Episode 5 - Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر5 - دِل اَدل بَدل - شکیل احمد چوہان

نانی آمنہ بی بی بھی جنتی روح تھیں۔ نانا کے انتقال کے بعد وہ خاندان کی بڑی تھیں۔ اکثر خاندانی فیصلے نانی ہی کرتیں۔ نانی کی تینوں بیٹیاں اُنھیں ماں جی اور باقی سارے رشتے دار بی بی جی کہہ کر مخاطب کرتے۔ نانی ابّو جی کی سگی خالہ ہونے کے ساتھ ساتھ سگی چچی بھی تھیں۔ میرے دادا اور میرے نانا دونوں سگے بھائی تھے۔نانا فوج سے صوبیدار ریٹائرڈ ہوئے تھے۔
اپنی تینوں بیٹیوں کی شادی نانا نے اپنی زندگی میں ہی کر دی تھی۔ خالو طلعت تھانیدار تھے تو خالو رشید وکیل۔ دونوں کاجنم جنم کا بیر تھا۔ جب امی اور ابو کی شادی ہوئی تو دادا کی اعظم مارکیٹ میں کپڑے کی بہت بڑی دکان تھی اور ہمارے حالات خاندان میں سب سے بہتر تھے۔ ابّو نے اُس زمانے میں ایک لڑکے کو جھگڑے میں گولی مار دی تھی پھر کیا تھا آدھی کمائی تھانیدار کھا گئے اور باقی آدھی وکیل۔

(جاری ہے)

خالو طلعت خالو رشید کی بات نہیں کر رہا یہ صاحبان اور تھے۔
دادا صدمے سے چل بسے۔ کپڑے کی دکان نلکیوں اور بٹنوں کی دکان میں بدل گئی۔ ہمارے گھر کا بٹوارہ ہوگیا۔ تایا ساجد اور پھوپھونا صرہ اِس سب کا قصور وار ہمیشہ ابّو کو ہی ٹھہراتے۔ اُن کی بات ایک حد تک ٹھیک بھی تھی۔ ہمارا خاندان فروخت ہو گیا۔ہم لوگ کرائے پر آگئے۔
تایا کو اُن کے سالے نے سعودیہ بُلالیا۔
دیکھتے ہی دیکھتے تایا ساجد ترقی کرنے لگے اور اُن کے گھر کے حالات بہتر ہوگئے۔ تایا نے سعودیہ کی کمائی سے دو گھر بنائے۔ ایک بہت اچھی حالت کا تھا اور دوسرا گھر کے نام پر دھوکہ۔ وہ دھوکہ تایا نے ہمیں رہنے کے لیے کرائے پر دے دیا۔ ابّو اِس بات پر بھی تایا جی کے مشکور تھے اور امّی اُن سے بھی زیادہ۔ تایا جی کے چار بچے تھے دو بیٹیاں اور دو بیٹے۔
بڑی بیٹی کی شادی انہوں نے کر دی تھی۔ اپنی سالی کے بیٹے سے اور عارفہ کی منگنی بھی اُسی گھر میں ہو چکی تھی۔ عارفہ سے میری خوب بنتی تھی حالانکہ وہ مجھ سے کوئی سال بھر بڑی تھی۔ پھو پھو ناصرہ سبّی میں رہتی تھیں، وہ بے اولاد تھیں ۔ وہ سالوں بعد کبھی کبھار ہی لاہور آتیں۔
…#…
”مہروز!! مجھے دُکان بند کرکے جانا پڑے گا تم اپنی ماں کو ہاسپٹل لے جاؤ۔
سالم رکشہ مہنگا پڑے گا۔ ویگنوں میں کہاں دھکے کھاتے پھرو گے ویسپا ٹھیک ہے۔“ اِس سے پہلے کہ ابّو یہ کہتے اپنے تایا کا ویسپا لے آؤ میں خود ہی جلدی سے بول پڑا :
”ابو! میں نبیل کی موٹر سائیکل لے آتا ہوں۔“تائی جی کو میں کبھی بھی ایک آنکھ نہ بھاتا۔ تائی جی کی جلی کٹی سننے سے بہتر تھا ویسپا کی بجائے نبیل سے موٹر سائیکل ہی مانگ لی جائی۔

ہاسپٹل پہنچا تو نانی کی حالت کافی بہتر تھی ۔ امی کو بھی اپنی ماں کو دیکھ کر سکون مل گیا تھا۔ میری مشتاق نگاہیں اِرد گرد کسی کو تلاش کر رہی تھیں۔ نانی اور ماسی نے میری بے چینی بھانپ لی۔ ماسی امّی کو لے کر باہر چلی گئی اورنانی اپنی تکلیف بھول کر فوراً مجھ سے مخاطب ہوئیں :
”تم نے دیر کر دی ۔کالج سے سیدھی آئی تھی ابھی ابھی نکلی ہے․․․․․․کل پھر کالج کے بعد آئے گی ۔
دُعا کرو مجھے کل تک چھٹی نہ ملے۔“ نانی نے معصوم بچے کی طرح ساری خبر سنائی تھی۔ میری بسمہ سے ملاقات نہ ہونے کا مجھ سے بھی زیادہ افسوس نانی کو تھا۔ آج نانی کو یاد کرتا ہوں تو نانی کی معصوم باتوں پر بھی پیار آجاتا ہے۔
…#…
میں نے بسمہ سے ملاقات کے لیے اگلے دن اپنے کالج سے چھٹی کی۔ اپنی سب سے اچھی پینٹ شرٹ اور کوٹ پہنا جو سب مجھے تحفے میں ملے تھے۔
سائیکل کی بجائے موٹر سائیکل پرCMH جانے کا فیصلہ کیا۔ جب موٹر سائیکل مانگنے کے لیے نبیل کی دکان پر پہنچا تو پتہ چلا موٹر سائیکل اور نبیل صاحب دونوں ہی دکان سے غائب ہیں۔
اتنی اچھی پینٹ شرٹ اوپر سے کوٹ، ہاتھ میںCASIOکی ڈیجیٹل گھڑی۔ میں سائیکل چلاتا ہوا اچھا لگوں گا۔ دل میں خیال آیا، جیب میں ہاتھ ڈالا تو صرف چالیس روپے نکلے۔ عارفہ یاد آگئی۔
عارفہ میرے تایا کی بیٹی اُس کے دو ہی شوق تھے اچھے کپڑے اور اچھی خوراک۔ کھا کھا کے وہ کافی موٹی ہوگئی تھی پھر بھی دکھنے میں اچھی تھی۔ گوری چٹی۔ گول مٹول۔ پڑھنے میں ایک دم نالائق، میٹرک میں تین بار فیل ہونے کے بعد اُس نے خود ہی تعلیم کو خدا حافظ کہہ دیا تھا۔تایا کے گھر پہنچا تو تایا تائی تو عارفہ کے سسرال گئے ہوئے تھے۔ اُنہیں عارفہ کے منگیتر تنویر نے بلایا تھا۔
عارفہ بھی میرے ٹھاٹھ دیکھ کر دنگ رہ گئی۔
”اوئے! مطلبی آدمی․․․․․․کیسے ہو․․․․․․؟“ عارفہ نے گھر کا دروازہ کھولتے ہی کہہ دیا ۔
”تائی گھر پر ہیں․․․․․․؟“
”آجاؤ․․․․․․آجاؤ․․․․․․ گھر پر کوئی نہیں ہے․․․․․․“ عارفہ اندر جاتے ہوئے بولی۔ میں اُس کے پیچھے ہو لیا۔ میں نے چلتے چلتے ہی آنے کی وجہ بیان کر دی۔
”وہ عارفہ․․․․․․مجھے دو سو روپیہ اُدھار چاہیے تھا۔

”پہلے کتنے ہیں۔“ عارفہ نے رُ ک کر مزے سے پوچھا تھا۔
”انیس سو․․․․․․“ میں نے فٹ سے بتا دیا عارفہ مسکراتے ہوئے کہنے لگی:
”ہو تم ایماندار․․․․․․“ یہ بول کر وہ کمرے میں گئی اور دو سو روپے لاکر میری ہتھیلی پر رکھ دیئے۔ میں نے اپنی کوٹ کی آستیں اوپر کرکے اُس کی دی ہوئی گھڑی اُسے ہی دکھائی۔ وہ مسکرا دی۔ میں جلدی سے پلٹا۔ اُس کی آواز میرے کانوں میں پڑی:
”اوئے! آج اتنا بن ٹھن کر کہا ں جا رہے ہو․․․․․․؟“
”CMH بسمہ سے ملنے․․․․․․“ میں نے عارفہ کو دیکھے بغیر چلتے چلتے ہی جواب دیا تھا۔

…#…
240 روپے میں سے سات روپے کرایہ لگ گیا۔ میں دو ویگنیں بدلنے کے بعد ہاسپٹل پہنچا تو نانی سوئی ہوئی تھیں۔ ماسی نے مجھے دیکھا تو کہنے لگی:
”مہروز بیٹا! تم ماں جی کے پاس بیٹھو میں نماز پڑھ کر آتی ہوں۔“ ماسی نماز پڑھنے چلی گئی۔ چند منٹ بعد ایک نرس نے مجھے آکر مخاطب کیا :
”باجی کدھر گئی ہیں؟ “
”ماسی تو نماز پڑھنے گئی ہیں۔

”اچھا ایسا کریں یہ دو انجیکشن ہیں۔ اِس وقت یہ ہمارے اسٹاک میں Available نہیں ہیں اور یہ لگانے بھی ابھی ہیں۔ آپ یہ باہر سے لے آئیں۔“ نرس نے میرے ہاتھ میں ایک پرچی تھما دی ۔ میں نے پریشانی سے نرس کی طرف دیکھا۔
”آپ انجیکشن لے آئیں میں اِدھر ہی ہوں․․․․․․فکر کرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔“میں نے فارمیسی سے وہ دونوں انجیکشن لیے۔ بل پوچھا تو کاؤنٹر پر بیٹھے ہوئے عمر رسیدہ شخص نے اپنے چشمے کے اوپر سے دیکھتے ہوئے بتایا :
”230روپے۔
“ میں نے اپنی جیب سے 230روپے نکال کر اُسے تھما دیئے اور بھاگتا ہوا وارڈ کی طرف لوٹا۔ میرے کوٹ کی جیب میں پڑے ہوئے تین سکے اوچھل اوچھل کر ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے۔ واپس لوٹا تو ڈھائی بج چکے تھے۔CMHمیں لواحقین دو سے چار اپنے مریضوں کی عیادت کر سکتے ہیں ۔ نانی بیڈ کی بیک سے ٹیک لگائے ہوئے بیٹھی ہوئی تھیں۔ بسمہ نانی کو یخنی پلا رہی تھی اور اُس کی کزن اور سہیلی منہ میں سٹرا لگائے آم کے جوس کے مزے لوٹ رہی تھیں۔
بسمہ کو دیکھتے ہی میرے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی ۔ بسمہ نے بھی مسکراتے ہوئے ایک نظر مجھے دیکھا ۔ میں چلتا چلتا اُن کے پاس پہنچا۔ بسمہ نے نانی کا منہ صاف کیا اور یخنی والا ٹفن کا ڈبہ سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔
”مہروز بھائی!! اسلام علیکم․․․․․․“ بسمہ کی سہیلی ندا نے کہا ۔ اُس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ البتہ بسمہ کی کزن سندس کے تیور کوئی اتنے اچھے نہ تھے۔
نرس مجھے دیکھتے ہی جلدی سے میرے پاس آگئی۔
”لے آئے آپ انجیکشن۔“میں نے جواب نہیں دیا اور وہ پیکٹ ہی اُس کے سامنے کر دیا۔ اُس نے غور سے انجیکشن دیکھے پھر اُنہیں نانی کی ڈرپ میں سرنج کی مدد سے ڈالنے لگی۔ اتنے میں ماسی بھی واپس آگئی تھیں۔
”آپ کے انجیکشن ابھی تک آئے نہیں۔“ ماسی نے روکھے لہجے کے ساتھ نرس سے پوچھا ۔
”آئے ہوتے تو منگواتی کیوں․․․․․․ باجی․․․․․․؟․․․․․․باجی رش تو کم کروائیں․․․․․․“ نرس نے منہ بناتے ہوئے ماسی سے کہا تھا۔

”بسمہ !!سندس کو میرے پاس رہنے دو تم تینوں باہر لان میں جا کے بیٹھو!!“
”چاچی میں بھی اِن کے ساتھ جاؤں گی۔“ سندس نے یک لخت جواب دیا ۔
”ٹھیک ہے تم بھی جاؤ۔“ سب سے پہلے سندس ہی باہر کی طرف لپکی۔ اُس کے پیچھے ندا، پھر بسمہ اور سب سے پیچھے میں تھا۔
”مہروز بات سنو․․․․․․“ ماسی کی آواز پر میں رُک گیا۔ ماسی نے پرس سے سو سو کے چند نوٹ نکالے اور میری طرف چل پڑیں۔
ماسی سے پہلے سندس میرے پیچھے کھڑی تھی۔
”مہروز یہ پیسے رکھ لو۔“
”یہ کیوں دے رہی ہیں آپ․․․․․․؟“ میں نے فوراً پوچھا ۔
”ڈھائی سو کے تو انجیکشن ہی آئے ہوں گے۔“
”چاچی رہنے دو اِس کی بھی تو نانی لگتی ہے۔“سندس نے تبصرہ کیا ۔
”مہروز کون سا ابھی کماتا ہے․․․․․․؟“
”مہروز نہیں کماتا اِس کے ابّو تو کماتے ہیں․․․․․․ اُس دن سے سارا خرچہ میرے چاچو جی کا ہو رہا ہے۔
“ سندس نے نیا پنڈورا با کس کھول دیا ۔ ماسی کے چہرے کے خدوخال بدل گئے ۔ اِس سے پہلے کہ وہ سندس کو کچھ کہتی، بسمہ جلدی سے نانی کے بیڈ کے پاس گئی اور نانی کا پرس اُٹھا لائی اور سندس کو دکھاتے ہوئے بولی:
”نانی ایک صوبیدار کی بیوہ ہیں۔ اُن کا علاج مفت ہو رہا ہے۔ اگر کچھ تھوڑا بہت خرچا ہوا بھی ہے تو وہ نانی نے خود ہی کیا ہے۔ نانی ہم پر بوجھ نہیں ہیں․․․․․․نہ ہی اپنی دوسری بیٹیوں پر اور نہ ہی اپنے دامادوں پر․․․․․․“
”باجی بچیوں سے کہیں نا․․․․․․حساب کتاب باہر جا کر کرلیں․․․․․․ ہماری نوکری کا مسئلہ ہے۔
“ ایک سینئر نرس نے بڑی عاجزی سے کہا ۔ ماسی نے بسمہ کو آنکھ کا اشارہ کیا۔ بسمہ اپنا غصہ پی گئی اور سب کو باہر لے کر چلی گئی۔ باہر ہم چاروں ہی اُلّوؤں کی طرح دن میں ایک دوسرے کو دیکھے جا رہے تھے۔
”بہت بھوک لگی ہے․․․․․․“ سندس نے خاموشی توڑی ۔
”مجھے بھی․․․․․․“ ندا نے بھی اپنا پیٹ پکڑ کر کہا تھا۔ بسمہ نے ندا کو گھوری ڈالی۔
”اُسے کیوں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہی ہو۔
صبح کا ناشتہ کیا ہوا ہے۔ ایک ڈبے والا جوس پینے سے پیٹ تھوڑی بھرتا ہے۔“ اِس سے پہلے کہ بسمہ کچھ کہتی، سندس نے سارے حالات واقعات خود ہی بیان کر دیئے تھے۔
”ٹھیک ہے گھر جا کے ہی کچھ کھا لیں گے۔“ ندا نے بسمہ کی خاطر اپنی بھوک ہی مار لی تھی۔ میں نے چپکے سے بسمہ کی طرف دیکھا․․․․․․جو پہلے ہی چوری چوری میری طرف دیکھ رہی تھی۔ سندس کی نگاہیں ہیر رانجھا والے کیدو کی طرح ہماری نگرانی کر رہی تھیں۔

Chapters / Baab of Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan