو رشید کو بھی معاف کر دیا تھا۔ اگروہ بسمہ کا باپ نہ ہوتا تو اُس کی ایسی کی تیسی کہ وہ مجھے تھپڑ مار دیتا۔ امّی ابّو کی ناراضی اُن کے غصے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔ تایا کی بڑی بیٹی کلثوم کی جب بھی اپنے سسرال والوں سے اَن بَن ہوتی تو تنویر اور عارفہ کا رشتہ ٹوٹ جاتا تھا۔کلثوم کی صلح کے ساتھ ہی آٹو میٹیک ہی عارفہ اور تنویر کا رشتہ پھر سے ہو جاتا۔ یہ روٹین کی بات تھی۔
”کاکا!! شاپر رکھ دے․․․․․․ اور پیسے لے آ․․․․․․ پھر لے جانا․․․․․․ برگر۔“ کاؤنٹر والے نے بڑے اسٹائل سے کہا۔ مجھے ایسے لگا جیسے اُس نے میری غربت کو گالی دی ہو۔ یہ سُننے کے بعد بھی میں شاپر نہیں رکھ سکتا تھا ۔
(جاری ہے)
ایک لمحے سوچا دوڑ لگا دوں پھر خیال آیا پکڑا گیا تو کسی کا مان ٹوٹ جائے گا۔
کروں تو کیا کروں․․․․․․؟ میں اپنی سوچوں میں گُم تھا ۔میں پلٹا تو ایک دو شیزہ مجھ سے ٹکرائی میرے بائیں ہاتھ کی کلائی اُس حسینہ کے کندھے پر لگی۔ غلطی پتہ نہیں کس کی تھی۔ اُس کا بڑا پن یہ تھا اُس نے مجھ پر چڑھائی کرنے کی بجائے Sorry کہا، بل دیا اور وہاں سے چلی گئی۔ میں نے نظروں سے اُس کا تعاقب کیا تو پتہ چلا گاڑی میں ایک خوبصورت نوجوان اُس کا منتظر تھا۔ اُس دوشیزہ کے بیکری سے باہر جاتے ہی اُس نوجوان نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی دروازہ کھولا۔ وہ جلدی سے گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے چلی گئی۔ جب میری کلائی اُس دوشیزہ کے کندھے سے لگی تھی تبھی مجھے احساس ہوا میرے ہاتھ میں تو CASIOکی برینڈ نیو گھڑی بندھی پڑی ہے۔ میں نے وہ گھڑی اُتاری اور کاؤنٹر پر بیٹھے ہوئے شخص کو بل کے ساتھ دے دی۔جتنے فخر سے میں نے اُس کو گھڑی پیش کی تھی۔ اُس سے کہیں زیادہ حقارت سے کاؤنٹر پر بیٹھا ہوا شخص بولا :
”کاکا! یہ بیکری ہے گھڑیوں کی دکان نہیں۔“
”آپ یہ گھڑی رکھ لیں میں 120روپے آپ کو دے جاؤں گا اور اپنی گھڑی لے جاؤں گا۔“
”اپنی گھڑی پکڑ، شاپر رکھ اور نکل․․․․․․“ اُس آدمی نے باقاعدہ میری بے عزتی کر دی تھی۔ میرا دل چاہا ایک زور سے لگا دوں اِس کے کان کے نیچے۔ غریب ہوا تو کیا ہے، ہوں تو گوالمنڈی سے۔ لیکن یہ بھی اِس مسئلے کا حل نہیں تھا۔ میں نے مفاہمت کا رستہ اختیار کیا اور بڑی معصومیت سے کہنے لگا :
”چاچا جی!! برگر مجھے کسی بھی قیمت پر لینے ہیں۔“
”ٹھیک ہے تو پھر تم یہ گھڑی مجھے 120میں بیچ دو۔ رات کو مالکوں کو حساب دیتے ہوئے 120روپے کی جگہ گھڑی تو نہیں دے سکتا… نا؟ گھڑی میں خود رکھ لیتا ہوں اور 120روپے اپنی جیب سے حساب میں ڈال دیتا ہوں۔“
”مگر یہ تو بالکل نئی ہے آج پہلی بار ہی پہنی ہے۔ اِس کی قیمت تو 120سے بہت زیادہ ہے۔“ میری باتوں سے اُس شخص کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اُس نے گھڑی میری طرف کر دی۔ میں نے گھڑی پکڑنے کی بجائے ۔وہ شاپر پکڑنا بہتر سمجھا جس میں تین برگر تھے۔ جب میں پلٹا تو وہی دو شیزہ جس سے میری ٹکر ہوئی تھی مجھے غور سے دیکھ رہی تھی۔ جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہی ہو۔
”Sorryمیں نے دیکھا نہیں تھا۔“ میں یہ بول کر چل پڑا ۔
”آپکا نام پوچھ سکتی ہوں․․․․․․؟“اُس دوشیزہ نے میرے باہر نکلنے سے پہلے ہی پوچھ لیا۔
”مہروز ماجد۔“
”آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔“
”مجھے بھی․․․․․․“ میں نے اُسے جواب دیا اور بیکری سے باہر نکل آیا۔ایک سو بیس کا بل دل کے اوپر لگی ہوئی جیب میں رکھ لیا۔
…#…
”بہت ٹیسٹی ہے․․․․․․مزہ آ گیا“ سندس نے برگر کی پہلی بائیٹ لیتے ہی کہہ دیا تھا۔بسمہ نے اپنے برگر کے اوپر سے سفید کاغذ کا لباس اُتارتے ہوئے میری طرف دیکھا۔ میں اُس کو محبت سے دیکھ رہا تھا۔”تم اپنے لیے کچھ نہیں لائے․․․․․․“ بسمہ نے سنجیدگی کے ساتھ پوچھا۔ میں نے نفی میں گردن ہلائی ۔ بسمہ اُٹھ کر میرے پاس آگئی اور آدھا برگر مجھے دے کر کہنے لگی :
”آدھا آدھا کھا لیتے ہیں۔“
”تم کھاؤ مجھے بھوک نہیں ۔“
”مل جُل کے کھانے سے محبت بڑھتی ہے۔“ بسمہ نے شرماتے ہوئے کہا۔ سندس نے فوراً ہماری طرف نظریں اُٹھا کر دیکھا۔ اب مجھے بھی سندس کے دیکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔ میں نے زندگی میں بڑے برگرکھائے مگر اُس آدھے برگر کا ذائقہ ہی کچھ اور تھا۔ شائد اُس پر بسمہ کے ہاتھ لگے تھے۔ برگر ختم کرنے کے بعد بسمہ بول پڑی :
”ندا تم سندس کے پاس بیٹھو میں اور مہروز تم دونوں کے لیے کینٹین سے چائے لے کر آتے ہیں۔“ بسمہ اپنی جگہ سے اُٹھی اور باغیچے سے ایک گلاب کا پھول توڑ لائی اور بڑے اعتماد سے مجھے پیش کر دیا۔ میں نے سندس اور ندا کی طرف دیکھا اور پھر بسمہ کے ہاتھ سے وہ پھول لے لیا۔ بسمہ نے اپنی محبت کا اعلان کر دیا تھا۔ میں بسمہ کی عزت کی وجہ سے بزدل بنا ہوا تھا۔ بسمہ کی محبت نے مجھے بہادر بنا دیا۔بسمہ نے اپنی نازک ہتھیلی میری طرف بڑھا دی۔ میں نے گلاب کا پھول دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ میں منتقل کیا۔ اپنا ہاتھ اُس کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ بسمہ کی ہتھیلی گلاب کی پتیوں ہی کی طرح نرم تھی۔ میں آج بھی اپنے ہاتھ پر بسمہ کا لمس محسوس کرتا ہوں۔ میں اپنی جگہ سے اُٹھ گیا اور بسمہ کے ساتھ ساتھ چل پڑا۔ چائے تو ایک بہانہ تھی۔ ہم دونوں سندس اور ندا کے سامنے کچھ فاصلے پر بیٹھ کر باتوں میں مشغول ہوگئے۔
”مہروز!! تایا جی نے اجمل کے لیے میرا رشتہ مانگا ہے۔ امی نے یہ کہہ کے بات ٹال دی ہے کہ ابھی میں پڑھ رہی ہوں۔ تم بھی تو کچھ کرو۔“
”امی اور نانی کو رشتے کے لیے بھیج دیتا ہوں ․․․․․․“میں نے فٹ سے جواب دیا۔
”کچھ کام کرو۔ اجمل کا شٹرنگ کا کاروبار ہے․․․․․․اچھے خاصے پیسے کماتا ہے․․․․․․ وہ۔“
”میرا آخری سمیسٹر چل رہا ہے․․․․․․پڑھائی چھوڑ کر کام کیسے کروں․․․․․․؟“ میری گردن پر ایک زور دار تھپڑ پڑا ۔ایک لمحے کے لیے تو میرے طوطے ہی اُڑ گئے ۔پلٹ کر دیکھتاہوں تو خالو کھڑے تھے۔ خالو رشید نے تلوار سے زیادہ تیز نظروں سے بسمہ کی طرف دیکھا۔ وہ خاموشی سے گردن جھکائے وہا ں سے چپ چاپ ہی خالو کے آگے لگ کے چل پڑی۔ خالو رشید مجھے دو چار اور لگا دیتے اگر میں پبلک پلیس پر نہ ہوتا۔ اِس بے عزتی کے بعد نانی سے ملنے کی بھی ہمت نہ ہوئی۔ میں گردن جھکا ئے کینٹ سے پیدل ہی گوالمنڈی کی طرف چل پڑا ۔
کنال روڑ سے مال پر چڑھتے ہوئے میں نے نہر کی طرف دیکھا جس میں گندا پانی بہے جا رہا تھا۔ میرا دل چاہا کہ اِس گندے پانی میں چھلانگ لگا کر جان دے دوں مگر یہ تو چھوٹی سی نہر تھی۔ یہ صرف مجھے گیلا کرتی، ڈبو نہیں سکتی تھی، کیونکہ میں بڑا اچھا تیراک بھی تھا۔تیراک نہ بھی ہوتا ڈھیٹ عاشق ایسے تھوڑی مر جاتے ہیں۔ جب تک وہ اپنے حصے کی رسوائی نہ پی لیں … تب تک نہر کا گندا پانی بھی اُن کی حلق میں نہیں جا سکتا۔
ایک ماہر تیراک ہونے کے باوجود بھی میں طبقاتی نہر کو پار نہیں کرسکا ۔ جہاں محبت سے زیادہ انسانوں کے لیے دولت اہم ہوتی ہے۔ وہ تین سکے میں نے اُسی گندے پانی میں پھینک دیئے تھے۔
…#…
دکھی دل کے ساتھ ہاسپٹل سے گھر پہنچا تو ابو جی کی کڑکتی آواز نے میرا استقبال کیا تھا :”وہ گھڑی کہاں ہے․․․․․․؟“
”کون سی گھڑی․․․․․․؟“
”جو عارفہ نے تمھیں تحفے میں دی تھی۔“ میں نے اپنے ابّو جی کو بھی کبھی اتنے غصے میں نہیں دیکھا تھا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ابّو کو کسیے پتہ چلا کہ میں نے وہ گھڑی 120روپے میں بیچ دی ہے۔ میں ذہن پر زور دے کر سوچ رہا تھا۔ بیکری میں ابّو کا کون سا واقف تھا جس نے میرے آنے سے پہلے ہی یہ خبر ابو کو سُنا دی ہے۔
”بیٹا بتا دو․․․․․․“ امی نے شفقت سے پوچھا۔
”وہ ․․․․․․نانی کی دوائی․․․․․․“ میں کوئی بہانہ تلاش کر رہا تھا۔
”کیا ہوا ماں جی کو ․․․․․․ وہ ٹھیک تو ہیں نا۔“ امی تو فوراً نرم پڑ گئیں ۔ ابو بھی کچھ حد تک ٹھنڈے ہوگئے تھے۔
”نانی بالکل ٹھیک ہیں․․․․․․آپ فکر نہ کریں۔“ میں نے امی کا ہاتھ تھامتے ہوئے اُنہیں تسلی دی۔
”الّو کے پٹھے․․․․․․اُس گھڑی کی وجہ سے ․․․․․․تنویر نے عارفہ سے شادی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔“
”ابو جی میں سمجھا نہیں۔“
”سُن رہی ہو․․․․․․مہروز کی ماں․․․․․․یہ سمجھا نہیں کیسا بھولا بنا بیٹھا ہے۔“ امی نے میری طرف شکایتی نظروں سے دیکھا پھر کہنے لگیں :
میں نے اور ماں جی نے جس دن تم سے پوچھا تھا، تم اُسی دن بتا دیتے کہ تم اور عارفہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہو۔ کوئی لڑکی کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو عارفہ سے اچھی تو نہیں ہو سکتی نا۔“
”امی جی!!آپ غلط سمجھ رہی ہیں․․․․․․میرے اور عارفہ کے درمیان ایسا ویسا کچھ نہیں ہے۔“
”ایسا ویسا کچھ نہیں ہے تو پھر سالوں سے اُس سے تحفے کیوں لے رہے ہو۔ اُس نے تو بتایا ہے کہ جو کپڑے آج تم پہن کر گئے ہو۔ وہ سارے اُسی نے تمھیں گفٹ کیے ہیں۔ یہ پینٹ شرٹ ، بیلٹ، کوٹ، صرف بوٹ تم نے میرے پیسوں سے خریدے ہیں۔“ میں نے خود کے سراپے پر واجبی سی نظر دوڑائی۔ بات تو ابو جی کی ٹھیک ہی تھی۔
”مہروزکی ماں اِسے کھانا دو۔“ ابو جی یہ بول کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔ بھوک کس کافر کو تھی۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر ماجرہ کیا ہے۔ میں نے امّی سے درخواست کی :
”امّی مجھے ساری بات بتائیں․․․․․․؟“
”پہلے تم مجھے ساری بات بتاؤ۔“ امی نے اُلٹا مجھ سے پوچھ لیا ۔
”میں کیا بتاؤں․․․․․․؟“ میں نے کھُلے منہ کے ساتھ پوچھا۔
”مہروز مجھے تم سے یہ اُمید نہ تھی۔“ امّی نے شکایتی انداز میں یہ کہا اور باورچی خانے میں چلی گئیں۔ تھوڑی دیر بعد میرے سامنے مونگ کی دال اور دو روٹیاں پڑی ہوئی تھیں۔
”کھانا کھا کے برتن باورچی خانے میں رکھ دینا۔“ امّی نے اپنے کمرے میں جاتے ہوئے کہا۔
آدھا برگر کھانے کے بعد میں پاگل تھا جو مونگ کی دال کھاتا۔ میں نے اُسی طرح برتن اُٹھائے اور باورچی خانے میں جا کے رکھ دیئے۔ ساری رات مجھے بسمہ کا چہرہ دکھائی دیتا رہا۔ بسمہ کاباپ سمجھ کر میں نے خالو رشید کو بھی معاف کر دیا تھا۔ اگروہ بسمہ کا باپ نہ ہوتا تو اُس کی ایسی کی تیسی کہ وہ مجھے تھپڑ مار دیتا۔ امّی ابّو کی ناراضی اُن کے غصے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔ تایا کی بڑی بیٹی کلثوم کی جب بھی اپنے سسرال والوں سے اَن بَن ہوتی تو تنویر اور عارفہ کا رشتہ ٹوٹ جاتا تھا۔کلثوم کی صلح کے ساتھ ہی آٹو میٹیک ہی عارفہ اور تنویر کا رشتہ پھر سے ہو جاتا۔ یہ روٹین کی بات تھی۔
Chapters / Baab of Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan

روشن اندھیرے
Roshan Andhere

جُرم مسلماں
Jurm e Musalman

سب رَس
Sab Ras

قطرہ قطرہ قُلزم
Qatra Qatra Qulzam

دیوداس
Devdas

ایک معمولی لڑکی
Ek Mamuli Larki

بھیگی پلکوں پر
Bheegi palkon par

بند قُبا کھلنے لگی جاناں
Band e Quba Khulnay Lagi Jana
NovelAfsaneIslamicHistoryTravelogueAutobiographyUrdu LiteratureHumorousPoliticsSportsHealthPersonalitiesColumn And ProseSend Your Books & Requests