Episode 16 - Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر16 - دِل اَدل بَدل - شکیل احمد چوہان

عالی! ملتان میں شادی انجوائے کر رہی تھی اور میں لاہور میں اُداس تھا۔ میں اُس کی کمی شدت سے محسوس کر رہا تھا۔مجھے رات کو نیند نہیں آرہی تھی۔ مجھے اپنے لکڑی کے صندوق کا خیال آیا جو پہلے تو میرے پلنگ کے نیچے ہوا کرتا تھا ۔ عالی سے میرے نکاح کے بعد پلنگ کی جگہ نئے بیڈ نے لے لی اور میرے صندوق کو چھت کی ممٹی میں جگہ ملی۔ میں جلدی سے اُس صندوق کی چابی لیکرممٹی میں پہنچا۔
میں نے اُس صندوق کو کھولا۔ اُس صندوق میں عارفہ کے سارے دیئے ہوئے تحائف پڑے تھے۔ ثانیہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک مضمون اور میری رف گلابی کاپی کے اوپر ثانیہ کی لگائی ہوئی اُلٹی سیدھی لائنوں والا کاغذ بھی تھا۔
ایک کونے میں بسمہ کا دیا ہوا گفٹ پڑا تھا جو کہ گفٹ پیپر میں اب تک لپٹاہوا تھا۔

(جاری ہے)

بسمہ کے نکاح کے بعد کبھی من ہی نہیں چاہا کہ اُسے کھول کردیکھوں۔


میں نے جب وہ گفٹ پیپر کھولا تو میری حیرت کی انتہا نہیں رہی۔ بسمہ کے تحفے کے ساتھ ایک خط بھی تھا میں نے وہ تحفہ ایک طرف رکھا اور خط کھول کر پڑھنے لگا :
”پیارے مہروز!
کیسے ہو․․․․․․اُمید ہے اچھے ہی ہوگے․․․․․․میں اپنے نکاح سے ایک دن پہلے تمھیں یہ خط لکھ رہی ہوں۔ ہوش سنبھالنے سے لے کر آج تک میں صرف تمھاری ہی رہی ہوں۔ کبھی کسی کو آنکھ بھر کر نہیں دیکھا۔
مجھے تو ڈائری لکھنے کا کوئی شوق نہیں۔ تمھاری گفٹ کی ہوئی ڈائری پر صرف تمھاری ہی باتیں لکھی ہیں اور آئندہ بھی تمھاری ہی باتیں لکھوں گی۔ میں بے وفا نہیں مجبور ہوں․․․․․․نانی نے میری مجبوری بتائی ہوگی۔ راحت بیکری میں تم جس لڑکی سے ٹکرائے تھے وہ میری بیسٹ فرینڈ ارجمند تھی۔ میں نے اُسے تمھاری تصویر دکھا رکھی تھی۔ کینٹ میں اُس کی خالہ رہتی ہیں۔
وہ اپنے بھائی کے ساتھ ہمیں CMHڈراپ کرنے آئی تھی۔ سندس کا پرس اُس کی گاڑی میں رہ گیاتھا۔ تمھارے راحت بیکری جانے کے بعد وہ سندس کا پرس واپس کرنے دوبارہ CMHآئی تو میں نے اُسے راحت بیکری جانے کا کہا۔ مجھے شک تھا کہ تمھارے پاس برگر لانے کے پیسے نہیں ہیں اِس لیے میں نے ارجمند کو راحت بیکری بھیجا تھا۔ وہ تم سے ٹکرائی اور اپنے بھائی کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر چلی گئی۔
تمھیں ایسا لگا تھا۔ ارجمند تھوڑا آگے جاکرگاڑی سے اُترکر دوبارہ راحت بیکری میں آئی۔ جب تم نے کاؤنٹر پر بیٹھے ہوئے شخص کواپنی گھڑی دے کر تین برگر خریدے وہ اُس وقت تمھارے پیچھے ہی کھڑی تھی۔ تمھارے جانے کے بعد اُس نے وہی گھڑی دو سو میں اُس شخص سے خرید لی اور مجھے سارا قصہ سنانے کے بعد وہ گھڑی واپس کر دی۔ ارجمند نے اُس دن مجھ سے ایک لائن بولی تھی :
”بسمہ یہ لڑکاتمھارے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔
اِسے کبھی مت چھوڑنا۔“ اب ارجمند کو کوئی بتائے کہ چھوڑا تو اُسے جاتا ہے جسے پایا ہو۔ میں بدقسمت تو تمھیں پا ہی نہیں سکی۔یہ گھڑی اب میری طرف سے تحفہ سمجھ کر رکھ لینا۔میں تمھیں بھولنے کی کوشش کروں گی تم بھی مجھے بھول جانا ۔
فقط: ”بسمہ“
بسمہ کا خط پڑھنے کے بعد میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے۔ ممٹی میں ایک ٹوٹے ہوئے شیشے میں مجھے اپنا چہرہ نظر آیا۔
میری آنکھیں نمکین پانی سے بھری پڑی تھیں۔ میں نے غور سے خود کودیکھا وہ میں ہی تھا۔ عارفہ کی دی ہوئی گھڑی اب بسمہ نے مجھے دوبارہ تحفے میں دی تھی۔ میں نے وہCASIOکی گھڑی اُسی وقت اپنی کلائی میں باندھ لی۔
…#…
اگلے دن میں ہال روڈ سے گھر لوٹ رہا تھا تو تایا ساجد رستے میں مل گئے۔
”السلام علیکم تایا جی!“
”وعلیکم السلام ! کیسے ہو مہروز بیٹا․․․․․․میں آج تمھاری طرف ہی جانے والا تھا۔

”حکم تایا جی“ میں نے تابعداری سے پوچھا۔
”یار ! وہ پچھلاTVتوعارفہ نے توڑ دیا تھا․․․․․․پھر ایک پرانا ٹی وی خریدا اُس نے مزہ نہیں دیا۔آج ہی پیٹی سے نیاTVنکالا ہے․․․․․․صبح سے سیٹ کرنے میں لگا ہوں مجھ سے تو سیٹ ہی نہیں ہو رہا۔ تو چل میرے ساتھ۔“
”تایا جی میں گھر سے کھانا کھا کرآتا ہوں۔“ میں نے تایا جی کو ٹالنے کی کوشش کی تھی۔

”رشتہ نہیں ہوا تو کوئی بات نہیں․․․․․․ہے تو اب بھی میرا بیٹا ہی ہے۔“ تایا جی نے مجھے بازو سے پکڑا اور میری مرضی کے خلاف ہی مجھے اپنے گھر لے گئے۔
میں چھت پر اُن کا انٹینا ٹھیک کرنے کے بعد کمرے میں پہنچاتو عارفہ کھڑی ہوئی تھی۔ اِس سے پہلے کہ عارفہ کوئی بات شروع کرتی۔ تائی جی چائے والی ٹرے اُٹھائے کمرے میں وارد ہوئیں۔ میں اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔
میں نے اُن دونوں کی طرف دیکھا بھی نہیں۔
”تنویر کہاں چلا گیا۔“
”وہ مجھے واپسی پر لے جائے گا۔ برنس روڈ تک گیا ہے۔ امّی کھانے کے ٹائم چائے کون پیتا ہے۔“عارفہ نے روکھے لہجے میں تائی جی سے کہا ۔
”پہلے چائے پی لو پھر کھانا بھی لاتی ہوں۔“
”مجھے نہیں پینی چائے شائے۔“عارفہ نے تلخی سے جواب دیا۔ میں نے TVسے نظریں ہٹا کر اُن کی طرف دیکھا۔
تائی نے عارفہ کو بُرا سا منہ بناتے ہوئے میری طرف اشارہ کیا ۔
”مہروز کو بھی نہیں پینی چائے وہ میرے ساتھ کھانا کھائے گا۔“ عارفہ نے مزید تلخی سے جواب دیا۔
”مجھے تومت کھانے کو دوڑو․․․․․․لاتی ہوں کھانا۔“ تائی جی نے بے زاری سے کہا۔ تائی کے جانے کے بعد عارفہ نے مجھ سے بڑی محبت کے ساتھ پوچھا:
”کیسے ہو مہروز․․․․․․“
”تایا جی کدھر ہیں․․․․․․؟“
”ابو ! عشاء کی نماز پڑھنے گئے ہیں۔

”اُن کاTVسیٹ کر دیا ہے۔ آتے ہیں تو بتا دینا۔“ میں نے چلتے ہوئے کہا۔ عارفہ نے مجھے جیکٹ سے پکڑ لیا اور کہنے لگی:
”ناراض ہو․․․․․․“
”تمھیں کیا لگتا ہے․․․․․․“
”مجھے معاف کر دینا مہروز․․․․․․اگر میں تنویر سے شادی نہ کرتی تو وہ میری بہن کو طلاق دے دیتے۔“
”کردیا ہے معاف۔“ میں نے اُس کے ہاتھ سے اپنی جیکٹ چھڑائی اور چل پڑا۔

”اوئے! کھانا تو کھاتے جاؤ۔“ عارفہ نے تڑپ کر کہا۔میں پھر بھی نہیں رُکا۔
”مہروز اگر تم نے میرے ساتھ کھانا نہیں کھایا تو میں سمجھوں گی کہ تم مجھ سے ناراض ہو۔“ عارفہ کی یہ بات سُن کر میں تھم گیا۔
”سارا محلہ اور سارے رشتے دار تمھاری تعریف کرتے ہیں۔“
”میں نے تعریف والا کون سا کام کیا ہے؟“
”لوگ کہتے ہیں عارفہ کی تنویر سے شادی ہوگئی مہروز نے کوئی ہنگامہ نہیں کیا۔
پھر مہروز کے گھر والوں نے گجروں کی عزت بچانے کے لیے اُس کا گجروں کے گھر نکاح کر دیاوہ پھر بھی خاموش رہا․․․․․․“ عارفہ بغیر وقفے کے بولے جارہی تھی اور میں کھڑا عارفہ کی باتیں سُن رہا تھا۔
”تم اُس چھوئی موئی کے ساتھ خوش توہو ...نا․․․․․․؟“میں نے عارفہ کو گھوری ڈالی تھی۔ مگر اُسے میری گھوری سے کوئی فرق نہیں پڑا ۔ وہ اپنی دھن میں پھر بول پڑی :
”مہروز بھلے ہی تمھیں غصہ لگے تمھاری بیوی ہے چھوئی موئی سی․․․․․․تمھارا اور اُس کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔

”تمھارا اور تنویر کا جوڑ ہے کیا... ؟“ میری بات سُن کر عارفہ نے شرمندہ ہونے کی بجائے زور دار قہقہہ لگایا اور ہنستے ہوئے ہی بولی:
”میرے پیر دھو دھو کر پیتاہے․․․․․․ اللہ بھلا کرے بی بی جی کا جس نے حق مہر لکھوا دیا․․․․․․ اور تنویر کی گردن میرے ہاتھ آگئی․․․․․․ویسے ایک بات ہے․․․․․․میں اکثر سوچتی ہوں تمھارا رشتہ کیا سوچ کر بی بی جی نے عالی کے ساتھ کیاہے۔

”عالی کودیکھ کر ․․․․․․مجھے اُس چھوئی موئی سے بڑی محبت ہے۔“عارفہ میری بات سُن کر ہنس پڑی۔ اُسی وقت تایا جی نماز پڑھ کر لوٹے تھے۔
”یا اللہ تیرا شکر ہے میرے بچے سب کچھ ہونے کے باوجود بھی خوش ہیں۔“ تایا جی نے مجھے اور عارفہ کو دیکھ کر کہا ۔ تھوڑی دیر بعد تائی جی نے کھانا لگا دیا۔ جب میں نے منہ ہاتھ دھونے کی غرض سے اپنی جیکٹ اُتاری تو میری کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی پر عارفہ کی نظر پڑ گئی۔
وہ زیر لب مسکرائی ۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعدجب میں اپنے گھر کے لیے وہاں سے نکلا تو عارفہ نے پیچھے سے آواز دے دی۔میں گھر کے بیرونی دروازے سے پہلے کھڑاہوگیا۔
”محبت عالی سے کرتے ہو․․․․․․اور کلائی سے میری نشانی باندھ رکھی ہے۔“ عارفہ نے میرے پاس آکر ہولے سے کہا۔
میں تایا جی کے گھر سے نکل آیا اورسارے رستے یہی سوچتا رہا کہ میں کس سے محبت کرتا ہوں۔
ثانیہ، بسمہ، عارفہ یا پھر اپنی بیوی عالی سے ․․․․․․گھر آتے آتے مجھے میرا جواب مل گیا تھا۔ میں نے گھر آکر وہ گھڑی اُسی صندوق میں رکھ دی اور اُس کی جگہ اپنی شادی کی گھڑی پہن لی جومجھے عالی کے گھر والوں نے دی تھی۔اُس دن مجھے ایک اور بات کی سمجھ آئی کہ نکاح کے بعد جنم لینے والی محبت تمام محبتوں کو نگل جاتی ہے۔
جب عالی ملتان سے لوٹی، اُس کے بعد سے عالی اور ثانیہ کی دوستی بہت گہری ہوگئی تھی۔ وہ دونوں ہفتے میں ایک دو بار ٹیلی فون پر بات ضرور کرتیں۔ عالی اُمید سے تھی۔ جب یہ بات گھر والوں کو پتہ چلی تو اُن کی خوشی کاکوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ میں دن گن گن کر گزار رہا تھا۔چند مہینوں بعد نبیل کی فرزانہ سے شادی ہوگئی۔

Chapters / Baab of Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan