Episode 8 - Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر8 - دِل اَدل بَدل - شکیل احمد چوہان

اگلے دن پھر سے میں ہاسپٹل جانا تو چاہتا تھا مگر ساتھ ساتھ خالو رشید کا ڈر بھی تھا۔ کالج جانے کی بجائے نبیل کی دُکان پر پہنچ گیا۔ نبیل کو سارا قصہ سنایا تو وہ پوچھنے لگا:
”جب تمھارے خالو نے تمھیں تھپڑ مارا تھا، اُس وقت تم نے بسمہ کا ہاتھ تو نہیں پکڑا ہوا تھا۔“
دل تو چاہ رہا تھا مگر وہ کہنے لگی :
”میں نے خود ہی تمھارا ہاتھ تھام لیا ہے اب تم مجھے چھونے کی کوشش مت کرنا۔
“ اگر میں اُس کا ہاتھ پکڑتا تو وہ خالو کی جگہ خود ہی تھپڑ مار دیتی۔
”مطلب․․․․․․؟“نبیل نے بُرا سا منہ بنا کر پوچھا۔
”مطلب یہ․․․․․․وہ کہتی ہے ہماری شادی سے پہلے تم مجھے ہاتھ نہیں لگا سکتے۔“
”ثانیہ کو تو تم نے ہاتھ ضرور لگایا ہوگا۔“ نبیل نے بڑے وثوق سے اندازہ لگایا ۔

(جاری ہے)


میں نے بڑی معصومیت سے نفی میں گردن ہلائی ۔
”تو تو بڑا ہی نالائق للّو ہے۔

“ نبیل نے ترش لہجے میں کہا۔
”ثانیہ کو تو میں آج تک جی بھر کے دیکھ ہی نہیں سکا۔“
”بیٹا تو عاشقی واشقی چھوڑ دے یہ تیرے بس کا کام ہی نہیں ہے․․․․․․میں اور فرزانہ پنڈی شادی میں گئے تھے۔ سارے رستے تیرے بھائی نے فرزانہ کا ہاتھ تھامے رکھا تھا۔“
”نبیل مجھے بتا میں کیا کروں․․․․․․؟ اپنی محبت کے قصے مت سنا۔“
”ساری رات وہ میرے سینے پر سر رکھ کے لیٹی رہی تھی۔
“ نبیل نے ایک اور شوخی ماری ۔
”یہ بھی جانتا ہوں․․․․․․مجھے بتا میں کیا کروں۔“مجھے نبیل پر شدید غصہ آرہا تھا مگر اُسے میرے غصے سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔
”تو چند دن بسمہ سے کوئی رابطہ نا رکھ․․․․․․ تیل دیکھ اور تیل کی دھار دیکھ۔“ نبیل ایک تجربہ کار عاشق کی طرح بولا۔
…#…
اگلا دن انتہائی بے چینی میں گزرا۔
دوسرے دن میں کالج کی چھٹی کے بعد گھر پہنچا توامی نے فوراً مجھے اطلاع دی :
”ماں جی !ٹھیک ہیں اور اُنہیں ہسپتال سے چھٹی بھی مل گئی ہے۔“ امّی میری طرف دیکھ دیکھ کر ہلکا ہلکا مسکرا رہی تھیں۔ میں ڈر رہا تھا کہ امّی کو ”تین برگر “ والی بات کی بھی خبر ہو چکی ہے اور خالو کے تھپڑ کا بھی پتہ چل گیا ہے۔ رات ابّو گھر آئے تو میں اُن سے بھی چھُپتا پھروں۔
ابو کے چہرے پر مسکراہٹ تو نہ تھی کوئی ایسی خفگی بھی نہ تھی ۔وہ دن بھی اللہ اللہ کرکے گزر گیا۔ تیسرے دن کالج سے لوٹا تو امی ابّو دونوں کہیں جانے کے لیے تیار ہو رہے تھے۔ ابّو عموماً رات گئے اپنی دُکان سے گھر لوٹتے تھے۔ اُس دن وہ ٹائمو ٹائم ہی گھر آچکے تھے۔ میں ابّو کو دیکھ کر حیران تھا، ساتھ ساتھ اُن سے ڈر بھی رہا تھا۔ ابّو کمرے سے نکلے تو میں نے جلدی سے امّی سے پوچھا :
”کدھر کی تیاری ہے․․․․․․؟“
”نکاح پر جا رہے ہیں!!“
”مہروز کی ماں آ بھی جاؤ․․․․․․“ ابّو نے ویسپا کو کک مارنے کے بعد کہا تھا۔
امّی نے گرم چادر اپنے کندھے پر لیتے ہوئے جواب دیا :
”آئی جی․․․․․․ حریم اور تحریم ٹیوشن سے آتی ہیں تو اُن کے پاس ہی رہنا․․․․․․آلو پالک میں نے پکا دی ہے روٹیاں تندور سے لے آنا۔“ امّی نے باہر جاتے جاتے ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ دیا تھا۔
شام کو نبیل اپنی دکان سے لوٹا تو چھت پر اُس سے ملاقات ہوئی نبیل مجھ سے پوچھنے لگا :
”بسمہ کی کوئی خیر خبر․․․․․․؟“
”خود ہی تو تم نے مشورہ دیا تھا معاملہ گرم ہے․․․․․․ دو چار دن بسمہ سے رابطہ کرنے کی کوشش مت کرنا۔
آج تیسرا دن ہے۔“
”اُس کا کوئی فون شون نہیں آیا․․․․․․؟“
”فون کہاں آتا․․․․․․ایک ہفتے سے تم لوگوں کا نمبر خراب ہے۔“
”تیرے تائے ساجد کا نمبر تو ٹھیک ہے․․․․․․“
”تائی پہلے ہی میرے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑی ہیں۔ اُنہیں تو مجھے بدنام کرنے کا ایک اور موقع مل جاتا۔“
”یار تو دُکان کا نمبر دے دیتا۔“
”تیری غیر موجودگی میں اُس کا فون آتا تو تیرے ابّا جی فون سُن کر فوراً ابو کو خبر دیتے۔

”بات تو یہ بھی ٹھیک ہے۔“ نبیل نے فوراً میری بات کی تائید کی ۔
”کل تم خود ہی فون کرکے ہائے ہیلو کر لینا۔“عاشقی کا پیریڈ ختم ہوا تو کبوتروں کا شروع ہو گیا۔ رات گئے تک میں اور نبیل چھت پر بیٹھ کر کبوتروں کے متعلق باتیں کرتے رہے۔ مجھے گلی میں ویسپا کی آواز آئی میں جلدی سے دبے پاؤں سیڑھیاں اُترا اور گھر کا دروازہ کھولا سامنے امّی کھڑی ہوئی تھیں۔

”ابّو پھر کہاں چلے گئے ہیں․․․․․․؟“میں نے گلی میں جھانکتے ہوئے پوچھا ۔
”ویسپا واپس کرنے۔“ امّی نے گھر کے اندر داخل ہوتے ہوئے اپنے کندھوں سے اپنی گرم چادر اُتارتے ہوئے کہا اور خود اپنے کمرے میں چلی گئیں ۔ میں بھی اُن کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔
”تمھارا بسمہ کے ساتھ کوئی چکر تھا کیا․․․․․․؟“ امّی نے بڑے آرام سے پوچھا ،مگر میرے لیے اُس کا جواب دینا مشکل ہوگیا تھا۔

”چکر․․․․․․؟“میں نے ناٹک کرنے کی کوشش کی۔
”آج وہ میرے گلے لگ کے بڑا روئی تھی۔“امّی نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے بتا یا۔
”کیوں کوئی آپریشن ہوا ہے اُسکا۔“ میں نے ایسے پوچھا، جیسے میں بسمہ کو جانتا ہی نہیں تھا۔
”نہیں شادی․․․․․․شادی بھی آپریشن جیسی ہی ہوتی ہے۔“ امی نے پھیکا سا مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
”شادی کس کی․․․․․․؟“ میں اضطراب کے ساتھ صرف اتنا ہی پوچھ سکا، کہ بیرونی دروازہ کھٹکنے لگا۔
اُدھر میرا دل ڈوبنے لگا۔
”جلدی جاؤ تمھارے ابّو جی ہیں۔“ امّی نے زور دے کر کہا۔ میں نے بوجھل قدموں کے ساتھ جا کے دروازہ کھولا تھا۔ جیسے ہی ابو کی مجھ پر نظر پڑی وہ میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کے پوچھنے لگے :
”یار مہروز تمھارا کورس کب ختم ہوگا۔“
”آخری سال ہے۔“ ابو میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کے مجھے اپنے ساتھ اپنے کمرے میں ہی لے آئے ۔

”مہروز کی ماں اِس کا کورس پورا ہوتا ہے … تو میں نے بھی اِس کا ایسے ہی سادگی سے نکاح کر دینا ہے۔“ابو جی کرسی پر بیٹھ کر اپنے بوٹ اور موزے اُتارتے اُتارتے بولے تھے۔
”ابھی اِس کی عمر ہی کیا ہے․․․․․․؟ اِسے کچھ کرنے تو دیں!!“
” اکیس بائیس کا ہوگیا ہے․․․․․․بسمہ تو اِس سے بھی چھوٹی تھی وہ اپنے گھر کی ہوگئی ہے۔“ جو مغالطہ تھا وہ بھی دُور ہو گیا۔
اِس سے پہلے کہ میں رو دیتا میں نے جلدی سے وہاں سے کھسکنا ہی بہتر سمجھا۔
…#…
”اگر تم سے میری شادی نہ ہوئی تو میں مر جاؤں گی۔“ بستر پر لیٹے ہوئے مجھے بسمہ کی کہی ہوئی ایک بات یاد آئی۔ میں بستر سے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے اُٹھا اور چھت پر چلا گیا۔ ایک کونے میں ٹوٹی ہوئی کرسی پر بیٹھ کر میں نے خود کلامی کی :
”بسمہ تم نے اتنا بڑا دھوکہ دیا ہے مجھے ․․․․․․“
میرے کندھے پر کسی کا نازک ہاتھ تھا۔
میں نے بھی اپنا ہاتھ اُس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ پھر سرگوشی کے انداز میں میرے کان کے پاس کسی کے لب کھُلے:
”میں آپ کو کبھی دھوکا نہیں دوں گی۔“
میں ڈر گیا۔ پلٹ کر دیکھا تو عالی اپنے ہونٹوں کو میرے کان سے لگائے جھکی ہوئی تھی۔
”تم ․․․․․․یہاں․․․․․․اِس وقت․․․․․․ آدھی رات کو․․․․․․“میں چیخا تھا۔ اُس نے جلدی سے اپنا نازک ہاتھ میرے منہ پر رکھ دیا اور آنکھوں سے خاموش رہنے کی التجا کی۔
میں شانت ہو گیا ۔ اُس نے پھر سے میرے کان میں ایک جملہ بولا:
”میں بتا رہی ہوں میں آپ ہی سے شادی کروں گی۔“یہ کہتے ہی وہ وہاں سے دبے پاؤں چل دی۔ اپنے گھر کی سیڑھیاں اُترنے سے پہلے اُس نے مڑ کر دیکھا۔ سردی میں بھی میرے ماتھے پر پسینہ تھا۔
عالی کیا بول گئی ہے․․․․․․کہیں وہ پاگل تو نہیں ہوگئی․․․․․․میں نے تو ہمیشہ عالی کو اپنی بہنوں کی طرح ہی سمجھا تھا۔میں اپنی محبت کا سوگ منا رہا تھا۔ عالی نے اپنی محبت کا روگ بیان کر دیا۔ اب میرا دل بسمہ کی بجائے عالی کے متعلق سوچنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ اُس دن مجھے پتہ چلا دماغ کے ساتھ ساتھ دل بھی سوچتا ہے۔

Chapters / Baab of Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan