Episode 10 - Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر10 - دِل اَدل بَدل - شکیل احمد چوہان

”تم میرے پیچھے کیوں پڑی ہو․․․․․․؟“ میں نے چیختے ہوئے عارفہ سے کہا تھا۔ اُس کے ہونٹوں پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
”اب تو تمھارے گلے پڑ گئی ہوں۔“ عارفہ نے بڑے فخر سے کہا۔ جیسے مجھے فتح کیا ہو۔ میں نے مری ہوئی آواز میں اُسے یاد کرایا:
”ہماری شادی نہیں ہوئی ابھی تک۔“
”دن رکھے گئے ہیں شادی بھی ہو ہی جائے گی۔

”میں تم سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔“ میں نے دو ٹوک کہہ دیا ۔
”مجھے تم سے محبت ہے اور میں تم سے ہی شادی کرنا چاہتی ہوں۔“ عارفہ نے الفت سے کہا۔ میں ہلکا سا مسکرایا۔
”مسکرا کیوں رہے ہو۔“ عارفہ نے فوراً پوچھا۔
”اس لیے کے دو مردوں کے ہونٹوں سے مسکراہٹ چھین لی ہے تم نے۔“ میری بات سُن کر عارفہ ٹس سے مس نہیں ہوئی۔

(جاری ہے)

اب عارفہ کے ہونٹوں پر تبسم تھا۔


”تنویر کی بات تو رہنے ہی دو۔“ عارفہ نے بے رُخی سے کہا ۔
”کیا قصور تھا اُسکا․․․․․․؟“ میں نے نرمی سے پوچھا۔
”اوئے!․․․․․․تم مجھے بتاؤ میرا کیا قصور ہے․․․․․․؟ تنویر کو میں نے تمھارے لیے چھوڑا ہے․․․․․․ایک تم ہوکے کبھی محبت کے ساتھ میری طرف دیکھا بھی نہیں۔“ عارفہ جذباتی ہو گئی تھی۔ میں مزید کچھ کہے وہاں سے اُٹھ گیا۔

”اوئے! کہاں جا رہے ہو․․․․․․؟“ عارفہ نے بے قراری سے پوچھا ۔
”ہال روڈ․․․․․․“
”ٹی وی تو ٹھیک کرتے جاؤ․․․․․․“
”ٹی وی تو ٹھیک ہو جائے گا زندگی کا کیا․․․․․․؟عارفہ تم نے اپنی ضد کی خاطر میری اور تنویر کی زندگی برباد کر دی ہے۔“ میں نے ٹی وی ٹھیک کیا اور اپنی راہ پکڑی۔
…#…
چند دن بعد ایک دن میں اضطراب کے عالم میں چھت پر ٹہل رہا تھا۔
نبیل عالی کے جہیز کا سامان چھوڑنے کے لیے گوجرانوالہ گیا ہوا تھا۔ آنے والے جمعہ کو میراعارفہ سے نکاح ہونا تھا۔ اُس سے دو دن بعد اتوار کو عالی کی بارات تھی۔ سردی کے باوجود میرا نیچے جانے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔ مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ نانی میرے کمرے میں میرے انتظار میں بیٹھی ہوئی ہیں۔
عالی چینی کے پیالے کو ٹرے میں رکھے ہوئے نمودار ہوئی۔

”مہروز میں آپ کے لیے گرم دودھ لائی ہوں۔“
”کیوں لائی ہو تم میرے لیے گرم دودھ۔“ میں نے گرمی کھاتے ہوئے جواب دیا۔ عالی کے چہرے پر سنجیدگی بڑھ گئی۔․
”دل میرا چاہ رہا تھا جی اور حکم اماں نے دے دیا۔“
”جاؤ لے جاؤ دودھ میں نے نہیں پینا۔“میں نے کرخت لہجے میں کہا ۔
”آپ عارفہ سے شادی نہیں کرنا چاہتے نا․․․․․․؟“عالی نے معصومیت سے پو چھا۔
میں نے غصے سے اُس کی طرف دیکھا تھا۔ میرے غصے سے عالی کے رویے میں کوئی فرق نہیں آیا وہ اُسی سنجیدگی کے ساتھ کہنے لگی:
”آپ عارفہ سے شادی نہیں کرنا چاہتے اور میں انور سے ۔“
”تم نیچے جاؤ تمھارے گھر والے کیا سوچیں گے۔“میں غصے میں چلایا۔
”میرے گھر والوں کو مجھ پر اعتماد ہے۔“عالی نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بڑے اعتماد کے ساتھ جواب دیا۔

”اگر یہی حرکتیں رہیں تو اعتماد اُٹھ جائے گا۔“
”محبت اعتماد کا دوسرا نام ہے․․․․․․ آپ پر اعتماد نہ ہوتا تو کیسے کرتی محبت․․․․․․؟“
”تم اپنی بکواس بند کرو اور دفع ہو جاؤ یہاں سے۔“ میں آپے سے باہر ہو گیا ۔
”میں انور کی دلہن نہیں بنوں گی اور عارفہ کو آپ کی بننے نہیں دوں گی۔“ عالی نے بڑے تحمل اور یقین سے کہا اور نیچے چلی گئی۔
میری پریشانی میں اور اضافہ ہو گیا تھا۔
…#…
ہمارے گھر میں میرے نکاح کی تیاریاں زورو شور سے چل رہی تھیں۔ امّی اور میری بہنیں گھر کی صفائی ستھرائی میں مصروف تھیں۔ میں کمروں کی سفیدی کے بعد صحن میں سفیدی کر رہا تھا ۔ عالی خالی ہاتھ مجھے سیڑھیاں اُترتی ہوئی دکھائی دی۔
”چاچی جی! آپ کی بہن کا ملتان سے فون آیا تھا۔
وہ دس منٹ بعد دوبارہ فون کریں گی۔“
”خیریت تو ہے عالی بیٹا! “نانی نے چاول چُنتے ہوئے گردن اُٹھا کر فکر مندی سے پوچھا۔
”بی بی جی خیریت ہی ہے۔ انہوں نے کوئی ضروری بات کرنی ہے۔“ عالی نے سکون سے میری طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ میں پہلے ہی سے اُسے دیکھ رہا تھا۔ نانی کی نگاہوں سے ہماری اکھیوں ہی اکھیوں میں ہوتی ہوئی بات چیت چھپ نہ سکی ۔
امّی جی نے منہ ہاتھ دھونے کے بعد تولیے سے منہ صاف کرتے ہوئے نانی سے کہا:
”ماں جی چلیں۔“
”تم ہی سُن آؤ عطیہ کی ضروری بات۔“ نانی کا وہاں سے جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ امی جی نبیل کے گھر خالہ عطیہ کا فون سُننے چلی گئیں۔ عالی نانی کے پاس بیٹھ گئی۔
”تمھاری شادی کو کتنے دِن رہتے ہیں عالی بیٹا․․․․․․؟“ نانی نے چاول چُنتے چُنتے ہی عالی کو دیکھے بغیر پوچھا ۔

”مہروز کے نکاح میں چار دن باقی ہیں۔“ عالی نے میری طرف دیکھتے ہوئے ہولے سے کہا۔ میں بھی اپنا کا م ختم کر چُکا تھا اور میں عالی ہی کو دیکھ رہا تھا۔
”میں نے تمھاری شادی کا پوچھا ہے۔ مہروز کے نکاح کا نہیں۔“نانی نے سنجیدگی کے عالم میں دبے غصے کے ساتھ جواب دیا۔
”مہروز کے نکاح کے ایک دن بعد ہی تو میری شادی ہے بی بی جی۔“
”نانی جی! چائے۔
“ حریم نے چائے کی ٹرے نانی کے سامنے کرتے ہوئے اطلاع دی۔
”میں نے کب چائے مانگی۔“ نانی نے سوالیہ انداز میں چائے کا کپ اُٹھاتے ہوئے پوچھا۔ حریم نے وہی ٹرے عالی کی طرف کرتے ہوئے جواب دیا:
”عالی باجی کے لیے بنائی تھی سوچا آپ کے اور بھائی کے لیے بھی بنا دوں۔“
”نانی بسکٹ․․․․․․“ تحریم دو پلیٹیں پکڑے ہوئے نانی کے سامنے کھڑی تھی۔

”یہ بسکٹ اور نمکو بھی عالی باجی کے لیے ہیں․․․․․․؟“ نانی نے تشویش بھرے لہجے میں حریم اور تحریم کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
”عالی باجی کے گھر جائیں تو وہ اتنا کچھ کھلاتی ہیں ہمیں۔“حریم نے بڑے مزے سے بتایا۔ تحریم بھی جلدی سے بول پڑی :
 ”میں تو چاہتی تھی کہ عالی باجی ہی ہماری بھابھی بنیں۔“
”تحریم․․․․․․سوچ سمجھ کر بولا کرو۔
“ میں نے تحریم کو ڈانٹ دیا تھا۔ ایک دم خاموشی چھا گئی۔
”Sorry“ تحریم دبی سی آواز میں بولی ۔ حریم نے تحریم کی طرف سے صفائی دیتے ہوئے بات کو سنبھالا:
”وہ بھائی تحریم کا مطلب تھا کہ عالی باجی جیسی ہی ہماری بھابھی ہو۔“ نانی اِس سارے منظر نامے کے دوران خاموش ہی رہیں۔ نانی کے علاوہ ہم سب ایک دوسرے سے نظریں چراتے ہوئے چائے پی رہے تھے۔
نانی سب کے چہروں پر لکھی ہوئی تحریروں کو پڑھنے کی کوشش میں لگی ہوئی تھیں۔ اِس دوران امی جی خوشی کے عالم میں صحن میں داخل ہوئیں۔
”ماں جی! مبارک ہو پہلے مہینے عید کے بعد ثانیہ کی شادی ہے․․․․․․دن رکھ لیے ہیں۔ عطیہ باجی بتا رہی تھیں آپ لوگوں کو شادی کے کارڈ بھی چند دنوں میں مل جائیں گے۔“
”ہم ملتان جائیں گے ثانیہ باجی کی شادی پر۔
“ تحریم جو سہمی ہوئی بیٹھی تھی وہ یہ سُن کر کھل اُٹھی۔ وہ سب بھول گئی جو اُس نے چند منٹ پہلے بولا تھا۔
”بڑا مزہ آئے گا۔“ حریم بھی اپنی خوشی چھپا نہیں سکی۔ خوشی کا ماحول تھا ابّو جی بھی آگئے بے شمار شاپنگ بیگ اُٹھائے ہوئے۔
”یہ لو مہروز کی ماں جو، جو لسٹ میں لکھا ہو ا تھا سب لے آیا ہوں۔“
”حریم، تحریم اپنے ابّو سے سامان پکڑو۔
“ امّی نے میری بہنوں کو حکم دیا۔ اُن دونوں نے جلدی سے ابو سے سارے شاپنگ بیگ تھامے اور اندر چلی گئیں ۔عالی نے بھی اپنا خالی کپ رکھا اور وہ بھی سیڑھیاں چڑھ گئی ۔
”اگلے مہینے ثانیہ کی شادی ہے۔“ امّی نے اپنی طرف سے ابّو کو خوشی کی خبر سنائی۔ ابّو منہ بناتے ہوئے بولے:
”چلو جی نیا خرچہ“ ابّو کے لیے یہ فکر مندی کی بات تھی۔ جس نے بھی کہا ہے ٹھیک ہی کہا ہے۔
ایک قوم کا ہیرو دوسری قوم کے لیے ولن ہوتا ہے۔ ایک کی خوشی دوسرے کو غم معلوم ہوتی ہے۔ ثانیہ کے لیے یہ خوشی کی بات تھی کہ اُس کی ڈیلر خرم سے شادی ہو نے والی تھی۔ نہ جانے مجھے کیوں تکلیف ہو رہی تھی۔
”مہروز یاد آیا … رستے میں ساجد بھائی اور بھابھی ملے تھے۔ اُن کاTVپھر سے خراب ہو گیا ہے وہ تو ٹھیک کر آؤ۔“
”اِس TVکی تو․․․․․․“میرے اندر ثانیہ کی شادی کی خبر سُن کر آگ لگی ہوئی تھی۔
اوپر سے ابّونے TVٹھیک کرنے کا حکم دے دیا۔
”جاؤ بھی ساجد بھائی نے9بجے خبر نامہ دیکھنا ہوتا ہے۔ “ میں نے اپنا ٹول باکس اُٹھایا اور گھر سے نکل گیا۔
…#…
تایا کے گھر کی بیل بجانے سے پہلے ہی عارفہ نے دروازہ کھول دیا۔ جیسے وہ میرے انتظار میں ہی کھڑی تھی۔ جیسے ہی میں تایا کے گھر داخل ہوا عارفہ فکر مندی سے کہنے لگی :
”مہروز مجھے تم سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔
“ میں تیز تیز قدموں سے TVوالے کمرے کی طرف جا رہا تھا اور عارفہ میرے پیچھے پیچھے تھی۔ میں نےTVکو کھولنا شروع کیا عارفہ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔
”صرف ایک تار کاٹی ہے․․․․․․TVتو ٹھیک ہو ہی جائے گا․․․․․․ تم میری بات سنو۔“ عارفہ نے سخت لہجے میں کہا۔ مجھے اُس کا سخت لہجہ پسند نہیں آیا۔ میں پہلے ہی غصے میں تھا۔ میں نے وہTVاُٹھایا اور زور سے زمین پر دے مارا، TVکے کئی ٹکڑے ہو گئے۔

”اب نہیں ٹھیک ہوگا۔“ عارفہ میرے غصے سے کہاں ڈرنے والی تھی۔
”بھاڑ میں جائے TVتم میری بات سنو۔“ عارفہ کوTVٹوٹنے کا کوئی دُکھ نہیں تھا اُسے تو اپنی پڑی تھی۔
”بولو!“
”خالہ کے گھر کوئی کھچڑی پک رہی ہے․․․․․․کلثوم باجی کا فون آیا تھا․․․․․․کسی نے تنویر کے کان بھرے ہیں کہ عارفہ تمھاری منگ ہے․․․․․․تمھارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے اگر عارفہ کی شادی مہروز سے ہوگئی۔

”تو میں کیا کروں․․․․․․؟“ میں نے تلخی سے جواب دیا۔
”مہروز غصے میں کیوں ہو․․․․․․ مجھے تنویر سے شادی نہیں کرنی مجھے تم سے پیار ہے․․․․․․تمہیں رب کا واسطہ کچھ کرو۔“ عارفہ نے بڑی محبت سے کہا۔ اِس سے پہلے میں نے عارفہ کو کبھی اتنی میٹھی زبان میں بات کرتے نہیں دیکھا۔ وہ تو ہمیشہ تو، تڑاک، اوئے! سے بات کرتی تھی۔ میں بھی کچھ نرم پڑ گیا تھا۔

”بتاؤ مجھے کیا کرنا ہے․․․․․․؟“
”تم تنویر کو خود جا کر بتاؤ کہ میرا تمھارا چکر ہے۔“ میں عارفہ کی بات سُن کر اُس کی بے وقوفی پر مسکرایا ۔
”کیوں کیا ہوا․․․․․․“ عارفہ کو میرے مسکرانے کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔
”تمھارا مجھ سے چکر ہے یہی سوچ کر تو اُس نے تم سے منگنی توڑی تھی۔“ میری بات سُن کر عارفہ سوچ میں پڑ گئی۔ میں وہاں سے چل پڑا۔
عارفہ نے جلدی سے سوچے سمجھے بغیر ہی بول دیا:
”تم اُسے کہہ دو کہ میں تمھارے بچے کی ماں بننے والی ہوں۔“ میں عارفہ کی بات سُن کر ہکا بکا تھا۔ میرے قدم رُک گئے۔میں نے پلٹ کر عارفہ کی طرف دیکھا۔
”بول دو․․․․․․یہ بولو گے تو وہ کبھی بھی مجھ سے شادی کے لیے ضد نہیں کرے گا۔“ عارفہ نے مجھے اگلا مشورہ دے ڈالا ۔پاس ہی تایا جی کا ٹیلی فون پڑا تھا۔ میں نے عارفہ کو کلائی سے پکڑا اور ٹیلی فون کے پاس کھڑا کرتے ہوئے کہا:
”تمھارے پاس تنویر کی دُکان کا نمبر تو ہو گا۔ تم اُسے فون کرکے خود ہی سب کچھ بتا دو۔“ میں یہ بولنے کے بعد کمرے سے نکلا ہی تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ عارفہ نے تو تنویر کو فون نہیں کیا مگرکسی اور کا فون آگیا تھا۔

Chapters / Baab of Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan