Episode 11 - Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan
قسط نمبر11 - دِل اَدل بَدل - شکیل احمد چوہان
میرے اور عارفہ کے نکاح سے ایک دن پہلے سردی اور دُھند بہت تھی۔ عشاء کی نماز کے بعد ہم سب گھر والے امّی ابو کے کمرے میں ہیٹر لگا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ عالی نے پہلے تحریم کو مہندی لگائی ۔ اُس وقت وہ حریم کو مہندی لگا رہی تھی۔
امی، ابو اور نانی کشمیری چائے کے مزے لوٹ رہے تھے۔ میں اپنی سوچوں میں گم سم بیٹھا ہوا تھا۔ گھر کے بیرونی دروازے کو کسی نے زور زور سے پیٹنا شروع کر دیا ۔ ابّو نے مجھے آنکھ سے اشارہ کیا۔ میں جلدی سے باہر کی طرف بھاگا۔ دروازہ کھولا تو سامنے کلثوم باجی کھڑی تھی۔ اُن کے بال بکھرے ہوئے تھے اور آنکھیں سرخ تھیں۔
”تم نے اورعارفہ نے میرا گھر برباد کر دیا مہروز!“کلثوم باجی نے مجھے کندھے پر دھکا مارتے ہوئے کہا اور خود امّی ابّو کے کمرے کی طرف چل دی۔
”چاچا جی! مجھے برباد ہونے سے بچالیں․․․․․․ ابّو تو میری بات سن نہیں رہے ۔“ کلثوم باجی ابّو کے سامنے ہاتھ جوڑ کر مناجات کر رہی تھی ۔ابّو نے کلثوم باجی کو اپنے قدموں سے اُٹھا کر اپنے سامنے بٹھا لیا۔
”کیا ہوا ہے کچھ بتاؤ تو سہی․․․․․․“ ابو نے بڑی شفقت سے پوچھا۔
”چاچا جی! میرے سسرال والوں نے کہا ہے کہ اگر عارفہ اور مہروز کا نکاح ہوگیا تو وہ مجھے طلاق دے دیں گے۔میرے امّی ابّو کہنے لگے طلاق ہونے ہی دو․․․․․․ اِس روز روز کی بک بک سے تو جان چھوٹے گی۔ میں طلاق نہیں چاہتی․․․․․․ انہوں نے مجھ سے میرے بچے بھی چھین لیے ہیں․․․․․․ چاچا جی آپ کو اللہ کا واسطہ میرا گھر برباد ہونے سے بچالیں․․․․․․“
”مگر یہ رشتہ تو تنویر نے خود توڑا تھا۔“ ابو نے تشویش کے عالم میں کہا ۔کلثوم باجی دانت پیستے ہوئے کہنے لگی:
”اب بھی تنویر کو ہی موت پڑی ہے․․․․․․کہتا ہے عارفہ میری بچپن کی منگیتر ہے۔ وہ کیسے مہروز کی بیوی بن سکتی ہے.....؟ چاچا جی کچھ کریں نا․․․․․․اِس میں میرا کیا قصور ہے۔“
”شبیر کیا کہتا ہے․․․․․․؟“ امّی نے جلدی سے پوچھا۔
”چاچی! اُس نے کیا کہنا ہے وہ بھی اپنے گھر والوں کی زبان بول رہا ہے۔ کہتا ہے عارفہ ہماری ہے، یہ ہماری عزت کا سوال ہے۔“
”جو عزت تھی اُسے تو گھر سے نکال دیااب کس عزت کی بات کرتے ہیں۔“نانی نے افسردگی میں کہا ۔
ابّو نے مشاورتی نگاہ نانی کی طرف ڈالی۔ نانی نے ابّو کو گردن ہلا کر تسلی دی اور کہنے لگیں :
”بیٹا تم سب اپنے کمرے میں جاؤ۔“ میری بہنیں اور عالی وہاں سے چلی گئیں۔
”اِدھر میرے پاس آؤ․․․․․․“ نانی نے کلثوم باجی کو بڑی محبت کے ساتھ اپنی طرف بلایا۔ کلثوم باجی ابُو کے سامنے سے اُٹھ کر نانی کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔ نانی نے اُسے پیار کیا پھر بولیں :
”تمھارا گھر برباد نہیں ہو گا ۔ یہ میرا وعدہ ہے۔ بس جو میں پوچھوں اُس کا سچ سچ جواب دینا۔“
کلثوم باجی نے گردن کو اثبات میں ہلایا تھا۔
”یہ تنویر کیسا لڑکا ہے۔“ نانی نے کلثوم باجی سے پوچھا۔
”ٹھیک ہے۔“ کلثوم باجی نے حیران ہو کر بتایا۔
”کوئی عیب․․․․․․؟“ نانی نے فوراً اگلا سوال کر دیا۔
”عیب تو کوئی نہیں بس تمباکو والے پان کھاتا ہے۔“
”کچھ اور․․․․․․“
”اور تو کوئی برائی نہیں ہے․․․․․․ ہاں یاد آیا چھٹی والے دن چھت پر گڈی بھی اُڑاتا ہے۔“
”گوالمنڈی والا گھر کس کے نام ہے۔“نانی نے اگلی بات پوچھ لی۔
”خالو جی کے۔“
”تنویر کے نام پر بھی کچھ ہے۔“ نانی کچھ سوچتے ہوئے بولیں۔
”ہاں ہاں دونوں بھائیوں نے چائینہ اسکیم میں پانچ پانچ مرلے کے پلاٹ خرید رکھے ہیں۔“ کلثوم باجی نے فخر سے بتایا۔
نانی کچھ سوچنے لگی تھیں۔ ہم سب نانی کی طرف دیکھ رہے تھے ۔کلثوم باجی کی آواز نے خاموشی کے سلسلے کو توڑا تھا :
”بی بی جی سب سے بڑی خامی تو میں بتانا بھول ہی گئی۔“ہم سب کی توجہ فوراً ہی کلثوم باجی کی طرف گئی۔ کلثوم باجی بڑی فکر مندی سے بتانے لگی :
”بی بی جی! تنویر لائی لگ بہت ہے۔“
امّی ابّو تو کلثوم باجی کی بیوقوفی پر ہنس پڑے۔ میں بھی ہلکا سا مسکرایا تھا مگر نانی سنجیدہ ہی رہیں۔
”چلو اُٹھو․․․․․․“ نانی اپنی جگہ سے اُٹھ پڑیں۔
”کہاں․․․․․․؟“ امی نے حیرانی سے پوچھا۔
”تمھارے جیٹھ کے گھر۔“
نانی، امّی ابّو اور کلثوم باجی کو لے کر تایا کے گھر چلی گئیں۔
”میں نے کہا تھانا․․․․․․“ عالی فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔
”کیا․․․․․․؟“ میں نے حیرانی سے پوچھا۔
”آدھا کام ہوگیا ہے․․․․․․“ عالی یہ اطلاع دے کر سیڑھیاں چڑھ گئی۔
میں پہلے ہی پریشان تھا اوپر سے عالی کے جملے نے مجھے اور پریشان کر دیا۔ رات گزرتی جا رہی تھی اور میری پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔ رات گئے امّی ابّو اور نانی واپس لوٹے تھے۔ امّی ابّو تو آتے ہی اپنے کمرے میں چلے گئے۔ میں نے نانی سے پوچھنا چاہا کہ تایا کے گھر پر کیا بات ہوئی ہے تو نانی نے صرف اتنا کہا:
”ابھی سو جاؤ صبح بتاؤں گی۔“ نانی یہ بول کر حریم اور تحریم کے کمرے میں چلی گئیں۔ نیند کس کافر کو آرہی تھی وہ رات میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں کاٹی۔آج سوچتا ہوں کہ اُس رات مجھے نیند کیوں نہیں آ رہی تھی۔ ثانیہ کی شادی ہونے والی تھی اور بسمہ کا نکاح ہوچکا تھا۔ عارفہ سے میں شادی نہیں کرنا چاہتا تھا وہی تو ہونے جا رہا تھا، میں پھر بھی پریشان تھا ۔ دل کی اَدلی بَدلی اُس وقت بھی میری سمجھ سے باہر تھی اور آج بھی یہ معمہ ہی ہے۔
”اب تک سو رہے ہو مہروز بیٹا۔“ میں اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ نانی میرے پاس میرے بستر پر بیٹھ گئیں اور میرے گال پر پیار کرتے ہوئے کہنے لگیں :
”مہروز ، جوڑیاں تو آسمانوں پر بنتی ہیں․․․․․․تو میرا بچہ دل چھوٹا مت کر․․․․․․“
”میں سمجھا نہیں۔“
”آج عارفہ کے ساتھ تمھاری جگہ تنویر کا نکاح ہے۔“میں ایک لمحے میں ہی جیتے جاگتے انسان کی جگہ برف کا پُتلا بن گیا ۔ یہ سچ ہے کہ میں عارفہ سے نکاح نہیں کرنا چاہتا تھا۔ یہ بھی سچ ہے کہ مجھے یہ بات سُن کر شدید صدمہ ہوا تھا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ خوشی اور غم کو ماپنے کا آج تک کوئی پیمانہ نہیں بنا ہے۔ اگر ہوتا تو یہ غم بھی اُتنا ہی بڑا تھا جتنا ثانیہ کی منگنی یا پھر بسمہ کے نکاح کے وقت مجھے ملا تھا۔
مُلّا کی دوڑ مسیت تک اور میری دوڑ چھت تک۔ میں نے رضائی ایک طرف پھینکی اور چھت پر چلا گیا۔ اُس دن کافی دنوں بعد سورج صاحب ڈیوٹی پر آئے تھے ۔ بڑی پیاری دھوپ نکلی ہوئی تھی۔
میں ٹوٹی ہوئی کرسی پر منہ بنا کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد میرے کندھے پر کسی کا ہاتھ آیا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو نبیل کھڑا تھا۔نبیل نے خود ہی مجھے کرسی سے اُٹھا کر اپنے سینے سے لگا لیا۔
”بی بی جی نے مجھے سب بتادیا ہے۔“ نبیل نے مجھے تھپکی دیتے ہوئے کہا ۔میری آنکھوں میں نمی تھی جو آنسوؤں میں ڈھلنا چاہتی تھی اور آنسو آنکھوں کی جیل سے رہائی چاہتے تھے۔ نبیل نے میرے مکھڑے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا :
”رونا مت․․․․․․مرد روتے ہوئے اچھے نہیں لگتے۔“ آنسو تو میں نے روک لیے مگر دل کی بات زبان پر آ ہی گئی :
”مرد کے سینے میں بھی دل ہوتا ہے․․․․․․اُسے بھی چوٹ لگتی ہے․․․․․․چوٹ لگے تو آنسو نکل ہی آتے ہیں۔“
”اچھا ہوا عارفہ سے تمھاری جان چھوٹ گئی․․․․․․تم کونسا اُس سے شادی کرنا چاہتے تھے۔“
”ثانیہ ،بسمہ کے بعد مجھے عارفہ سے بھی محبت ہو گئی تھی۔“
”بھائی ناشتہ․․․․․․“عالی ہاتھوں میں ٹرے اُٹھائے ہم دونوں کے پیچھے کھڑی تھی۔
”تم کب آئی․․․․․․؟“ نبیل نے عالی سے پوچھا۔
”جب آپ نے کہا تھا بی بی جی نے مجھے سب بتا دیا ہے۔“ عالی نے ناشتے والی ٹرے میز پر رکھتے ہوئے جواب دیا اور مزید کچھ کہے وہاں سے چلی گئی۔
”خالی آنکھیں بند کرنے سے نیند نہیں آتی مہروز بیٹا!“ نانی نے کرسی کو میرے پلنگ کی طرف گھسیٹتے ہوا کہا تھا۔ نانی کرسی پر بیٹھ گئیں۔
”تم دیکھنا میں تمھارے لیے چاند سی دلہن لاؤں گی۔“
اس سے ملتی جلتی لائنز میں دو دفعہ پہلے بھی نانی کے منہ سے سُن چکا تھا میں نے آنکھیں کھول کر نانی کی طرف دیکھا۔ وہ مجھے ہی دیکھ رہی تھیں ۔ میں اُٹھ کر بیٹھ گیا۔
”جو ہوتا ہے اچھے کے لیے ہوتا ہے۔“ نانی کا دائیاں ہاتھ میرے گال پر تھا۔ میں نے مایوسی سے جواب دیا :
”ایسا اچھا میرے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے․․․․․․؟“نانی سوچ میں پڑ گئیں ۔نانی کے پاس میرے سوال کا جواب نہیں تھا یا انہوں نے خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا۔ وہ اُٹھ کر وہاں سے جانے لگیں۔ میں نے اُنہیں ہاتھ سے پکڑ لیا وہ بیٹھ گئیں۔ تھوڑی دیر ہم دونوں میں خاموشی رہی ۔پھر نانی خود ہی مجھے تفصیل بتانے لگیں:
”یہ میرا فیصلہ تھا․․․․․․تمھارا گھر بسانے کے لیے میں کلثوم کا گھر اُجاڑ نہیں سکتی تھی۔ اگر عارفہ اور تنویر کا نکاح نہ کرواتی تو شبیر کلثوم کو طلاق دے دیتا۔“ نانی نے توقف کیا تو میں جلدی سے بول پڑا :
”اب کیا گارنٹی ہے کہ شبیر کلثوم باجی کو اور تنویر عارفہ کو طلاق نہیں دے گا․․․․․․؟“ نانی کے ہونٹوں پر سنجیدہ مسکراہٹ ابھری اور وہ کہنے لگیں :
”اب تو وہ دونوں بھائی طلاق کا لفظ بھی اپنی زبان پرلانے سے پہلے ہزار بار سوچیں گے۔“ میں نے سوالیہ نظروں سے نانی کو دیکھا۔
”شبیر اور تنویر کے پلاٹ حق مہر میں لکھوائے ہیں میں نے۔“
”کس کے حق مہر میں․․․․․․؟“ میں نے عُجلت میں پوچھا۔
”شبیر کا پلاٹ کلثوم کے حق مہر میں اور تنویر کا عارفہ کے ۔“
”پلاٹ حق مہر میں لکھوانے سے خوشی تھوڑی ملتی ہے․․․․․․؟“
”لائی لگ مرد ہی بیوی کے پیچھے لگتے ہیں اور ایسے مردوں پر ہی تو بیویاں حکومت کرتی ہیں۔“ نانی کے منہ سے یہ الفاظ نکلنے کی دیر تھی میں بھی اُبل پڑا :
”میں بھی تو لائی لگ ہی ہوں! آپ نے بچپن سے میرے دماغ میں یہ بات ڈالی تھی کہ ثانیہ اور تمھاری جوڑی بڑی اچھی لگے گی۔ میں ثانیہ سے محبت کرنے لگا۔ پھر آپ نے کہا میں نے تمھارے لیے ایک بہت ہی پیاری لڑکی ڈھونڈ رکھی ہے اپنی بسمہ اور میں بے وقوف بسمہ پر دیوانہ ہوگیا۔ بسمہ کے نکاح کے بعد آپ نے مجھے دلاسہ دیتے ہوئے بتایا عارفہ بھی بہت اچھی لڑکی ہے اور وہ تم سے محبت بھی کرتی ہے۔ آپ کے منہ سے یہ سُن کر میں عارفہ کو بھی چاہنے لگا تھا۔ اب آپ عارفہ کا نکاح تنویر سے کروانے کے بعد مجھے پھر سے نئی اُمید دلا رہی ہیں۔ تم دیکھنا میں تمھارے لیے چاند سی دلہن لاؤں گی۔ بس نانی بس!اب مجھے آپ کی کسی بات پر یقین نہیں ہے۔“ میں نے جذباتی ہو کر نانی سے بدتمیزی کر دی اور خود غصے سے اُٹھ کر پھر سے چھت پر چلا گیا۔ نانی کے گھٹنوں میں درد رہتا تھا اور مجھے معلوم تھا کہ وہ چھت پر نہیں آسکتیں۔
امی، ابو اور نانی کشمیری چائے کے مزے لوٹ رہے تھے۔ میں اپنی سوچوں میں گم سم بیٹھا ہوا تھا۔ گھر کے بیرونی دروازے کو کسی نے زور زور سے پیٹنا شروع کر دیا ۔ ابّو نے مجھے آنکھ سے اشارہ کیا۔ میں جلدی سے باہر کی طرف بھاگا۔ دروازہ کھولا تو سامنے کلثوم باجی کھڑی تھی۔ اُن کے بال بکھرے ہوئے تھے اور آنکھیں سرخ تھیں۔
”تم نے اورعارفہ نے میرا گھر برباد کر دیا مہروز!“کلثوم باجی نے مجھے کندھے پر دھکا مارتے ہوئے کہا اور خود امّی ابّو کے کمرے کی طرف چل دی۔
(جاری ہے)
میں نے د روازے کی کنڈی لگائی اور اُن کے پیچھے ہو لیا۔
”چاچا جی! مجھے برباد ہونے سے بچالیں․․․․․․ ابّو تو میری بات سن نہیں رہے ۔“ کلثوم باجی ابّو کے سامنے ہاتھ جوڑ کر مناجات کر رہی تھی ۔ابّو نے کلثوم باجی کو اپنے قدموں سے اُٹھا کر اپنے سامنے بٹھا لیا۔
”کیا ہوا ہے کچھ بتاؤ تو سہی․․․․․․“ ابو نے بڑی شفقت سے پوچھا۔
”چاچا جی! میرے سسرال والوں نے کہا ہے کہ اگر عارفہ اور مہروز کا نکاح ہوگیا تو وہ مجھے طلاق دے دیں گے۔میرے امّی ابّو کہنے لگے طلاق ہونے ہی دو․․․․․․ اِس روز روز کی بک بک سے تو جان چھوٹے گی۔ میں طلاق نہیں چاہتی․․․․․․ انہوں نے مجھ سے میرے بچے بھی چھین لیے ہیں․․․․․․ چاچا جی آپ کو اللہ کا واسطہ میرا گھر برباد ہونے سے بچالیں․․․․․․“
”مگر یہ رشتہ تو تنویر نے خود توڑا تھا۔“ ابو نے تشویش کے عالم میں کہا ۔کلثوم باجی دانت پیستے ہوئے کہنے لگی:
”اب بھی تنویر کو ہی موت پڑی ہے․․․․․․کہتا ہے عارفہ میری بچپن کی منگیتر ہے۔ وہ کیسے مہروز کی بیوی بن سکتی ہے.....؟ چاچا جی کچھ کریں نا․․․․․․اِس میں میرا کیا قصور ہے۔“
”شبیر کیا کہتا ہے․․․․․․؟“ امّی نے جلدی سے پوچھا۔
”چاچی! اُس نے کیا کہنا ہے وہ بھی اپنے گھر والوں کی زبان بول رہا ہے۔ کہتا ہے عارفہ ہماری ہے، یہ ہماری عزت کا سوال ہے۔“
”جو عزت تھی اُسے تو گھر سے نکال دیااب کس عزت کی بات کرتے ہیں۔“نانی نے افسردگی میں کہا ۔
ابّو نے مشاورتی نگاہ نانی کی طرف ڈالی۔ نانی نے ابّو کو گردن ہلا کر تسلی دی اور کہنے لگیں :
”بیٹا تم سب اپنے کمرے میں جاؤ۔“ میری بہنیں اور عالی وہاں سے چلی گئیں۔
”اِدھر میرے پاس آؤ․․․․․․“ نانی نے کلثوم باجی کو بڑی محبت کے ساتھ اپنی طرف بلایا۔ کلثوم باجی ابُو کے سامنے سے اُٹھ کر نانی کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔ نانی نے اُسے پیار کیا پھر بولیں :
”تمھارا گھر برباد نہیں ہو گا ۔ یہ میرا وعدہ ہے۔ بس جو میں پوچھوں اُس کا سچ سچ جواب دینا۔“
کلثوم باجی نے گردن کو اثبات میں ہلایا تھا۔
”یہ تنویر کیسا لڑکا ہے۔“ نانی نے کلثوم باجی سے پوچھا۔
”ٹھیک ہے۔“ کلثوم باجی نے حیران ہو کر بتایا۔
”کوئی عیب․․․․․․؟“ نانی نے فوراً اگلا سوال کر دیا۔
”عیب تو کوئی نہیں بس تمباکو والے پان کھاتا ہے۔“
”کچھ اور․․․․․․“
”اور تو کوئی برائی نہیں ہے․․․․․․ ہاں یاد آیا چھٹی والے دن چھت پر گڈی بھی اُڑاتا ہے۔“
”گوالمنڈی والا گھر کس کے نام ہے۔“نانی نے اگلی بات پوچھ لی۔
”خالو جی کے۔“
”تنویر کے نام پر بھی کچھ ہے۔“ نانی کچھ سوچتے ہوئے بولیں۔
”ہاں ہاں دونوں بھائیوں نے چائینہ اسکیم میں پانچ پانچ مرلے کے پلاٹ خرید رکھے ہیں۔“ کلثوم باجی نے فخر سے بتایا۔
نانی کچھ سوچنے لگی تھیں۔ ہم سب نانی کی طرف دیکھ رہے تھے ۔کلثوم باجی کی آواز نے خاموشی کے سلسلے کو توڑا تھا :
”بی بی جی سب سے بڑی خامی تو میں بتانا بھول ہی گئی۔“ہم سب کی توجہ فوراً ہی کلثوم باجی کی طرف گئی۔ کلثوم باجی بڑی فکر مندی سے بتانے لگی :
”بی بی جی! تنویر لائی لگ بہت ہے۔“
امّی ابّو تو کلثوم باجی کی بیوقوفی پر ہنس پڑے۔ میں بھی ہلکا سا مسکرایا تھا مگر نانی سنجیدہ ہی رہیں۔
”چلو اُٹھو․․․․․․“ نانی اپنی جگہ سے اُٹھ پڑیں۔
”کہاں․․․․․․؟“ امی نے حیرانی سے پوچھا۔
”تمھارے جیٹھ کے گھر۔“
نانی، امّی ابّو اور کلثوم باجی کو لے کر تایا کے گھر چلی گئیں۔
…#…
میں بیرونی دروازہ بند کرنے کے بعد صحن سے اپنے کمرے میں جانے لگا تھا کہ عالی میری بہنوں کے کمرے سے نکل کر سیڑھیاں چڑھنے لگی تھی۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے سامنے آگئے تھے۔”میں نے کہا تھانا․․․․․․“ عالی فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔
”کیا․․․․․․؟“ میں نے حیرانی سے پوچھا۔
”آدھا کام ہوگیا ہے․․․․․․“ عالی یہ اطلاع دے کر سیڑھیاں چڑھ گئی۔
میں پہلے ہی پریشان تھا اوپر سے عالی کے جملے نے مجھے اور پریشان کر دیا۔ رات گزرتی جا رہی تھی اور میری پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔ رات گئے امّی ابّو اور نانی واپس لوٹے تھے۔ امّی ابّو تو آتے ہی اپنے کمرے میں چلے گئے۔ میں نے نانی سے پوچھنا چاہا کہ تایا کے گھر پر کیا بات ہوئی ہے تو نانی نے صرف اتنا کہا:
”ابھی سو جاؤ صبح بتاؤں گی۔“ نانی یہ بول کر حریم اور تحریم کے کمرے میں چلی گئیں۔ نیند کس کافر کو آرہی تھی وہ رات میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں کاٹی۔آج سوچتا ہوں کہ اُس رات مجھے نیند کیوں نہیں آ رہی تھی۔ ثانیہ کی شادی ہونے والی تھی اور بسمہ کا نکاح ہوچکا تھا۔ عارفہ سے میں شادی نہیں کرنا چاہتا تھا وہی تو ہونے جا رہا تھا، میں پھر بھی پریشان تھا ۔ دل کی اَدلی بَدلی اُس وقت بھی میری سمجھ سے باہر تھی اور آج بھی یہ معمہ ہی ہے۔
…#…
اگلی صبح ابّو سویرے ہی سویرے تایا جی کے گھر چلے گئے تھے۔ امّی ناشتہ بنانے میں مصروف ہوگئیں۔ میں نے یہ دیکھا تو پھر سے اپنے کمرے میں رضائی اُوڑ ھ کر لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر بعد نانی میرے کمرے میں آئیں۔”اب تک سو رہے ہو مہروز بیٹا۔“ میں اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ نانی میرے پاس میرے بستر پر بیٹھ گئیں اور میرے گال پر پیار کرتے ہوئے کہنے لگیں :
”مہروز ، جوڑیاں تو آسمانوں پر بنتی ہیں․․․․․․تو میرا بچہ دل چھوٹا مت کر․․․․․․“
”میں سمجھا نہیں۔“
”آج عارفہ کے ساتھ تمھاری جگہ تنویر کا نکاح ہے۔“میں ایک لمحے میں ہی جیتے جاگتے انسان کی جگہ برف کا پُتلا بن گیا ۔ یہ سچ ہے کہ میں عارفہ سے نکاح نہیں کرنا چاہتا تھا۔ یہ بھی سچ ہے کہ مجھے یہ بات سُن کر شدید صدمہ ہوا تھا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ خوشی اور غم کو ماپنے کا آج تک کوئی پیمانہ نہیں بنا ہے۔ اگر ہوتا تو یہ غم بھی اُتنا ہی بڑا تھا جتنا ثانیہ کی منگنی یا پھر بسمہ کے نکاح کے وقت مجھے ملا تھا۔
مُلّا کی دوڑ مسیت تک اور میری دوڑ چھت تک۔ میں نے رضائی ایک طرف پھینکی اور چھت پر چلا گیا۔ اُس دن کافی دنوں بعد سورج صاحب ڈیوٹی پر آئے تھے ۔ بڑی پیاری دھوپ نکلی ہوئی تھی۔
میں ٹوٹی ہوئی کرسی پر منہ بنا کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد میرے کندھے پر کسی کا ہاتھ آیا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو نبیل کھڑا تھا۔نبیل نے خود ہی مجھے کرسی سے اُٹھا کر اپنے سینے سے لگا لیا۔
”بی بی جی نے مجھے سب بتادیا ہے۔“ نبیل نے مجھے تھپکی دیتے ہوئے کہا ۔میری آنکھوں میں نمی تھی جو آنسوؤں میں ڈھلنا چاہتی تھی اور آنسو آنکھوں کی جیل سے رہائی چاہتے تھے۔ نبیل نے میرے مکھڑے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا :
”رونا مت․․․․․․مرد روتے ہوئے اچھے نہیں لگتے۔“ آنسو تو میں نے روک لیے مگر دل کی بات زبان پر آ ہی گئی :
”مرد کے سینے میں بھی دل ہوتا ہے․․․․․․اُسے بھی چوٹ لگتی ہے․․․․․․چوٹ لگے تو آنسو نکل ہی آتے ہیں۔“
”اچھا ہوا عارفہ سے تمھاری جان چھوٹ گئی․․․․․․تم کونسا اُس سے شادی کرنا چاہتے تھے۔“
”ثانیہ ،بسمہ کے بعد مجھے عارفہ سے بھی محبت ہو گئی تھی۔“
”بھائی ناشتہ․․․․․․“عالی ہاتھوں میں ٹرے اُٹھائے ہم دونوں کے پیچھے کھڑی تھی۔
”تم کب آئی․․․․․․؟“ نبیل نے عالی سے پوچھا۔
”جب آپ نے کہا تھا بی بی جی نے مجھے سب بتا دیا ہے۔“ عالی نے ناشتے والی ٹرے میز پر رکھتے ہوئے جواب دیا اور مزید کچھ کہے وہاں سے چلی گئی۔
…#…
جمعہ کی رات کو میں اپنے بستر پر لیٹا ہوا سوچ رہا تھا آج عارفہ بھی تنویر کی ہوگئی اور میں․․․․․․؟ نانی میرے کمرے میں داخل ہوئیں۔ میں نے آنکھیں موند لیں۔”خالی آنکھیں بند کرنے سے نیند نہیں آتی مہروز بیٹا!“ نانی نے کرسی کو میرے پلنگ کی طرف گھسیٹتے ہوا کہا تھا۔ نانی کرسی پر بیٹھ گئیں۔
”تم دیکھنا میں تمھارے لیے چاند سی دلہن لاؤں گی۔“
اس سے ملتی جلتی لائنز میں دو دفعہ پہلے بھی نانی کے منہ سے سُن چکا تھا میں نے آنکھیں کھول کر نانی کی طرف دیکھا۔ وہ مجھے ہی دیکھ رہی تھیں ۔ میں اُٹھ کر بیٹھ گیا۔
”جو ہوتا ہے اچھے کے لیے ہوتا ہے۔“ نانی کا دائیاں ہاتھ میرے گال پر تھا۔ میں نے مایوسی سے جواب دیا :
”ایسا اچھا میرے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے․․․․․․؟“نانی سوچ میں پڑ گئیں ۔نانی کے پاس میرے سوال کا جواب نہیں تھا یا انہوں نے خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا۔ وہ اُٹھ کر وہاں سے جانے لگیں۔ میں نے اُنہیں ہاتھ سے پکڑ لیا وہ بیٹھ گئیں۔ تھوڑی دیر ہم دونوں میں خاموشی رہی ۔پھر نانی خود ہی مجھے تفصیل بتانے لگیں:
”یہ میرا فیصلہ تھا․․․․․․تمھارا گھر بسانے کے لیے میں کلثوم کا گھر اُجاڑ نہیں سکتی تھی۔ اگر عارفہ اور تنویر کا نکاح نہ کرواتی تو شبیر کلثوم کو طلاق دے دیتا۔“ نانی نے توقف کیا تو میں جلدی سے بول پڑا :
”اب کیا گارنٹی ہے کہ شبیر کلثوم باجی کو اور تنویر عارفہ کو طلاق نہیں دے گا․․․․․․؟“ نانی کے ہونٹوں پر سنجیدہ مسکراہٹ ابھری اور وہ کہنے لگیں :
”اب تو وہ دونوں بھائی طلاق کا لفظ بھی اپنی زبان پرلانے سے پہلے ہزار بار سوچیں گے۔“ میں نے سوالیہ نظروں سے نانی کو دیکھا۔
”شبیر اور تنویر کے پلاٹ حق مہر میں لکھوائے ہیں میں نے۔“
”کس کے حق مہر میں․․․․․․؟“ میں نے عُجلت میں پوچھا۔
”شبیر کا پلاٹ کلثوم کے حق مہر میں اور تنویر کا عارفہ کے ۔“
”پلاٹ حق مہر میں لکھوانے سے خوشی تھوڑی ملتی ہے․․․․․․؟“
”لائی لگ مرد ہی بیوی کے پیچھے لگتے ہیں اور ایسے مردوں پر ہی تو بیویاں حکومت کرتی ہیں۔“ نانی کے منہ سے یہ الفاظ نکلنے کی دیر تھی میں بھی اُبل پڑا :
”میں بھی تو لائی لگ ہی ہوں! آپ نے بچپن سے میرے دماغ میں یہ بات ڈالی تھی کہ ثانیہ اور تمھاری جوڑی بڑی اچھی لگے گی۔ میں ثانیہ سے محبت کرنے لگا۔ پھر آپ نے کہا میں نے تمھارے لیے ایک بہت ہی پیاری لڑکی ڈھونڈ رکھی ہے اپنی بسمہ اور میں بے وقوف بسمہ پر دیوانہ ہوگیا۔ بسمہ کے نکاح کے بعد آپ نے مجھے دلاسہ دیتے ہوئے بتایا عارفہ بھی بہت اچھی لڑکی ہے اور وہ تم سے محبت بھی کرتی ہے۔ آپ کے منہ سے یہ سُن کر میں عارفہ کو بھی چاہنے لگا تھا۔ اب آپ عارفہ کا نکاح تنویر سے کروانے کے بعد مجھے پھر سے نئی اُمید دلا رہی ہیں۔ تم دیکھنا میں تمھارے لیے چاند سی دلہن لاؤں گی۔ بس نانی بس!اب مجھے آپ کی کسی بات پر یقین نہیں ہے۔“ میں نے جذباتی ہو کر نانی سے بدتمیزی کر دی اور خود غصے سے اُٹھ کر پھر سے چھت پر چلا گیا۔ نانی کے گھٹنوں میں درد رہتا تھا اور مجھے معلوم تھا کہ وہ چھت پر نہیں آسکتیں۔
Chapters / Baab of Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan
اک دیا جلائے رکھنا
Ik Diya Jalaye Rakhna
سچ کا سفر
Sach Ka Safar
لندن کی ایک رات
London Ki Ek Raat
فکرِ اقبال
fikr e Iqbal
تُوبُوااِلیَ اللّٰہِ جَمِیعَاً
Tu Bu Ella ALLAH Jamea
کشمیر کا المیہ
Kashmir ka almiya
رسیدی ٹکٹ
Raseedi Ticket
دِل ایک شہر جنوں
Dil Aik Shehre e Junoon
NovelAfsaneIslamicHistoryTravelogueAutobiographyUrdu LiteratureHumorousPoliticsSportsHealthPersonalitiesColumn And ProseSend Your Books & Requests