Episode 9 - Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر9 - دِل اَدل بَدل - شکیل احمد چوہان

اُس رات کے بعد جب بھی عالی ہمارے لیے چھت پر دودھ لے کر آتی تو میں نظریں جھکائے رکھتا چند دن اِسی طرح سے گزر گئے۔ نانی بھی ٹاؤن شپ سے ہماری طرف آگئی تھیں۔ اُس رات کو امّی ابّو نے مجھے کوئی اہم بات کرنے کے لیے اپنے کمرے میں بلایا تھا۔ نانی بھی اُن کے ساتھ ہی بیٹھی تھیں۔ میں نانی سے بسمہ کے متعلق بہت کچھ پوچھنا چاہتا تھا، مگر نانی سے تنہائی میں بات کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔
اِس سے پہلے کہ میری نانی سے بات ہوتی ابّو جی بول پڑے :
”میں تمھارا نکاح کرنا چاہتا ہوں۔“ میں نے حیرانی سے سب کی طرف دیکھا۔ امّی تو مسکرا رہی تھیں البتہ ابو کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔
”منہ میں زبان نہیں ہے کیا۔“ اِس بار ابّو کے لہجے میں تلخی تھی۔
”نکاح․․․․․․میرے تو پیپر ہونے والے ہیں۔

(جاری ہے)


”نکاح پیپروں کے بعد ہی ہوگا۔“ ابو جی نے فیصلہ کن انداز میں بتایا ۔


”مگر ابّو جی میں تو بے روز گار ہوں ۔“ میں نے اُن سے ایک بار بھی نہیں پوچھا تھا کہ لڑکی کون ہے۔
”تم اپنا پاسپورٹ بنواؤ ساجد بھائی تمھیں سعودیہ لے جائیں گے۔“
”جی بہتر․․․․․․“ میں اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا۔
”مہروز بیٹا!! لڑکی کا نہیں پوچھو گے۔“ نانی نے سنجیدگی سے مجھے مخاطب کیا۔ میں نے شکوے کے انداز میں نانی کی طرف دیکھ کر گردن کو نفی میں ہلایا تھا۔

…#…
میں اپنے بستر پر لیٹا ہی تھا نانی میرے پاس آ کر بیٹھ گئیں اور بڑی محبت سے میرے سر میں اپنی انگلیوں کو پھیرنے لگیں۔ میں نے خفگی کے ساتھ منہ دوسری طرف موڑ لیا۔
”مجھ سے ناراض ہو۔“ نانی نے بڑی محبت سے پوچھا۔
”کیا نہیں ہونا چاہیے۔“
”بسمہ میری بیٹی نہیں ہے․․․․․․میری بیٹی کی بیٹی ہے۔ اُس کی زندگی کا فیصلہ کرنا میرے اختیار سے باہر تھا۔
اجمل خوش قسمت نہیں ہے جس نے بسمہ کو حاصل کر لیا۔ بدقسمت تو بسمہ ہے جس نے تمھیں کھو دیا۔ عارفہ بھی بہت اچھی لڑکی ہے اور وہ تم سے محبت بھی بہت کرتی ہے۔“
”عارفہ کہاں سے آگئی․․․․․․؟“میں نے ناک چڑھاتے ہوئے پوچھا ۔
”عارفہ ہی سے تو تمھارا نکاح ہو رہا ہے۔“ نانی نے مجھے بڑے اطمینان سے بتایا۔ میں شش و پنج میں مبتلا تھا کہ نانی سے پہلے پوچھوں یا گلہ کروں۔

”آپ تو میری بسمہ سے شادی کروانا چاہتی تھیں۔عارفہ اور تنویر کی منگنی ٹوٹی اِس میں میرا کیا قصور ہے۔ میرا اور عارفہ کا نکاح کیسے ہو سکتا ہے ․․․․․․؟“میں نے ناجانے کیا کیا ایک ہی بار نانی سے کہہ دیا۔
…#…
میرے پیپرز ہوگئے تھے اور میں جاب کی تلاش میں تھا۔ ساتھ ساتھ میں نے ہال روڈ کی ایک بڑی الیکٹرونک کی ورکشاپ پر بھی جانا شروع کر دیا۔
کلثوم باجی کی اپنے سسرال سے لڑائی اِس بار کافی لمبی ہوگئی تھی۔ تائی جی کے میکے چیچہ وطنی میں کوئی شادی آگئی تو تایا جی اور تائی اُدھر چلے گئے۔ پیچھے سے تایا جی کا TVخراب ہوگیا تو ابّو نے مجھے حکم دیا کہ جاکے اُن کا TVٹھیک کردوں۔
”اِس کی تاریں تو قینچی سے کاٹی گئیں ہیں“میں نے بتایا تھا ۔
”مجھے پتاہے․․․․․․ “کلثوم باجی نے بڑے فخر سے کہا ۔

”کیوں․․․․․․؟“ میں نے حیرانی سے پوچھا۔
”تمھاری محبت کی وجہ سے میں یہاں آکے بیٹھی ہوئی ہوں …تم ہو کہ اِدھر کا چکر ہی نہیں لگاتے۔“
”میری محبت․․․․․․؟کون․․․․․․؟کس کی بات کر رہی ہیں باجی!!“میں نے کلثوم باجی سے ایک ساتھ ہی کئی سوال پوچھ لیے ۔ کلثوم باجی میرے جواب سے ششدر تھی۔
”کیا تم عارفہ سے محبت نہیں کرتے․․․․․․؟“کلثوم باجی ہڑ بڑا اُٹھی تھی۔

”آپ کو کس نے کہا․․․․․․؟“
”عارفہ تو کہتی ہے کہ تم بھی اِس سے محبت کرتے ہو۔“
”کس سے کہتی ہے۔“ میں نے اُلجھن سے پوچھا۔
”مجھ سے․․․․․․“کلثوم باجی نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔
”کلثوم باجی مجھے تو آج تک خود ہی سمجھ نہیں آئی کہ کون کس سے محبت کرتا ہے۔“ میری اور کلثوم باجی کی اُلجھن بھی عارفہ نے ہی دور کی تھی۔
”اوئے! تمھاری تم جانو․․․․․․میں تو تم سے محبت کرتی ہوں․․․․․․تمھاری ہی خاطر میں نے تنویر سے منگنی تڑوائی ہے۔

”میں نے کب کہا تھا کہ تم تنویر سے منگنی توڑ دو۔“ میں نے کلثوم باجی کے سامنے خود کو عارفہ کی یک طرفہ محبت سے الگ کر لیا تھا۔
”عارفہ اگر میرا گھر برباد ہوا تو اُس کی سب سے بڑی وجہ تم بنو گی۔“ کلثوم باجی نے ملامتی انداز کے ساتھ عارفہ سے کہا اور وہاں سے پاؤں مارتے ہوئے چلی گئی۔
”باجی کے سامنے یہ سب بولنے کی کیا ضرورت تھی۔ تم کچھ بھی کرلو میرے علاوہ کسی اور سے تمھاری شادی میں کبھی نہیں ہونے دوں گی۔
“ عارفہ نے مجھے سیدھے لفطوں میں کھلم کھلا دھمکی دے ڈالی تھی۔ عارفہ بھی پاؤں پٹختے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔میں تو تایا جی کے گھر TVٹھیک کرنے گیا تھا۔ عارفہ نے اُلٹی میری ہی مرمت کر دی۔ میں نے جلدی سے TVٹھیک کیا اور وہاں سے نکلا۔عارفہ کو جب بھی مجھ سے ملاقات کرنی ہوتی وہ خود ہی TV کو کھول کر اُس کی کوئی نہ کوئی تار کاٹ دیتی ۔
…#…
بسمہ کے نکاح کے دو مہینے بعد ایک دن نانی مجھے تفصیل بتانے لگیں :
”جب میں ہسپتال سے گھر آئی تو پتہ چلا رشید نے اجمل سے بسمہ کا رشتہ طے کر دیا ہے۔
بسمہ بڑی روئی ،کرلائی تھی مگر رشید نے اُس کی ایک نہ سُنی۔ تیری ماسی کی بہواور سندس نے تیرے خالو کے خوب کان بھرے تھے بسمہ اور تیری ماسی کے خلاف۔ رات کو بسمہ نے کہا کہ میں زہر کھالوں گی مگر اجمل سے نکاح کسی صورت نہیں کروں گی۔ رشید کہنے لگا اگر تم نے اجمل سے نکاح نہ کیا تو میں تمھاری ماں کو طلاق دے کر گھر سے نکال دوں گا۔ یہ کرواتی تھی تیری ملاقاتیں اُس کمینے کے ساتھ۔

میرے جسم میں نانی کی باتیں سُننے کے بعد خون کی گردش تیز ہوگئی۔ نانی نے باتوں کا سلسلہ پھر سے شروع کر دیا :
”آسیہ کہنے لگی:” بسمہ اجمل سے نکاح کرے گی مگر میری بھی ایک شرط ہے۔“ رشید فٹ سے بولا:
”بولو!!“
”آپ مجھے میری بہنوں سے ملنے سے کبھی بھی نہیں روکیں گے۔“
”منظور ہے۔“
”اُنہیں نکاح پر بھی بلائیں گے اور اُن سے کسی بات کا تذکرہ بھی نہیں کریں گے۔

”یہ بھی منظور ہے۔“
نانی نے اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے بتایا:
”مہروز بیٹا!! بسمہ بے وفا نہیں تھی، مجبور تھی۔ وہ کرتی بھی تو کیا کرتی۔“
”ثانیہ کیا تھی․․․․․․؟“ میں نے نانی سے گلے کے انداز میں پوچھا ۔
”وہ لالچی تھی․․․․․․ جب اُس کے لیے اُس موئے ڈیلر کا رشتہ آیا تو میں نے اُسے بہت سمجھایا۔ ثانیہ بیٹی مہروز بڑا اچھا لڑکا ہے وہ تمھیں بہت خوش رکھے گا۔
ثانیہ کہنے لگی :
”نانو کیسے خوش رکھے گا۔ کرائے کے گھر میں وہ لوگ رہتے ہیں۔ سرکاری کالج میں وہ پڑھ رہا ہے۔ اگر ملی بھی تو اُسے کسی فیکٹری میں کوئی معمولی سی نوکری مل سکتی ہے۔ اُس کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ جب کہ خرم کا اپنا بنگلہ ہے گاڑی ہے۔ میں خرم کے ساتھ عیش کروں گی۔ خرم کو چھوڑ کر مہروز سے شادی کرنا حماقت ہوگی۔“
”نانی پھر آپ نے کیوں ہمیشہ کوشش کی کہ میرا رشتہ آپ کی بیٹیوں کی طرف ہو جائے۔
“میں نے دُکھی ہو کر پوچھا ۔ نانی نے ٹھنڈی سانس بھری اور غمگین ہو کر گویا ہوئیں:
”مہروز بیٹا میں رشتوں کی پرانی دیواروں پر نئی رشتے داری کا سیمنٹ لگانا چاہتی تھی۔“
”میں سمجھا نہیں․․․․․․؟“
”میں صرف تمھیں بتا سکتی ہوں․․․․․․سمجھا نہیں سکتی۔“
”آپ ایسا کیوں چاہتی تھیں․․․․․․؟“
”نئے رشتے پرانے رشتوں کو مضبوط بناتے ہیں اور کمزور بھی کرتے ہیں۔
میں بھی اپنی بیٹیوں کے درمیان کمزور رشتوں کو مضبوط کرنا چاہتی تھی۔“
”نانی آپ کی باتوں سے تو مجھے محسوس ہو رہا ہے جیسے میری حیثیت آپ کے نزدیک اینٹ، ریت، سیمنٹ جیسی ہی تھی۔“
نانی نے جلدی سے مجھے اپنے سینے سے لگا لیا اور رندھی سی آواز میں بولیں:
”مجھے غلط مت سمجھو مہروز بیٹا!! جب تمھاری اُولاد جوان ہوگی اُس وقت تمھیں اپنی نانی بالکل ٹھیک لگے گی۔
اللہ جانتا ہے میری نیت بالکل صاف تھی۔“
”اگر آپ کی نیت صاف تھی تو اُسے کامیابی کیوں نہیں ملی۔“
”تمھاری غربت کی وجہ سے۔“
”میری غربت․․․․․․؟“ میں نانی کی بات سُن کر حیران رہ گیا۔ ساری زندگی میں سوائے ایک دن کے مجھے کبھی غربت کا احساس نہیں ہوااور وہ دن وہ تھا جب میں راحت بیکری پر خالی جیب تین بر گر خریدنے پہنچا تھا۔ میرے پاس خود کی سائیکل تھی ابّو سے اچھی پاکٹ منی بھی مل جایا کرتی تھی۔
عارفہ سے اُدھار بھی مل جاتا تھا۔ہر روز رات کو نبیل کے ساتھ میرے لیے بھی ایک پیالہ دودھ آجاتا ۔ چھٹی والے دن میں اور نبیل باہر سے ناشتہ کرتے کبھی پھجے کے پائے، کبھی فیکے کی لسی، کاکے کی نہاری۔ آج نانی نے مجھے غریب بول دیا، اپنے من کے آئینے میں مجھے کبھی اپنی غربت نظر ہی نہیں آئی۔ میں تو دل کا امیر تھا اور اِسی کو امیری سمجھتا تھا۔

”ثانیہ نے تمھاری محبت نہیں دیکھی اُسے تو تمھاری غربت ہی نظر آئی تھی ۔ اِسی طرح رشید کی نفرت بھی تھی۔ اُس نے خالی ہاتھوں کی بجائے بھرے ہوئے ہاتھوں میں اپنی بیٹی کا ہاتھ دیا ہے۔“
”نانی سچ میں ثانیہ یا بسمہ کے دل میں میرے لیے کچھ نہیں تھا۔“
”ثانیہ نے تو تمھاری محبت کو ہی تھوک دیا اور بسمہ نگل ہی گئی۔“
ایک دم سناٹا تھا میرے اندر بھی اور باہر بھی زندگی میں پہلی بار مجھے ایسی تلخ حقیقت کا سامنا کرنا پڑاتھا۔
اپنا گدھا بھی گھوڑا معلو م ہوتا ہے۔ میں گوالمنڈی کو ہی نیویارک کی بزنس سڑیٹ سمجھ بیٹھا تھا۔ میرے نزدیک دنیا کے سب سے امیر لوگ گوالمنڈی کے ہی مکین تھے۔
”عارفہ بڑی اچھی لڑکی ہے۔“ نانی نے ثانیہ، بسمہ کے بعد عارفہ کے لیے بھی وہی لائن بول دی تھی۔ میں یہ سُن کے خاموش ہی رہا۔
”اگر اتنی اچھی ہوتی تو تنویر اُس سے سالوں پرانی منگنی کیوں ختم کرتا۔

”تمھاری وجہ سے․․․․․․“نانی نے ایک اور الزام میرے سر لگا دیا ۔
”میں نے کیا کیا ہے․․․․․․؟“
”جو چیزیں ساجد اپنے ہونے والے داماد کے لیے سعودیہ سے لاتا تھا۔ وہ چیزیں تم عارفہ سے لے لیتے تھے۔“
”خدا کی قسم نانی میں نے عارفہ سے کبھی کچھ نہیں مانگا۔ وہ تو خود ہی مجھے تحفے تحائف دیتی رہتی ہے۔“
”اور تم لے لیتے ہو ․․․․․․ ذرا سوچو ایک لڑکی اپنے منگیتر کی چیزیں کسی دوسرے کو کیوں دے گی…؟“
”مجھے کیا پتا تھا کہ وہ چیزیں تایا جی تنویر کے لیے لاتے تھے۔

”عارفہ تم سے بہت محبت کرتی ہے۔“
”میں بچپن سے ثانیہ سے محبت کرتا تھا اور بسمہ بچپن ہی سے میری محبت میں گرفتار تھی۔ نہ ثانیہ مجھے ملی اور نہ ہی بسمہ مجھے پا سکی ۔کلثوم باجی کی شادی سے بھی پہلے سے تنویر عارفہ کے عشق میں مبتلا ہے۔ میں تنویر کا عشق دیکھوں یا عارفہ کی محبت۔“
”اگر تنویر کو عارفہ سے عشق ہوتا تو وہ اُس سے منگنی نہ توڑتا۔

”بے وفائی کرو تو منگنی کیا شادی بھی ٹوٹ جاتی ہے۔“ میں نے نانی کو بتایا۔
”عارفہ نے کس کی خاطر تنویر سے بے وفائی کی ہے …؟ تمھاری خاطر۔“ نانی کی بات سُن کر میں سوچ میں پڑ گیا تھا۔
”ارے میں تو بھول ہی گئی تھی۔“ نانی یہ کہتی ہوئی اپنی جگہ سے اُٹھیں اور اپنے بیگ میں سے ایک پیکٹ نکال کر لے آئیں جو Pinkکلر کے ایک گفٹ پیپر سے پیک تھا۔

”یہ بسمہ نے تمھارے لیے خریدا تھا۔“میں نے وہ تھام لیااور اپنی بہنوں کے کمرے سے اُٹھ کر اپنے کمرے میں آگیا۔ اپنا لکڑی کا بڑا سا صندوق اپنے پلنگ کے نیچے سے نکالا جس کے اندر میں اپنی خاص چیزیں رکھا کرتا تھا۔ وہ گفٹ اُس میں رکھا اور اُسے پھر سے تالا لگا دیا۔ میں بھاگتا ہوا سیڑھیاں چڑھ گیا ۔ میری آنکھوں سے بے ساختہ آنسو نکل رہے تھے۔
چھت پر پہنچا تو سامنے نبیل کھڑا تھا۔
”شیربن شیر․․․․․․مرد روتے ہوئے اچھے نہیں لگتے․․․․․․“ نبیل نے مجھے اپنے سینے سے لگاتے ہوئے تسلی دی ، مگر آنسو تھے کہ وہ کسی تسلی کو نہیں مان رہے تھے۔ وہ تو مسلسل بہے جا رہے تھے۔
”ایک کی منگنی ہوگئی اور دوسری کی شادی․․․․․․میں نے تو دونوں کو ٹوٹ کر چاہا تھا۔“ میں نے زخمی آواز کے ساتھ کہا ۔
”دودھ․․․․․․بھائی!!۔“ عالی نے نبیل کے پاس کھڑے ہوتے ہوئے اپنے آنے کی اطلاع دی تھی۔ میں نے جلدی سے اپنی نم آنکھوں کو صاف کیا اور ٹرے سے دودھ کا پیالہ اُٹھا لیا۔ عالی وہاں سے مزید کچھ بولے چلی گئی ۔

Chapters / Baab of Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan