Episode 18 - Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر18 - دِل اَدل بَدل - شکیل احمد چوہان

اگلے دن صبح دس بجے مقامی مسجد میں عالی کی رسم ِ قُل تھی۔ وہی امام صاحب جنھوں نے10بجے عالی کا ختم قل پڑھا تھا،11بجے میرے گھر پر میرا ثانیہ سے نکاح پڑھا رہے تھے۔ ہے نا حیرت والی بات۔ ہم اگر غور کریں تو ہم سب کی زندگیوں میں ایسے بے شمار حیرت انگیز واقعات ملیں گے۔
نکاح کے وقت ہمارا گھر مہمانوں سے بھرا پڑا تھا۔ کبھی کوئی میرے کان میں سر گوشی کے انداز میں :
”مبارک کہہ دیتا۔
“ اور کبھی کوئی ․․․․․․میرے کان وہ مبارک بادیں سُن سُن کر پھٹنے کو تھے۔
جیسا کہ میں پیچھے لکھ چُکا ہوں۔ ملّا کی دوڑ مسیت تک اور میری دوڑ چھت تک․․․․․․ گوالمنڈی میں رہنے والے مکینوں کی زندگیوں میں چھتوں اور تھڑوں کا اہم رول تھا۔ کسی حد تک وہ اثر آج کے دور میں بھی ہے۔

(جاری ہے)


اِس سے پہلے کہ کوئی اور مبارک باد کی آواز میرے کان میں پڑتی میں چھت کی طرف بھاگا۔

میں سیڑھیاں چڑھ رہا تھا میرے سامنے یکدم بسمہ آگئی۔ وہ چھت سے نیچے آرہی تھی۔ ہم دونوں ہی رُک گئے۔
”ثانیہ کے ساتھ نکاح کی مبارک نہیں دو گی؟ “ میں نے لفظوں پر زور دے کر پوچھا۔ بسمہ نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا :
” نہیں .... صرف عالی کا افسوس کروں گی..... مہروز عالی کی موت کا دلی دکھ ہوا ہے مجھے۔“ بسمہ نے یہ کہا اور جلدی سے نیچے کی طرف چلی گئی اور میں چھت کی طرف ۔
چھت پر پہنچا تو میں نے دیکھا ڈھیر سارے مالٹے عارفہ کے سامنے پڑے تھے اور وہ دنیا سے بے نیاز مالٹوں کو نمک لگا لگا کر کھا رہی تھی ۔عارفہ نے مجھے دیکھا تو جلدی سے صفائی دینے لگی:
”تنویر کو پتہ ہے میرا بلڈ پریشر Lowہو جاتا ہے۔ اِس لیے مالٹے کھا رہی ہوں۔“ میں نے اِرد گرد دیکھنے کے بعد پوچھا:
”تنویر کہاں ہے․․․․․․؟“
”وہ میرے لیے کیلے لینے گیا ہے․․․․․․خالی مالٹے ہی اُٹھا لایا تھا میں نے کہا جاؤ کیلے بھی لے کر آؤ۔
“ اب تو میں چھت پر بھی نہیں رُک سکتا تھا۔ میں نبیل کے گھر کی سیڑھیاں اُترنے لگا ۔
”اوئے! مہروز مالٹے تو کھالو“ عارفہ نے مجھے پیچھے سے آواز لگائی۔ میں نے اُسے ہاتھ سے سلام کیا اور نیچے چلا گیا۔
نیچے پہنچا تو نبیل کی امّاں سے میرا سامنا ہوگیا وہ جلدی سے مجھ سے لپٹ گئیں۔ انہوں نے زور زور سے رونا شروع کر دیا تھا۔ میری بھی آنکھیں بھر آئیں۔
میں اُن کو لے کر اُن کے کمرے میں چلا گیا۔ اُن کو چپ کروایا، تو اُن کا میری طرف دھیان آیا۔ اُنہوں نے میرے چہرے پر بڑے پیار سے ہاتھ پھیرا پھر رُندھی سی آواز میں کہنے لگیں :
”رب سوہنے دی مرضی․․․․․․عالی کا وقت آگیا تھا پُتر․․․․․․․تیرے جیسا جوائی اللہ سب کو دے․․․․․․عالی تیرے ساتھ بڑی خوش تھی․․․․․․صبر کر پُتر صبر کر․․․․․تو میرا پتر سوجا․․․․․․کیسے تیری آنکھیں رو رو کر سُرخ ہو رہی ہیں۔
“ نبیل کی امّاں نے مجھے پیار سے اپنے بستر پر لٹا دیا اور خود ہی میرے اوپر رضائی دی۔ اُس کے بعد کمرے کا دروازہ بند کرتے ہوئے باہر چلی گئیں۔
…#…
نبیل نے مجھے کندھے سے ہلانے کے بعد کہا تھا:
”مہروز اُٹھ جاؤ․․․․․․رات کے9بج گئے ہیں۔“ میں آنکھیں ملتے ہوئے اُٹھ کر بیٹھ گیا۔
”منہ ہاتھ دھو لو میں فرزانہ کو کھانے کے لیے کہتا ہوں۔
“ میں غسل خانے کی طر ف چلا گیا اور نبیل باورچی خانے کی طرف ۔ جب میں منہ ہاتھ دھو کر واپس لوٹا تو فرزانہ بھابھی نے کھانا لگا دیا تھا۔ میں نے کھانے کو دیکھنے کے بعد شکایتی نظروں سے نبیل کی طرف دیکھا۔ نبیل میرا دیکھنا سمجھ گیا تھا۔ اُس نے مجھے بتایا:
”مہروز تم نے پچھلے دو دن سے کچھ نہیں کھایا۔“ میں نبیل کی طرف دیکھ رہا تھا کہ فرزانہ بھابھی بول پڑیں :
”آپ بھی تو پچھلے دو دن سے بھوک ہڑتال کیے ہوئے ہیں۔
“ میں نے پلٹ کر فرزانہ بھابھی کی طرف دیکھا۔
”مہروز بھائی آپ کچھ کھائیں گے تو یہ بھی کچھ کھا لیں گے۔“فرزانہ بھابھی نے انتہائی دکھ کے ساتھ کہا ۔ میں کھانے کے لیے بیٹھ گیا۔ مجھے دیکھ کر نبیل بھی بیٹھ گیا۔ پتہ نہیں میں نے نبیل کی وجہ سے کھانا کھایا تھا یا اُس نے میری وجہ سے۔
کھانے کے بعد وہی پرانا ٹھکانہ۔ میں اور نبیل چھت پر بیٹھے ہوئے تھے۔

”تمھارا اور عالی کا10ماہ اور21دنوں کا ساتھ رہا۔ جبکہ ہم نے تقریباً 21سال ساتھ گزارے تھے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ مجھے عالی کی موت کاتم سے زیادہ دُکھ ہے․․․․․․تمھارا دُکھ بہت بڑا ہے۔ پھر بھی اِس سے نکلنا تو پڑے گا۔ ثانیہ ! میری بہن کے بچوں کی ماں بن گئی ہے۔ اِس لیے میں نے بھی اُسے بہن مان لیا ہے۔ تم بھی اُسے بیوی کے طور پر قبول کر لو۔ جاؤ تمھارے بیوی بچوں کو تمھاری ضرورت ہے۔“ نبیل نے مجھے تھپکی دی اور وہاں سے اُٹھ کر چلا گیا۔ میں کچھ دیر اُس کی باتوں پر غور کرتا رہا۔ پھر میں بھی اُٹھ کر چھت سے نیچے آگیا۔

Chapters / Baab of Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan