Episode 13 - Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر13 - دِل اَدل بَدل - شکیل احمد چوہان

”کیوں مجھ سے چھپتے پھر رہے ہو․․․․․․ تم نے عالی کے بارے میں بھی نہیں پوچھا۔“نبیل نے کوریڈور سے باہر نکلتے ہی مجھے کہا تھا۔ میری سچ میں ہمت نہیں ہو پا رہی تھی کہ میں نبیل سے نظریں ملا سکوں۔ میں خاموش ہی رہا۔
”میں جانتا ہوں کہ تم بے قصور ہو․․․․․․؟“ یہ سننے کے بعد میں نے نبیل کی طرف دیکھا۔ اُس نے مجھے آنکھوں سے حوصلہ دیا۔
پھر ایک کاغذ اپنی جیب سے نکال کر میرے سامنے کیا۔ میں نے کاغذ تو پکڑ لیا مگر اُسے کھولا نہیں۔
”عالی کیسی ہے․․․․․․؟“
”بڑی جلدی عالی کا خیال آگیا۔“ نبیل کے جملے میں طنز تھا۔ میں نے اُس کی طرف دیکھ کر کہا :
”میں نے عالی کے لیے بہت دعائیں مانگی ہیں۔“
”کس حیثیت سے․․․․․․؟“ میں نبیل سے کسی ایسے سوال کی اُمید نہیں رکھتا تھا۔

(جاری ہے)

میرے پاس اُس کے سوال کا جواب نہیں تھا۔
”خطرے سے باہر ہے ایک گولی بازو پر لگی اور دوسری ٹانگ پر۔ آپریشن ہو چکا ہے ابھی اُسے ہوش نہیں آیا۔“ نبیل نے غم میں ڈوبی آواز میں تفصیل بتائی۔ ہم دونوں کے درمیان تھوڑی دیر خاموشی رہی ۔
”یہ کاغذ کھولو․․․․․․“
جب میں نے اُس کاغذ کو کھولا تو میں ششدر رہ گیا۔ اُس کاغذ پر تاریخ تھی 20دسمبر1998 الأحدSunday=
”20دسمبر تو تمھاری ڈیٹ آف برتھ ہے نا۔
“ نبیل نے مجھے مشکوک نظروں کے ساتھ دیکھا۔ وہ پتہ نہیں بتا رہا تھا یا پوچھ رہا تھا۔ میں نے فوراً مان لیا :
”یہ تو میری ڈائری کا کاغذ ہے․․․․․․ یہ ڈائری مجھے عارفہ نے گفٹ کی تھی۔ “
”عارفہ ․․․․․․وہ کیوں ایسا کرے گی․․․․․․؟“
”میں نے اُس کا TVتوڑا تھا۔“ میرے منہ سے نکل گیا۔ نبیل نے مجھے عجیب نظروں سے دیکھا۔ پھر حکمیہ انداز میں کہنے لگا :
”خط پڑھو․․․․․․“
انور صاحب!
میرا نام مہروز ماجد ہے اور میں عالیہ کا پڑوسی ہوں ۔
آپ کو دو دفعہ فون کیا مگر آپ کو میری بات پر یقین نہیں آیا۔ اِس لیے آپ کو خط لکھ رہاہوں۔ میں آپ کو آخری بار پھر سے بتا رہا ہوں کہ میرا عالیہ کے ساتھ چکر ہے۔ آپ اُس سے شادی مت کرو۔
”یہ میں نے نہیں لکھا․․․․․․نہ ہی میں نے انور کو کوئی فون شون کیا تھا۔ “ میں نے فکر مندی سے اپنی صفائی دی۔
”تمھاری ہینڈ رائٹنگ کو پہچانتا ہوں۔“ نبیل نے یقین سے بتایا۔
میں ہینڈ رائٹنگ پر غور کرنے لگا تو میرے ہوش ہی اُڑ گئے۔
”یہ تو ثانیہ کی ہینڈ رائٹنگ ہے۔“ میرے منہ سے پریشانی میں یہی الفاظ نکل سکے تھے۔
”ثانیہ کی․․․․․․؟“ نبیل نے حیرت سے پوچھا۔
”ہاں ثانیہ کی․․․․․․میرے پاس اُس کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک مضمون ہے․․․․․․تم اُس سےTeleکرکے دیکھ سکتے ہو۔“
”ڈائری عارفہ نے دی․․․․․․لکھا ثانیہ نے․․․․․․“نبیل خود کلامی کرتے ہوئے سوچ میں پڑ گیا۔
مجھے فٹ سے یاد آیا :
”ایسی ہی ایک ڈائری میں نے بسمہ کو بھی گفٹ کی تھی“
”میرے منع کرنے کے باوجود“ نبیل نے ایسے کہا جیسے طعنہ دے رہا ہو۔
”تمھارے کہنے کا یہ مطلب ہے کہ یہ پیج بسمہ کی ڈائری سے نکالا گیا ہے اور لکھا ثانیہ نے ہے ۔“ نبیل کسی نتیجے پر پہنچنا چاہ رہا تھا۔
”یہ بھی توہو سکتا ہے کہ عارفہ نے ڈائری دینے سے پہلے ہیPageنکال لیا ہو․․․․․․“ میں نے قیافہ لگایا۔

”یہ بھی ممکن ہے․․․․․․“ نبیل نے فوراً میرے قیافے کی تائید کی۔
”مجھے دو یہ خط․․․․․․“ میں نے وہ خط نبیل کو دے دیا۔ نبیل نے کاغذ کا وہ حصہ پھاڑ دیا جس سے پتہ چلتا تھاکہ وہ کاغذ کسی ڈائری کا Pageہے۔
”کسی سے ذکر مت کرنا کہ یہ ڈائری کا کاغذ ہے۔ اب یہ صرف ایک خط ہے․․․․․․ثانیہ کی رائٹنگ کا بھی ذکر مت کرنا․․․․․․مجھے سب سمجھ آگئی ہے کہ کس نے ڈائری سے کاغذ پھاڑا اور کیوں پھاڑا․․․․․․؟“ نبیل یہ بول کر وہاں سے چلا گیا جبکہ میں ابھی تک سوچ کے سمندر میں غوطے کھا رہا تھا۔

”کیا میری تینوں محبتو ں نے مل کر مجھے بدنام کرنے کی کوشش کی ہے․․․․․․میں نے تو کبھی اُن تینوں کا بُرا نہیں چاہا تھا․․․․․․پھر کیوں انھوں نے میرے ساتھ ایسا کیا․․․․․․؟“ میں اپنے خیالوں میں کھویا ہوا تھا کہ نبیل نے مجھے تھوڑی دور سے آواز دی۔ میں نے اُس کی طرف دیکھا تو اُس نے مجھے اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔ میں اُس کی طرف چل پڑا۔

…#…
رات ہو چکی تھی، ہسپتال کے ایک روم کے باہر کھڑے ہو کر نبیل مجھے سمجھانے لگا :
”امّاں ابّا عالی سے مل چُکے ہیں․․․․․․اب اُس نے ہمیں بلایا ہے․․․․․․“ میں نے جلدی سے نبیل کی بات کاٹی تھی :
”مجھے کیوں بلایا ہے․․․․․․؟“ نبیل نے مجھے گھوری ڈالی۔ پھر اچھے موڈ کے ساتھ اُس کے ہونٹوں پر یہ الفاظ تھے :
”نالائق للّو․․․․․․“نبیل نے میرا ہاتھ پکڑا اور روم کے اندر لے گیا۔

سب سے پہلے تو اُس نے ہسپتال کا روم اندر سے Lockکیا۔ پھر وہ عالی کے پاس چلا گیا۔ میں اُس کے پیچھے تھا۔ اُس نے بڑی محبت سے عالی کا ماتھا چوما۔ عالی جو کچھ سہمی ہوئی تھی اُسے حوصلہ مل گیا۔ پھر اُس نے عالی کے ہاتھ پر بڑی احتیاط کے ساتھ اپنا ہاتھ رکھا۔ عالی کی ہتھیلی کی پچھلی طرف ڈرپ کی سوئی لگی ہوئی تھی۔ نبیل عالی کے پاس Banchپربیٹھ گیا۔

”تم اپنے دل کی بات صرف ایک بار مجھے بتا دیتی۔“نبیل نے شکایتی انداز میں کہا۔ عالی کے چہرے کی رنگت اُڑ گئی۔ وہ جو نبیل کی طرف دیکھ رہی تھی اُس نے دوسری طرف منہ پھیر لیا۔ چند منٹ ہسپتال کے روم میں سناٹا رہا۔ پھر نبیل نے بڑی محبت کے ساتھ عالی کا چہرہ ہماری طرف کیا عالی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
”اب کیوں رو رہی ہو․․․․․․؟“ نبیل عالی کے آنسو دیکھ کر تڑپ اُٹھا تھا۔
نبیل کے بھی آنسو نکل آئے تھے۔
”عالی کی تو سمجھ آتی ہے کہ اُس کی برات نہیں آئی․․․․․․یہ نبیل کیوں رو رہا ہے۔“ اُس وقت میرے ذہن میں یہ خیال آیا تھا ۔ اِس سے پہلے کہ مجھے اور خیال آتے عالی نے درد میں ڈوبی ہوئی آواز میں کہا :
”Sorryبھائی۔“ عالی کے یہ بولنے کی دیر تھی نبیل اُٹھ کر لیٹی ہوئی عالی کے گلے لگ گیا۔ دونوں بہن بھائی پھر سے رونا شروع ہوگئے۔

”کتنا روؤ گے تم دونوں․․․․․․بس بھی کرو․․․․․․“ مجھے دوسرا خیال آگیا۔ چند لمحوں بعد نبیل اُٹھا۔ پہلے اُس نے ٹشو پیپر سے عالی کے آنسو صاف کیے۔ پھر اپنے آنسو صاف کرتا ہوا میری طرف آیا۔ نبیل نے میرے کندھے پر بڑے مان کے ساتھ ہاتھ رکھا اور پوچھنے لگا:
”تمھیں ابھی تک چوتھی محبت تو نہیں ہوئی ہوگی․․․․․․؟“ میں نبیل کی بات سُن کر شرمندہ ہوگیا تھا کیونکہ اُس نے یہ سوال عالی کے سامنے ہی پوچھ لیا تھا۔
میں نے چور نگاہوں سے عالی کی طرف دیکھا۔ وہ زیر لب مسکرا رہی تھی۔
”اُدھر مت دیکھو اور میرے سوال کا جواب دو۔“ نبیل نے روکھے لہجے میں کہا تھا۔ میں اُس کے سوال کا کیا جواب دیتا۔ میں نے نفی میں گردن ہلا دی۔
”اگر تم عالی سے شادی کرنا چاہتے ہو تو․․․․․بی بی جی کے ساتھ اپنے امی ابو کو رشتہ مانگنے کے لیے ہمارے گھر بھیجو!“
نبیل نے دو ٹوک انداز میں کہا تھا۔
مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں اُس وقت اُسے کیا کہوں۔ میں پریشان تھا۔ میں نے ایک بار پھر سے عالی کی طرف دیکھا جو ہم دونوں ہی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ عالی نے لمحہ بھر ہی میری آنکھوں میں دیکھا ہوگا۔ پھر مسکراتے ہوئے نظریں جھکا لی تھیں۔
…#…
میری نظریں تو اُس وقت اپنے لکھے ہوئے مسودے پر تھیں پر مجھے دکھائی عالی ہی دے رہی تھی۔
میں نے پیچھے لکھا تھاکہ میں آج بھی بسمہ کے ہاتھ کا لمس اپنے ہاتھ پر محسوس کرتا ہوں۔
میں اُس سے بھی عجیب بات کرنے لگا ہوں میں آج بھی ہسپتال کے بستر پر پڑی ہوئی عالی کی نظروں کا سحر اپنے سارے وجود پرمحسوس کرتا ہوں۔
”بہت رات ہو گئی ہے چلیں اب سو جائیں ۔“میرے کندھے پر میری بیگم کا ہاتھ تھا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا۔ ثانی کھڑ ی تھی۔
جی ہاں․․․․․․ثانی ․․․․․․ثانیہ عرف ثانی۔
میری خالہ کی بیٹی، میری پہلی محبت․․․․․․ثانی نے میرا ہاتھ تھاما اور اسٹڈی روم سے مجھے اپنے ساتھ ہمارے بیڈ روم میں لے گئی۔رات کے پچھلے پہر میں اور ثانی اپنے بیڈ پر ایک دوسرے کی طرف منہ کرکے لیٹے ہوئے تھے۔
”آپ آج بھی سب سے زیادہ عالی ہی سے محبت کرتے ہیں۔ اِسی لیے میں اُسے آپکی محبوبہ نمبر1کہتی ہوں۔“ ثانی نے مجھے چھیڑتے ہوئے کہا۔

”کتنی بار بتا چُکا ہوں․․․․․․محبت میں فرسٹ، سیکنڈ اور تھرڈ نہیں ہوتے۔“
”ہوتے ہیں کیوں نہیں ہوتے․․․․․․عالی فرسٹ پوزیشن پر، بسمہ سیکنڈ اور عارفہ کی تیسری پوزیشن ہے آپ کی محبت کی کتاب میں “ثانی نے اپنی بات پر زور دے کر کہا۔
”میری محبت کی کتاب تم نے اپنی محبت سے خرید لی ہے ثانی!“ میں نے ثانی کے گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے بڑی الفت سے اُسے بتایا تھا۔
میں تو خاموش ہو گیا۔ اب ثانی مجھے ماضی کے بارے میں بتانے لگی :
”آپ کو یاد ہے․․․․․․جب آپ نے میری اُسی کٹی ہوئی تصویر پر گلاب کی کلی رکھی تھی۔ جیسے ہی آپ کمرے سے نکل کر گئے تو میں نے وہ کلی غصے سے باہر کی طرف پھینکی ۔ وہ کلی اُس وقت عالی کے قدموں میں جا کر گری تھی۔ عالی نے اُسے بڑی محبت سے اُٹھایا اور چلتی ہوئی میرے پاس آ کر بیٹھ گئی اور مجھے سمجھاتے ہوئے کہنے لگی :
”ثانیہ مہروز تم سے بڑی محبت کرتا ہے․․․․․․تم اُس سے شادی کر لو۔
“ مجھے عالی کی بات پر غصہ آگیا۔
”تم کرلو اُس فقرے سے شادی۔“
”ثانیہ تمھیں مہروز کی محبت نظر نہیں آتی اور اُسے میری․․․․․․وہ تمھیں بچپن سے چاہتا ہے اور میں اُسے․․․․․․“ عالی نے مجھے بتا یا۔
”تمھیں مہروز نے بتایا ہے یہ سب ......یا تم نے خود پوچھا ہے․․․․․․؟“
”میں تو اُسے اپنی محبت کے بارے میں بتا نہیں سکی جی، اُس سے کیا پوچھوں گی۔
“ عالی نے کہا۔
”پھرتم یہ سب کیسے جانتی ہو․․․․․․؟“
”مہروز اور بھائی روز رات کو اپنے اپنے قصے ایک دوسرے کو سناتے ہیں․․․․․․میں سیڑھیوں پر بیٹھ کر اُن دونوں کی باتیں سُنتی رہتی ہوں۔ میں نے آج تک مہروز کی زبان سے کسی دوسری لڑکی کا نام تک نہیں سُنا۔“
”مجھے نہ مہروز میں انٹرسٹ ہے نہ ہی اُس کی محبت میں۔تمھارے پاس موقع اچھا ہے جاؤ جاکے اپنے دل کی بات اُس سے بول دو۔
“ میں نے عالی کو کھری کھری سُنا دی تھیں۔
”پلیز ثانیہ مان جاؤ۔“
”کیسے مان جاؤں․․․․․․ خرم کا اپنا بنگلہ ہے․․․․․․گاڑی ہے ۔مہروز کے پاس کیا ہے۔“
”شوہر بُرا ہو تو گاڑی بنگلے کا کیا کرنا۔“
”تم لے لو یہ اچھا شوہر ۔“میری بات پر وہ خاموش رہی او ر وہاں سے جانے لگی تو میں نے پوچھا :
”تم نے آج تک مہروز سے اپنے دل کی بات کیوں نہیں کی.....؟“
”اس لیے کہ اُس کے دل میں بچپن ہی سے تم ہو․․․․․․مجھے پتہ تھا کہ وہ آج تمھیں گلاب کی کلی دے کر اپنی محبت کا ایک بار پھر اظہار کرے گا.... میں نے اپنے لیے ہی یہ گلاب کی کلی منگوائی تھی پر اُس نے مجھ سے چھین کر تمھیں دے دی اور تم نے اِسے پھینک دیا۔

”اب یہ کلی اُسے دے دو․․․․․․وہ سمجھ جائے گا۔“ میں نے عالی کو مشورہ دیا تھا۔
”پھینکی ہوئی کلی اُسے دوں․․․․․․؟“ اُس وقت عالی کے سوال نے مجھے لا جواب کر دیا تھا۔ میں نے جلدی سے بات بدلی :
”تم ایسے کرو ابھی اُسے جا کر اپنے دل کا حال سُنا دو۔“
”وہ تمھاری محبت میں بہرہ ہو چکا ہے۔“
”اندھا تو نہیں ہوا ابھی․․․․․․“
”اللہ نہ کرے․․․․․․“
”تم ایسے کرو اُسے ایک خط لکھو․․․․․․“ یہ سننے کے بعد عالی سوچ میں پڑ گئی۔
پھر آپ کے کمرے میں اِدھر اُدھر دیکھنے لگی جیسے کچھ تلاش کر رہی ہو۔ آخر میں اُس نے آپ کی الماری کھولی جس میں دو نئی ڈائریاں پڑی ہوئی تھیں۔ وہ انہیں نکال لائی اور میرے سامنے آپ کے بستر پر بیٹھتے ہوئے ایک ڈائری میں سے 20دسمبر والاPageنکال لیا۔
”20دسمبر والا Pageکیوں نکالا․․․․․․؟“میں نے فٹ سے پوچھا۔
”اِس پرخط لکھوں گی۔“ مجھے عالی کی بات پر حیرانی سی ہوئی۔
میں نے جلدی سے پوچھا :
”مطلب لو لیٹر․․․․․․؟اِس پر ہی کیوں․․․․․․؟“
”میں اور مہروز 20دسمبر کو ہی پیدا ہوئے تھے ایک سال کے وقفے سے․․․․․․“
”مہروز کو پتہ ہے یہ بات․․․․․؟“ میں نے فوراً پوچھا ۔
”نبیل بھائی کو پتہ ہے۔“عالی نے وہ ڈائری کا کاغذ فولڈ کیا، گلاب کی کلی تھامی اور کمرے سے چلی گئی۔ ثانی خاموش ہوئی تو میں نے جلدی سے پوچھا :
”یہ بھی لکھ دوں․․․․․․“
”میری کڑوی کسیلی باتیں مت لکھیے گا۔“ ثانی نے آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا۔

Chapters / Baab of Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan