Episode 1 - Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر1 - دِل اَدل بَدل - شکیل احمد چوہان

میں نے جب سے ہوش سنبھالا ڈائری لکھ رہا ہوں ۔ پہلے اپنی کاپیوں سے ڈائری کا کام لیتا تھا۔ پھر عارفہ نے مجھے سعودیہ سے آئی ہوئی ڈائریاں گفٹ کرنا شروع کر دیں۔ آخری بار اُس نے مجھے 1998ء کی دو ڈائریاں گفٹ کی تھیں۔ ایک میں نے رکھ لی اور دوسری میں نے بسمہ کو اپنی محبت کے تحفے کے طور پر پیش کر دی تھی۔ بسمہ کو وہ میں نے پہلا اور آخری تحفہ دیا تھا۔

بات ڈائری کی ہو رہی تھی اور تحفے تک جا پہنچی۔ اب میری بیگم ہر سال مجھے امپورٹڈ ڈائری کا تحفہ دیتی ہے۔ یہ تو ہوئی کاغذ کی ڈائری کی بات جس پر ہم ہاتھ سے لکھتے ہیں۔ اِس کے برعکس دل کی ڈائری پر بغیر کچھ لکھے ہی سب کچھ نقش ہو جاتا ہے۔
اس دنیا میں تو انسان بوڑھے ہو جاتے ہیں مگر دل کی دنیا میں ایسا نہیں ہوتا ۔

(جاری ہے)

وہاں محبتیں مرتی نہیں اور عمریں بڑھتی نہیں ۔

جب بھی آپ دل کے دریچے کھول کر اندر جاتے ہیں توآپ کو سب کچھ ویسے ہی لکھا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ میرے ساتھ بھی آج کل ایسے ہی کچھ ہو رہا ہے۔پتہ نہیں محبت دل سے نکلتی ہی نہیں یا دل میں رہ جاتی ہے یا پھر ایسے کہہ لیں کہ محبت دل سے کی جاتی ہے اور یادیں دل کی ڈائری پر محفوظ ہو جاتی ہیں ۔کاغذ کی ڈائری پر لکھی ہوئی یادوں کی بجائے میں دل کی ڈائری پر نقش یادوں کو آج کل کاغذپر اُتار رہا ہوں بلکہ تقریباً اُتار چُکا ہوں۔
آپ کے ذہن میں سوال تو اُٹھا ہوگا۔”کیوں․․․․․․؟“
بتاتا ہوں! میرے ایک پبلیشر دوست ہیں، اُن کے مطابق میری ذاتی کہانی بڑی دلچسپ ہے ۔ اُن کا کہنا ہے اس کہانی کو کتابی شکل میں پڑھنے والوں کے سامنے لانا چاہیے۔اس لیے میں نے کہانی لکھی ۔مجھے نہیں پتہ کہانی، افسانہ، ناولٹ اور ناول میں کیا فرق ہوتا ہے، میں لکھاری بھی نہیں ہوں، مجھے لکھنے کی تکنیک بھی نہیں آتی، میں نے تو اپنی زندگی کا سچ اپنے حساب سے As it isلکھ دیا ہے۔

…#…
”تین برگر…؟“ بیگم نے حیرانی سے بل کو دیکھتے ہی بول دیا تھا۔ میں نے مسکراتے ہوئے اپنا کیبن بند کر دیا اور خود صوفے پر بیٹھ گیا۔ بیگم میرے سامنے کھڑی ہو کر پوچھنے لگی :
”نمبر 2کی نشانی ہے نا؟“ بیگم نے میرے چہرے پر اپنی نگاہیں ٹکا رکھی تھیں۔ میں نے زیر لب مسکراتے ہوئے گردن کو نفی میں ہلا دیا۔
”نمبر3 کی․․․․․․؟“ بیگم نے لجاجت سے اگلا سوال پوچھ لیا۔
میں نے ٹھنڈی سانس بھری اور اپنی جگہ سے کھڑا ہو کر بیگم کے کندھوں کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر کہنے لگا :
”نہیں․․․․․․!!“
”پھر تو یہ آپ کی سب سے پیاری محبوبہ نمبر1ہی کی نشانی ہو سکتی ہے۔“ بیگم نے پورے وثوق کے ساتھ کہا۔
”اتنے سال ہوگئے ہماری شادی کو۔ تم سے کبھی کوئی بات چھپائی ہے کیا․․․․․․؟
”چھپاتے کیسے جی میں تو شادی کے پہلے ہی سے آپ کے بارے میں سب کچھ جانتی ہوں۔

”میں بھی شروع ہی سے تمھیں ایک ذہین فطین خاتون مانتا ہوں۔“ میں نے مسکراتے ہوئے بیگم کو کندھوں سے دبا کر کہا تھا۔
”زیادہ مسکا پالش لگانے کی ضرورت نہیں․․․․․․ تین برگر والا معاملہ کیا ہے۔“بیگم کی سوئی وہیں اٹکی ہوئی تھی میں نے پہلے کی طرح بات ٹالنے کی کوشش کی:
”چائے ملے گی کیا․․․․․․؟“ بیگم نے مسکرا کر میری طرف دیکھا پھر کچن کی طرف چلی گئی۔
میری بیگم کا سچ میں کوئی ثانی نہیں ہے ۔ میں اِس حوالے سے بڑا ہی خوش نصیب ہوں۔ وہ بیوی کم اور دوست زیادہ ہے۔ سچ کہوں اُس جیسی 4بیویاں بھی سردرد نہیں ہوتیں۔ پھر بھی مجھے کبھی بھی چار بیویوں کی خواہش نہیں رہی۔ میں تو اُس کی لمبی عمر کی دعائیں مانگتا ہوں۔ آج کل وہ بیمار رہنے لگی ہے۔ گھر میں ملازموں کی کمی نہیں اس کے باوجود میرے سارے کام وہ خود کرتی ہے۔

وہ بل دیکھ کر اُس کی حیرت فطری تھی۔ ذہن میں سوال تو اُٹھتا ہے․․․․․․ یہی سوال میری بیگم کے ذہن میں بھی اُٹھا تھا۔ اُس بل کی کہانی کسی محبوبہ کے ساتھ ہی جُڑی ہو سکتی ہے۔ بیگم چائے لائی اور جا کر بیڈ پر لیٹ گئی۔ میں چائے کاکپ اُٹھائے اپنے اسٹڈی روم میں چلا گیا اور اپنی زندگی کی کہانی پڑھنے لگا۔ جسے میں نے کہانی ہی کی طرح لکھا تھا۔

…#…
مجھے تو آج تک یہ سمجھ نہیں آئی یہ محبت آخر چیز ہے کیا ۔ میری زندگی میں جتنی بھی عورتیں آئیں میں نے کبھی کسی کو خود سے نہیں چھوا تھا۔ آج کل جسم کو پہلے چھوتے ہیں اور محبت بعد میں کرتے ہیں پتہ نہیں۔ یہ محبت ہے یا کچھ اور․․․․․․؟ دعویٰ تو محبت کا ہی کیا جاتا ہے۔ میں نے یا مجھ سے جتنی بھی عورتوں نے محبت کی آج سب کی سب اپنی اپنی یادوں کو لے کر میرے ذہن پر سوار ہیں۔
کبھی ایک کا خیال دماغ پر دستک دے رہا ہے اور کبھی دوسری کا۔ پتنگ کی ڈور کی طرح محبت کی ساری ڈوریں ایک دوسری سے اُلجھی ہوئی ہیں۔محبت کی کہانی کب شروع ہو جائے اور کہاں اُس کا اختتام ہو یہ کم از کم میں تو نہیں جان سکا۔
شاید محبت خیال کی طرح ہے کب آجائے ذہن میں اور دوسرے ہی لمحے چلا بھی جائے۔ اِسی طرح محبت زندگی میں کب آتی ہے اور کب چلی جاتی ہے پتہ ہی نہیں چلتا۔
ہم انسان بھی بڑے بھولے ہیں۔ ہم نے محبت کو جسموں کے ساتھ مشروط کردیا ہے۔ حالانکہ محبت تو جذبوں کا نام ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے اگر محبت جذبوں کا ہی نام ہے تو پھر کسی انسان کے جانے سے زندگی سے محبت کیوں چلی جاتی ہے اور کسی کو پانے سے محبت کیوں مل جاتی ہے۔ آج میں آپ کو اُن ساری پتنگوں سے ملواتا ہوں جو محبت کے افق پر اُڑیں تھیں، پھر یا تو کٹ گئیں یا کوئی دوسرا لوٹ کر لے گیا۔
اُن کی ڈوریں میرے پاس ہیں یادوں کی صورت میں۔
…#…
میں اور نبیل بچپن سے جگری دوست ہیں۔ ہم روایتی کبوتر باز تو نہیں تھے ۔ اِس کے باوجود ہم دونوں نے کبو تر رکھے ہوئے تھے۔ نبیل پڑھنے میں لائق تھا مگر اُس کی منطق اُس وقت میری سمجھ سے تو باہر تھی۔ نہ تو وہ ملازمت کرنا چاہتا تھا اور نہ ہی اپنا خاندانی دودھ دہی کا کاروبار۔
اُس نے اپنے فیصلے خود لیے، سپیئر پارٹس کا بزنس شرو ع کیا اور ساتھ ساتھ پرائیویٹ اپنی تعلیم بھی جاری رکھی۔ہم ہر روز رات کو چھت پر بیٹھ کر اپنی اپنی محبتوں کی باتیں کرتے ۔ہمارے گھر والوں کو اعتراض اِس لیے نہ تھا کہ ہم دونوں چھت پر ہی بیٹھتے تھے۔ نبیل لاری اڈے سے اپنی سپیئر پارٹس کی دُکان بند کرنے کے بعد سیدھا گھر آتا۔ میں اُس کا اکلوتا دوست تھا اور وہ میرا۔
نبیل اپنی دور کی پھوپھو کی بیٹی فرزانہ سے شادی کرنا چاہتا تھا اور میں ثانیہ سے ”جسے میں پیار سے دل ہی دل میں ثانی کہتا تھا۔ ایک دفعہ ثانیہ کے سامنے اُسے ثانی کہہ بیٹھا تو ثانیہ نے مجھے ڈانٹ دیا :
”میرا نام ثانیہ طلعت ہے۔ خبردار جو آئندہ کبھی میرا اُلٹا نام لیا“ اُس کے بعد کبھی ثانیہ کے سامنے اُسے ثانی کہنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔

نبیل کی فیملی چھوٹی تھی ۔بڑا بھائی خلیل جس کے حصے میں خاندانی دودھ دہی کی دکان آئی تھی ۔وہ پاس ہی الگ گھر میں رہتا تھا۔ نبیل کے گھر میں اُس کے امّاں ابّا کے علاوہ اُس کی چھوٹی بہن عالیہ تھی، جسے سب پیار سے عالی کہتے تھے ۔ عالی ہر روز ہمارے لیے رات کو چھت پر گرم دودھ کا ایک ایک پیالہ لے کر آتی تھی۔
…#…
ثانیہ طلعت میری کزن پتلی سی، سانولی سلونی مگر پر کشش، مغرور اور گھمنڈی ہمیشہ کڑوی بات کرتی، اِس کے باوجود مجھے پسند تھی ۔
بچپن میں ایک بار نانی کے منہ سے سُنا تھا۔ ثانیہ اور مہروز کی جوڑی بڑی اچھی لگے گی۔ بس اُس کے بعد وہ میری رانی اور میں اُس کا راجا۔
خالہ ہرسال گرمیوں کی یا دسمبر کی چھٹیوں میں اپنے بچوں کولے کر لاہور آتیں۔ خالو کے بھی بہت سارے رشتے دار لاہور ہی میں تھے۔ ایک سال جب خالہ ہمارے گھر آئیں نانی بھی تب زندہ تھیں۔ ثانیہ نانی کے پاس بیٹھے ہوئے میری ایک رف گلابی کاغذوں والی کاپی پر بے خیالی سے بال پین سے اُلٹی سیدھی لائنیں لگا رہی تھی۔
ثانیہ کو خالہ عطیہ نے آواز دی تو وہ اُٹھ کر چلی گئی۔ ثانیہ کے جاتے ہی میں نے وہ کاغذ اپنی کاپی سے پھاڑا اور سنبھال کر اپنے پاس رکھ لیا۔ چوبیس سال پرانا وہ کاغذ آج بھی میرے پاس ہے۔
 اِس کے ساتھ ساتھ ”آشیانہ“ کے نام سے لکھا ہوا ایک مضمون بھی جو اُس نے میری چھوٹی بہن کو لکھ کر دیا تھا میری بہن نے اُسے دیکھ کر اپنا ہوم ورک مکمل کیا اور اُس مضمون کو ردی میں رکھ دیا۔
جہاں سے میں نے اُسے اُٹھا کر اپنے پاس محفوظ کر لیا۔ جسے میں نے ”ث“ نامی فوٹو البم میں لگا رکھا ہے۔ آپ کے ذہن میں سوال تو یقینا اُٹھا ہوگا البم کا نام ”ث“ کیوں رکھا....؟ سیدھی سی بات ہے ث سے ثانیہ․․․․․․ثانیہ سے جُڑی ہر وہ چیز جو مجھے میسر آئی میں نے آج بھی سنبھال کر رکھی ہے ۔
…#…
جولائی کا مہینہ تھا ،ہلکی سی بارش کے بعد گرمی کی شدت میں کچھ کمی واقع ہوئی تھی ۔
مغرب کی اذان سے کوئی آدھ گھنٹہ پہلے میں اپنے گھر کی چھت پراپنے اور نبیل کے مشترکہ کبوتروں کو دانہ ڈالنے کی غرض سے پہنچا ۔ ہمارے اور نبیل کے گھر کی چھتیں ساتھ ساتھ تھیں۔ کبوتروں والا کھڈا نبیل کی چھت پر تھا۔ کیا دیکھتا ہوں ثانیہ ہماری چھت سے ہی کھڑی ہو کر کبوتروں کو دیکھے جا رہی ہے ۔ وہ مجھے اکیلی ہی نظر آئی تھی۔ دل نے کہا مہروز بیٹا موقع اچھا ہے جو بولنا ہے جلدی سے بول دو۔
میں نے ہمت کرکے اپنے دل کی بات ثانیہ کو بول دی :
”میں بچپن سے تم سے محبت کرتا ہوں اور تم ہی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔“ ثانیہ نے مجھے اوپر سے لے کر نیچے تک دیکھا جیسے کہہ رہی ہو یہ منہ اور مسور کی دال ۔ وہ بغیر کچھ بولے میری طرف غصے سے دیکھتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔ کبوتروں کے کھُڈے کے پیچھے ثانیہ کا بھائی کھڑا تھا جس سے میں بے خبر تھا۔
وہ ثانیہ کے جانے کے بعد میرے سامنے آیا۔ اُس نے بھی مجھے ایسے دیکھا جیسے بھوکا بھیڑیا بارہ سنگھے کو دیکھتا ہے۔وہ بھی منہ میں بُڑ بُڑ کرتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔ اُس وقت میرے ذہن میں یہ بات آئی تھی کہ ثانیہ کے بھائی نے بھی اپنے گھر والوں سے لڑ جھگڑ کر خود بھی خاندان سے باہر لو میرج کی تھی ۔ اُسے تو میری فیلنگ کا اندازہ ہونا چاہیے تھا۔
آخر ایک عاشق ہی دوسرے عاشق کا درد سمجھ سکتا ہے۔پھر بھی اُسے مجھ پر شدید غصہ آیا۔ ثانیہ کا بھائی ٹھیک تھا، اگر میں اُس کی جگہ ہوتا اور کوئی میری بہن سے اِس طرح اظہارِ محبت کرتا تو میں اُس عاشق کی بینڈ بجا دیتا۔ ہم خود محبت کریں تو وہ پاک اگر کوئی دوسرا کرے تو وہ پلید۔ ہماری محبت عاشقی اور دوسرے کی محبت عیاشی․․․․․․سوچنے والی بات ہے نا․․․․․․؟
میرا اظہارِ محبت کوئی بہت زیادہ رومینٹک نہیں تھا لیکن اُس میں بھونڈا اور لچر پن بھی نہیں تھا۔ ایک بیس اکیس سال کا لڑکا جو زندگی میں پہلی بار کسی لڑکی سے اظہارِ محبت کرتا ہے وہ ایسے ہی کرتا․․․․․․جیسے میں نے کیا تھا۔
…#…

Chapters / Baab of Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan