Episode 2 - Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر2 - دِل اَدل بَدل - شکیل احمد چوہان

قسط نمبر2 دسمبر کی چھٹیوں میں خالہ عطیہ اپنے بچوں کے ساتھ لاہور ایک شادی پر آئی تھیں۔ شادی کے بعد وہ دو دن کے لیے ہمارے گھر میں بھی ٹھہری۔ میں نے سوچا جولائی میں اظہارِ محبت کیا تھا اب دسمبر آ گیا ہے۔ شائد ثانیہ کے د ل میں میرے لیے محبت کے دیپ جل اُٹھے ہوں۔ اگلے دِن خالہ کی ریل سے ملتان واپسی تھی۔ میں بھی ایک نمبر کا ڈھیٹ تھا جولائی کی عزت افزائی کے باوجود میں اُن کے جانے سے پہلے پہلے ثانیہ سے اُس کا جواب سُننا چاہتا تھا۔
میں نے نبیل سے مشورہ کیا جو میرے نزدیک اُس وقت محبت کے کھیل کا آل راؤنڈر تھا۔ ”تم ثانیہ کی تصویر اور گلاب کی کلی اُس کے سامنے رکھ دینا․․․․․․ اگر اُس نے اپنی تصویر اُٹھالی تو اُسے تم سے محبت نہیں ہے․․․․․․ اگر وہ اپنی تصویر چھوڑ گئی تو وہ بھی تم سے محبت کرتی ہے۔

(جاری ہے)

“نبیل نے مجھے مشورہ دیا تھا۔ ”گلاب کی کلی کا تو تم نے بتایا ہی نہیں“ میں نے بھولی صورت بناتے ہوئے پوچھا۔

نبیل نے کھا جانے والی نظروں سے میری طرف دیکھا اور دانت پیستے ہوئے کہنے لگا : ”اللہ کرے وہ تیرے منہ پر ہی دے مارے گلاب کی کلی ۔ تم سچ میں نالائق للّو ہی ہو۔“ نبیل تو اور بھی بہت کچھ کہنا چاہتا تھا ۔ مگر میں نے اُس کے پیر پر اپنا پیر مارا۔ سامنے سے عالی ٹرے میں دودھ کے دو پیالے اُٹھائے سیڑھیوں سے چھت پر آئی تھی۔ میرے پاس ثانیہ کی ایک گروپ فوٹو تھی۔
میں نے گروپ میں سے باقی سب کو نکال دیا سوائے ثانیہ کے۔ …#… اُس دن ثانیہ کی طبیعت خراب تھی امی ابّو کے ساتھ ثانیہ کے گھر والے ماسی آسیہ کی طرف دعوت پر گئے ہوئے تھے۔ گھر پر میں میری دو چھوٹی بہنیں اور ثانیہ ہی تھے۔ اگلے دن اُن لوگوں کی ملتان واپسی تھی اِس لیے میں ہر حال میں ثانیہ سے بات کرنا چاہتا تھا مگر میری بہنیں سائے کی طرح اُس کے ساتھ ساتھ تھیں۔
میں مایوس ہو کر چھت پر چلا گیا میں اپنی سوچوں میں گم بیٹھا ہوا تھا۔ ”مہروز․․․․․․“ میں نے پلٹ کر دیکھا عالی کچھ سہمی کچھ ڈری سی کھڑی تھی ۔میں نے اُس کے ہاتھوں کی طرف دیکھا۔ ایک ہاتھ خالی تھا اور دوسرا کمر کے پیچھے۔ عالی جب جب بھی میرے سامنے آئی ہمیشہ ہی اُس کے ہاتھ میں کوئی نہ کوئی کھانے پینے کی چیز ہوتی۔ اُس دن وہ خالی ہاتھ تھی۔
”کیا ہے․․․․․․؟“ میں نے بے زاری سے پوچھا ۔وہ خاموش ہی رہی۔ اُس کے چہرے پر مجھے کچھ تناؤ سا نظر آیا جیسے تکلیف میں ہو۔ ”پیٹ میں درد ہو رہا ہے؟“ عالی نے میری طرف حیرت سے دیکھا ، مگر کہا کچھ نہیں۔ پھر اُس نے گردن جھُکا لی اور وہاں سے جانے لگی جیسے ہی وہ مڑی میں نے اُس کے بائیں ہاتھ میں گلاب کی کلی دیکھی۔ ”رُکو․․․․․․“ وہ تھم گئی مجھے نبیل کی بات یاد آگئی۔
میں نے چند لمحے سوچا پھر عالی کے ہاتھ سے وہ گلاب کی کلی خود ہی تھام لی عالی نے احتجاجی نظروں سے میری طرف دیکھا۔ میں اپنی ہی دھن میں مگن ہو کر بولا: ”پلیز میرا ایک کام کردو عالی!“ ”کام بتاؤ․․․․․․“ عالی نے دبی سی آواز کے ساتھ پوچھا۔ ”مجھے ثانیہ سے بات کرنی ہے تم حریم اور تحریم کو اپنے گھر لے جاؤ۔“عالی یہ سُن کر سٹپٹااُٹھی۔ اُس کے رُخسار پر اُلجھنوں کا بسیرا تھا۔
میرا دل مناجات کر رہا تھا کہ عالی کسی طرح مان جائے۔ عالی کے گلے کی رگیں تن گئیں۔ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی پھر اُس نے ارادہ بدل لیا اور صرف یہ کہا : ”ٹھیک ہے جی“ اُس کی آواز میں خرخراہٹ آگئی تھی۔ وہ پلٹی اور ہمارے گھر کی سیڑھیاں اُتر گئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ حریم اور تحریم کے ساتھ چھت پر آئی اور اپنے گھر کی سیڑھیاں اُترنے لگی۔ وہ مڑی، اپنے دائیں ہاتھ کے پنجے کو دو مرتبہ کھولا اور بند کیا اور منہ میں منٹ کہا۔
میں سمجھ گیا کہ10منٹ ہیں میرے پاس۔ میں جلدی سے نیچے کی طرف بھاگا۔ …#… میں عالی سے چھینی ہوئی گلاب کی کلی تھام کر اپنے کمرے میں پہنچا جہاں پر ثانیہ میرے ہی پلنگ پر لیٹی ہوئی تھی۔ مجھے اُس پر غصہ آنے کی بجائے پیار آگیا۔ میرے گھر والوں میں سے کسی کو بھی میرے کمرے میں سونے کی اجازت نہ تھی۔ثانیہ نے جیسے ہی مجھے دیکھا تو وہ غصے میں اُٹھ کر بیٹھ گئی۔
”گرمیوں کی چھٹیوں میں تم نے کیا بکواس کی تھی ․․․․․․تم جانتے نہیں ہوسجاول بھائی کو وہ تمھیں جان سے مار دیتے․․․․․․ اگر تم ہمارے کزن نہ ہوتے ․․․․․․“گرمی کے مہینے کا غصہ دسمبر میں بھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا۔ ”کیوں․․․․․․؟“ میں نے ثانیہ کی بات کاٹتے ہوئے کرخت لہجے میں پوچھا، چند لمحے تو ثانیہ مجھے دیکھتی رہی پھر سختی سے کہنے لگی: ”جو تم نے مجھے تب کہا تھا․․․․․․“ ”سجاول کی لو میرج بغیر کچھ کہے ہی ہوگئی تھی کیا․․․․․․ محبت ہو تو اظہار ہو ہی جاتا ہے․․․․․․ ثانیہ جب سے ہوش سنبھالا ہے صرف تمھیں سوچا ،تمھیں چاہا اور تمھیں ہی دیکھا ہے آنکھیں بند ہوں یا کھلی․․․․․․ میں بتا نہیں سکتا مجھے تم سے کتنی محبت ہے․․․․․․“ ”تو مت بتاؤ میں نے کون سا پوچھا ہے․․․․․․کان کھول کر سُن لو مجھے تم سے محبت نہیں ہے․․․․․․“ ثانیہ نے دو ٹوک لہجے میں جواب دیا۔
”کیوں نہیں ہے محبت․․․․․․؟“ ”ایسا کیا خاص ہے تم میں․․․․․․؟“ ثانیہ نے مجھے اپنے باپ کی آنکھ سے دیکھا۔ اُس نے اپنے انداز سے ثابت کیا کہ وہ ایک تھانیدار ہی کی بیٹی ہے۔ میں سوچ میں پڑ گیا ۔ ”میری تصویر کیوں البم سے چوری کی تھی․․․․․․؟“ ثانیہ نے ایسے کہا جیسے چوری کا طعنہ دے رہی ہو ۔ میں نے ثانیہ کی تصویر اپنی جیب میں رکھی ہوئی تھی۔
میں نے اُسے نکالا اور چلتا ہوا ثانیہ کے قریب چلا گیا۔ وہ تصویر اُس کے سامنے رکھ دی اور اُس کے اوپر گلاب کی کلی اور خود جلدی سے کمرے سے نکل گیا ۔کمرے کی چوکھٹ کے باہر عالی کھڑی تھی میں اُسے دیکھے بغیر جلدی سے سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔ …#… میں چھت پر افسردہ سا بیٹھا ہوا تھا۔ میری نظریں نیچے سے اوپر آتی ہوئی سیڑھیوں پر جمی ہوئی تھیں۔
کوئی آدھے پونے گھنٹے بعد عالی ہونٹوں پر تبسم سجائے اوپر آئی۔ اُس کے دائیں ہاتھ میں لپٹا ہوا ایک کاغذ تھا اور بائیں ہاتھ میں وہی گلاب کی کلی جو میں نے اُس سے چھین کر ثانیہ کو پیش کی تھی۔ ”تم یہ کیوں لے آئی ہو․․․․․․“ میں نے تڑپ کر پوچھا۔ ”کیاجی․․․․․․؟“ عالی نے اطمینان سے کہا۔ ”یہ گلاب کی کلی․․․․․․“ ”دروازے کی چوکھٹ پر پڑی تھیْ“ عالی نے اُس کلی کو سونگھتے ہوئے بتایا اور اپنے گھر کی سیڑھیاں اُترنے لگی۔
”حریم، تحریم کہاں ہیں....؟“ ”دل تو پاگل ہے “عالی نے جواب دیا۔میں نے حیرت سے اُس کی طرف دیکھا تو وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگی: ”دل تو پاگل ہے ․․․․․․فلم دیکھ رہی ہیں۔“ ”تم نے انہیں فلم کیوں لگا کے دی․․․․․․؟“ میں نے تلخی سے پوچھا۔ ”آپ نے ثانیہ سے بات کرنی تھی․․․․․․ کیسے روکتی اُن دونوں کو اپنے گھر پر․․․․․․؟“ ”خود اُن کے پاس بیٹھ جاتی۔
“عالی نے مجھے جواب دینا مناسب نہیں سمجھا اور نیچے چلی گئی۔ …#… امّی تخت پوش پر بیٹھ کر سلائی کر رہی تھیں میں ٹیکنیکل کالج سے واپس لوٹا، تو دیکھتا ہوں امّی کے پاس ہی مٹھائی کا ڈبہ پڑا ہے۔ میں نے امّی کے پاس بیٹھتے ہی مٹھائی کے ڈبے سے دو گلاب جامن ایک چم چم اور ایک رس گلہ آناً فاناً ہی کھا لیا ۔ ابھی میں نے برفی کی ایک ڈلی منہ میں ڈالی ہی تھی کہ امّی نے بڑی خوشی سے مجھے بتایا: ”ثانیہ کی منگنی ہوگئی ہے۔
“ یہ سُنتے ہی مجھے سانپ سونگھ گیا۔ ”چاچی جی!! اسلام علیکم“ عالی چھت کے رستے ہمارے صحن میں آکے امّی جی کے سامنے کھڑی تھی۔ اُس کے ہاتھ میں ایک ڈونگا تھا۔ہمارے گھر میں جب بھی کوئی نیوز بریک ہو رہی ہوتی یا ہونے والی ہوتی عالی نہ جانے کہاں سے آٹپکتی ۔ اس بات کی مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی عالی کو کیسے خبر مل جاتی تھی۔ ”تیرے ہاتھ میں کیا ہے عالی!!“ امّی نے پوچھا۔
”کھیر ہے چاچی جی!!“ میں میٹھے کا بہت شوقین تھا مگر اُس وقت مجھے میٹھا بھی زہر معلوم ہو رہا تھا۔ پہلے ہی وہ برفی کی ڈلی میرے حلق میں ہڈی بن کر پھنس گئی تھی اوپر سے کھیر۔ یہ سنتے ہی میرا گر یہ کرنے کو دل چاہ رہا تھا ۔ میں جلدی سے کمرے میں چلا گیا تو سامنے نانی بیٹھی ہوئیں تھیں۔ نانی نے جلدی سے اپنی بانہیں پھیلا دی۔ میں نانی کے سینے سے لگ کر بہت رویا تھا۔ نانی آج ہی ملتان سے لوٹی تھیں ۔مجھے چُپ کروانے کے بعد نانی نے کہا : ”مہروز میرے ساتھ ٹاؤن شپ چلو میں نے ثانیہ کی منگنی کی مٹھائی تمہاری ماسی کو پہنچانی ہے۔“نانی کو مٹھائی کی فکر تھی اور مجھے یہ غم تھا اب تو ثانیہ ہوگئی پرائی۔

Chapters / Baab of Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan